مکار و فجار کی چلاکیوں سے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے رسول کو بچاتا رہا آپ کو معصوم اور ثابت قدم ہی رکھا خود ہی آپ کا ولی و ناصر رہا اپنی ہی حفاظت اور صیانت میں ہمیشہ آپ کو رکھا آپ کی تائید اور نصرت برابر کرتا رہا آپ کے دین کو دنیا کے تمام دینوں پر غالب کر دیا آپ کے مخالفین کے بلند بانگ ارادوں کو پست کر دیا مشرق سے مغرب تک آپ کا کلمہ پھیلا دیا اسی کا بیان ان دونوں آیتوں میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ پر قیامت تک بیشمار درود و سلام بھیجتا رہے ۔ آمین ۔
[٩٢۔ الف ] یعنی کفار مکہ کے آپ سے بغض وعناد اور دشمنی کے خاتمہ کی ایک ہی صورت ہے وہ یہ کہ آپ ان کے بتوں کی حمایت میں کچھ کلمات کہہ دیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہیں یہ کلمات مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی ہوئے ہیں۔ اس صورت میں یہ لوگ آپ سے دوستی گانٹھنے پر بھی آمادہ ہوجائیں گے۔
وَاِنْ كَادُوْا لَيَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ ۔۔ :” وَاِنْ كَادُوْا “ اصل میں ” وَاِنَّھُمْ کَادُوْا “ تھا، دلیل وہ لام ہے جو بعد میں آ رہا ہے۔ ” فَتَنَ یَفْتِنُ “ (ض) سونے کو کھرا کھوٹا معلوم کرنے کے لیے آگ میں ڈالنا، آزمائش۔ ” فَتَنَہُ عَنْ رَأْیِہِ “ کسی کو کسی کی رائے سے ہٹانا۔ کفار مکہ خود تو راہ پر کیا آتے ان کی برابر یہ کوشش رہی کہ کسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خالص توحید پیش کرنے سے باز آجائیں، یا ان احکام کا ایک حصہ چھوڑ دیں یا بدل دیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو دیے جا رہے ہیں، یا قرآن سے وہ حصہ حذف کردیں جس میں شرک اور بت پرستی کی مذمت ہے تو ہم ایمان لانے کے لیے تیار ہیں۔ آپ کو مقصد سے پھیرنے کے لیے کبھی فریب کاریوں سے، کبھی لالچ سے اور کبھی دھمکیوں سے انھوں نے بیشمار جتن کیے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ انھیں صاف کہہ دیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے ذمے وہ بات نہیں لگا سکتا جو اس نے میری طرف وحی نہ کی ہو۔ ان کے تقاضے اور آپ کے جواب کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة یونس (١٥ تا ١٧) ۔- وَاِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِيْلًا : کیونکہ توحید کی دعوت سے پہلے وہ آپ سے دلی محبت رکھتے تھے، آپ کو صادق اور امین کہتے تھے۔ اب آپ ان کی طرف مائل ہونے کے تھوڑے سے بھی قریب ہوجائیں تو وہ آپ سے پھر وہی دلی دوستی رکھنے کے لیے تیار ہیں۔ خلیل وہ دوست جس کی دوستی دل کے اندر ہو، جیسا کہ فرمایا : (وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِيْمَ خَلِيْلًا) [ النساء : ١٢٥ ] ” اور اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا۔ “
خلاصہ تفسیر :- اور یہ کافر لوگ (اپنی قوی تدبیروں کے ذریعہ) آپ کو اس چیز سے بچلانے (اور ہٹانے) ہی لگے تھے جو ہم نے آپ پر بذریعہ وحی بھیجی ہے (یعنی اس کوشش میں لگے تھے کہ آپ سے حکم خداوندی کے خلاف عمل کرا دیں اور) تاکہ آپ اس (حکم الہی) کے سوا ہماری طرف (عملا) غلط بات کی نسبت کردیں (کیونکہ نبی کا فعل خلاف شرع ہوتا نہیں اس لئے اگر نعوذ باللہ آپ سے کوئی عمل خلاف شرع ہوجاتا تو یہ لازم آتا کہ اس خلاف شرع عمل کو گویا اللہ کی طرف منسوب کر رہے ہیں) اور ایسی حالت میں آپ کو خالص دوست بنا لیتے اور (ان کی یہ شرارت ایسی سخت تھی کہ) اگر ہم نے آپ کو ثابت قدم نہ بنایا ہوتا (یعنی معصوم نہ کیا ہوتا) تو آپ ان کی طرف کچھ کچھ جھکنے کے قریب جا پہونچتے (اور) اگر ایسا ہوجاتا (کہ آپ کا کچھ میلان ان کی طرف ہوتا) تو ہم آپ کو (اس وجہ سے کہ مقربان بارگاہ کا مقام بہت بلند ہے) حالت حیات میں بھی اور بعد موت کے بھی دوہرا عذاب چکھاتے پھر آپ ہمارے مقابلہ میں کوئی مددگار بھی نہ پاتے (مگر چونکہ آپ کو ہم نے معصوم اور ثابت قدم بنایا ہے اس لئے ان کی طرف ذرا بھی میلان نہ ہوا اور اس عذاب سے بچ گئے)- اور یہ (کافر) لوگ اس سر زمین (مکہ یا مدینہ) سے آپ کے قدم ہی اکھاڑنے لگے تھے تاکہ آپ کو اس سے نکال دیں اور اگر ایسا ہوجاتا تو آپ کے بعد یہ بھی بہت کم (یہاں) ٹھہرنے پاتے جیسا ان انبیاء (علیہم السلام) کے بارے میں (ہمارا) قاعدہ رہا ہے جن کو آپ سے پہلے رسول بنا کر بھیجا تھا (کہ جب ان کی قوم نے ان کو وطن سے نکالا تو پھر اس قوم کو بھی یہاں رہنا نصیب نہیں ہوا) اور آپ ہمارے قاعدے میں تغیر تبدل نہ پائیں گے۔- معارف و مسائل :- مذکورہ آیات میں سے پہلی تین آیتیں ایک خاص واقعہ سے متعلق ہیں تفسیر مظہری میں اس واقعہ کی تعیین کے متعلق چند روایتیں نقل کی ہیں جن میں سے اقرب اور مؤ ید باشارات القرآن یہ واقعہ ہے جو بتخریج ابن ابی حاتم بروایت جبیر ابن نفیر (رض) نقل کیا ہے کہ قریش مکہ کے چند سردار آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اگر آپ واقعی ہماری طرف بھیجے گئے ہیں تو پھر اپنی مجلس سے ان غریب شکستہ حال لوگوں کو ہٹا دیجئے جن کے ساتھ بیٹھنا ہمارے لئے توہین ہے تو پھر ہم آپ کے اصحاب اور دوست ہوجائیں گے ان کی اس بات پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ خیال پیدا ہوا کہ ان کی بات پوری کردیں شاید یہ مسلمان ہوجائیں جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- اس آیت میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باخبر کردیا گیا کہ ان کی بات فتنہ ہے ان کی دوستی بھی فتنہ ہے آپ کو ان کی بات نہیں ماننی چاہئے اور پھر ارشاد فرمایا کہ اگر ہماری طرف سے آپ کی تربیت اور ثابت قدم رکھنے کا اہتمام نہ ہوتا تو کچھ بعید نہیں تھا کہ آپ ان کی بات کی طرف میلان کے تھوڑے سے قریب ہوجاتے۔- تفسیر مظہری میں ہے کہ اس آیت سے یہ بات واضح طور پر سمجھی جاتی ہے کہ کفار قریش کی لغویات کی طرف رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے میلان کا تو کوئی احتمال ہی نہ تھا ہاں میلان کے قریب ہوجانے کا وہ بھی بہت قدر قلیل حد میں امکان تھا مگر اللہ تعالیٰ نے معصوم بنا کر اس سے بھی بچا لیا غور کیا جائے تو یہ آیت انبیاء (علیہم السلام) کی اعلیٰ ترین پاکیزہ خلقت و طبیعت پر بڑی دلیل ہے کہ اگر پیغمبرانہ عصمت بھی نہ ہوتی تب بھی نبی کی فطرت ایسی تھی کہ کفار کی لغو بات کی طرف میلان ہوجانا اس سے ممکن نہ تھا ہاں میلان کے کچھ قریب بقدر قلیل کا احتمال تھا جو پیغمبرانہ عصمت نے ختم کردیا۔
وَاِنْ كَادُوْا لَيَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهٗ ڰ وَاِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِيْلًا 73- كَادَ- ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] ، تَكادُ السَّماواتُ- [ مریم 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال - قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس .- ( ک و د ) کاد - ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے - فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - فری - الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] ، - ( ف ری ) القری ( ن )- کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔- وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- خلیل - : المودّة، إمّا لأنّها تتخلّل النّفس، أي : تتوسّطها، وإمّا لأنّها تخلّ النّفس، فتؤثّر فيها تأثير السّهم في الرّميّة، وإمّا لفرط الحاجة إليها، يقال منه : خاللته مُخَالَّة وخِلَالًا فهو خلیل، وقوله تعالی: وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء 125] ، قيل : سمّاه بذلک لافتقاره إليه سبحانه في كلّ حال الافتقار المعنيّ بقوله : إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] ، وعلی هذا الوجه قيل :( اللهمّ أغنني بالافتقار إليك ولا تفقرني بالاستغناء عنك) وقیل : بل من الخلّة، واستعمالها فيه کاستعمال المحبّة فيه، قال أبو القاسم البلخيّ : هو من الخلّة لا من