بہترین راہنما قرآن حکیم ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی کتاب کی تعریف میں فرماتا ہے کہ یہ قرآن بہترین راہ کی طرف رہبری کرتا ہے ۔ ایماندار جو ایمان کے مطابق فرمان نبوی پر عمل بھی کریں انہیں یہ بشارتیں سناتا ہے کہ ان کے لئے اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے انہیں بیشمار ثواب ملے گا ۔ اور جو ایمان سے خالی ہیں انہیں یہ قرآن قیامت کے دن کے دردناک عذابوں کی خبر دیتا ہے جیسے فرمان ہے آیت ( فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ 24ۙ ) 84- الانشقاق:24 ) انہیں المناک عذابوں کی خبر پہنچا دے
[٩۔ الف ] اس سے پہلے تورات کا ذکر ہو رہا تھا جس پر عمل پیرا نہ ہونے کی وجہ سے بنی اسرائیل پر متعدد بار دینی اور دنیوی مصائب نازل ہوئے۔ درآنحالیکہ انھیں پہلے سے ہی متنبہ کردیا گیا تھا کہ اگر تم اس پر عمل نہ کرو گے تو تمہارا ایسا انجام ہوگا اس کے بعد قرآن مجید کے متعلق دو باتیں ارشاد فرمائیں۔ ایک یہ کہ تمام دینی اور دنیاوی معاملات میں جو کچھ بھی اچھے سے اچھے دستور اور منزل مقصود کا جو راستہ سب سے سیدھا ہے اسی کی طرف یہ قرآن رہنمائی کرتا ہے۔ قرآن نے انسان کی ہدایت پھر اس کی سعادت اور شقاوت سے متعلق کوئی بات نہیں چھوڑی۔ دوسرے یہ کہ اچھے اور برے کاموں کے انجام سے بھی پوری تفصیل سے آگاہ کرتا ہے جس کا ظہور عالم آخرت میں ہوگا جبکہ تورات میں آخرت سے متعلق بہت کم تفصیلات دی گئی تھیں۔- قرآن میں کیا کچھ خوبیاں اور کمالات ہیں جو درج ذیل حدیث میں ملاحظہ فرمائیے۔- قرآن بہترین کلام کیسے ہیں ؟ حارث اعور کہتے ہیں کہ میں مسجد میں سیدنا علی (رض) سے ملا اور کہا دیکھئے یہ لوگ کیسی باتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ سیدنا علی (رض) نے کہا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا ہے۔ آپ نے فرمایا : سن لو عنقریب ایک فتنہ بپا ہوگا میں نے پوچھا۔ یارسول اللہ اس فتنہ سے بچاؤ کی کیا صورت ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس سے بچاؤ کی صورت اللہ کی کتاب ہے جس میں تم سے پہلے لوگوں کے بھی حالات ہیں اور بعد والوں کے بھی اور تمہارے باہمی معاملات کے متعلق حکم بھی ہے۔ وہ دو ٹوک بات کہتا ہے ہنسی مذاق کی بات نہیں کہتا۔ جس نے اسے حقیر سمجھ کر چھوڑ دیا اللہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے گا۔ اور جس نے قرآن کے علاوہ دوسری چیزوں سے راہ ڈھونڈھی اللہ اسے گمراہ کر دے گا۔ وہ اللہ کی مضبوط رسی ہے اور حکمتوں سے لبریز نصیحت ہے وہی صراط مستقیم ہے جس سے خواہشات کجرو نہیں ہوتیں اور لوگوں کی زبانیں اسے مشکوک نہیں بناتیں۔ اس سے عالم لوگ سیر نہیں ہوتے، اسے باربار پڑھنے سے جی نہیں اکتاتا نہ وہ پرانا معلوم ہوتا ہے۔ اس کے عجائبات ختم ہونے میں نہیں آتے۔ قرآن ایسی کتاب ہے کہ جب اسے جنوں نے سنا تو فوراً بول اٹھے کہ ہم نے عجیب قرآں سنا ہے سو ہم اس پر ایمان لاتے ہیں جس نے قرآن کے مطابق کلام کیا اس نے سچ کہا اور جس نے اس کے مطابق عمل کیا اسے اجر دیا جائے گا اور جس نے اس کے مطابق فیصلہ کیا اس نے عدل کیا اور جس نے لوگوں کو قرآن کی طرف بلایا اسے سیدھی راہ دکھلا دی گئی۔ اعور یہ باتیں خوب یاد رکھ لو۔ (ترمذی۔ ابو اب فضائل القرآن۔ باب فی فضل القرآن)
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ ۔۔ : یعنی یہ قرآن تمام دینی اور دنیوی معاملات میں سب سے سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھنے کا وہ طریقہ سکھایا گیا ہے جس سے اچھا کوئی طریقہ نہیں، مگر ترک دنیا اور رہبانیت اختیار کرنے اور انسانی فطرت کے تقاضوں کو پامال کرنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے، بلکہ اس کے بجائے دنیا میں باعزت اور غالب ہو کر رہنے کا اور انسان کے فطری تقاضوں اور دنیا کی آسائشوں سے بہرہ ور ہونے کا بھی ایسا عمدہ طریقہ سکھایا گیا ہے جو ہر قسم کی زیادتی، سرکشی اور ہوس پرستی سے پاک ہے اور دنیا میں ہر مسلم اور غیر مسلم کے لیے امن و سلامتی کا ضامن ہے ۔