55۔ 1 یہ مضمون (تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ ) 2 ۔ البقرۃ :253) بھی گزر چکا ہے۔ یہاں دوبارہ کفار مکہ کے جواب میں یہ مضمون دہرایا گیا ہے، جو کہتے تھے کہ کیا اللہ کو رسالت کے لئے یہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ملا تھا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کسی کو رسالت کے لئے منتخب کرنا اور کسی ایک نبی کو دوسرے پر فضیلت دینا، یہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
[٦٧] انبیاء کی فضیلت کے پہلو :۔ اس فضیلت کے بھی کئی پہلو ہیں مثلاً کسی نبی کی دعوت کا کام زیادہ بار آور ثابت ہوا، کسی کا کم، کسی نے صرف تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیا، کسی نے جہاد بھی کیے کسی کو کوئی معجزہ دیا گیا تو دوسرے نبی کو کوئی دوسرا دیا گیا۔ کچھ نبیوں نے تنگدستی اور فقیری میں ہی زندگی گزار دی اور کچھ ساتھ ہی بادشاہ بھی تھے۔ وغیرہ وغیرہ۔- [٦٨] بادشاہ بھی نبی ہوسکتا ہے تو ایک عام آدمی کیوں نبی نہیں ہوسکتا ؟ اس مقام پر بالخصوص سیدنا داؤد (علیہ السلام) کا ذکر کرنے کی دو وجوہ معلوم ہوتی ہیں ایک یہ کہ داؤد (علیہ السلام) اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے، پست قد تھے اور حقیر سمجھے جاتے تھے۔ بکریاں چرایا کرتے تھے مگر جو قیمتی جوہر ان میں موجود تھے انھیں اللہ ہی جانتا تھا۔ لہذا اللہ نے انھیں صرف نبی ہی نہیں بنایا بلکہ صاحب کتاب نبی بنایا پھر بادشاہت بھی عطا فرمائی۔ یہ ہے اللہ کی دین اور اللہ کا فضل کہ جس پر اس کی نظر انتخاب پڑتی ہے اسے نوازتا ہے۔ اور جتنا چاہے نوازتا ہے۔- دوسرا پہلو یہ ہے کہ مشرکین مکہ کا رسول اللہ کے متعلق ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ یہ تو ہمارے ہی جیسا انسان ہے جو ہماری طرح کھاتا پیتا، چلتا پھرتا اور شادیاں کرتا ہے اور صاحب اولاد ہے۔ یہ تو طالب دنیا ہے لہذا یہ خدا رسیدہ یا اللہ کا پیغمبر کیسے ہوسکتا ہے۔ ؟ گویا ان کے نظریہ کے مطابق خدا رسیدہ یا پیغمبر ہونے کے طالب دنیا ہونے کے بجائے تارک دنیا ہونا ضروری تھا۔ جیسا کہ یہود و نصاریٰ میں رہبان تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس نظریہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک عام انسان یا طالب دنیا کے متعلق تمہارا یہ خیال ہے کہ وہ نبی نہیں ہوسکتا تو ایک بادشاہ کے متعلق تم کیا سوچ سکتے ہو جو عام انسانوں سے بہت زیادہ دنیا میں پھنسا ہوا، طالب دنیا اور اللہ سے نسبتاً دور ہوتا ہے ؟ پھر جب ہم نے داؤد بادشاہ کو بھی نبوت عطا کی اور صاحب کتاب نبی بنایا تھا تو پھر آخر یہ نبی آخرالزمان کیوں نبی نہیں ہوسکتا ؟
وَرَبُّكَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : لوگوں کے احوال کا ان سے بڑھ کر علم رکھنے کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ زمین و آسمان میں موجود ہر شخص (انسان ہو یا جن یا فرشتہ) سے زیادہ اس کا علم رکھنے والا ہے۔ اس لیے وہ بہتر جانتا ہے کہ کس کو نبوت و رسالت کا شرف عطا کرنا ہے، فرمایا : (3 اَللّٰهُ يَصْطَفِيْ مِنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا وَّمِنَ النَّاسِ [ الحج : ٧٥ ] ” اللہ فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے چنتا ہے اور لوگوں سے بھی۔ “- وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيّٖنَ عَلٰي بَعْضٍ : اس لیے اس کے کمال علم کا تقاضا ہے کہ وہ انبیاء و رسل میں سے جسے چاہتا ہے بعض پر فضیلت بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے سب پر فضیلت عطا فرما کر آخری نبی بنا دیتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (٢٥٣) اس کے نزدیک انتخاب کا معیار دنیا کی دولت یا حکومت نہیں۔ داؤد (علیہ السلام) بکریاں چرانے والے تھے، اللہ تعالیٰ نے نبی اور بادشاہ بنادیا، پھر مزید فضیلت بخشی تو بطور فضیلت بادشاہی کے بجائے زبور عطا فرمانے کا ذکر کیا، کیونکہ اللہ کے ہاں فضیلت کا معیار دنیا کی کوئی چیز نہیں، بلکہ آخرت کا علم اور اس کے مطابق عمل ہے۔ دراصل یہ کفار کے اس اعتراض کا جواب ہے جو وہ عموماً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیا کرتے تھے کہ انھی کو رسالت کے لیے کیوں چنا گیا ؟ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة زخرف ( ٣١ تا ٣٥) ۔- وَّاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا : زبور کا ذکر خاص طور پر اس لیے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاتم النّبیین ہونے اور اس امت کے سب سے افضل ہونے پر زبور کے مضامین شہادت دے رہے ہیں۔ (دیکھیے انبیاء : ١٠٥) ہوسکتا ہے کہ کفار سے جہاد میں مشابہت کی وجہ سے داؤد (علیہ السلام) کا تذکرہ کردیا ہو۔ - 3 حافظ ابن کثیر (رض) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان : (وَّاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا ) اور سورة بقرہ (٢٥٣) میں یہ فرمان : (تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ ) صحیح بخاری (٣٤١٥) اور مسلم (٢٣٧٣) کی ان صحیح روایات کے منافی نہیں جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” انبیاء کو آپس میں ایک دوسرے پر برتری (فضیلت) مت دو ۔ “ کیونکہ اس سے مراد محض اپنی خواہش یا تعصب کی بنا پر فضیلت دینا ہے، دلیل کی بنا پر فضیلت دینا نہیں، کیونکہ جب دلیل سے کوئی بات ثابت ہوجائے تو اسے ماننا ضروری ہوتا ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ رسول انبیاء سے افضل ہیں۔
(آیت) وَاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا یہاں خاص طور پر زبور کا ذکر شاید اس لئے کیا گیا ہے کہ زبور میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ خبر دی گئی ہے کہ آپ رسول و پیغمبر ہونے کے ساتھ صاحب ملک و سلطنت بھی ہوں گے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے (آیت) وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ اور موجوہ زبور میں بھی بعض حضرات نے اس کا مذکور ہونا ثابت کیا ہے (تفسیر حقانی)- امام بغوی نے اپنی تفسیر میں اس جگہ لکھا ہے کہ زبور اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی اس میں ایک سو پچاس سورتیں ہیں اور تمام سورتیں صرف دعاء اور حمد وثنا پر مشتمل ہیں ان میں حلال و حرام اور فرائض و حدود کا بیان نہیں ہے۔
وَرَبُّكَ اَعْلَمُ بِمَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيّٖنَ عَلٰي بَعْضٍ وَّاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا 55- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو - داود - داود اسم أعجميّ.