مسلمانو ایک دوسرے کا احترام کرو اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ آپ مومن بندوں سے فرما دیں کہ وہ اچھے الفاظ ، بہتر فقروں اور تہذیب سے کلام کرتے رہیں ، ورنہ شیطان ان کے آپس میں سر پھٹول اور برائی ڈلوا دے گا ، لڑائی جھگڑے شروع ہو جائیں گے ۔ وہ انسان کا دشمن ہے گھات میں لگا رہتا ہے ، اسی لئے حدیث میں مسلمان بھائی کی طرف کسی ہتھیار سے اشارہ کرنا بھی حرام ہے کہ کہیں شیطان اسے لگا نہ دے اور یہ جہنمی نہ بن جائے ۔ ملاحظہ ہو مسند احمد ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ایک مجمع میں فرمایا کہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں کوئی کسی پر ظلم و ستم نہ کرے کوئی کسی کو بےعزت نہ کرے پھر آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تقوی یہاں ہے جو دو شخص آپس میں دینی دوست ہوں پھر ان میں جدائی ہو جائے اسے ان میں سے جو بیان کرے وہ بیان کرنے والا برا ہے وہ بدتر ہے وہ نہایت شریر ہے ( مسند )
53۔ 1 یعنی آپس میں گفتگو کرتے وقت زبان کو احتیاط سے استعمال کریں، اچھے کلمات بولیں، اسی طرح کفار و مشرکین اور اہل کتاب سے اگر مخاطبت کی ضرورت پیش آئے تو ان سے مشفقانہ اور نرم لہجے میں گفتگو کریں۔ 53۔ 2 زبان کی ذرا سی بےاعتدالی سے شیطان، جو تمہارا کھلا دشمن ہے، تمہارے درمیان آپس میں فساد ڈلوا سکتا ہے، یا کفار یا مشرکین کے دلوں میں تمہارے لئے زیادہ بغض وعناد پیدا کرسکتا ہے۔ حدیث میں ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار کے ساتھ اشارہ نہ کرے اس لیے کہ وہ نہیں جانتا کہ شیطان شاید اس کے ہاتھ سے وہ ہتھیار چلوا دے اور وہ اس مسلمان بھائی کو جا لگے جس سے اس کی موت واقع ہوجائے پس وہ جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔ صحیح بخاری
[٦٤] داعی کو تلخ کلامی سے پرہیز ضروری ہے :۔ ہر شخص کو چاہیے کہ خطاب کے وقت اس کے لہجہ میں نرمی اور الفاظ میں شیرینی ہونی چاہیے تند و تیز اور غصہ والے لہجہ یا تلخ الفاظ استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے خواہ یہ خطاب باہمی گفتگو کے سلسلہ میں ہو یا دعوت دین کے سلسلہ میں۔ کیونکہ لہجہ یا الفاظ میں درستی سے مخاطب کے دل میں ضد اور عداوت پیدا ہوتی ہے اور اس سے دعوت دین کا کام یا اصلاح احوال کا کام پیچھے جا پڑتا ہے۔- [٦٥] اور شیطان تو چاہتا ہی یہ ہے کہ تمہاری آپس میں منافرت، ضد اور دشمنی پیدا ہو اور دعوت و تبلیغ کا کام رک جائے۔ لہذا خطاب کے وقت خصوصی احتیاط کرو۔ اور تم غصہ میں آگئے یا تلخ لہجہ یا سخت الفاظ کہناشروع کردیئے تو سمجھ لو کہ تم شیطان کی چال میں آگئے۔ اسی لیے اللہ نے مسلمانوں کو کافروں کے بتوں یا معبودوں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع فرما دیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر ضد میں آکر جوابی کارروائی کے طور پر اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں۔ (٦: ١٠٨)
