Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 یہ انھیں تنبیہ کی کہ اگر تم نے اصلاح کرلی تو اللہ کی رحمت کے مستحق ہو گے۔ جس کا مطلب دنیا وآخرت کی سرخ روئی اور کامیابی ہے اور اگر دوبارہ اللہ کی نافرمانی کا راستہ اختیار کر کے تم نے فساد فی الارض کا ارتکاب کیا تو ہم پھر تمہیں اسی طرح ذلت و رسوائی سے دو چار کردیں گے۔ جیسے اس سے قبل دو مرتبہ ہم تمہارے ساتھ یہ معاملہ کرچکے ہیں چناچہ ایسا ہی ہوا یہ یہود اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے اور وہی کردار رسالت محمدیہ کے بارے میں دہرایا جو رسالت موسوی اور رسالت عیسوی میں ادا کرچکے تھے جس کے نتیجے میں یہ یہودی تیسری مرتبہ مسلمانوں کے ہاتھوں ذلیل وخوار ہوئے اور بصد رسوائی انھیں مدینے اور خیبر سے نکلنا پڑا۔ 8۔ 2 یعنی اس دنیا کی رسوائی کے بعد آخرت میں جہنم کی سزا اور اس کا عذاب الگ ہے جو وہاں انھیں بھگتنا ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩] دور نبوی میں یہود کی فتنہ انگیزی اور اس کی سزا :۔ دو بار کی انتہائی سرکشی اور اس کی سزا کا ذکر کرنے کے بعد دور نبوی کے یہود کو تنبیہ کی جارہی ہے کہ اگر تم نے اس نبی آخرالزمان سے وہی سرکشی اور بغاوت جاری رکھی جو تم سابقہ انبیاء کے وقت کرتے رہے تو پھر تمہیں ایسی ہی سزا ملے گی جیسے پہلے مل چکی ہے لیکن اس تنبیہ کا بھی ان پر کچھ اثر نہ ہوا اور یہود مدینہ نبی آخرالزمان پر ایمان لانے کی بجائے آپ سے بدعہدیاں، شرارتیں اور فتنہ انگیزیاں ہی کرتے رہے جس کے نتیجہ میں انھیں یہ سزا ملی کہ کچھ قتل کیے گئے، کچھ غلام بنائے گئے اور کچھ جلا وطن کیے گئے۔ حتیٰ کہ دور فاروقی میں سب یہود وہاں سے نکال کو خطہ عرب کو ان سے خالی کرا لیا گیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ : یہ اللہ کی رحمت کا بیان ہے کہ اتنی سرکشی اور سزا کے بعد بھی اگر تم واپس پلٹ آؤ اور حد سے بڑھی ہوئی اس دوسری سرکشی اور اس کی وجہ سے ناقابل بیان تباہی سے دو چار ہونے کے بعد بھی تورات و انجیل میں مذکور نبی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی اختیار کرو تو پوری امید ہے کہ تمہارا رب تم پر رحم فرمائے گا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة اعراف کی آیات (١٥٦، ١٥٧) میں فرمایا کہ میری رحمت نے ہر چیز کو گھیر رکھا ہے، سو میں اسے ان لوگوں کے لیے ضرور لکھ دوں گا جو اس رسول کی پیروی کریں گے جو امی نبی ہے، جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ چناچہ اس بشارت کے مطابق جو اسرائیلی، مثلاً عبداللہ بن سلام (رض) وغیرہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے وہ رحمت الٰہی کے حق دار بن گئے۔ - وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا : یعنی اگر تم پھر دوبارہ حد سے بڑھے اور فساد کبیر کے مرتکب ہوئے تو ہم دوبارہ تمہارے ساتھ وہی پہلے جیسا سلوک کریں گے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو آپ نے یہود مدینہ کے ساتھ صلح کے ساتھ رہنے کا اور متحد ہو کر حملہ آور دشمن کا مقابلہ کرنے کا معاہدہ کیا، مگر بنوقینقاع نے ایک مسلم خاتون کی بےحرمتی کی، پھر معاہدہ توڑ دیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا محاصرہ کرلیا اور آخر کار انھیں مدینہ سے جلا وطن کردیا۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دفعہ کسی معاملے کے لیے بنونضیر قبیلہ میں تشریف لے گئے تو انھوں نے آپ کو چھت سے پتھر گرا کر شہید کرنے کی سازش کی، جو آپ کے علم میں آگئی، آپ نے ان کا محاصرہ کرلیا، وہ مقابلہ کی تاب نہ لاسکے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں ان کی کتاب تورات میں مذکور سزا دینے کا ارادہ کیا، مگر ان کے ہمدرد عبداللہ بن ابی منافق کے حد سے بڑھے ہوئے اصرار پر آپ نے ان کی جاں بخشی کرکے انھیں بھی جلاوطن کردیا۔ پھر تیسرے قبیلے بنوقریظہ نے خندق کے موقع پر جب دس ہزار کفار کے لشکر جرار نے مدینہ جیسی چھوٹی سی بستی پر یلغار کرکے محاصرہ کیا ہوا تھا، انھوں نے عین حالت جنگ میں معاہدہ توڑ کر دشمن کا ساتھ دیا، تو حملہ آوروں سے فارغ ہو کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنوقریظہ کا محاصرہ کرلیا۔ وہ مقابلہ نہ کرسکے تو مسلمانوں میں سے اپنے پرانے خیر خواہ اور ہمدرد سعد بن معاذ (رض) کے فیصلے پر اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کردیا، اگر وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فیصلے پر حوالے ہوتے تو شاید آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے پہلے قبیلوں کی طرح رعایت فرماتے، مگر جب انھوں نے سعد بن معاذ (رض) کو حکم مانا، اس امید پر کہ وہ عبداللہ بن ابی منافق کی طرح ہماری پرانی دوستی کا خیال رکھیں گے تو سعد (رض) نے فرمایا : ” اب وقت آگیا ہے کہ سعد کو اللہ کا حکم نافذ کرنے کے راستے میں کوئی دوستی حائل نہ ہو۔ “ چناچہ انھوں نے وہ فیصلہ کیا جو تورات میں مذکور تھا اور جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اللہ کا فیصلہ قرار دیا۔ چناچہ ان کے تمام بالغ مرد جو سات سو تھے، قتل کردیے گئے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی و غلام بنا لیا گیا۔[ دیکھیے بخاری، المغازی، باب مرجع النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من الأحزاب۔۔ : ٤١٢٢ ] یہ ” وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا “ کی ایک تفسیر تھی۔ پھر خیبر والوں نے عبداللہ بن عمر (رض) کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے تو امیر المومنین عمر بن خطاب نے تمام یہود و نصاریٰ کو پورے جزیرۂ عرب سے جلا وطن کردیا۔ پھر اللہ کے وعدے کے مطابق ان کی ہر سرکشی پر ان کی سرکوبی کرنے والا کوئی نہ کوئی فرماں روا ہمیشہ ان کا بندوبست کرتا رہا۔ (دیکھیے اعراف : ١٦٧) قریب زمانے میں ہٹلر نے انھیں عبرت ناک انجام سے دو چار کیا۔ اب تمام کفار نصاریٰ ، کمیونسٹوں اور بت پرست ہندوؤں کی پشت پناہی سے، پھر یہ لوگ فلسطین میں قدس پر قبضہ کرکے اپنی ریاست اسرائیل کے نام سے بنا کر فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اور مسلم دشمنی کی وجہ سے تمام کفار ان کے ساتھ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اس کے وعدے کے مطابق عنقریب ان کے ساتھ دوبارہ وہی کچھ ہونے والا ہے جو پہلے ہوتا رہا ہے۔ پھر وہ وقت بھی آ کر رہے گا جب مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں پتھر اور درخت بھی ان کے قتل کے لیے مسلمانوں کو ان کی اطلاع دیں گے، جیسا کہ اس سے پہلے صحیح مسلم کی حدیث میں گزرا ہے۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے جسے نافذ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بنی اسرائیل کی یہ ساری داستان مسلمانوں کو عبرت کے لیے سنائی گئی ہے کہ اگر تم نے ایسا کیا تو تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔ - وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا :” حَصِيْرًا “ یا تو ” حَصَرَ یَحْصُرُ حَصْرًا “ (ن) سے ہے، جس کا معنی قید کرنا، گھیرنا ہے، یعنی قید خانہ، یا مراد وہ حصیر (چٹائی) ہے جو بچھائی جاتی ہے، یعنی جہنم ان کا بچھونا بنے گی، جیسا کہ فرمایا : (لَهُمْ مِّنْ جَهَنَّمَ مِهَادٌ ) [ الأعراف : ٤١ ] ” ان کے لیے جہنم کے بستر ہوں