Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 یہ دوسری مرتبہ انہوں نے فساد برپا کیا کہ حضرت زکریا (علیہ السلام) کو قتل کردیا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بھی قتل کرنے کے درپے رہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھا کر ان سے بچا لیا۔ اس کے نتیجے میں پھر رومی بادشاہ ٹیٹس کو اللہ نے ان پر مسلط کردیا، اس نے یروشلم پر حملہ کر کے ان کے کشتے کے پشتے لگا دیئے اور بہت سوں کو قیدی بنا لیا، ان کے اموال لوٹ لئے، مذہبی صحیفوں کو پاؤں تلے روندا اور بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کو غارت کیا اور انھیں ہمیشہ کے لئے بیت المقدس سے جلا وطن کردیا۔ اور یوں ان کی ذلت و رسوائی کا خوب خوب سامان کیا۔ یہ تباہی 70 ء میں ان پر آئی۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨] سیدنا عزیر عليه السلام کی خدمات :۔ اس تباہی کے بعد سیدنا عزیر (علیہ السلام) نے دین موسوی کی تجدید کا بہت بڑا کام سرانجام دیا اور آپ نے قوانین شریعت کو نافذ کرکے ان اعتقادی اور اخلاقی برائیوں کو دور کرنا شروع کیا جو بنی اسرائیل کے اندر غیر قوموں کے اثر سے گھس آئی تھیں۔ اور بنی اسرائیل سے از سر نو اللہ کی بندگی اور اس کے احکام کی پابندی کا پختہ عہد لیا۔ تورات کو ازسر نو اپنی ذہنی یادداشت کے مطابق مرتب کرکے شائع کیا اور یہودیوں کی دینی تعلیم کا بھی انتظام کردیا۔ اس طرح ڈیڑھ سو سال بعد بیت المقدس پھر سے آباد اور یہودی مذہب و تہذیب کا پھر سے مرکز بن گیا۔- یہود کی دوسری بار فتنہ انگیزی اور اس کی سزا :۔ لیکن بعد میں پھر وہی پہلی قسم کی خرابیاں بنی اسرائیل میں از سر نو پیدا ہوگئیں۔ شرک، بےحیائی، بدکاری عام ہوگئی اور جب سلطنت پھر سے کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی تو ان کے علاقہ پر رومیوں کا قبضہ ہوگیا مگر یہود نے اصلاح احوال کے بجائے پھر بغاوت کا راستہ اختیار کیا تو ٧٠ ء میں رومی بادشاہ ٹیٹس (قیطوس) نے یروشلم کو بزور شمشیر فتح کرکے پورے علاقہ کو تہس نہس کردیا۔ قتل عام میں ایک لاکھ ٣٣ ہزار آدمی مارے گئے اور ٦٧ ہزار کے قریب غلام بنا لیے گئے۔ خوبصورت لڑکیاں فاتحین کے لیے چن لی گئیں۔۔ یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو پیوند خاک کردیا گیا، اور فلسطین سے یہودی اثر و اقتدار کا ایسا خاتمہ ہوا کہ انھیں پھر کبھی سر اٹھانے کی جرأت نہ ہوئی۔ اور یہ دوسری بڑی سزا تھی جو یہود کو ان کی فتنہ انگیزیوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی تھی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ ۔۔ :” لِيَسُوْۗءٗا “ ” سَاءَ ہُ یَسُوْءُ ہُ “ کا فعل مضارع ہے، جو اصل میں ” یَسُوْءُ وْنَ “ تھا۔ ” لام کَیْ “ کے بعد ” اَنْ “ مقدر کی وجہ سے نون گرگیا۔ یہ فعل متعدی ہے، غمگین کرنا، برا کردینا، بگاڑ دینا۔ خوشی ہو یا غم، جسمانی یا قلبی راحت ہو یا اذیت اس کا اثر چہرے پر نمایاں ہوتا ہے، خوشی میں چہرہ چمک اٹھتا ہے اور غم سے کالا ہوجاتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (فَلَمَّا رَاَوْهُ زُلْفَةً سِيْۗـــــَٔتْ وُجُوْهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ) [ الملک : ٢٧ ] ” پس جب وہ اس (عذاب) کو قریب دیکھیں گے تو ان لوگوں کے چہرے بگڑ جائیں گے (بگاڑ دیے جائیں گے) جنھوں نے کفر کیا۔ “ لوط (علیہ السلام) کے غمگین ہونے کے متعلق فرمایا : (سِی ءَ بِھِم) [ ھود : ٧٧ ] ” وہ ان (مہمانوں) کی وجہ سے مغموم ہوگیا۔ “ اور فرمایا : (ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّهُوَ كَظِيْمٌ) [ النحل : ٥٨] ”(لڑکی پیدا ہونے کی بشارت ملنے پر) اس کا منہ سارا دن کالا رہتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔ “ عَلَوْا “ ” عَلَا یَعْلُوْ “ سے ماضی معلوم جمع مذکرغائب ہے، اس کا مفعول محذوف ہے، یعنی ” مَا عَلَوْہُ ۔ “ ” تَتْبِیْراً “ ویران کرنا، برباد کرنا، ٹکڑے ٹکڑے کر کے بکھیر دینا۔ ” وَّلِــيُتَبِّرُوْا “ کی تاکید ” تَتْبِيْرًا “ سے کی ہے، اس لیے ترجمہ میں اس کا معنی بری طرح برباد کرنا کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلی دفعہ کا عذاب مکمل ” تَتْبِيْرًا “ یعنی دوسری مرتبہ جیسا بری طرح برباد کرنا نہیں تھا، جب کہ دوسری مرتبہ کا عذاب دشمن کے گھروں میں گھسنے اور مسجد کی بےحرمتی سے کہیں بڑھ کر تھا، اس سے بنی اسرائیل بری طرح خوف و غم میں مبتلا ہوئے، حتیٰ کہ ان کے چہرے بگڑ گئے اور دشمن نے بنی اسرائیل کو اس بری طرح برباد کیا کہ وہ مدتوں اٹھ نہیں سکے۔ - 3 اس دوسری دفعہ والے بندوں سے مراد کون لوگ ہیں، اگرچہ قرآن نے ان کی تعیین نہیں فرمائی، تاہم اگر دیکھا جائے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری کے وقت یہودی بیت المقدس سے مکمل بےدخل تھے، وہاں نصرانیوں کا قبضہ تھا اور یہودیوں کو داخلے تک کی اجازت نہیں تھی، وہ مدینہ، خیبر اور دنیا کے مختلف خطوں میں بکھرے ہوئے تھے تو اللہ کی طرف سے ان زبردست بندوں کے ان پر مسلط ہو کر انھیں مکمل طور پر تباہ و برباد کرکے قدس سے نکال دینے کا اندازہ ہوتا ہے۔ مؤرخین دوسری مرتبہ کا حملہ آور طیوطوس (ٹیوٹس) رومی کو قرار دیتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس اس کی تعیین کا کوئی معتبر ذریعہ نہیں۔ یہاں آکر اسرائیلیوں کی تاریخ ختم ہوجاتی ہے، کیونکہ اس کے بعد وہ دنیا کے مختلف علاقوں میں بکھر گئے، چناچہ اس کے بعد ان ممالک کی تاریخ کے ضمن ہی میں یہود کی تاریخ کا ذکر آتا ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں نے بیت المقدس پر حملہ کیا تو اس وقت یہاں نصرانیوں کی حکومت تھی جنھوں نے مقابلے کی تاب نہ لا کر ١٦ ھ میں صلح کے ذریعے سے شہر کی چابیاں امیر المومنین عمر بن خطاب (رض) کے حوالے کردیں۔ قدس سے نکلنے کے بعد تقریباً دو ہزار سال تک یہودی بیت المقدس سے بےدخل رہے۔ مگر جب مسلمانوں نے اللہ کے احکام سے بغاوت اختیار کی، شرک و بدعت، فرقہ پرستی، عیش و عشرت، زنا، شراب، موسیقی، کفار سے دوستی اور ان کی تقلید اختیار کرلی، اپنے ہی دستور و قانون بنا کر کتاب و سنت پر عمل ترک کردیا۔ دنیا کی محبت میں جہاد چھوڑ بیٹھے تو ان کی بدعملیوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دشمن یہودیوں کو دوسرے کفار کی مدد (بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰه) کے ساتھ پھر ١٩٦٧ ء میں بیت المقدس پر قبضے کا موقع دے دیا، مگر یہ سمجھ لینا کہ اب یہ یہودیوں کے قبضے ہی میں رہے گا درست نہیں، مسلمان اپنے دین کی طرف پلٹیں گے، بلکہ پلٹنا شروع ہوچکے ہیں اور مسلمانوں اور یہودیوں کی جنگ ہوگی، اس میں مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی نصرت عطا ہوگی جس کا ذکر اس حدیث میں ہے جو ابوہریرہ (رض) نے روایت کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یُقَاتِلَ الْمُسْلِمُوْنَ الْیَھُوْدَ ، فَیَقْتُلُھُمُ الْمُسْلِمُوْنَ ، حَتّٰی یَخْتَبِئَ الْیَھُوْدِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْحَجَرِ أَوِ الشَّجَرِ ، فَیَقُوْلُ الْحَجَرُ أَوِ الشَّجَرُ یَا مُسْلِمُ یَا عَبْدَ اللّٰہِ ھٰذَا یَھُوْدِیٌّ خَلْفِيْ ، فَتَعَالَ فَاقْتُلْہُ ، إِلَّا الْغَرْقَدَ ، فَإِنَّہُ مِنْ شَجَرِ الْیَھُوْدِ ) [ مسلم، الفتن، باب لا تقوم الساعۃ حتی یمر الرجل۔۔ : ٢٩٢٢ ] ” قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ مسلمان یہود سے جنگ کریں گے اور مسلمان انھیں قتل کریں گے، یہاں تک کہ یہودی پتھر اور درخت کے پیچھے چھپے گا تو پتھر یا درخت کہے گا : ” اے مسلم اے اللہ کے بندے یہ یہودی میرے پیچھے ہے تو اسے قتل کر دے۔ “ سوائے ” غرقد “ نامی درخت کے، کیونکہ وہ یہود کے درختوں میں سے ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ ۣوَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا ۭ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِيَسُوْۗءٗا وُجُوْهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّلِــيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا ۝- حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله،- فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - وجه - أصل الوجه الجارحة . قال تعالی: فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6]- ( و ج ہ ) الوجہ - کے اصل معیج چہرہ کے ہیں ۔ جمع وجوہ جیسے فرمایا : ۔ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [ المائدة 6] تو اپنے منہ اور ہاتھ دھو لیا کرو ۔- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- تبر - التَّبْر : الکسر والإهلاك، يقال : تَبَرَهُ وتَبَّرَهُ. قال تعالی: إِنَّ هؤُلاءِ مُتَبَّرٌ ما هُمْ فِيهِ- [ الأعراف 139] ، وقال : وَكُلًّا تَبَّرْنا تَتْبِيراً [ الفرقان 39] ، وَلِيُتَبِّرُوا ما عَلَوْا تَتْبِيراً [ الإسراء 7] ، وقوله تعالی: وَلا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَباراً [ نوح 28] ، أي : هلاكا .