Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

74۔ 1 اس میں اس عصمت کا بیان ہے جو اللہ کی طرف سے انبیاء (علیہم السلام) کو حاصل ہوتی ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ مشرکین اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتے تھے، لیکن اللہ نے آپ کو ان سے بچایا اور آپ ذرا بھی ان کی طرف نہیں جھکے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٣] کفار مکہ کی آپ سے سمجھوتہ کی کوششیں :۔ کفار مکہ نے جب دیکھا کہ ان کی مقدور بھر کوششوں کے باوجود اسلام پھیلتا ہی جارہا ہے۔ تو انہوں نے کئی بار آپ سے باہمی سمجھوتہ کی کوششیں کیں۔ ایک دفعہ یہ پیش کش کی اگر آپ ہمارے بتوں سے متعلقہ آیات پڑھنا چھوڑ دیں تو ہم آپ کے مطیع بننے کو تیار ہیں۔ لیکن آپ ان کی یہ بات کیسے مان سکتے تھے ؟ اور ایک دفعہ یہ پیشکش کی کہ اگر آپ حکومت چاہتے ہیں تو ہم آپ کو اپنا حاکم بنانے پر تیار ہیں۔ اگر مال و دولت چاہتے ہیں تو تمہارے قدموں میں مال و دولت کے ڈھیر لگا دیتے ہیں اور اگر آپ کو کسی عورت سے محبت ہے تو ہم اس سے آپ کی شادی کردیں گے بشرطیکہ آپ جو دعوت پیش کر رہے ہیں اس سے باز آجائیں۔ گویا ان کے خیال کے مطابق ایک عام انسان کا منتہائے مقصود یہی تین چیزیں ہوسکتی ہیں۔ جو انہوں نے پیش کردیں۔ اور یہ پیش کش آپ کے ہمدرد و غمخوار اور سرپرست چچا ابو طالب کی موجودگی میں کی گئی۔ چونکہ سب سرداران قریش مل کر آئے تھے اس لیے ابو طالب کے پائے استقلال میں بھی لغزش آگئی اور وہ بھی آپ کو سمجھانے لگے۔ یہ معاملہ دیکھ کر آپ روپڑے اور اپنے چچا سے کہنے لگے چچا جان اگر ان لوگوں میں اتنی طاقت ہو کہ وہ میرے ایک ہاتھ پر سورج لا کر رکھ دیں اور دوسرے پر چاند لاکر رکھ دیں تب بھی میں اس کام سے باز نہیں آسکتا۔ یا تو یہ کام پورا ہو کے رہے گا یا پھر میری جان بھی اسی راہ میں قربان ہوگی بھتیجے کا یہ استقلال دیکھ کر چچا کی بھی ہمت بندھ گئی اور کہنے لگا بھتیجے جو کچھ کرنا چاہتے ہو کرتے جاؤ۔ جب تک میں زندہ ہوں تمہاری حمایت پر کمر بستہ رہوں گا چناچہ قریشیوں کا وفد ناکام اٹھ کر چلا گیا۔- ان آیات میں ایسے ہی واقعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے تمہیں جو استقلال کی توفیق ہوئی تو یہ اللہ کی طرف سے ہی تھی اور اگر اللہ کی طرف سے ایسی توفیق نصیب نہ ہوتی تو آپ کچھ نہ کچھ تھوڑا بہت ان کی طرف جھک بھی سکتے تھے۔ اگر ایسی صورت پیش آجاتی تو کفار مکہ تو تم سے ضرور خوش ہوجاتے اور وہ تمہیں اپنا دوست بھی بنا لیتے مگر اللہ کی طرف سے آپ کو نبی ہونے کی بنا پر اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دوہرا عذاب پہنچ سکتا ہے۔- اپنے نبی کو تو اللہ تعالیٰ نے اپنی توفیق اور مہربانی سے حق و باطل کی اس آمیزش سے بچا لیا۔ اب یہ تمام تر عتاب ان مسلمانوں کے لیے ہے جو محض چند ٹکوں کی خاطر حق و باطل میں سمجھوتہ کرلیتے ہیں۔ اس طرح خود بھی گمراہ ہوتے اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ ۔۔ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ثابت رکھنے کی وجہ سے آپ ان کی طرف مائل ہونے کے تھوڑا سا قریب بھی نہیں ہوئے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ کی فطرت اتنی سلیم تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ کا خاص طور پر آپ کو ثابت رکھنا نہ ہوتا تو پھر بھی آپ زیادہ سے زیادہ ان کی طرف مائل ہونے کے تھوڑے سے قریب ہی ہوتے، پوری طرح مائل چھوڑ کر مائل ہونے کے پوری طرح قریب بھی نہ ہوتے۔ اس کے باوجود آپ کبھی اپنے آپ پر بھروسا نہیں کرتے تھے، انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کثرت سے یہ دعا کیا کرتے تھے : ( یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِيْ عَلٰی دِیْنِکَ ) [ ترمذی، القدر، باب ما جاء أن القلوب بین أصبعي الرحمان : ٢١٤٠، صححہ الألباني ] ” اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ۔ “ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو اہل ایمان کا کفار کی طرف مائل ہونے کے قریب ہونا بھی گوارا نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَيْهِمْ شَـيْــــًٔـا قَلِيْلًا 74؀ڎ- ثبت - الثَّبَات ضدّ الزوال، يقال : ثَبَتَ يَثْبُتُ ثَبَاتاً ، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45]- ( ث ب ت ) الثبات - یہ زوال کی ضد ہے اور ثبت ( ن ) ثباتا کے معنی ایک حالت پر جمے رہنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] مومنو جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔- ركن - رُكْنُ الشیء : جانبه الذي يسكن إليه، ويستعار للقوّة، قال تعالی: لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلى رُكْنٍ شَدِيدٍ [هود 80] ، ورَكنْتُ إلى فلان أَرْكَنُ بالفتح، والصحیح أن يقال : رَكَنَ يَرْكُنُ ، ورَكِنَ يَرْكَنُ «2» ، قال تعالی: وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا[هود 13] ،- ( ر ک ن ) رکن - ۔ کسی چیز کی وہ جانب جس کے سہارے پر وہ قائم ہوتی ہے استعارہ کے طور پر ذور اور قوت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلى رُكْنٍ شَدِيدٍ [هود 80] اے کاش ( آج ) مجھ کو تمہارے مقابلہ کی طاقت ہوئی یا میں کسبی زبر دست سہارے کا آسرا پکڑا جاتا ۔ اور رکنت الی ٰ فلان ارکن کے معنی کسی کیطرف مائل ہونے کے ہیں یہ فتح کاف کے ساتھ ہے مگر صحیح رکن یر کن ( ن) یا رکن یر کن ( س) ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا[هود 13] جن لوگوں نے ہماری نافرمانی کی انکی طرف نہ جھکنا ۔- قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٤) اور اگر ہم نے آپ کو ثابت قدم نہ بنایا ہوتا اور آپ کی حفاظت نہ کی ہوتی تو آپ ان کے مطالبہ کے مطابق ان کی طرف کچھ کچھ جھکنے کے قریب جا پہنچتے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤ (وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰكَ لَقَدْ كِدْتَّ تَرْكَنُ اِلَيْهِمْ شَـيْــــًٔـا قَلِيْلًا)- یہ بہت نازک اور اہم مضمون ہے۔ حضرت یوسف کے بارے میں سورة یوسف آیت ٢٤ میں اسی طرح فرمایا گیا تھا : (وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهٖ ۚ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖ ) یعنی عزیز مصر کی بیوی نے تو قصد کر ہی لیا تھا اور یوسف بھی قصد کرلیتے اگر وہ اللہ کی برہان نہ دیکھ لیتے۔ یعنی یہ امکان تھا کہ بر بنائے طبع بشری وہ بھی ارادہ کر بیٹھتے مگر اللہ نے انہیں اس سے محفوظ رکھنے کا اہتمام فرمایا۔ حضور کے لیے بھی یہاں اسی طرح فرمایا کہ اگر ہم نے آپ کے پاؤں جما کر آپ کے دل کو اچھی طرح سے مضبوط نہ کردیا ہوتا تو قریب تھا کہ آپ کسی نہ کسی حد تک ان کی طرف مائل ہوجاتے۔ بہرحال ان الفاظ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ پر اس دور میں قریش مکہ کی طرف سے کس قدر شدید دباؤ تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani