الکتاب ہی ہدایت و امام ہے امام سے مراد یہاں نبی ہیں ہر امت قیامت کے دن اپنے نبی کے ساتھ بلائی جائے گی جیسے اس آیت میں ہے ( وَلِكُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوْلٌ ۚ فَاِذَا جَاۗءَ رَسُوْلُھُمْ قُضِيَ بَيْنَھُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ 47 ) 10- یونس:47 ) ہر امت کا رسول ہے ، پھر جب ان کے رسول آئیں گے تو ان کے درمیان عدل کے ساتھ حساب کیا جائے ۔ بعض سلف کا قول ہے کہ اس میں اہل حدیث کی بہت بڑی بزرگی ہے ، اس لئے کہ ان کے امام آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ ابن زید کہتے ہیں مراد یہاں امام سے کتاب اللہ ہے جو ان کی شریعت کے بارے میں اتری تھی ۔ ابن جریر اس تفسیر کو بہت پسند فرماتے ہیں اور اسی کو مختار کہتے ہیں ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں مراد اس سے ان کی کتابیں ہیں ۔ ممکن ہے کتاب سے مراد یا تو احکام کی کتاب اللہ ہو یا نامہ اعمال ۔ چنانچہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے مراد اعمال نامہ لیتے ہیں ۔ ابو العالیہ ، حسن ، ضحاک بھی یہی کہتے ہیں اور یہی زیادہ ترجیع والا قول ہے جیسے فرمان الہٰی ہے آیت ( وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ 12ۧ ) 36-يس:12 ) ہر چیز کا ہم نے ظاہر کتاب میں احاطہ کر لیا ہے ۔ اور آیت میں ہے و آیت ( وضع الکتاب ) الخ کتاب یعنی نامہ اعمال درمیان میں رکھ دیا جائے گا اس وقت تو دیکھے گا کہ گنہگار لوگ اس کی تحریر سے خوفزدہ ہو رہے ہوں گے ۔ الخ اور آیت میں ہے ہر امت کو تو گھٹنوں کے بل گری ہوئی دیکھے گا ۔ ہر امت اپنے نامہ اعمال کی جانب بلائی جا رہی ہو گی ، آج تمہیں تمہارے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا ۔ یہ ہے ہماری کتاب جو تم پر حق و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے گی جو کچھ تم کرتے رہے ہم برابر لکھتے رہتے تھے ۔ یہ یاد رہے کہ یہ تفسیر پہلی تفسیر کے خلاف نہیں ایک طرف نامہ اعمال ہاتھ میں ہو گا دوسری جانب خود نبی سامنے موجود ہو گا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْۗءَ بِالنَّـبِيّٖنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَــقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ 69 ) 39- الزمر:69 ) زمین اپنے رب کے نور سے چمکنے لگے گی نامہ اعمال رکھ دیا جائے گا اور نبیوں اور گواہوں کو موجود کر دیا جائے گا اور آیت میں ہے ( فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۢ بِشَهِيْدٍ وَّجِئْنَا بِكَ عَلٰي هٰٓؤُلَاۗءِ شَهِيْدًا 41ڲ ) 4- النسآء:41 ) یعنی کیا کیفیت ہو گی اس وقت جب کہ ہر امت کا ہم گواہ لائیں گے اور تجھے اس تیری امت پر گواہ کر کے لائیں گے ۔ لیکن مراد یہاں امام سے نامہ اعمال ہے اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ جن کے دائیں ہاتھ میں دے دیا گیا وہ تو اپنی نیکیاں فرحت و سرور ، خوشی اور راحت سے پڑھنے لگیں گے بلکہ دوسروں کو دکھاتے اور پڑھواتے پھریں گے ۔ اسی کا مزید بیان سورہ الحاقہ میں ہے ۔ فتیل سے مراد لمبا دھاگہ ہے جو کجھور کی گٹھلی کے بیچ میں ہوتا ہے ۔ بزار میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک شخص کو بلوا کر اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا ۔ اس کا جسم بڑھ جائے گا ، چہرہ چمکنے لگے گا ، سر پر چمکتے ہوئے ہیروں کا تاج رکھ دیا جائے گا ، یہ اپنے گروہ کی طرف بڑھے گا اسے اس حال میں آتا دیکھ کر وہ سب آرزو کرنے لگیں گے ، کہ اے اللہ ہمیں بھی یہ عطا فرما اور ہمیں اس میں برکت دے وہ آتے ہی کہے گا کہ خوش ہو جاؤ تم میں سے ہر ایک کو یہی ملنا ہے ۔ لیکن کافر کا چہرہ سیاہ ہو جائے گا اس کا جسم بڑھ جائے گا ، اسے دیکھ کر اس کے ساتھی کہنے لگیں گے اللہ اسے رسوا کر ، یہ جواب دے گا ، اللہ تمہیں غافت کرے ، تم میں سے ہر شخص کے لئے یہی اللہ کی مار ہے ۔ اس دنیا میں جس نے اللہ کی آیتوں سے اس کی کتاب سے اس کی راہ ہدایت سے چشم پوشی کی وہ آخرت میں سچ مچ رسوا ہو گا اور دنیا سے بھی زیادہ راہ بھولا ہوا ہو گا ۔
71۔ 1 اِ مَام کے معنی پیشوا، لیڈر اور قائد کے ہیں، یہاں اس سے کیا مراد ہے ؟ اس میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد پیغمبر ہے یعنی ہر امت کو اس کے پیغمبر کے حوالے سے پکارا جائے گا، بعض کہتے ہیں، اس سے آسمانی کتاب مراد ہے جو انبیاء کے ساتھ نازل ہوتی رہیں۔ یعنی اے اہل تورات اے اہل انجیل اور اے اہل قرآن وغیرہ کہہ کر پکارا جائے گا بعض کہتے ہیں یہاں امام سے مراد نامہ اعمال ہے یعنی ہر شخص کو جب بلایا جائے گا تو اس کا نامہ اعمال اس کے ساتھ ہوگا اور اس کے مطابق اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اسی رائے کو امام ابن کثیر اور امام شوکانی نے ترجیح دی ہے۔ 71۔ 2 فَتِیل اس جھلی یا تاگے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی میں ہوتا ہے یعنی ذرہ برابر ظلم نہیں ہوگا۔
[٨٩] امام سے مراد کسی امت کا نبی بھی ہوسکتا ہے اور وہ شخص بھی جسے آپ کی زندگی کے بعد پیشوا سمجھا گیا ہو۔ اور یہ بلانا اس طرح ہوگا : اے موسیٰ کی امت، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت، اے عیسیٰ کی امت یا اے قرآن والو اے انجیل والو، اے تورات والو، اسی طرح ہر گروہ والوں کو اس گروہ کے بانی کے نام سے پکارا جائے گا۔- [٩٠] اللہ کے فرمانبرداروں کو ان کا اعمال نامہ سامنے سے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور یہ ایک حسی مشاہدہ ہوگا جسے دیکھ کر ہر شخص اس کے جنتی ہونے کا اندازہ لگا سکے گا۔ ایسے شخص بہت خوش و خرم ہوں گے اور خوشی سے اپنا اعمال نامہ دوسروں کو بھی پڑھنے کو کہیں گے اور انھیں ان کے اعمال کا پورا پورا اجر مل جائے گا لیکن جس شخص کو اس کا اعمال نامہ پیچھے کی طرف سے دائیں ہاتھ میں تھما یا گیا اسے بھی فوراً اپنا انجام معلوم ہوجائے گا وہ اپنا اعمال نامہ چھپانا چاہے گا اور کہے گا کاش مجھے یہ دیا ہی نہ جاتا۔- [٩١] فتیلا اس باریک سے دھاگے کو بھی کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے شگاف میں ہوتا ہے اور اس لفظ سے بہت تھوڑی مقدار مراد لی جاتی ہے یعنی ہر ایک کو قیامت کے دن اس کی محنت کا پورا صلہ بلکہ اس سے زیادہ بھی ملے گا۔ لیکن مجرموں کو ان کے گناہوں سے ذرہ بھر بھی زیادہ سزا نہ دی جائے گی۔
يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۢ بِاِمَامِهِمْ : امام کا معنی پیشوا بھی ہے، جیسا کہ فرمایا : ( وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا ) [ الفرقان : ٧٤ ] ” اور ہمیں متقی لوگوں کا پیشوا بنا۔ “ دوسرا معنی کتاب ہے، فرمایا : ( وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ ) [ یٰسٓ : ١٢ ] ” اور ہم نے ہر چیز کو ایک واضح کتاب میں محفوظ کر رکھا ہے۔ “ پہلا معنی مراد ہو تو اہل ایمان کے امام انبیاء ( علیہ السلام) ہوں گے اور کفار و مشرکین کے امام ان کے باطل سردار ہوں گے، جیسا کہ فرمایا : (وَجَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ) [ القصص : ٤١ ] ” اور ہم نے انھیں ایسے سردار بنایا جو آگ کی طرف دعوت دیتے تھے۔ “ وہ لوگ جنھوں نے کتاب و سنت کے سوا کسی کی پیروی نہیں کی وہ اپنے امام محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بلائے جائیں گے اور ان سے بڑھ کر کون خوش نصیب ہوسکتا ہے جو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھی ہوں اور جنھوں نے کتاب و سنت کو چھوڑ کر کسی اور کی پیروی کی ہوگی، نیک ہو یا بد، وہ ان کے ساتھ بلائے جائیں گے، مگر وہ سب اپنے پیروکاروں سے صاف بری ہوجائیں گے، حتیٰ کہ شیطان بھی اپنے پیروکاروں سے بری ہونے کا اعلان کر دے گا۔ (دیکھیے ابراہیم : ٢٢) وہ نیک ائمہ اور بزرگ جو زندگی میں اپنی تقلید سے منع کرتے رہے اور کتاب و سنت کی پیروی کی تاکید کرتے رہے، وہ بھی اپنے ان جھوٹے پیروکاروں سے بالکل بری ہوجائیں گے، جنھوں نے اپنے اماموں کی بات مانی نہ کتاب و سنت پر عمل کیا۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٦٥ تا ١٦٧) اور احقاف (٦) اور اگر دوسرا معنی مراد لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ اس دن ہر شخص کو اس کی کتاب اعمال کے ساتھ بلایا جائے گا۔ یہاں یہ معنی زیادہ مناسب ہے، کیونکہ آگے کتاب کو دائیں یا بائیں ہاتھ میں دیے جانے کی بات کی گئی ہے۔ - فَاُولٰۗىِٕكَ يَقْرَءُوْنَ كِتٰبَهُمْ : دائیں ہاتھ میں اعمال نامہ ملنے ہی سے انھیں آنے والی خیر و سعادت کا پتا چل جائے گا، چناچہ وہ خوشی خوشی اسے پڑھیں گے اور دوسروں کو بھی دکھائیں گے۔ دیکھیے سورة حاقہ (١٩) ۔- وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا : کھجور کی گٹھلی کے شگاف میں باریک دھاگے کو ” فَتِيْلًا “ کہتے ہیں، یعنی تھوڑا سا ظلم بھی نہیں ہوگا۔
خلاصہ تفسیر :- (اس دن کو یاد کرنا چاہئے) جس روز ہم تمام آدمیوں کو ان کے نامہ اعمال سمیت (میدان حشر میں) بلاویں (اور نامہ اعمال اڑا دیئے جاویں گے پھر کسی کے داہنے ہاتھ اور کسی کے بائیں ہاتھ میں آجاویں گے) پھر جس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جاوے گا (اور یہ اہل ایمان ہوں گے) تو ایسے لوگ اپنا نامہ اعمال (خوش ہو کر) پڑھیں گے اور ان کا ذرا نقصان نہ کیا جاوے گا (یعنی ان کے ایمان اور اعمال کا ثواب پورا پورا ملے گا ذرا کم نہ ہوگا خواہ زیادہ مل جائے اور عذاب سے