ۧوَقُلْ لِّعِبَادِيْ يَـقُوْلُوا الَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ ۔۔ : ” نَزَغَ یَنْزَغُ “ (ف) کا معنی چوکا مارنا، فساد اور بگاڑ پیدا کرنا ہے۔ سورة بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے جو عہد لینے کا ذکر فرمایا اس میں یہ حکم تھا : ( وَقُوْلُوْا للنَّاسِ حُسْـنًا ) [ البقرۃ : ٨٣ ] ” اور لوگوں کے لیے اچھی بات کہو۔ “ یہاں ہماری امت کو احسن یعنی سب سے اچھی بات کہنے کا حکم دیا۔ ” میرے بندوں “ سے مراد امت مسلمہ ہے، کیونکہ وہی اس کی غلامی اور بندگی کرنے والے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر نہیں فرمایا کہ کس سے احسن بات کہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ مسلم ہو یا کافر، دوست ہو یا دشمن، ہر ایک سے ایسی بات کرنا لازم ہے جس سے بہتر بات آدمی نہ کہہ سکتا ہو۔ اس کے لیے لازماً اسے بولنے سے پہلے سوچنا ہوگا۔ ایک عالم نے کہا کہ میں نے جب بھی اپنی طرف سے اچھی سے اچھی بات کہی، پھر اس پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس سے بھی بہتر بات کہی جاسکتی تھی۔ یہاں احسن بات نہ کہنے کا نقصان بیان فرمایا کہ زبان سے ناہموار بات نکلنے پر شیطان آپس میں جھگڑا اور دشمنی ڈال دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو مسلمانوں کا ایک دوسرے سے دلی بغض یا قطع تعلق سخت ناپسند ہے۔ بہت سی احادیث میں اس کی وعید موجود ہے۔ اسی طرح کافر سے احسن بات نہ کہنے کا نتیجہ اس کا اسلام سے مزید دوری ہوگا۔ اس لیے اس کی طرف سے برائی کا جواب بھی احسن طریقے سے دینا لازم ہے۔ دیکھیے سورة مومنون (٩٦ تا ٩٨) جب کافر کی طرف سے برائی کا جواب احسن طریقے سے دینا لازم ہے تو پھر مسلمان کی طرف سے ہونے والی برائی کا دفاع احسن طریقے سے کرنا تو بالاولیٰ لازم ہوگا۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ احسن بات اور احسن رویے سے جواب کا فائدہ یہ ہوگا کہ دشمن بھی دلی دوست بن جائے گا۔ مگر یہ نعمت اسی کو ملتی ہے جو صبر کرے اور بڑا صاحب نصیب ہو، جس کی علامت یہ ہے کہ وہ شیطان کی ہر اکساہٹ اور غصہ دلانے پر اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے گا اور غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے گا۔ دیکھیے سورة حم السجدہ (٣٤ تا ٣٦) شیطان کی انسان سے کھلی عداوت کے ذکر کے لیے دیکھیے سورة فاطر (٦) ، اعراف (١١ تا ٢٧) اور سورة بقرہ میں قصۂ آدم و ابلیس۔ ہمیشہ سے دشمنی کا مفہوم ” کَانَ “ سے ظاہر ہے اور آدم کو سجدہ نہ کرنے کے وقت سے لے کر قیامت تک اس کی دشمنی کا دوام اس کا شاہد ہے۔
خلاصہ تفسیر :- اور آپ میرے (مسلمان) بندوں سے کہہ دیجئے کہ (اگر کفار کو جواب دیں تو) ایسی بات کہا کریں جو (اخلاق کے اعتبار سے) بہتر ہو (یعنی اس میں سب و شتم اور تشدد اور اشتعال انگیزی نہ ہو کیونکہ) شیطان (سخت بات کہلوا کر) لوگوں میں فساد ڈلوا دیتا ہے واقعی شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے (اور وجہ اس تعلیم کی یہ ہے کہ سختی سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اور ہدایت و گمراہی تو مشیت ازلیہ کے تابع ہے) تم سب کا حال تمہارا پروردگار خوب جانتا ہے (کہ کون کس قابل ہے بس) اگر وہ چاہے تو تم (میں سے جس) پر (چاہے) رحمت فرما دے (یعنی ہدایت کر دے) یا اگر وہ چاہے تو تم (میں سے جس) کو (چاہے) عذاب دینے لگے (یعنی اس کو توفیق اور ہدایت نہ دے) اور ہم نے آپ (تک) کو ان (کی ہدایت) کا ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا (اور جب باوجود نبی ہونے کے آپ ذمہ دار نہیں بنائے گئے تو دوسروں کی کیا مجال ہے اس لئے کسی کے درپے ہونا اور سختی کرنا بےفائدہ ہے)- اور آپ کا رب خوب جانتا ہے ان کو (بھی) جو کہ آسمانوں میں ہیں اور (ان کو بھی جو کہ) زمین میں ہیں (آسمان والوں سے مراد فرشتے اور زمین والوں سے مراد انسان اور جنات ہیں مطلب یہ ہے کہ ہم خوب واقف ہیں کہ ان میں سے کس کو نبی اور رسول بنانا مناسب ہے کس کو نہیں اس لئے اگر ہم نے آپ کو نبی بنادیا تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے) اور (اس طرح اگر ہم نے آپ کو دوسروں پر فضیلت دے دیتو تعجب کیا ہے کیونکہ) ہم نے (پہلے بھی) بعض نبیوں کو بعض پر فضیلت دی ہے (اور اسی طرح اگر ہم نے آپ کو قرآن دیا تو تعجب کی کیا بات ہے کیونکہ آپ سے پہلے) ہم داؤد کو زبور دے چکے ہیں۔- معارف و مسائل :- بدزبانی اور سخت کلامی کفار کے ساتھ درست نہیں :- پہلی آیت میں جو مسلمانوں کو کافروں کے ساتھ سخت کلامی سے منع کیا گیا ہے اس کی مراد یہ ہے کہ بےضرورت سختی نہ کی جاوے اور ضرورت ہو تو قتل تک کرنے کی اجازت ہے۔- کہ بےحکم شرع آب خوردن خطاست، وگر خون بفتوی بریزی رواست - قتل و قتال کے ذریعہ کفر کی شوکت اور اسلام کی مخالفت کو دبایا جاسکتا ہے اس لئے اس کی اجازت ہے گالی گلوچ اور سخت کلامی سے نہ کوئی قلعہ فتح ہوتا ہے نہ کسی کو ہدایت ہوتی ہے اس لئے اس سے منع کیا گیا ہے امام قرطبی نے فرمایا کہ یہ آیت حضرت عمر بن خطاب (رض) کے ایک واقعہ میں نازل ہوئی جس کی صورت یہ تھی کہ کسی شخص نے حضرت فاروق اعظم (رض) کو گالی دی اس کے جواب میں انہوں نے بھی سخت جواب دیا اور اس کے قتل کا ارادہ کیا اس کے نتیجہ میں خطرہ پیدا ہوگیا کہ دو قبیلوں میں جنگ چھڑ جائے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- اور قرطبی کی تحقیق یہ ہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کو آپس میں خطاب کرنے کے متعلق ہدایت ہے کہ باہم اختلاف کے وقت سخت کلامی نہ کیا کریں کہ اس کے ذریعہ شیطان ان کے آپس میں جنگ و فساد پیدا کرا دیتا ہے۔
وَقُلْ لِّعِبَادِيْ يَـقُوْلُوا الَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ ۭ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِيْنًا 53- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله،- فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - نزع - نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی:- وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] - ( ن زع ) نزع - الشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کام ن کو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔
(٥٣) آپ حضرت عمر فاروق (رض) اور ان کے ساتھیوں سے فرما دیجیے کہ جب کفار کی باتوں کا جواب دیا کریں تو ایسی بات کہا کریں جو کہ اخلاق اور نرمی کے اعتبار سے بہتر ہو۔- کیوں کہ شیطان سخت جواب دلوا کر لوگوں میں فساد ڈلوا دیتا ہے اور واقعی وہ کھلا دشمن ہے، اور یہ حکم جہاد کے نزول سے قبل والا حکم ہے۔
