72۔ 1 اَ عْمَیٰ (اندھا) سے مراد دل کا اندھا ہے یعنی جو دنیا میں حق کے دیکھنے، سمجھنے اور اسے قبول کرنے سے محروم رہا، وہ آخرت میں اندھا، اور رب کے خصوصی فضل و کرم سے محروم رہے گا۔
[٩٢] یعنی دنیا میں ہدایت کے راستہ کو دیکھنے کی کوشش ہی نہ کی اور اندھا بنا رہا۔ وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا اور جنت کی راہ نظر ہی نہ آئے گی۔ دنیا میں اس کا اندھاپن اختیاری تھا اور اس کی اصلاح ممکن تھی۔ لیکن آخرت میں اس کا اندھا پن اضطراری ہوگا جو دنیا کے اندھا پن کے نتیجہ میں واقع ہوگا اور چونکہ اس کی اصلاح کی اب کوئی صورت ممکن نہ ہوگی نہ کسی دوسرے کا اسے راستہ دکھانا کام آسکے گا۔ لہذا ایسا شخص جنت سے دور ہی کہیں بھٹکتا رہے گا اور اسے صرف اپنے سامنے جہنم کے مختلف طرح کے عذاب ہی نظر آئیں گے۔
وَمَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖٓ اَعْمٰى ۔۔ : اس سے مراد دل کا اندھا ہونا ہے، کیونکہ دنیا میں تو آنکھیں مسلم و کافر دونوں کو دی گئی ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ ) [ الحج : ٤٦ ] ” پس بیشک قصہ یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں اور لیکن وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔ “ - وَاَضَلُّ سَبِيْلًا : زیادہ گمراہ اس لیے کہ دنیا میں گمراہ کے راہ راست پر آنے کی امید ہے، قیامت کو اس کا موقع نہیں ہوگا۔ - یہاں اندھے اٹھائے جانے کا ذکر ہے اور دوسرے مقامات پر ان کے دیکھنے کا ذکر ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَ رَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ ) [ الکہف : ٥٣ ] ” اور مجرم لوگ آگ کو دیکھیں گے۔ “ دونوں میں تطبیق یہ ہے کہ قیامت کے پچاس ہزار سال کے برابر دن میں مجرموں پر مختلف احوال گزریں گے، وہ قبروں سے اٹھتے وقت اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے، بعد میں دیکھنے، سننے اور بولنے کے مراحل سے بھی گزریں گے۔ ترجمان القرآن ابن عباس (رض) کی تطبیق یہی ہے۔
وَمَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖٓ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلًا 72- عمی - العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] - ( ع م ی ) العمی ٰ- یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔
قول باری ہے (ومن کان فی ھذہ اعمی فھو فی الاخرۃ اعمی جو شخص اس دنیا میں اندھا بن کر رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا) حضرت ابن عباس، مجاہد اور قتادہ سے مروی ہے کہ جو شخص اس دنیا کے اندر حق کے اعتقاد سے اندھا رہا جو اس دنیا کا متقضی ہے اس لئے کہ یہ دنیا اس کی آنکھوں کے سامنے ہے اور وہ بچشم خود اس کے انتظام، اس کی گردش اور اس کے اندر اللہ کی نعمتوں کی لگاتار آمد و رفت کا مشاہدہ کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود حق سے بےبہرہ ہے تو ایسا شخص آخرت میں بھی جو اس کی نظروں سے پوشیدہ ہے اندھا ہی رہے گا اور راہ ہدایت پانے میں زیادہ ناکام ہوگا۔
(٧٢) اور جو شخص دنیا میں ان نعمتوں کے شکر کی بجا آوری سے اندھا رہے گا وہ جنت کی نعمتوں سے بھی اندھا رہے گا اور زیادہ گمراہ ہوگا یا یہ کہ جو شخص اس دنیا میں راہ نجات اور حجت وبیان کے دیکھنے سے اندھا رہے گا اور زیادہ گمراہ ہوگا۔
آیت ٧٢ (وَمَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖٓ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلًا)- جس شخص نے اس دنیا میں اپنی پوری زندگی حیوانوں کی طرح گزار دی جس کا دیکھنا اور سننا حیوانوں کا سا دیکھنا اور سننا تھا جس نے نہ تو انفس و آفاق میں بکھری ہوئی اللہ تعالیٰ کی اَن گنت نشانیوں کو چشم بصیرت سے دیکھا نہ ان کے ذریعے سے اپنے خالق ومالک کو پہچانا اس نے اپنی زندگی گویا اندھے پن میں گزار دی۔ ایسے شخص کو قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھایا جائے گا کہ وہ اندھا ہوگا۔ اسی اندھے پن سے بچنے کے لیے علامہ اقبال نے کیا خوب نصیحت کی ہے : ” دیدن دگر آموز شنیدن دگر آموز “
40: یہاں اندھا ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ دنیا میں حق کو دیکھنے سے محروم رہا، چنانچہ وہ آخرت میں بھی نجات کا راستہ نہیں دیکھ سکے گا۔