- ( د و د ) داؤد ) (علیہ السلام) یہ عجمی نام ہے اور عجمہ وعلمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے )- زبر - الزُّبْرَةُ : قطعة عظیمة من الحدید، جمعه زُبَرٌ ، قال : آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] ، وقد يقال : الزُّبْرَةُ من الشّعر، جمعه زُبُرٌ ، واستعیر للمجزّإ، قال : فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً- [ المؤمنون 53] ، أي : صاروا فيه أحزابا .- وزَبَرْتُ الکتاب : کتبته کتابة غلیظة، وكلّ کتاب غلیظ الکتابة يقال له : زَبُورٌ ، وخصّ الزَّبُورُ بالکتاب المنزّل علی داود عليه السلام، قال : وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً- [ النساء 163] ، وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ- [ الأنبیاء 105] ، وقرئ زبورا «1» بضم الزاي، وذلک جمع زَبُورٍ ، کقولهم في جمع ظریف : ظروف، أو يكون جمع زِبْرٍ «2» ، وزِبْرٌ مصدر سمّي به کالکتاب، ثم جمع علی زُبُرٍ ، كما جمع کتاب علی كتب، وقیل : بل الزَّبُورُ كلّ کتاب يصعب الوقوف عليه من الکتب الإلهيّة، قال : وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 196] ، وقال :- وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران 184] ، أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر 43] ، وقال بعضهم : الزَّبُورُ : اسم للکتاب المقصور علی الحکم العقليّة دون الأحكام الشّرعيّة، والکتاب : لما يتضمّن الأحكام والحکم، ويدلّ علی ذلك أنّ زبور داود عليه السلام لا يتضمّن شيئا من الأحكام . وزِئْبُرُ الثّوب معروف «1» ، والْأَزْبَرُ : ما ضخم زُبْرَةُ كاهله، ومنه قيل : هاج زَبْرَؤُهُ ، لمن يغضب «2» .- ( زب ر) الزبرۃ - لوہے کی کڑی کو کہتے ہیں اور اس کی جمع زبر آتی ہے قرآن میں ہے :۔ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96]( اچھا ) لوہے کی سلیں ہم کو لادو ۔ اور کبھی زبرۃ کا لفظ بالوں کے گچھا پر بولا جاتا ہے اس کی جمع ، ، زبر ، ، آتی ہے اور استعارہ کے طور پر پارہ پارہ کی ہوئی چیز کو زبر کہاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ زُبُراً [ المؤمنون 53] پھر لوگوں نے آپس میں پھوٹ کرکے اپنا ( اپنا ) دین جدا جدا کرلیا ۔ زبرت الکتاب میں نے کتاب کو موٹے خط میں لکھا اور ہر وہ کتاب جو جلی اور گاڑھے خط میں لکھی ہوئی ہو اسے زبور کہاجاتا ہے لیکن عرف میں زبور کا لفظ اس آسمانی کتاب کے لئے مخصوص ہوچکا ہے ۔ جو حضرت داؤد (علیہ السلام) پر نازل ہوئی تھی چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَآتَيْنا داوُدَ زَبُوراً [ النساء 163] اور ہم نے داود (علیہ السلام) کو زبور عطا کی ۔ وَلَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ [ الأنبیاء 105] اور ہم نے نصیحت ( کی کتاب یعنی توراۃ ) کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا ۔ اس میں ایک قرات زبور ( بضمہ زاء ) بھی ہے ۔ جو یا تو زبور بفتحہ زا کی جمع ہے جیسے طریف جمع ظرورف آجاتی ہے اور یا زبر ( بکسر ہ زا) کی جمع ہے ۔ اور زبد گو اصل میں مصدر ہے لیکن بطور استعارہ اس کا اطاق کتاب پر ہوتا ہے جیسا کہ خود کتاب کا لفظ ہے کہ اصل میں مصدر ہے ۔ لیکن بطور اسم کے استعمال ہوتا ہے پھر جس طرح کتاب کی جمع کتب آتی ہے اسطرح زبر کی جمع زبد آجاتی ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ زبور کتب الہیہ میں سے ہر اس کتاب کو کہتے ہیں جس پر واقفیت دشوار ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ [ الشعراء 196] اس میں شک نہیں کہ یہ ( یعنی اس کی پیشین گوئی ) اگلے پیغمبروں کی کتابوں میں موجود ہے ۔ وَالزُّبُرِ وَالْكِتابِ الْمُنِيرِ [ آل عمران 184] اور صحیفے اور روشن کتاب لائے تھے ۔ أَمْ لَكُمْ بَراءَةٌ فِي الزُّبُرِ [ القمر 43] یا تمہارے لئے صحیفوں میں معافی ( لکھی ہوئی ) ہے ۔ اور بعض کا قول ہے کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو صرف حکم عقلیہ پر مشتمل ہو اور اس میں احکام شرعیہ نہ ہوں ۔ اور الکتاب ہر اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو احکام حکم دونوں پر مشتمل ہو ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) کی زبور میں کوئی حکم شرعی نہیں ہے ۔ زئبرالثوب کپڑے کارواں ۔ اسی سے کہاجاتا ہے ھاج زئبرہ وہ غصہ سے بھڑک اٹھا ۔ اور بڑے کندھوں والے شخص کو ازبر کہاجاتا ہے ۔
(٥٥) اور آپ کا پروردگار مومنوں کی صلاحیتوں کو خوب جانتا ہے اور ہم نے پہلے بھی بعض نبیوں کو شرف خلوت اور شرف کلامی کے ساتھ بعض پر فضیلت دی ہے اور ہم داؤد (علیہ السلام) کو زبور دے چکے ہیں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توریت اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو انجیل اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قرآن کریم دیا ہے۔
(وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِيّٖنَ عَلٰي بَعْضٍ )- یہاں اس فقرے کے سیاق وسباق کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سورة بنی اسرائیل مکی دور کے آخری برسوں میں نازل ہوئی اور اس کا آغاز بھی بنی اسرائیل کی تاریخ سے ہوا۔ اس سورة کے نزول سے پہلے نبی آخرالزماں کی بعثت اور قرآن کے بارے میں تمام خبریں مدینہ پہنچ چکی تھیں اور یہود مدینہ ایک ایک بات اور ایک ایک خبر کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے تھے۔ پھر عنقریب حضور خود بھی مدینہ تشریف لانے والے تھے۔ ان حالات میں جب مسلمانوں کا یہودیوں کے ساتھ عقائد و نظریات کے بارے میں تبادلہ خیالات ہونا تھا تو انبیاء کرام کے فضائل کے بارے میں سوالات کا اٹھنا ناگزیر تھا کہ اگر محمد نبی ہیں تو آپ اور موسیٰ میں سے افضل کون ہیں ؟ یا یہ مسئلہ کہ محمد افضل ہیں یا عیسیٰ ؟ چناچہ اس حوالے سے یہاں ایک بنیادی اور اصولی بات بیان فرما دی گئی کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان میں موجود اپنی تمام مخلوق کے احوال و کیفیات سے خوب واقف ہے اور اس نے اپنے بعض انبیاء کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ سورة البقرۃ کی آیت ٢٥٣ میں یہی بات یوں بیان فرمائی گئی ہے : (تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ ) ” یہ رسول ہیں ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے “۔ ایسا نہ ہو کہ اس بحث میں پڑ کر آپ لوگ اپنے نبی کی فضیلت اس طرح بیان کریں کہ مخالفین کے منفی جذبات کو ہوا ملے اور وہ تعصب سے مغلوب ہو کر آپ کی بات ہی سننے سے انکار کردیں۔- یہ بہت نازک مسئلہ ہے اور اس کی نزاکت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ ہمارے نبی تمام انبیاء کرام سے افضل ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ سب سے افضل ہیں مگر موقع و محل دیکھے بغیر اپنے اس عقیدے کا اس طرح سے چرچا کرنا درست نہیں کہ اس سے دوسرے مشتعل ہوں اور ان کے مخالفانہ جذبات و خیالات کو انگیخت ملے۔ اس ضمن میں حضور کی واضح حدیث ہے کہ (لَا تُفَضِّلُوْا بَیْنَ اَنْبِیَاء اللّٰہِ ) ” اللہ کے نبیوں کے مابین درجہ بندی نہ کیا کرو “۔ آپ نے مزید فرمایا : (لاَ یَنْبَغِیْْ لِعَبْدٍ اَنْ یَقُوْلَ اَنَا خَیْرٌ مِنْ یُوْنُسَ بْنِ مَتّٰی) ” کسی شخص کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ یوں کہے کہ میں (محمد) یونس بن متی ٰسے افضل ہوں “۔ آپ نے یہاں حضرت یونس کا ذکر شاید اس لیے فرمایا کہ حضرت یونس واحد نبی ہیں جن کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کچھ گرفت ہوئی ہے۔ بہر حال آپ نے واضح طور پر اس سے منع فرمایا ہے کہ دوسرے انبیاء پر آپ کی فضیلت کا پرچار کیا جائے۔ - (وَّاٰتَيْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا)- اسی سیاق وسباق کی مناسبت سے یہاں بنی اسرائیل کے ایک نبی کا تذکرہ فرما دیا اور آپ کی فضیلت بھی بیان فرما دی کہ حضرت داؤد کو ہم نے زبور جیسی جلیل القدر کتاب عطا فرمائی تھی۔ یہاں پر یہ اشارہ ملتا ہے کہ موقع و محل کے مطابق اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء و رسل کے فضائل اور اعلیٰ مراتب کے ذکر سے ان کی عزت افزائی کرتا ہے۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :62 اس فقرے کے اصل مخاطب کفار مکہ ہیں ، اگر چہ بظاہر خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ۔ جیسا کہ معاصرین کا بالعموم قاعدہ ہوتا ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم عصر اور ہم قوم لوگوں کے آپ کے اندر کوئی فضل و شرف نظر نہ آتا تھا ۔ وہ آپ کو اپنی بستی کا ایک معمولی انسان سمجھتے تھے ، اور جن مشہور شخصیتوں کو گزرے ہوئے چند صدیاں گزر چکی تھیں ، ان کے متعلق یہ گمان کرتے تھے کہ عظمت تو بس ان پر ختم ہوگئی ہے ۔ اس لیے آپ کی زبان سے نبوت کا دعوی سن کر وہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ یہ شخص دوں کی لیتا ہے ، اپنے آپ کو نہ معلوم کیا سمجھ بیٹھا ہے ، بھلا کہاں یہ اور کہاں اگلے وقتوں کے وہ بڑے بڑے پیغمبر جن کی بزرگی کا سکہ ایک دنیا مان رہی ہے ۔ اس کا مختصر جواب اللہ تعالی نے یہ دیا ہے کہ زمین اور آسمان کی ساری مخلوق ہماری نگاہ میں ہے ۔ تم نہیں جانتے کہ کون کیا ہے اور کس کا کیا مرتبہ ہے ۔ اپنے فضل کے ہم خود مالک ہیں اور پہلے بھی ایک سے ایک بڑھ کر عالی مرتبہ نبی پیدا کر چکے ہیں ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :63 یہاں خاص طور پر داؤد علیہ السلام کی زبور دیے جانے کا ذکر غالبا اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ داؤد علیہ السلام بادشاہ تھے ، اور بادشاہ بالعموم خدا سے زیادہ دور ہوا کرتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصرین جس وجہ سے آپ کی پیغمبری و خدا رسیدگی ماننے سے انکار کرتے تھے وہ ان کے اپنے بیان کے مطابق یہ تھی کہ آپ عام انسانوں کی طرح بیوی بچے رکھتے تھے ، کھاتے پیتے تھے ، بازاروں میں چل پھر کر خریدوفروخت کرتے تھے ، اور وہ سارے ہی کام کرتے تھے جو کوئی دنیا دار آدمی اپنی انسانی حاجات کے لیے کیا کرتے ہیں ۔ کفار مکہ کا کہنا یہ تھا کہ تم تو ایک دنیا دار آدمی ہو ۔ تمہیں خدا رسیدگی سے کیا تعلقِ پہنچے ہوئے لوگ تو وہ ہوتے ہیں جنہیں اپنےتن بدن کا ہوش بھی نہیں ہوتا ، بس ایک گوشے میں بیٹھے اللہ کی یاد میں غرق رہتے ہیں ۔ وہ کہاں اور گھر کےآٹے دال کی فکر کہاں اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ ایک پوری بادشاہت کے انتظام سے بڑھ کر دنیا داری اور کیا ہوگی ۔ مگر اس کے باوجود داؤد علیہ السلام کو نبوت اور کتاب سے سرفراز کیا گیا ۔