گے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ان دونوں واقعات کے ذکر کے بعد آخر میں اللہ تعالیٰ نے ان معاملات میں اپنا ضابطہ بیان فرما دیا وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا یعنی اگر تم پھر نافرمانی اور سرکشی کی طرف لوٹو گے تو ہم پھر اس طرح کی سزاء و عذاب تم پر لوٹا دیں گے یہ ضابطہ قیامت تک کے لئے ارشاد ہوا ہے اور اس کے مخاطب وہ بنی اسرائیل تھے جو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں موجود تھے جس میں اشارہ کردیا گیا ہے کہ جس طرح پہلے شریعت موسویہ کی مخالفت سے اور دوسری مرتبہ شریعت عیسویہ کی مخالفت سے تم لوگ سزا و عذاب میں گرفتار ہوئے تھے اب تیسرا دور شریعت محمدیہ کا ہے جو قیامت تک چلے گا اس کی مخالفت کرنے کا بھی وہی انجام ہوگا چناچہ ایسا ہی ہوا کہ ان لوگوں نے شریعت محمدیہ اور اسلام کی مخالفت کی تو مسلمانوں کے ہاتھوں جلا وطن اور ذلیل و خوار ہوئے اور بالآخر انکے قبلہ بیت المقدس پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہوا فرق یہ رہا کہ پیچھلے بادشاہوں نے ان کو بھی ذلیل و خوار کیا تھا اور ان کے قبلہ بیت المقدس کی بےحرمتی بھی کی تھی اب مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو مسجد بیت المقدس جو صدیوں سے منہدم اور غیر آباد پڑی تھی اس کو از سر نو تعمیر کیا اور اس قبلہ انبیاء کے احترام کو بحال کیا۔- واقعات بنی اسرائیل مسلمانوں کے لئے عبرت میں موجودہ واقعہ بیت المقدس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے :- بنی اسرائیل کے یہ واقعات قرآن کریم میں بیان کرنے اور مسلمانوں کو سنانے سے بظاہر مقصد یہی ہے کہ مسلمان بھی اس ضابطہ الہیہ سے مستثنی نہیں ہیں دنیا ودین میں ان کی عزت و شوکت اور مال و دولت اطاعت خداوندی کے ساتھ وابستہ ہیں جب وہ اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے انحراف کریں گے تو ان کے دشمنوں اور کافروں کو ان پر غالب اور مسلط کردیا جائے گا جن کے ہاتھوں ان کے معاہدہ ومساجد کی بےحرمتی بھی ہوگی۔- آج کل جو حادثہ فاجعہ بیت المقدس پر یہودیوں کے قبضہ کا اور پھر اس کو آگ لگانے کا سارے عالم اسلام کو پریشان کئے ہوئے ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ اسی قرآنی ارشاد کی تصدیق ہو رہی ہے مسلمانوں نے خدا و رسول کو بھلایا آخرت سے غافل ہو کر دنیا کی شان و شوکت میں لگ گئے اور قرآن وسنت کے احکام سے بیگانہ ہوگئے تو وہ ہی ضابطہ قدرت الہیہ سامنے آیا کہ کروڑوں عربوں پر چند لاکھ یہودی غالب آگئے انہوں نے ان کی جان ومال کو بھی نقصان پہنچایا اور شریعت اسلام کی رو سے دنیا کی تین عظیم الشان مسجدوں میں سے ایک جو تمام انبیاء (علیہم السلام) کا قبلہ رہا ہے وہ ان سے چھین لیا گیا اور ایک ایسی قوم غالب آگئی جو دنیا میں سب سے زیادہ ذلیل و خوار سمجھی جاتی رہی ہے یعنی یہود اس پر مزید مشاہدہ ہے کہ وہ قوم نہ تعداد میں مسلمانوں کے مقابلہ میں کوئی حیثیت رکھتی ہے اور نہ مسلمانوں کے مجموعی موجودہ سامان حرب کے مقابلہ میں اس کی کوئی حیثیت ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ واقعہ یہود کو کوئی عزت کا مقام نہیں دیتا البتہ مسلمانوں کے لئے ان کی سرکشی کی سزا ضرور ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ جو کچھ ہوا ہماری بداعمالیوں کی سزاء کے طور پر ہوا اور اس کا علاج بجز اس کے کچھ نہیں کہ ہم پھر اپنی بداعمالیوں پر نادم ہو کر سچی توبہ کریں احکام الہیہ کی اطاعت میں لگ جائیں سچے مسلمان بنیں غیروں کی نقالی اور غیروں پر اعتماد کے گناہ عظیم سے باز آجائیں تو حسب وعدہ ربانی انشاء اللہ تعالیٰ بیت المقدس اور فلسطین پھر ہمارے قبضہ میں آئے گا مگر افسوس یہ ہے کہ آج کل کے عرب حکمران اور وہاں کے عام مسلمان اب تک بھی اس حقیقت پر متنبہ نہیں ہوئے وہ اب بھی غیروں کی امداد پر سہارا لگائے ہوئے بیت المقدس کی واپسی کے پلان اور نقشے بنا رہے ہیں جس کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا فالی اللہ المشتکی۔- وہ اسلحہ اور سامان جس سے بیت المقدس اور فلسطین پھر مسلمانوں کو واپس مل سکتا ہے صرف اللہ تعالیٰ کی طرف انابت ورجوع آخرت پر یقین احکام شرعیہ کا اتباع اپنی معاشرت اور سیاست میں غیروں پر اعتماد اور ان کی نقالی سے اجتناب اور پھر اللہ پر بھروسہ کر کے خالص اسلامی اور شرعی جہاد ہے اللہ تعالیٰ ہمارے عرب حکمرانوں اور دوسرے مسلمانوں کو اس کی توفیق عطا فرما دیں - ایک عجیب معاملہ : اللہ تعالیٰ نے اس زمین میں اپنی عبادت کے لئے دو جگہوں کو عبادت کرنے والوں کا قبلہ بنایا ہے ایک بیت المقدس دوسرا بیت اللہ مگر قانون قدرت دونوں کے متعلق الگ الگ ہے بیت اللہ کی حفاظت اور کفار کا اس پر غالب نہ آنا یہ اللہ نے خود اپنی ذمہ لے لیا ہے اس کا نتیجہ وہ واقعہ فیل ہے جو قرآن کریم کی سورة فیل میں ذکر کیا گیا ہے کہ یمن کے نصرانی بادشاہ نے بیت اللہ پر چڑھائی کی تو اللہ نے معہ اس کے ہاتھیوں کی فوج کے بیت اللہ کے قریب تک جانے سے پہلے ہی پرندے جانوروں کے ذریعہ ہلاک و برباد کردیا۔- لیکن بیت المقدس کے متعلق یہ قانون نہیں بلکہ آیات مذکورہ سے معلوم ہوا ہے کہ جب مسلمان گمراہی اور معاصی میں مبتلا ہوں گے تو ان کی سزا کے طور پر ان سے یہ قبلہ بھی چھین لیا جائے گا اور کفار اس پر غالب آجائیں گے۔- کافر بھی اللہ کے بندے ہیں مگر اس کے مقبول نہیں :- مذکور الصدر پہلے واقعہ میں قرآن کریم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب اہل دین فتنہ و فساد پر اتر آئیں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر اپنے ایسے بندوں کو مسلط کر دینگے جو ان کے گھروں میں گھس کر ان کو قتل و غارت کریں گے اس جگہ قرآن کریم نے لفظ عِبَادًا لَّنَآ فرمایا ہے عِبَادَنَا نہیں کہا حالانکہ وہ مختصر تھا حکمت یہ ہے کہ کسی بندہ کی اضافت ونسبت اللہ کی طرف ہوجانا اس کے لئے سب سے بڑا اعزاز ہے جیسا کہ اسی سورة کے شروع میں اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ کے تحت میں یہ بتلایا جا چکا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو انتہائی اعزاز اور غایت قرب شب معراج میں نصیب ہوا قرآن نے اس واقعہ کے بیان میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسم گرامی یا کوئی صفت بیان کرنے کے بجائے صرف بِعَبْدِهٖ کہہ کر یہ بتلا دیا کہ انسان کا آخری کمال اور انتہائی اونچا مقام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنا بندہ کہہ کر نوازیں آیت مذکورہ میں جن لوگوں سے بنی اسرائیل کی سزاء کا کام لیا گیا یہ خود بھی کافر تھے اس لئے حق تعالیٰ نے ان کو عِبَادَنَا کے لفظ سے تعبیر فرمانے کے بجائے اضافت ونسبت کو توڑ کر عِبَادًا لَّنَآ فرمایا جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ تکوینی طور پر تو سارے ہی انسان اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں مگر بغیر ایمان کے مقبول بندے نہیں ہوتے جن کی نسبت واضافت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جاسکے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ ۚ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا ۘ وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا ۝- عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین - ( ع س ی ) عسیٰ- کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ- معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم .- ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- حصر - الحَصْر : التضييق، قال عزّ وجلّ : وَاحْصُرُوهُمْ [ التوبة 5] ، أي : ضيقوا عليهم، وقال عزّ وجل : وَجَعَلْنا جَهَنَّمَ لِلْكافِرِينَ حَصِيراً [ الإسراء 8] ، أي : حابسا . قال الحسن : معناه : مهادا «5» ، كأنه جعله الحصیر المرمول کقوله : لَهُمْ مِنْ جَهَنَّمَ مِهادٌ [ الأعراف 41] فحصیر في الأول بمعنی الحاصر، وفي الثاني بمعنی المحصور، فإنّ الحصیر سمّي بذلک لحصر بعض طاقاته علی بعض، وقول لبید :- 114-- ومعالم غلب الرّقاب كأنهم ... جنّ لدی باب الحصیر قيام - «6» أي : لدی سلطان «7» ، وتسمیته بذلک إمّا لکونه محصورا نحو : محجّب، وإمّا لکونه حاصرا، أي : مانعا لمن أراد أن يمنعه من الوصول إليه، وقوله عزّ وجلّ : وَسَيِّداً وَحَصُوراً [ آل عمران 39] ،- ( ح ص ر ) الحصر - ( ن ) کے معنی تضییق یعنی تنگ کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا :۔ اور گھیر لو یعنی انہیں تنگ کرو ۔ اور آیت کریمہ ؛ ۔ وَجَعَلْنا جَهَنَّمَ لِلْكافِرِينَ حَصِيراً [ الإسراء 8] اور ہم نے جہنم کو کافروں کیلئے قید خانہ بنا رکھا ہے ۔ میں حصیر کے معنی روکنے والا کے ہیں ۔ حسن نے کہا ہے کہ حصیر کے معنی مھاد یعنی بچھونے کے ہیں گویا ان کے نزدیک اس سے حصیر مرموں یعنی چنائی مراد ہے اور چٹائی کو حصیر اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے ریشے ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں ۔ اور لبید کے شعر ع ( الکامل ) (110) ومقامۃ غلب الرقاب کانھم جن لدی باب الحصیر قیام اور بہت سے موٹی گردنوں والے بہادر ہیں جو بادشاہ کے دروازے پر کھڑے ہوئے حنات معلوم ہوتے ہیں میں حصیر کے معنی بادشاہ کے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨) عجب نہیں کہ (اگر تم شریعت محمدیہ کی پیروی کرو) تو تمہارا پروردگار اس کے بعد تم رحم فرمائے، اور اگر تم پھر وہی شرارت کرو گے تو ہم بھی پھر وہی سزا کا برتاؤ کریں گے اور اگر تم نیکیاں کرو گے تو ہم بھی رحمتیں نازل فرمائیں گے اور ہم نے جہنم کو ایسے کافروں کا جیل خانہ بنا رکھا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨ (عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يَّرْحَمَكُمْ ۚ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا)- اگر تم نے پہلے کی طرح ہماری نا فرمانیوں اور احکام شریعت سے اعراض کی روش اختیار کی تو ہم بھی اسی طرح پھر تمہیں سزا دیں گے۔ - (وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا)- نافرمانیوں کی سزا دنیا میں تو ملے گی ہی جبکہ جہنم کا عذاب اس کے علاوہ ہوگا۔ جس طرح جانوروں کو گھیر کر باڑے میں بند کردیا جاتا ہے اسی طرح آخرت میں اللہ کے نافرمانوں کو اکٹھا کر کے جہنم کے قید خانے میں دھکیل دیا جائے گا۔ (اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْنَا مَعَھُمْ )

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :10 اس سے یہ شبہہ نہ ہونا چاہیے کہ اس پوری تقریر کے مخاطب بنی اسرائیل ہیں ۔ مخاطب تو کفار مکہ ہی ہیں ، مگر چونکہ ان کو متنبہ کرنے کے لیے یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کے چند عبرتناک شواہد پیش کیے گئے تھے ، اس لیے بطور ایک جملہ معترضہ کے یہ فقرے بنی اسرائیل کو خطاب کر کے فرما دیا گیا تا کہ ان اصلاحی تقریروں کے لیے تمہید کا کام دے جن کی نوبت ایک ہی سال بعد مدینے میں آنے والی تھی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani