52۔ 1 بلائے گا کا مطلب ہے قبروں سے زندہ کر کے اپنی بارگاہ میں حاضر کرے گا، تم اس کی حمد کرتے ہوئے تعمیل ارشاد کرو گے یا اسے پہچانتے ہوئے اس کے پاس حاضر ہوجاؤ گے۔ 52۔ 2 وہاں یہ دنیا کی زندگی بالکل تھوڑی معلوم ہوگی۔ کانھم یوم یرونھا لم یلبثوا الا عشیۃ او ضحہا۔ النازعات۔ جب قیامت کو دیکھ لیں گے، تو دنیا کی زندگی انھیں ایسے لگے گی گویا اس میں ایک شام یا ایک صبح رہے ہیں اسی مضمون کو دیگر مقامات میں بھی بیان کیا گیا ہے بعض کہتے ہیں کہ پہلا صور پھونکیں گے تو سب مردے قبروں میں زندہ ہوجائیں گے۔ پھر دوسرے صور پر میدان محشر میں حساب کتاب کے لئے اکٹھے ہونگے۔ دونوں صور کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہوگا اور اس فاصلے میں انھیں کوئی عذاب نہیں دیا جائے گا، وہ سو جائیں گے۔ دوسرے صور پر اٹھیں گے تو کہیں گے افسوس، ہمیں ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھایا ؟ (قَالُوْا يٰوَيْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا ۆھٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ ) 36 ۔ یس :52) (فتح القدیر) پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔
[٦٣] یعنی جب قیامت آگئی اور اللہ نے تمہیں زندہ کرکے اٹھ کھڑا ہونے اور اپنے پاس حاضر ہونے کا حکم دے دیا تو تم بلا چون و چرا اس کے سامنے از خود حاضر ہوجاؤ گے اور یہ سب باتیں تمہیں بھول جائیں گی۔ پھر اس دن چونکہ سب حجابات اٹھ جائیں گے اور ہر انسان یہ دیکھ رہا ہوگا کہ قادر مطلق تو صرف ایک اللہ کی ذات ہے لہذا تم صرف اللہ کی پکار پر حاضر ہی نہ ہوگے بلکہ اس کی تعریف کے گن گاتے حاضر ہوگے اور اس دن یہ دنیا کی زندگی تمہیں بس ایک سہانا خواب ہی معلوم ہوگی۔
يَوْمَ يَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ : یعنی اس کے بلانے پر تم اس کے مطیع و فرماں بردار بن کر اور اس کی حمد کرتے ہوئے قبروں سے اٹھ آؤ گے۔ دنیا کی طرح کسی قسم کی سرکشی اور انکار کے بجائے اللہ کی حمد کرو گے اور اس کے سامنے مکمل اطاعت کا اظہار کرو گے۔ (دیکھیے نحل : ٨٧) یا یہ مطلب ہے کہ تم اس کے بلانے پر حاضر ہوجاؤ گے۔ ” بِحَمْدِهٖ “ کا معنی ” وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ “ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے بلانے پر تمہارا قبروں سے اٹھ کر حاضر ہوجانا صرف اللہ تعالیٰ ہی کی خوبی ہے، جس پر صرف وہی مستحق حمد و ثنا ہے۔- يَوْمَ يَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة یونس کی آیت (٤٥) کی تفسیر۔
معارف و مسائل :- (آیت) يَوْمَ يَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ لفظ يَدْعُوْكُمْ دعاء سے مشتق ہے جس کے معنے آواز دے کر بلانے کے ہیں اور معنے یہ ہیں کہ جس روز اللہ تعالیٰ تم سب کو محشر کی طرف بلائے گا اور یہ بلانا بواسطہ فرشتہ اسرافیل کے ہوگا کہ جب وہ دوسرا صور پھونکے گے تو سب مردے زندہ ہو کر میدان حشر میں جمع ہوجائیں گے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ زندہ ہونے کے بعد سب کو میدان حشر میں جمع کرنے کے لئے آواز دی جائے (قرطبی)- اور حدیث میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز تم کو تمہارے اپنے اور باپ کے نام سے پکارا جائے گا اس لئے اپنے نام اچھے رکھا کرو (بیہودہ ناموں سے پرہیز کرو) (قرطبی)- محشر میں کفار بھی اللہ کی حمد وثناء کرتے اٹھیں گے :- فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ ۔ استجابت کے معنی کسی کے ہلانے پر حکم کی تعمیل کرنے اور حاضر ہوجانے کے ہیں معنے یہ ہیں کہ میدان حشر میں جب تم کو بلایا جاوے گا تو تم سب اس آواز کی اطاعت کرو گے اور جمع ہوجاؤ گے بحمدہ یہ تستجیبون کی ضمیر فاعل کا حال ہے بمعنے حامدین مراد یہ ہے کہ اس میدان میں آنے کے وقت تم سب کے سب اللہ کی حمد وثنا کرتے ہوئے حاضر ہوگے - اس آیت کے ظاہر سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مومن و کافر سب کا یہی حال ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اٹھیں گے کیونکہ اس آیت میں اصل خطاب کفار ہی کو ہے انھیں کے متعلق یہ بیان ہو رہا ہے کہ سب حمد کرتے ہوئے اٹھیں گے ائمہ تفسری میں حضرت سعید بن جبیر نے فرمایا کہ کفار بھی اپنی قبروں سے نکلتے وقت سبحانک وبحمدک کے الفاظ کہتے ہوئے نکلیں گے مگر اس وقت کا حمد وثناء کرنا ان کو کوئی نفع نہیں دے گا (قرطبی) کیونکہ یہ لوگ جب مرنے کے بعد زندگی دیکھیں گے تو غیر اختیاری طور پر ان کی زبان سے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کے الفاظ نکلیں گے وہ کوئی ایسا عمل نہیں ہوگا جس پر جزاء و مرتب ہو - اور بعض حضرات مفسرین نے اس حال کو مومنیں کے لئے مخصوص بتلایا ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ کفار کے متعلق تو قرآن کریم میں یہ ہے کہ جب وہ زندہ کئے جاویں گے تو یہ کہیں گے (آیت) يٰوَيْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا (اے افسوس ہمیں کس نے ہماری قبر سے زندہ کر اٹھایا ہے) اور دوسری آیت میں ہے کہ یہ کہیں گے (آیت) يّٰحَسْرَتٰى عَلٰي مَا فَرَّطْتُّ فِيْ جَنْبِ اللّٰهِ (یعنی اے حسرت و افسوس اس پر کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں بڑی کوتاہی کی ہے)- لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں اقوال میں کوئی تعارض نہیں ہوسکتا ہے کہ شروع میں سب کے سب حمد کرتے ہوئے اٹھیں بعد میں جب کافروں کو مومنین سے الگ کردیا جاوے گا جیسا کہ سورة یسین کی آیت میں ہے (آیت) وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ (اے مجرموتم آج سب الگ ممتاز ہو کر جمع ہوجاؤ) اس وقت ان کی زبانوں سے وہ کلمات بھی نکلیں گے جو آیات مذکورہ میں آئے ہیں اور یہ بات قرآن وسنت کی بیشمار تصریحات سے معلوم اور ثابت ہے کہ محشر کے مواقف مختلف ہوں گے ہر موقف میں لوگوں کے حال مختلف ہوں گے امام قرطبی نے فرمایا کہ حشر میں اٹھنے کی ابتدا بھی حمد سے ہوگی سب کے سب حمد کرتے ہوئے اٹھیں گے اور سب معاملات کا خاتمہ بھی حمد پر ہوگا جیسا کہ ارشاد ہے (آیت) وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بالْحَقِّ وَقِيْلَ الْحَـمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (یعنی سب اہل محشر کا فیصلہ حق کے مطابق کردیا گیا ہے اور یہ کہا گیا کہ حمد و شکر ہے اللہ رب العالمین کا) ۔
يَوْمَ يَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا 52ۧ- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - استجاب - والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] ، وقال : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر 60] ، فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة 186] ، فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران 195] ، وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری 26] وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری 38] ، وقال تعالی: وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي[ البقرة 186] ، الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران 172] .- ( ج و ب ) الجوب - الاستحابتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر 60] کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری ( دعا ) قبول کرونگا ۔ فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران 195] تو ان کے پرور گار نے ان کی دعا قبول کرلی ۔ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری 26] اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کی ( دعا) قبول فرماتا وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری 38] اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة 186] اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ ) میں تو ( تمہارے پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں ۔ الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران 172] جنهوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول کے حکم کو قبول کیا ۔- حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔- قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔
دنیا میں انسان کا قیام بہت تھوڑا ہے - قول باری ہے (وتظنون ان لبثتم الا قلیلاً اور تمہارا گمان اس وقت یہ ہوگا کہ ہم بس تھوڑی دیر ہی اس حالت میں پڑے رہے ہیں) حسن کا قول ہے کہ تم دنیا کی زندگی کی مدت کے متعلق یہ گمان کرو گے اس لئے کہ آخرت میں تمہارے رہنے کی مدت بڑی طویل ہوگی جس طرح یہ قول ہے ۔ ” تم دنیا میں اتنی تھوڑی مدت کے لئے رہو گے کہ گویا رہے ہی نہیں اور آخرت کی مدت کو دیکھ کر کہو گے کہ گویا ہمیشہ سے یہیں رہتے ہے۔ “ قتادہ کا قول ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب وہ آخرت کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو ان کی نظروں میں دنیا انتہائی حقیر ہوجائے گی۔
(٥٢) اب اس کے وقت وقوع کو بیان فرماتا ہے کہ یہ اس روز ہوگا جب کہ تمہیں قبروں سے اٹھانے کے لیے حضرت اسرافیل (علیہ السلام) صور پھونکیں گے اور تم اللہ تعالیٰ کے پکارنے والے فرشتہ کی بحکم الہی تعمیل کرو گے اور تم یہ خیال کرو گے کہ قبر میں ہم بہت ہی کم رہے تھے۔
آیت ٥٢ (يَوْمَ يَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ )- جب وہ گھڑی آئے گی اور تمہارا خالق تمہیں قبروں سے باہر آنے کے لیے بلائے گا تو تمہاری ہڈیاں اور تمہارے جسموں کے بکھرے ذرات سب سمٹ کر پھر سے زندہ انسانوں کا روپ دھار لیں گے اور تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کی پکار کی تعمیل میں بھاگے چلے جا رہے ہو گے۔- (وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا)- اس وقت تمہیں دنیا اور عالم برزخ (قبر) میں اپنا بیتا ہوا زمانہ ایسے لگے گا جیسے کہ چند گھڑیاں ہی تم وہاں گزار کر آئے ہو۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :56 یعنی دنیا میں مرنے کے وقت سے لے کر قیامت میں اٹھنے کے وقت تک کی مدت تم کو چند گھنٹوں سے زیادہ محسوس نہ ہو گی ۔ تم اس وقت یہ سمجھو گے کہ ہم ذرا دیر سوئے پڑے تھے کہ یکایک اس شور محشر نے ہمیں جگا اٹھایا ۔ اور یہ جو فرمایا کہ تم اللہ کی حمد کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہو گے ، تو یہ ایک بڑی حقیقت کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن اور کافر ، ہر ایک کی زبان پر اس وقت اللہ کی حمد ہوگی ۔ مومن کی زبان پر اس لیے کہ پہلی زندگی میں اس کا اعتقاد یقین اور اس کا وظیفہ یہی تھا ۔ اور کافر کی زبان پر اس لیے کہ اس کی فطرت میں یہی چیز ودیعت تھی ، مگر اپنی حماقت سے وہ اس پر پردہ ڈالے ہوئے تھا ۔ اب نئے سرے سے زندگی پاتے وقت سارے مصنوعی حجابات ہٹ جائیں گے اور اصل فطرت کی شہادت بلا ارادہ اس کی زبان پر جاری ہو جائے گی ۔