آیت ٥٣ (وَقُلْ لِّعِبَادِيْ يَـقُوْلُوا الَّتِيْ ھِيَ اَحْسَنُ )- یہاں وہ نکتہ ذہن میں تازہ کر لیجیے جس کی قبل ازیں وضاحت ہوچکی ہے کہ مکی سورتوں میں اہل ایمان کو براہ راست مخاطب نہیں کیا گیا۔ ان سے براہ راست تخاطب کا سلسلہ (یٰٓاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا) تحویل قبلہ کے بعد شروع ہوا جب انہیں باقاعدہ امت مسلمہ کے منصب پر فائز کردیا گیا۔ اس سے پہلے اہل ایمان کو رسول اللہ کی وساطت سے ہی مخاطب کیا جاتا رہا۔ چناچہ اسی اصول کے تحت یہاں بھی حضور سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ میرے بندوں (مؤمنین) کو میری طرف سے یہ بتادیں کہ وہ ہر حال میں خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں اور گفتگو میں کبھی ترشی اور تلخی نہ آنے دیں۔ اس طرح آپس میں بھی شیر و شکر بن کر رہیں اور مخالفین کے سامنے بھی بہتر اخلاق کا نمونہ پیش کریں۔ اقامت دین کے اس مشن کو آگے بڑھانے کے لیے مؤمنین کے سامنے بہت زیادہ رکاوٹیں ہیں۔ ان کے مخاطبین جہالت کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کے جاہلانہ اعتقادات نسلوں سے چلے آ رہے ہیں۔ اسی طرح انہیں اپنے رسم و رواج سیاسی و معاشی مفادات اور غیرت و حمیت کے جذبات بہت عزیز ہیں۔ انہیں اس سب کچھ کا دفاع کرنا ہے اور اس کے لیے وہ ہر طرح کی قربانیاں دینے کو تیار ہیں۔ ان حالات میں داعیانِ حق کو تحمل بردباری اور برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اشتعال میں آکر اعلیٰ اخلاق کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھیں۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :57 یعنی اہل ایمان سے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :58 یعنی کفار و مشرکین سے اور اپنے دین کے مخلافین سے گفتگو اور مباحثے میں تیز کلامی اور مبالغے اور غلو سے کام نہ لیں ۔ مخالفین خواہ کیسی ہی ناگوار باتیں کریں مسلمانوں کو بہرحال نہ تو کوئی بات خلاف حق زبان سے نکالنی چاہیے ، اور نہ غصے میں آپے سے باہر ہو کر بیہودگی کا جواب بیہودگی سے دینا چاہیے ۔ انہیں ٹھنڈے دل سے وہی بات کہنی چاہیے جو جچی تلی ہو ، برحق ہو ، اور ان کی دعوت کے وقار کے مطابق ہو ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :59 یعنی جب کبھی تمہیں مخالفین کی بات کا جواب دیتے وقت غصے کی آگ اپنے اندر بھڑکتی محسوس ہو ، اور طبیعت بے اختیار جوش میں آتی نظر آئے ، تو فورا سمجھ لو کہ یہ شیطان ہے جو تمہیں اکسا رہا ہے تا کہ دعوت دین کا کام خراب ہو ۔ اس کی کوشش یہ ہے کہ تم بھی اپنے مخالفین کی طرح اصلاح کا کام چھوڑ کر اسی جھگڑے اور فساد میں لگ جاؤ جس میں وہ نوع انسانی کو مشغول رکھنا چاہتا ہے ۔
28: اس آیت میں مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ جب ان کی کافروں کے ساتھ گفتگو ہو تو ان کے ساتھ بھی خوش اسلوبی کے ساتھ بات کیا کریں کیونکہ غصے کے عالم میں سخت قسم کی باتوں سے فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے اور ایسی باتیں شیطان اس لئے کہلواتا ہے کہ ان سے فساد پیدا ہو۔