- ہاں جو لوگ اس پر ایمان لے آئیں اور اس کے مطابق عمل صالح کریں انھیں وہ اجر کبیر کی بھی بشارت دیتا ہے اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہ لائیں انھیں اس بات سے بھی آگاہ کرتا ہے کہ دنیا میں وہ بظاہر کتنے ہی خوش حال اور صاحب مال و اولاد ہوں دنیا میں بھی ان کے لیے عذاب ہے (دیکھیے توبہ : ٥٥۔ طٰہٰ : ١٢٤ تا ١٢٧) اور آخرت میں بھی ان کے لیے عذاب الیم ہے جو دنیا کے عذاب سے کہیں زیادہ سخت ہے، جیسا کہ سورة طٰہٰ کی مذکورہ آیات کے آخر میں فرمایا : (وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَشَدُّ وَاَبْقی) ” اور یقیناً آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ باقی رہنے والا ہے۔ “ مسلمانوں کے لیے ان دو آیتوں میں دو بشارتیں ہیں، ایک ان کے لیے اجر کبیر کی، دوسری ان کے دشمنوں کا عذاب الیم میں مبتلا ہونا بھی ان کے لیے خوشی کی خبر ہے۔
ربط آیات :- شروع سورت میں معجزہ معراج سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان رسالت کا بیان تھا ان آیات میں معجزہ قرآن سے اس کا اثبات ہے۔- خلاصہ تفسیر :- بلاشبہ یہ قرآن ایسے طریقہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے (یعنی اسلام) اور (اس طریقہ کے ماننے اور نہ ماننے والوں کی جزاء وسزا بھی بتلاتا ہے کہ) ان ایمان والوں کو جو نیک کام کرتے ہیں یہ خوشخبری دیتا ہے کہ ان کو بڑا بھاری ثواب ملے گا اور یہ بھی بتلاتا ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے لئے ایک درد ناک سزا تیار کر رکھی ہے اور (بعض) انسان (جیسے کفار ہیں) برائی (یعنی عذاب) کی ایسی دعا کرتا ہے جس طرح بھلائی کی دعاء (کی جاتی ہے) اور انسان کچھ (کچھ طبعاً ہی) جلد باز (ہوتا) ہے۔- معارف و مسائل :- طریق اقوم :- قرآن جس طریقہ کی ہدایت کرتا ہے اس کو اقوم کہا گیا ہے اقوم کی تفسیر یہ ہے کہ وہ راستہ جو منزل مقصود تک پہنچانے میں قریب بھی ہو آسان بھی ہو خطرات سے خالی بھی ہو (قرطبی) اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم انسانی زندگی کے لئے جو احکام دیتا ہے وہ ان تینوں اوصاف کے جامع ہیں اگرچہ انسان اپنی کوتاہ فہمی کی وجہ سے بعض اوقات اس راستہ کو دشوار یا پرخطر سمجھنے لگے لیکن رب العالمین جو کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم رکھتا ہے اور ماضی و مستقبل اس کے سامنے یکساں ہے وہ ہی اس حقیقت کو جان سکتا ہے کہ انسان کا نفع کس کام اور کس صورت میں زیادہ ہے اور خود انسان چونکہ مجموعی حالات سے واقف نہیں وہ اپنے بھلے برے کو بھی پوری طرح نہیں پہچان سکتا۔
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا كَبِيْرًا ۙ- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] - ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ - کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔
(٩) یہ قرآن حکیم ایسے طریقے کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے یعنی شہادت۔ (آیت) ” ان لا الہ اللہ وان محمد رسول اللہ “۔ اور ان بااخلاص مومنوں کو جو کہ اعمال صالحہ کرتے ہیں جنت میں کامل عظیم الشان ثواب ملنے کی خوشخبری دیتا ہے۔
آیت ٩ (اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ ھِيَ اَقْوَمُ )- یاد رکھو اب راہ ہدایت وہی ہوگی جس کی نشان دہی یہ کتاب کرے گی جسے ہم اپنے آخری رسول پر نازل کر رہے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ کے قصر رحمت میں داخل ہونے کا ” شاہدرہ “ ایک ہی ہے اور وہ ہے یہ قرآن۔ اب اگر تم اللہ کے دامن رحمت میں پناہ لینا چاہتے ہو تو اس قرآن کے راستے سے ہو کر آؤ۔ اگر ایسا کرو گے تو اللہ کی رحمت کے دروازے ایک بار پھر تمہارے لیے کھل جائیں گے اور جو رفعتیں اور برکتیں اس آخری نبی کی امت کے لیے لکھی گئی ہیں تم بھی ان میں حصہ دار بن جاؤ گے۔