- ( ت ب ر ) التبر - ( ض ) کے معنی توڑ دینے اور ہلاک کردینے کے ہیں کہا جاتا ہے ۔ تبرہ وتبرہ اس نے اسے ہلاک کرڈالا ۔ قرآن میں ہے ؛ إِنَّ هؤُلاءِ مُتَبَّرٌ ما هُمْ فِيهِ [ الأعراف 139] یہ لوگ جس ( شغل ) میں ( پھنسے ہوئے ) ہیں وہ بربادہونیوالا ہے ۔ وقال : وَكُلًّا تَبَّرْنا تَتْبِيراً [ الفرقان 39] اور جس چیز پر غلبہ پائیں اسے تباہ کردیں ۔ وَلا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَباراً [ نوح 28] اور ظالم لوگوں کے لئے اور زیادہ تباہی بڑھا ۔- علا - العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعُلْوِيُّ والسُّفْليُّ المنسوب إليهما، والعُلُوُّ : الارتفاعُ ، وقد عَلَا يَعْلُو عُلُوّاً وهو عَالٍ وعَلِيَ يَعْلَى عَلَاءً فهو عَلِيٌّ فَعَلَا بالفتح في الأمكنة والأجسام أكثر . قال تعالی:- عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] . وقیل : إنّ ( عَلَا) يقال في المحمود والمذموم، و ( عَلِيَ ) لا يقال إلّا في المحمود، قال : إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] - ( ع ل و ) العلو - کسی چیز کا بلند ترین حصہ یہ سفل کی ضد ہے ان کی طرف نسبت کے وقت علوی اسفلی کہا جاتا ہے اور العوا بلند ہونا عال صفت فاعلی بلند علی علی مگر علا ( فعل ) کا استعمال زیادہ تر کسی جگہ کے یا جسم کے بلند ہونے پر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عالِيَهُمْ ثِيابُ سُندُسٍ [ الإنسان 21] ان کے بدنوں پر دیبا کے کپڑے ہوں گے ۔ بعض نے علا اور علی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ علان ( ن ) محمود اور مذموم دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن علی ( س ) صرف مستحن معنوں میں بولا جاتا ہے : ۔ قرآن میں ہے : ۔- إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلا فِي الْأَرْضِ [ القصص 4] فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (وان اساتم فلھا) اور اگر تم نے برائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لئے برائی ثابت ہوئی) ایک قول کے مطابق فلھا بمعنی فالیھا ہے جس طرح کہا جاتا ہے ” احسن الی نفسہ اس نے اپنے ساتھ بھلائی کی) یا اساء الی انفسہ (اس نے اپنے ساتھ برائی کی) حرف اضافت جب معنی کے لحاظ سے متقارب ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوجاتے ہیں۔ قول باری ہے (بان ربک اوحی لھا اس لئے کہ تمہارے پروردگار کا حکم اسے یہی ہوگا) معنی کے لحاظ سے (اوحی لھا) اوحی الیھا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧) اگر تم توحید خداوندی پر قائم رہو گے تو اس کا ثواب یعنی جنت اپنے اپنے ہی نفع کے لیے حاصل کرو گے اور اگر تم شرک کرو گے تو اس کی سزا تم ہی کو بھگتنی پڑے گی۔- چناچہ تطوس کے غلبہ سے پہلے بنی اسرائیل دو سو بیس سال تک خوب خوشیوں اور نعمتوں اور مردوں کی زیادتی اور دشمنوں پر غلبہ میں مست رہے پھر جب ان دو بار میں سے دوسری سزا یا دوسرے فساد کی میعاد آئے گی تو ہم تم پر تطوس بن اسیانوس رومی کو مسلط کریں گے تاکہ وہ تمہیں مار مار کر اور قید کرکے تمہاری صورتیں بگاڑدے جس طرح بخت نصر لوٹ مار کے ساتھ بیت المقدس میں گھسا تو اسی یہ لوگ بھی گھس پڑیں گے اور جس چیز پر ان کا زور چلے گا سب کو ہلاک وبرباد کر ڈالیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧ (اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ ۣوَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا )- تمہارے نیک اعمال کا فائدہ بھی تمہیں ہوا اور تمہاری برائیوں اور نافرمانیوں کا وبال دنیا میں بھی تم پر آیا اور اس کا وبال آخرت میں بھی تم پر پڑے گا۔- (فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ )- جب دوبارہ تم نے اللہ کے دین سے سرکشی اختیار کی تمہارے اعتقادات نظریات اور اخلاق پھر سے مسخ ہوگئے تو وعدے کے عین مطابق تم پر عذاب کے دوسرے مرحلے کا وقت آپہنچا۔- (لِيَسُوْۗءٗا وُجُوْهَكُمْ )- اس سلسلے میں آیت ٥ میں یہ الفاظ آئے تھے : (بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ ) کہ ہم نے تم پر اپنے بندے مسلط کردیے جو سخت جنگجو تھے۔ اس فقرے کا مفہوم یہاں بھی پایا جاتا ہے لیکن یہاں دوبارہ اسے دہرایا نہیں گیا۔ چناچہ اس فقرے کو یہاں مخدوف سمجھا جائے گا اور آیت کا مفہوم یوں ہوگا کہ ہم نے پھر تم پر اپنے سخت جنگجو بندے مسلط کیے تاکہ وہ تمہارے حلیے بگاڑ دیں۔- (وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ )- یہاں اشارہ ہے بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کی بار دگر بےحرمتی کی طرف۔ جیسے 587 قبل مسیح میں بخت نصر نے بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کو مسمار کیا تھا ویسے ہی رومی جرنیل ٹائیٹس نے 70 ء میں ایک دفعہ پھر ان کے تقدس کو پامال کیا ۔- (وَّلِــيُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِيْرًا)- ان آیات میں بنی اسرائیل کی دو ہزار سالہ تاریخ کے نشیب و فراز کی تفصیلات کو سمو دیا گیا ہے۔ اس عرصے میں انہوں نے دو مرتبہ عروج دیکھا اور دو دفعہ ہی زوال سے دو چار ہوئے۔ نبی آخر الزماں کی بعثت کے زمانے میں ان آیات کے نزول کے وقت ان کے دوسرے دور زوال کو شروع ہوئے پانچ سو برس ہونے کو آئے تھے۔ اس سیاق وسباق میں انہیں متنبہ کیا جا رہا ہے کہ :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :9 اس دوسرے فساد اور اس کی سزا کا تاریخی پس منظر یہ ہے: مکابیوں کی تحریک جس اخلاقی و دینی روح کے ساتھ اٹھی تھی وہ بتدریج فنا ہوتی چلی گئی اور اس کی جگہ خالص دنیا پرستی اور بے روح ظاہر داری نے لے لی ۔ آخرکار ان کے درمیان پھوٹ پڑ گئی اور انہوں نے خود رومی فاتح پومپی کو فلسطین آنے کی دعوت دی ۔ چنانچہ پومپی سن ٦۳ ق م میں اس ملک کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے یہودیوں کی آزادی کا خاتمہ کر دیا ۔ لیکن رومی فاتحین کی یہ مستقل پالیسی تھی کہ وہ مفتوح علاقوں پر براہ راست اپنا نظم و نسق قائم کرنے کی بہ نسبت مقامی حکمرانوں کے ذریعے سے بالواسطہ اپنا کام نکلوانا زیادہ پسند کرتے تھے ۔ اس لیے انہوں نے فلسطین میں اپنے زیر سایہ ایک دیسی ریاست قائم کر دی جو بالآخر سن ٤۰ ق م میں ایک ہوشیار یہودی ہیرود نامی کے قبضے میں آئی ۔ یہ ہیرود اعظم کے نام سے مشہور ہے ۔ اس کی فرماں روائی پورے فلسطین اور شرق اردن پر سن ٤۰ سے ٤ قبل مسیح تک رہی ۔ اس نے ایک طرف مذہبی پیشواؤں کی سر پرستی کر کے یہودیوں کو خوش رکھا ، اور دوسری طرف رومی تہذیب کو فروغ دے کر اور رومی سلطنت کی وفاداری کا زیادہ سے زیادہ مظاہرہ کر کے قیصر کی بھی خوشنودی حاصل کی ۔ اس زمانے میں یہودیوں کی دینی و اخلاقی حالت گرتے گرتے زوال کی آخری حد کو پہنچ چکی تھی ۔ ہیرود کے بعد اس کی ریاست تین حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ اس کا ایک بیٹا ارخلاؤس سامریہ یہودیہ اور شمالی ادومیہ کا فرماں روا ہوا ، مگر سن ٦ عیسوی میں قیصر آگسٹس نے اس کو معزول کر کے اس کی پوری ریاست اپنے گورنر کے ماتحت کرید اور ٤١ عیسوی تک یہی انتظام قائم رہا ۔ یہی زمانہ تھا جب حضرت مسیح علیہ السلام بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے اٹھے اور یہودیوں کے تمام مذہبی پیشواؤں نے ملکر ان کی مخالفت کی اور رومی گورنر پونتس پیلاطس سے ان کو سزائے موت دلوانے کی کوشش کی ۔ ہیرود کا دوسرا بیٹا ہیرود اینٹی پاس شمالی فلسطین کے علاقہ گلیل اور شرق اردن کا مالک ہوا اور یہ وہ شخص ہے جس نے ایک رقاصہ کی فرمائش پر حضرت یحیی علیہ السلام کا سر قلم کر کے اس کی نذر کیا ۔ اس کا تیسرا بیٹا فلپ ، کوہ حرمون سے دریائے یرموک تک کے علاقے کا مالک ہوا اور یہ اپنے باپ اور بھائیوں سے بھی بڑھ کر رومی و یونانی تہذیب میں غرق تھا ۔ اس کے علاقے میں کسی کلمہ خیر کے پننپے کی اتنی گنجائش بھی نہ تھی جتنی فلسطین کے دوسرے علاقوں میں تھی ۔ سن ٤١ میں ہیرود اعظم کے پوتے ہیرود اَگرپا کو رومیوں نے ان تمام علاقوں کا فرمانروا بنا دیا جن پر ہیرود اعظم اپنے زمانے میں حکمران تھا ۔ اس شخص نے برسراقتدار آنے کے بعد مسیح علیہ السلام کے پیروؤں پر مظالم کی انتہاء کر دی اور اپنا پورا زور خدا ترسی و اصلاح و اخلاق کی اس تحریک کو کچلنے میں صرف کر ڈالا جو حواریوں کی رہنمائی میں چل رہی تھی ۔ اس دور میں عام یہودیوں اور ان کے مذہبی پیشواؤں کی جو حالت تھی اس کا صحیح اندازہ کرنے کے لیے ان تنقیدوں کا مطالعہ کرنا چاہیے جو مسیح علیہ السلام نے اپنے خطبوں میں ان پر کی ہیں ۔ یہ سب خطبے اناجیل اربعہ میں موجود ہیں ۔ پھر اس کا اندازہ کر نے کے لیے یہ امر کافی ہے کہ اس قوم کی آنکھوں کے سامنے یحییٰ علیہ السلام جیسے پاکیزہ انسان کا سر قلم کیا گیا مگر ایک آواز بھی اس ظلم عظیم کے خلاف نہ اٹھی ۔ اور پوری قوم کے مذہبی پیشواؤں نے مسیح علیہ السلام کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا مگر تھوڑے سے راستباز انسانوں کے سوا کوئی نہ تھا جو اس بد بختی پر ماتم کرتا ۔ حد یہ ہے کہ جب پونتس پیلاطس نے ان شامت زدہ لوگوں سے پوچھا کہ آج تمہاری عید کا دن ہے اور قاعدے کے مطابق میں سزائے موت کے مستحق مجرموں میں سے ایک کو چھوڑ دینے کا مجاز ہوں ، بتاؤ یسوع کو چھوڑوں یا برابّاڈاکو کو؟ تو ان کے پورے مجمع نے بیک آواز ہو کر کہا کہ برابّا کو چھوڑ دے ۔ یہ گویا اللہ تعالی کی طرف سے آخری حجت تھی جو اس قوم پر قائم کی گئی ۔ اس پر تھوڑا زمانہ ہی گزرا تھا کہ یہودیوں اور رومیوں کے درمیان سخت کشمکش شروع ہو گئی اور ٦٤ اور ٦٦ء کے درمیان یہودیوں نے کھلی بغاوت کر دی ۔ ہیرود اگر پاثانی اور رومی پر وکیوریٹر فلورس ، دونوں اس بغاوت کو فرد کرنے میں ناکام ہوئے ۔ آخرکار رومی سلطنت نے ایک سخت فوجی کارروائی سے اس بغاوت کو کچل ڈالا اور۷۰ میں ٹیٹس نے بزور شمشیر یروشلم کو فتح کر لیا ۔ اس موقع پر قتل عام میں ایک لاکھ ۳۳ ہزار آدمی مارے گئے ، ٦۷ ہزار آدمی گرفتار کر کے غلام بنائے گئے ہزارہا آدمی پکڑ پکڑ کر مصری کانوں میں کام کرنے کے لیے بھیج دیے گئے ، ہزاروں آدمیوں کو پکڑ کر مختلف شہروں میں بھیجا گیا تا کہ ایمفی تھیڑوں اور کلوسمیوں میں ان کو جنگلی جانوروں سے پھڑوانے یا شمشیرزنوں کے کھیل کا تختہ مشق بننے کے لیے استعمال کیا جائے ۔ تمام دراز قامت اور حسین لڑکیاں فاتحین کے لیے چن لی گئیں ، اور یروشلم کے شہر اور ہیکل کو مسمار کر کے پیوند خاک کر دیا گیا ۔ اس کے بعد فلسطین سے یہودی اثرواقتدار ایسا مٹا کہ دو ہزار برس تک اس کو پھر سر اٹھانے کا موقع نہ ملا ، اور یروشلم کا ہیکل مقدس پھر کبھی تعمیر نہ ہو سکا ۔ بعد میں قیصر ہیڈریان نے اس شہر کو دوبارہ آباد کیا ، مگر اب اس کا نام ایلیا تھا اور اس میں مدتہائے دراز تک یہودیوں کو داخل ہونے کی اجازت نہ تھی ۔ یہ تھی وہ سزا جو بنی اسرائیل کو دوسرے فساد عظیم کی پاداش میں ملی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: بعض حضرات نے تو کہا ہے کہ اس دوسرے دُشمن سے مراد انتیو کس ایپی فانیوس ہے جس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری سے کچھ پہلے دوبارہ بیت المقدس پر حملہ کرکے یہودیوں کا قتلِ عام کیا تھا۔ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع آسمانی کے بعد روم کے شاہ طیطوس کا حملہ ہے۔ اگرچہ بنی اسرائیل پر مختلف زمانوں میں بہت سے دُشمن مسلط ہوتے رہے ہیں، لیکن ان دو دُشمنوں کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے خاص طور پر اس لئے فرمایا ہے کہ ان کے حملوں میں اُنہیں سب سے زیادہ نقصان اُٹھانا پڑا، اور ان میں سے پہلا دُشمن یعنی بختِ نصر اُن پر اُس وقت مسلط کیا گیا جب انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی خلاف ورزی کی، اور دوسرا دُشمن اس وقت مسلط کیا گیا جب انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مخالفت کی۔ اور آگے یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر تم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت کروگے تو تمہارے ساتھ ویسا ہی سلوک دوبارہ کیا جائے گا۔