نجات بھی ہوگی خواہ اول ہی یا گناہوں کی سزا بھگتنے کے بعد) اور جو شخص دنیا میں (راہ نجات دیکھنے سے) اندھا رہا تو وہ آخرت میں بھی (منزل نجات تک پہنچنے سے) اندھا رہے گا اور (بلکہ وہاں دنیا سے بھی) زیادہ گم کردہ راہ ہوگا (کیونکہ دنیا میں تو گمراہی کا علاج ممکن تھا وہاں یہ بھی نہ ہو سکے گا یہ وہ لوگ ہوں گے جن کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا)- معارف و مسائل :- (آیت) يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۢ بِاِمَامِهِمْ اس آیت میں لفظ امام بمعنی کتاب ہے جیسا کہ سورة یسین میں ہے (آیت) وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ اس میں امام مبین سے مراد واضح کتاب ہے اور کتاب کو امام اس لئے کہا جاتا ہے کہ بھول چوک اور اختلاف کے وقت کتاب ہی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جیسے کسی امام مقتدا کی طرف رجوع کیا جاتا ہے (قرطبی)- اور ترمذی کی حدیث بروایت ابوہریرہ (رض) (جس کو ترمذی نے حسن غریب کہا ہے) اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ امام سے مراد اس آیت میں کتاب ہے الفاظ حدیث کے یہ ہیں - يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۢ بِاِمَامِهِمْ قال یدعی احدہم فیعطی کتابہ بیمینہ (الحدیث بطولہ) آیت يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۢ بِاِمَامِهِمْ کی تفسیر میں خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ایک شخص کو بلایا جائے گا اور اس کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دے دیا جائے گا۔- اس حدیث سے یہ بھی متعین ہوگیا کہ امام بمعنے کتاب ہے اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ کتاب سے مراد نامہ اعمال ہے اسی لئے خلاصہ تفسیر از بیان القرآن میں اس کا ترجمہ نامہ اعمال سے کردیا گیا ہے اور حضرت علی مرتضی (رض) اور مجاہد وغیرہ مفسرین سے یہاں لفظ امام کے معنی مقتدا اور پیشوا کے بھی منقول ہیں کہ ہر شخص کو اس کے مقتدا و پیشوا کا نام لے کر پکارا جائے خواہ وہ مقتدا و پیشوا انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے نائب مشائخ و علماء ہوں یا گمراہی اور معصیت کی طرف دعوت دینے والے پیشوا (قرطبی) - اس معنے کے لحاظ سے مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ میدان حشر میں ہر شخص کو اس کے مقتدا اور پیشوا کے نام سے پکارا جائے گا اور سب کو ایک جگہ جمع کردیا جائے گا مثلا متبعین ابراہیم (علیہ السلام) متبعین موسیٰ و عیسیٰ (علیہم السلام) و متبعین محمد مصطفے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر ان کے ذیل میں ممکن ہے کہ ان متبعین کے بلاواسطہ مقتداؤں کا نام بھی لیا جائے۔- نامہ اعمال :- قرآن مجید کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال صرف کفار کو دیا جائے گا جیسا کہ ایک آیت میں ہے (آیت) اِنَّهٗ كَانَ لَا يُؤ ْمِنُ باللّٰهِ الْعَظِيْمِ اور ایک دوسری آیت میں ہے (آیت) اِنَّهٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ يَّحُوْرَ پہلی آیت میں صراحۃ ایمان کی نفی کی گئی ہے اور دوسری آیت میں انکار آخرت مذکور ہے وہ بھی کفر ہی ہے اس تقابل سے معلوم ہوا کہ داہنے ہاتھ میں نامہ اعمال اہل ایمان کو دیا جائے گا خواہ متقی ہوں یا گناہ گار مومن اپنے نامہ اعمال کو خوشی کے ساتھ لے گا بلکہ دوسروں کو بھی پڑھوائے گا یہ خوشی ایمان کی اور عذاب ابدی سے نجات کی ہوگی گو بعض اعمال پر سزا بھی ہوگی۔- اور قرآن کریم میں نامہ اعمال داہنے یا بائیں ہاتھ میں دیئے جانے کی کیفیت مذکور نہیں لیکن بعض احادیث میں تطایرالکتب کا لفظ آیا ہے (رواہ احمد عن عائشہ (رض) مرفوعا) اور بعض روایات حدیث میں ہے کہ سب نامہ اعمال عرش کے نیچے جمع ہوں گے پھر ایک ہوا چلے گی جو سب کو اڑا کر لوگوں کے ہاتھ میں پہنچا دے گی کسی کے داہنے ہاتھ میں (اخرجہ العقیلی عن انس مرفوعا) بیان القرآن از روح المعانی)
يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۢ بِاِمَامِهِمْ ۚ فَمَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ فَاُولٰۗىِٕكَ يَقْرَءُوْنَ كِتٰبَهُمْ وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيْلًا 71- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - إِمام :- المؤتمّ به، إنسانا كأن يقتدی بقوله أو فعله، أو کتابا، أو غير ذلک محقّا کان أو مبطلا، وجمعه : أئمة . وقوله تعالی: يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ [ الإسراء 71] أي : بالذي يقتدون به، - الامام - وہ ہے جس کی اقتداء کی جائے خواہ وہ انسان ہو یا اس کے قول وفعل کی اقتداء کی جائے یا کتاب وغیرہ ہو اور خواہ وہ شخص جس کی پیروی کی جائے حق پر ہو یا باطل پر ہو اس کی جمع ائمۃ افعلۃ ) ہے اور آیت :۔ يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ( سورة الإسراء 71) جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائیں گے ۔ میں امام سے وہ شخص مراد ہے جس کی وہ اقتداء کرتے تھے ۔ - قرأ - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] - ( ق ر ء) قرءت المرءۃ وقرءت الدم - ۔ القراءۃ کے معنی حروف وکلمات کو ترتیل میں جمع کرنے کے ہیں کیونکہ ایک حروت کے بولنے کو قراءت نہیں کہا جاتا ہے اور نہ یہ عام ہر چیز کے جمع کے کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ لہذ ا اجمعت القوم کی بجاے قررءت القوم کہنا صحیح نہیں ہے ۔ القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - فتل - فَتَلْتُ الحبل فَتْلًا، والْفَتِيلُ : الْمَفْتُولُ ، وسمّي ما يكون في شقّ النّواة فتیلا لکونه علی هيئته .- قال تعالی: وَلا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا [ النساء 49] ، وهو ما تَفْتِلُهُ بين أصابعک من خيط أو وسخ، ويضرب به المثل في الشیء الحقیر . وناقة فَتْلَاءُ الذّراعین : محكمة .- ( ف ت ل )- فتلت الحبل تفلا کے معنی رسی کو بل دینے کے ہیں اور بٹی ہوئی رسی کو مفتول کہا جاتا ہے ۔ اور کھجور کی گٹھلی کے شگاف میں جو بار یک سا ڈور اہوتا ہے اسے بھی فتیل کہا جاتا ہے کیونکہ وہ رسی کی شکل و صورت پر ہوتا ہے ( عربی زبان میں یہ حقیر شے کے لئے ضرب المثل ہے ) جیسے فرمایا : ۔ وَلا يُظْلَمُونَ فَتِيلًا [ النساء 49] اور ان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا ۔ فتیل اصل میں اس تاگے یا میل کو کہتے ہیں جو وہ انگلیوں میں پکڑ کر پٹی جاتی ہے اور یہ حقیر چیز کے لئے ضرب المثل ہے ۔ ناقۃ فتلاء الذراعین مضبوط بازؤں والی اونٹنی
روز محشر امام کون ہوگا ؟- قول باری ہے (یوم ندعوا کل اناس بامامھم ۔ پھر خیال کرو اس دن کا جب کہ ہم ہر انسانی گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے) ایک قول کے مطابق یہ اعلا ن ہوگا کہ ابراہیم کے پیروکاروں کو لائو، موسیٰ کے پیروکاروں کو لائو، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیروکاروں کو لائو، یہ اعلا سن کر انبیاء (علیہم السلام) کے تمام پیروکار ایک ایک کر کے کھڑے ہوجائیں گے اور اپنے اپنے نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں پکڑ لیں گے پھر پیشوا یان ضلال کے پیروکاروں کو نام بنام اسی طریقے سے پکارا جائے گا۔ مجاہد اور قتادہ کا قول کہ امام سے مراد نبی ہے۔ حضرت ابن عباس ، حسن اور ضحاک کا قول ہے کہ امام سے مراد نامہ اعمال ہے ابوعبیدہ کے قول کے مطابق ہر گروہ کو اس شخص کے ساتھ بلایا جائے گا جس کی دنیا میں یہ اقتدا ر کرتے تھے۔ ایک قول کے مطابق امام سے مراد وہ کتاب ہے جس میں حلال و حرام اور فرائض کا ذکر ہے۔
(٧١) قیامت کے دن جب کہ ہم تمام انسانوں کو ان کے انبیاء کرام (علیہ السلام) کے ساتھ یا ان کے نامہ اعمال سمیت یا یہ کہ ان کے دعوت ہدایت دینے والے یا دعوت گمراہی دینے والے کے ساتھ ملا دیں گے۔- پھر جس کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو ایسے حضرات اپنی نیکیوں کو خوش ہو کر پڑھیں گے اور ان کی نیکیوں میں ذرا کمی نہ کی جائے گی اور نہ ان کی برائیوں میں ذرا اضافہ کیا جائے گا۔- کھجور کی گٹھلی کے درمیان جو لکیر ہوتی ہے اس میں جو چیز ہو اس کو فتیل کہتے ہیں اور انگلیوں کی جڑوں میں جو معمولی سا میل کچیل ہو، اس معنی میں بھی لفظ فتیل کا استعمال کیا گیا ہے۔
آیت ٧١ (يَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۢ بِاِمَامِهِمْ )- پھر ذرا اس دن کا خیال کرو جس دن تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیشی کے لیے اس طرح بلایا جائے گا کہ ہر گروہ اپنے راہنما یا لیڈر کے ساتھ حاضر ہوگا۔ پچھلی آیات میں تمام مخلوق پر انسان کی فضیلت کا ذکر کیا گیا ہے۔ چناچہ جب انسان کو اس کائنات میں اس قدر اعلیٰ مقام اور مرتبے سے نوازا گیا ہے تو پھر اس کا محاسبہ بھی ہونا چاہیے : ” جن کے رتبے ہیں سوا ‘ ان کی سوا مشکل ہے “
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :86 یہ بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کی گئی ہے کہ قیامت کے روز نیک لوگوں کو ان کا نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ خوشی خوشی اسے دیکھیں گے ، بلکہ دوسروں کو بھی دکھائیں گے ۔ رہے بداعمال لوگ ، تو ان کا نامہ سیاہ ان کو بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور وہ اسے لیتے ہی پیٹھ پیچھے چھپانے کی کوشش کریں گے ۔ ملاحظہ ہو سورہ الحاقہ آیت ١۹ ۔ ۲۸ ۔ اور سورہ انشقاق آیت ۷ ۔ ١۳