افضل الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام تمہارا رب تم سے بخوبی واقف ہے وہ ہدایت کے مستحق لوگوں کو بخوبی جانتا ہے ۔ وہ جس پر چاہتا ہے رحم کرتا ہے ، اپنی اطاعت کی توفیق دیتا ہے اور اپنی جانب جھکا لیتا ہے ۔ اسی طرح جسے چاہے بد اعمالی پر پکڑ لیتا ہے اور سزا دیتا ہے ۔ ہم نے تجھے ان کا ذمہ دار نہیں بنایا تیرا کام ہوشیار کر دینا ہے تیری ماننے والے جنتی ہوں گے اور نہ ماننے والے دوزخی بنیں گے ۔ زمین و آسمان کے تمام انسان جنات فرشتوں کا اسے علم ہے ، ہر ایک کے مراتب کا اسے علم ہے ، ایک کو ایک پر فضیلت ہے ، نبیوں میں بھی درجے ہیں ، کوئی کلیم اللہ ہے ، کوئی بلند درجہ ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبیوں میں فضیلتیں قائم نہ کیا کرو ، اس سے مطلب صرف تعصب اور نفس پرستی سے اپنے طور پر فضیلت قائم کرنا ہے نہ یہ کہ قرآن و حدیث سے ثابت شدہ فضیلت سے بھی انکار ۔ جو فضیلت جس نبی کی از روئے دلیل ثابت ہو جائے گی اس کا ماننا واجب ہے مانی ہوئی بات ہے کہ تمام انبیاء سے رسول افضل ہیں اور رسولوں میں پانچ اولو العزم رسول سب سے افضل ہیں جن کا نام سورۃ احزاب کی آیت میں ہے یعنی محمد ، نوح ، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسیٰ صلوۃ اللہ علیہم اجمعین ۔ سورہ شوریٰ کی آیت ( شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ ۭ كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَيْهِ ۭ اَللّٰهُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ 13 ) 42- الشورى:13 ) میں بھی ان پانچوں کے نام موجود ہیں ۔ جس طرح یہ سب چیزیں ساری امت مانتی ہے ، اسی طرح بغیر اختلاف کے یہ بھی ثابت ہے کہ ان میں بھی سب سے افضل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسا کہ مشہور ہے ہم نے اس کے دلائل دوسری جگہ تفصیل سے بیان کئے ہیں واللہ الموفق ۔ پھر فرماتا ہے ہم نے داؤد پیغمبر علیہ السلام کو زبور دی ۔ یہ بھی ان کی فضیلت اور شرف کی دلیل ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حضرت داؤد علیہ السلام پر قرآن اتنا آسان کر دیا گیا تھا کہ جانور پر زین کسی جائے اتنی سی دیر میں آپ قرآن پڑھ لیا کرتے تھے ۔
54۔ 1 اگر خطاب مشرکین سے ہو تو رحم کے معنی قبول اسلام کی توفیق کے ہونگے اور عذاب سے مراد شرک پر ہی موت ہے، جس پر وہ عذاب کے مستحق ہوں گے۔ اور اگر خطاب مومنین سے ہو تو رحم کے معنی ہوں گے کہ وہ کفار سے تمہاری حفاظت فرمائے گا اور عذاب کا مطلب ہے کفار کا مسلمانوں پر غلبہ و تسلط۔ 54۔ 2 کہ آپ انھیں ضرور کفر کی دلدل سے نکالیں یا ان کے کفر پر جمے رہنے پر آپ سے باز پرس ہو۔
[٦٦] کوئی شخص کسی کو نجات اخروی کی ضمانت نہیں دے سکتا :۔ ہم یوں تو کہہ سکتے ہیں جو اللہ کے فرمانبردار ہیں وہ جنت میں اور نافرمان دوزخ میں جائیں گے مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں (معین) شخص جنت میں یا دوزخ میں جائے گا۔ نہ ہی اپنے متعلق کوئی شخص ایسا دعویٰ کرسکتا ہے اور نہ کوئی فرقہ یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ ضرور جنت میں جائے گا۔ اس لیے کہ ہر ایک کی حقیقت حال اور اس کا انجام صرف اللہ ہی کو معلوم ہے حتیٰ کہ نبی آخر الزمان بھی کسی کی ہدایت اور اخروی نجات کے ضامن نہیں ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔- سیدنا خارجہ بن زید بن ثابت کہتے ہیں کہ ام العلاء ایک انصاری عورت تھی جس نے رسول اللہ سے بیعت کی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ مہاجرین قرعہ سے ہم انصار کو بانٹ دیئے گئے۔ ہمارے حصہ میں عثمان بن مظعون (رض) آئے۔ ہم نے انھیں اپنے گھروں میں اتارا۔ پھر وہ ایسی بیماری میں مبتلا ہوئے جن میں ان کی وفات ہوگئی۔ جب انھیں غسل دیا اور کفن پہنایا گیا اس وقت رسول اللہ تشریف لائے۔ میں نے کہا اے ابو السائب (یہ عثمان بن مظعون (رض) کی کنیت تھی) اللہ تم پر رحم کرے۔ میں یہ گواہی دیتی ہوں کہ اللہ نے تم کو عزت دی۔ رسول اللہ نے اسے فرمایا (ام العلائ) تجھے کیسے معلوم ہوا کہ اللہ نے اسے عزت دی ؟ میں نے کہا یارسول اللہ میرا باپ آپ پر قربان ہو، پھر اللہ کس کو عزت دے گا ؟ آپ نے فرمایا عثمان فوت ہوگیا اور اللہ کی قسم میں اس کے حق میں بھلائی کی امید رکھتا ہوں اور اللہ کی قسم میں حتمی طور پر یہ نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں ام العلاء کہنے لگیں کہ اللہ کی قسم اس کے بعد میں کبھی کسی کی بزرگی بیان نہیں کروں گی۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب الدخول علی المیت بعد الموت۔۔ )