الخلّة، قال : ومن قاسه بالحبیب فقد أخطأ، لأنّ اللہ يجوز أن يحبّ عبده، فإنّ المحبّة منه الثناء ولا يجوز أن يخالّه، وهذا منه اشتباه، فإنّ الخلّة من تخلّل الودّ نفسه ومخالطته، کقوله :- قد تخلّلت مسلک الرّوح منّي ... وبه سمّي الخلیل خلیلا - ولهذا يقال : تمازج روحانا . والمحبّة : البلوغ بالودّ إلى حبّة القلب، من قولهم : حببته : إذا أصبت حبّة قلبه، لکن إذا استعملت المحبّة في اللہ فالمراد بها مجرّد الإحسان، وکذا الخلّة، فإن جاز في أحد اللّفظین جاز في الآخر، فأمّا أن يراد بالحبّ حبّة القلب، والخلّة التّخلّل، فحاشا له سبحانه أن يراد فيه ذلك . وقوله تعالی: لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة 254] ، أي : لا يمكن في القیامة ابتیاع حسنة ولا استجلابها بمودّة، وذلک إشارة إلى قوله سبحانه : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم 39] ، وقوله : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ- [إبراهيم 31] ، فقد قيل : هو مصدر من خاللت، وقیل : هو جمع، يقال : خلیل وأَخِلَّة وخِلَال والمعنی كالأوّل .- الخلتہ - دوستی محبت اور دوستی کو خلتہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ دل کے اندر سرایت کر جاتی ہے ۔ اور یا اس لئے کہ وہ دل کے اندر داخل ہوکر اس طرح اثر کرتی ہے جس طرح تیر نشانہ پر لگ کر اس میں نشان ڈال دیتا ہے ۔ اور یا اس لئے کہ اس کی سخت احتیاج ہوتی ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے : اور آیت کریمہ : وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْراهِيمَ خَلِيلًا [ النساء 125] اور خدا نے ابراہیم کو اپنا دوست بنایا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس لئے خلیل کہا ہے کہ وہ ہر حال میں باری تعالیٰ کے محتاج تھے اور یہ احتیاج ویسے ہی ہے ۔ جس کی طرف آیت ؛ إِنِّي لِما أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ [ القصص 24] میں اس کا محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اسی معنی میں کہا گیا ہے ؛ اے اللہ مجھے اپنی احتیاج کے ساتھ غنی کر اور اپنی ذات سے بےنیاز کر کے کسی دوسرے کا محتاج نہ بنا ۔ بعض نے کہا ہے کہ خلیل خلتہ سے ہے اور اللہ کے حق میں خلتہ کے لفظ کے وہی معنی ہیں جو لفظ محبت کے ہیں ۔ ابو القاسم البلخی کا ذ کہنا کہ یہ خلتہ ( احتیاج ) سے ہے اور کلتہ ( دوستی ) سے نہیں ہے ۔ جو لوگ اسے حبیب پر قیاس کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے سے محبت کرنا تو جائز ہے اسی لئے کہ محبت اس کی ثنا میں داخل ہے ۔ لیکن خلتہ کے معنی دوستی کے دل میں سرایت کر جانے کے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع تم میرے لئے بمنزلہ روح کے ہوا ( اور اسی سبب سے خلیل کو خلیل کہا جاتا ہے اسی بنا پر مشہور محاورہ ہے ۔ تمازج روح ۔ ہماری روحیں باہم مخلوط ہیں ۔ اور محبت کے معنی ھبہ قلب میں دوستی رچ جانے کے ہیں یہ حبیبتہ سے مشتق ہے جس کے معنی حبہ پر مارنے کے ہیں ۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کے متعلق محبت کا لفظ استعمال ہو تو اس سے مراد اھسان اور مہربانی کے ہوتے ہیں لہذا یہی معنی خلتہ سے مراد ہوں گے ۔ کیونکہ اگر ایک میں یہ تاویل صحیح ہے تو دوسرے میں بھی ہوسکتی ہے ۔ مگر حب سے حبتہ القلب مراد لینا اور خلتہ سے اللہ تعالیٰ کے حق میں تخلل کاز معنی لینا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ ذات باری تعالیٰ ان باتوں سے بلند ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خُلَّةٌ [ البقرة 254] جس میں نہ ( اعمال ) کا سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئے گی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن نہ تو حسنات کی خرید وفروخت ہوگی اور نہ ہی یہ مودت کے ذریعہ حاصل ہوسکیں گی تو گویا یہ آیت : وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا ما سَعى [ النجم 39] اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے ) کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا بَيْعٌ فِيهِ وَلا خِلالٌ [إبراهيم 31] جس میں نہ ( اعمال کا ) سودا ہوگا اور نہ دوستی کام آئیگی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ خلال باب معاعلہ سے مصدر ہے ۔ اور بعض کے نزدیک یہ خلیل کی جمع ہے کیونکہ اس کی جمع اخلتہ وخلال دونوں آتی ہیں اور یہ پہلی ایت کے ہم معنی ہے ۔
(٧٣) اور یہ کافر لوگ آپ کو ان کے بتوں کے توڑنے سے بچلانے اور ہٹانے ہی لگے تھے تاکہ آپ اس حکم وحی کے علاوہ ہماری طرف غلط بات کی نسبت کردیں اور اس صورت میں کہ آپ ان کی بات مانتے وہ آپ کو اپنا گہرا دوست بنا لیتے، یہ آیت قبیلہ ثقیف کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔- شان نزول : (آیت ) ”۔ وان کادوا لیفتنونک “۔ (الخ)- ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ابن اسحاق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ محمد بن ابی محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عکرمہ کے ذریعے سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ امیہ بن خلف، ابوجہل اور کچھ قریشی چلے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ محمد چلو اور نعوذ باللہ ہمارے بتوں کو چھولو، ہم آپ کجے ساتھ آپ کے دین میں داخل ہوجائیں گے۔- اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قوم کے اسلام قبول کرنے کے خواہاں رہتے تھے، چانچہ ان کے لیے نرم ہوگئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔- امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ جتنی روایات اس آیت کے شان نزول کے بارے میں مروی ہیں، یہ سب سے زیادہ صحیح ہے، اس کی سند جید ہے اور اس کا شاہد بھی موجود ہے۔- چناچہ ابوالشیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سعید بن جبیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجر اسود کو بوسہ دے رہے تھے تو کافروں نے کہا ہم آپ کو اس وقت حجر اسود کا استلام نہیں کرنے دیں گے، تاوقتیکہ آپ ہمارے بتوں کا استلام نہ کریں تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمانے لگے اگر میں ایسا کرلوں تو کیا حرج ہے جب کہ اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے کہ میں ان بتوں کے مخالف ہوں اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اسی طرح ابن شہاب سے روایت کیا گیا ہے ؛۔- نیز جبیر بن نفیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ قریش رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ اگر آپ ہماری طرف رسول ہو کر آئے ہیں تو ان غرباء اور غلاموں کی جو آپ کے پیرو ہیں اپنے پاس سے بالکل ہٹا دیجیے تاکہ ہم آپ کے تابع اور اصحاب ہوجائیں یہ سن کر آپ کچھ ان کی طرف متوجہ سے ہوئے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- اور محمد بن کعب قرظی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے سورة نجم کی (آیت ) ” افرایتم اللات والعزی “۔ تک تلاوت فرمائی تو شیطان نے یہ الفاظ آپ پر القاء کردیے۔ (آیت) ” تلک الغرانیق العلی وان شفاعتھن لترتجی “۔- چناچہ فورا یہ آیت نازل ہوئی، اس کے نزول کے بعد آپ برابر مغموم رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی۔ (آیت) ” وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی الا اذا تمنی القی الشیطان فی امنیۃ “۔ یہ روایات اس بات پر دال ہیں کہ یہ آیات مکی ہیں۔- اور جن حضرات نے ان روایتوں کو مدنی شمار کیا ہے، انھوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جس کو ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک قبیلہ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کی کہ ہمیں ایک سال کی مہلت دیجیے تاآنکہ ہمارے بتوں کے چڑھاوے آجائیں، پھر ہم اپنے بتوں کے چڑھاوے وصول کر کے اسلام لے آئیں، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کو مہلت دینے کا ارادہ کرلیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی مگر اس روایت کی سند ضعیف ہے۔- ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دلائل میں شہر بن حوشب کے واسطہ سے عبدالرحمن بن غنم سے روایت کیا ہے کہ یہودی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے اگر آپ نبی ہیں تو شام جائیے کیوں کہ وہ ارض محشر اور سرزمین انبیاء کرام ہے ان کی یہ بات سن کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس چیز کا خیال ہوگیا چناچہ آپ نے ملک شام کے ارادہ سے غزوہ تبوک کیا، جب آپ تبوک پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے سورة بنی اسرائیل کی تکمیل کے بعد سورة بنی اسرائیل کی یہ آیات نازل فرمائیں (آیت) ” وان کادوا “۔ یعنی لوگ اس سرزمین سے آپ کے قدم بھی اکھاڑنے لگے تھے تاکہ آپ کو اس سے نکال دیں، اور اگر یہ آپ کو مدینہ منورہ سے نکال دیتے تو یہ بھی بہت کم ٹھہر پاتے، یہاں تک کہ ہم ان کو ہلاک کردیتے۔
آیت ٧٣ (وَاِنْ كَادُوْا لَيَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهٗ )- یہ آیت اس بےپناہ دباؤ کی طرف اشارہ کر رہی ہے جس کا سامنا رسول اللہ کو قریش کی طرف سے مکہ میں تھا۔ ایک طرف تو قریش مکہ آپ پر مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے کہ آپ قرآن کے غیر لچک دار احکام میں کچھ نرمی پیدا کریں اس کلام میں کچھ ترمیم کرلیں کچھ اپنی بات منوائیں اور کچھ ہماری مانیں۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورة یونس (آیت ١٥) میں بھی آچکا ہے : (ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ) ” (اے محمد) آپ اس کے علاوہ کوئی دوسرا قرآن پیش کریں یا پھر اس میں کچھ ردّوبدل کرلیں۔ “- دوسری طرف وہ مسلسل یہ مطالبہ بھی کیے جاتے تھے کہ اگر آپ اللہ کے رسول ہیں تو نشانی کے طور پر ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں۔ ان کا یہ مطالبہ ان کے عوام تک میں بہت مقبول ہوچکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضور کی اپنی خواہش بھی یہی تھی کہ انہیں کوئی معجزہ دکھا دیا جائے ‘ مگر اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا کہ انہیں کوئی حسی معجزہ نہیں دکھایا جائے گا۔ اس سے پہلے سورة الانعام (آیت ٣٥) میں ہم اللہ تعالیٰ کا دو ٹوک فیصلہ بایں الفاظ پڑھ آئے ہیں : (وَاِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ اِعْرَاضُهُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَاۗءِ فَتَاْتِيَهُمْ بِاٰيَةٍ ) ” اور اگر آپ پر ان کی یہ بےاعتنائی گراں گزرتی ہے تو اگر آپ استطاعت رکھتے ہیں تو زمین میں کوئی سرنگ کھودیں یا آسمان میں کوئی سیڑھی لگائیں اور لے آئیں ان کے لیے کوئی معجزہ “ چناچہ ان دونوں پہلوؤں سے حضور کو شدید دباؤ کا سامنا تھا اور اسی دباؤ کا اظہار اس آیت میں نظر آ رہا ہے ۔- (وَاِذًا لَّاتَّخَذُوْكَ خَلِيْلًا)- تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ اس نوعیت کی مداہنت ( ) کے عوض وہ لوگ آپ کو اپنا بادشاہ بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار تھے ۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :87 یہ ان حالات کی طرف اشارہ ہے جو پچھلے دس بارہ سال سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکے میں پیش آرہے تھے ۔ کفار مکہ اس بات کے درپے تھے کہ جس طرح بھی ہو آپ کو توحید کی اس دعوت سے ہٹا دیں جسے آپ پیش کر رہے تھے اور کسی نہ کسی طرح آپ کو مجبور کر دیں کہ آپ ان کے شرک اور رسوم جاہلیت سے کچھ نہ کچھ مصالحت کرلیں ۔ اس غرض کے لیے انہوں نے آپ کو فتنے میں ڈالنے کی ہر کوشش کی ۔ فریب بھی دیے ، لالچ بھی دلائے ، دھمکیاں بھی دیں ، جھوٹے پروپگنڈے کا طوفان بھی اٹھایا ، ظلم و ستم بھی کیا ، معاشی دباؤ بھی ڈالا ، معاشرتی مقاطعہ بھی کیا ، اور وہ سب کچھ کر ڈالا جو کسی انسان کے عزم کو شکست دینے کے لیے کیا جاسکتا تھا ۔