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ کو تمہارے متعلق علم اس سے بھی کہیں زیادہ ہے جتنا خود تمہیں اپنے متعلق ہے، اب اگر وہ چاہے تو تمہاری نامناسب باتوں اور کاموں کے باوجود اپنے فضل سے تم پر رحم فرمائے، چاہے تو تمہارے گناہوں کی پاداش میں اپنے عدل کی بنا پر عذاب دے۔ وہ ہر چیز کا مالک ہے، اپنی ملکیت کے ساتھ جو چاہے کرے، نہ اس میں کوئی ظلم ہے اور نہ کسی کو اس سے پوچھنے کی جرأت ہے۔ دیکھیے سورة انبیاء (٢٣) ۔- وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ وَكِيْلًا : ” وَكِيْلًا “ بمعنی ” اَلْمَوْکُوْلُ إِلَیْہِ “ ہے، یعنی جس کے سپرد کیا جائے، ذمہ دار بنایا جائے۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے کہ اگر یہ لوگ ایمان نہ لائیں تو آپ سے کوئی باز پرس نہیں، نہ آپ ان کے ذمہ دار ہیں، آپ کا کام پیغام پہنچانا ہے۔
رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِكُمْ ۭ اِنْ يَّشَاْ يَرْحَمْكُمْ اَوْ اِنْ يَّشَاْ يُعَذِّبْكُمْ ۭ وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ وَكِيْلًا 54- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه»- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - وكيل - التَّوْكِيلُ : أن تعتمد علی غيرک وتجعله نائبا عنك، والوَكِيلُ فعیلٌ بمعنی المفعول . قال تعالی: وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] أي : اکتف به أن يتولّى أمرك،- ( و ک ل) التوکیل - کے معنی کسی پر اعتماد کر کے اسے اپنا نائب مقرر کرنے کے ہیں اور وکیل فعیل بمعنی مفعول کے وزن پر ہے ۔ قرآن میں : ۔ وَكَفى بِاللَّهِ وَكِيلًا[ النساء 81] اور خدا ہی کافی کار ساز ہے ۔ یعنی اپنے تمام کام اسی کے سپرد کر دیجئے
(٥٤) تمہارا پروردگار تمہاری صلاحیتوں کو خوب جانتا ہے اگر وہ چاہے تو تمہیں اہل مکہ سے نجات دے دے اور وہ چاہے تو ان لوگوں کو تم پر مسلط کر دے اور ہم نے آپ کو ان لوگوں کا ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا کہ ان کے ایمان نہ لانے پر آپ سے کچھ باز پرس ہو۔
(وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ وَكِيْلًا)- ہدایت کو قبول کرنا یا نہ کرنا ہر شخص کا ذاتی معاملہ اور ذاتی انتخاب ہے۔ آپ ان تک پیغام پہنچانے کے ذمہ دار ہیں انہیں ہدایت پر لانے کے مکلف نہیں۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :60 یعنی اہل ایمان کی زبان پر کبھی ایسے دعوے نہ آنے چاہییں کہ ہم جنتی اور فلاں شخص یا گروہ دوزخی ہے ۔ اس چیز کا فیصلہ اللہ کے اختیار میں ہے ۔ وہی سب انسانوں کے ظاہر و باطن اور ان کے حال و مستقبل سے واقف ہے ۔ اسی کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کس پر رحمت فرمائے اور کسے عذاب دے ۔ انسان اصولی حیثیت سے تو یہ کہنے کا ضرور مجاز ہے کہ کتاب اللہ کی رو سے کس قسم کے انسان رحمت کے مستحق ہیں اور کس قسم کے انسان عذاب کے مستحق ۔ مگر کسی انسان کو یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ فلاں شخص کو عذاب دیا جائے گا اور فلاں شخص بخشا جائے گا ۔ غالبا یہ نصیحت اس بنا پر فرمائی گئی ہے کہ کبھی کبھی کفار کی زیادتیوں سے تنگ آکر مسلمان کی زبان سے ایسے فقرے نکل جاتے ہوں گے کہ تم لوگ دوزخ میں جاؤ گے ، یا تم کو خدا عذاب دے گا ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :61 یعنی نبی کا کام دعوت دینا ہے ۔ لوگوں کی قسمتیں اس کے ہاتھ میں نہیں دے دی گئی ہیں کہ وہ کسی کہ حق میں رحمت کا اور کسی کے حق میں عذاب کا فیصلہ کرتا پھرے ۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی کوئی غلطی سرزد ہوئی تھی جس کی بنا پر اللہ تعالی نے آپ کو یہ تنبیہ فرمائی ۔ بلکہ دراصل اس سے مسلمانوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے ۔ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ جب نبی تک کا یہ منصب نہیں ہے تو تم جنت اور دوزخ کے ٹھیکیدار کہاں بنے جا رہے ہو ۔