وطنی عصبیت اور یہودی کہتے ہیں کہ یہودیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ آپ کو ملک شام چلا جانا چاہئے وہی نبیوں کا وطن ہے اس شہر مدینہ کو چھوڑ دینا چاہئے اس پر یہ آیت اتری ۔ لیکن یہ قول ضعیف ہے اس لئے کہ آیت مکی ہے اور مدینے میں آپ کی رہائش اس کے بعد ہوئی ہے کہتے ہیں کہ تبوک کے بارے میں یہ آیت اتری ہے یہودیوں کے کہنے سے کہ شام جو نبیوں کی اور محشر کی زمین ہے آپ کو وہیں رہنا چاہئے ، اگر آپ سچے ہی سورہ بنی اسرائیل کی آیتیں اتریں ، اس کے بعد سورت ختم کر دی گئی تھی آیت ( وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيْلًا ) 17- الإسراء:76-77 ) اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو مدینے کی واپسی کا حکم دیا اور فرمایا وہیں آپ کی موت زیست اور وہیں سے دوبارہ اٹھ کر کھڑا ہونا ہے ۔ لیکن اس کی سند بھی غور طلب ہے اور صاف ظاہر ہے کہ یہ واقعہ بھی ٹھیک نہیں تبوک کا غزوہ یہود کے کہنے سے نہ تھا بلکہ اللہ کا فرمان موجود ہے آیت ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً ۭ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِيْنَ ١٢٣ ) 9- التوبہ:123 ) جو کفار تمہارے ارد گرد ہیں ان سے جہاد کرو ۔ اور آیت میں ہے کہ جو اللہ پر اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتے اللہ رسول کے حرام کردہ کو حرام نہیں سمجھتے ہیں اور حق کو قبول نہیں کرتے ایسے اہل کتاب سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو یہاں تک کہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دینا منظور کرلیں ۔ اور اس غزوے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے جو اصحاب جنگ موتہ میں شہید کر دئے گئے تھے ان کا بدلہ لیا جائے ، واللہ اعلم ۔ اور اگر مندرجہ بالا واقعہ صحیح ہو جائے تو اسی پر وہ حدیث محمول کی جائے گی ، جس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مکہ مدینہ اور شام میں قرآن نازل ہوا ہے ۔ ولید تو اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ شام سے مراد بیت المقدس ہے لیکن شام سے مراد تبوک کیوں نہ لیا جائے جو بالکل صاف اور بہت درست ہے ۔ واللہ اعلم ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد کافروں کا وہ ارادہ ہے جو انہوں نے مکے سے جلا وطن کرنے کے بارے میں کیا تھا چنانچہ یہی ہوا بھی کہ جب انہوں نے آپ کو نکالا ۔ پہر یہ بھی وہاں زیادہ مدت نہ گزار سکے ، اللہ تعالیٰ نے فورا ہی آپ کو غالب کیا ۔ ڈیرھ سال ہی گزرا تھا کہ بدر کی لڑائی بغیر کسی تیاری اور اطلاع کے اچانک ہو گئی اور وہیں کافروں کا اور کفر کا دھڑا ٹوٹ گیا ، ان کے شریف و رئیس تہ تیغ ہوئے ، ان کی شان و شوکت خاک میں مل گئی ، ان کے سردار قید میں آ گئے ۔ پس فرمایا کہ یہی عادت پہلے سے جاری ہے ۔ سابقہ رسولوں کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ کفار نے جب انہیں تنگ کیا اور دیس سے نکال دیا پھر وہ بچ نہ سکے ، عذاب اللہ نے انہیں غارت اور بےنشان کر دیا ۔ ہاں چونکہ ہمارے پیغمبر رسول رحمت تھے ، اس لئے کوئی آسمانی عام عذاب ان کافروں پر نہ آیا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم ) یعنی تیری موجودگی میں اللہ انہیں عذاب نہ کرے گا ۔
76۔ 1 یہ سازش کی طرف اشارہ ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکالنے کے لئے قریش مکہ نے تیار کی تھی، جس سے اللہ نے آپ کو بچا لیا۔ 76۔ 2 یعنی اگر اپنے منصوبے کے مطابق یہ آپ کو مکہ سے نکال دیتے تو یہ بھی اس کے بعد زیادہ دیر نہ رہتے یعنی عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاتے۔
[٩٤] ہجرت کے ساتھ ہی کفار مکہ کے زوال کا آغاز :۔ جن ایام میں یہ آیت نازل ہوئی اس وقت مسلمانوں پر کفار مکہ کا تشدد اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا ان ایام میں ایسی آیت کا نزول کفار مکہ کے حق میں ایک صریح پیشینگوئی تھی جسے انہوں نے اپنی طاقت کے نشہ میں محض ایک دھمکی ہی سمجھا جیسا کہ دوسری عذاب کی آیات متعلقہ اقوام سابقہ میں بھی ایسے اشارات پائے جاتے تھے مگر آنے والے حالات اور واقعات نے اس پیشینگوئی کو حرف بحرف سچا ثابت کردیا۔ اس آیت کے نزول کے ایک سال بعد آپ مکہ کو چھوڑنے اور مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے پر مجبور ہوگئے۔ اس کے بعد قریش کی طاقت میں دم بدم زوال آنا شروع ہوا اور صرف آٹھ سال بعد معاملہ بالکل الٹ ہوگیا۔ ظلم و تشدد کرنے والے خود محکوم بن گئے اور پیغمبر اسلام سے رحم کی التجا پر مجبور ہوگئے۔ بعد میں اکثر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ حتیٰ کہ مزید دو سال بعد سرزمین عرب کفر و شرک کی نجاست سے پاک ہوگئی۔
وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ ۔۔ :” اِسْتَفَزَّ “ کا معنی کسی کو گھبراہٹ میں ڈال کر پھسلا دینا ہے۔ ” اَلْاَرْضَ “ میں الف لام عہد کا ہے، مراد ارض مکہ ہے، یعنی جب قریش کی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو توحید سے روکنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں تو انھوں نے آپ کو سخت تنگ اور پریشان کرنا شروع کردیا، تاکہ آپ گھبرا جائیں اور مکہ سے نکل جائیں۔ - وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا : چناچہ ایسا ہی ہوا کہ بعد میں جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کرکے مدینہ چلے آئے تو ڈیڑھ سال کے بعد ان کے بڑے بڑے سردار بدر میں مارے گئے، آپ کی بددعا سے اہل مکہ قحط اور خوف کا شکار ہوگئے، حتیٰ کہ آٹھ ( ٨) ہجری میں خود مکہ بھی فتح ہوگیا، جس سے ان کی شان و شوکت اور حکومت خاک میں مل گئی۔ ایک مغرور قوم کے لیے یہ عذاب ہی کیا کم ہے کہ وہی شخص جسے انھوں نے نکالا تھا، ان پر فتح پا کر شہر کا مالک بن جائے۔
(آیت) وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ ۔ استفزاز کے لفظی معنی قطع کرنے کے ہیں یہاں مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے مستقر مکہ یا مدینہ سے نکال دینا ہے اور معنی آیت کے یہ ہیں کہ قریب تھا کہ یہ کفار آپ کو اپنی زمین سے نکال دیں اور اگر وہ ایسا کرلیتے تو اس کی سزاء ان کو یہ ملتی کہ وہ بھی آپ کے بعد زیادہ دیر اس شہر میں نہ رہ پاتے یہ ایک دوسرے واقعہ کا بیان ہے اور اس کی تعیین میں بھی دو روایتیں منقول ہیں ایک واقعہ مدینہ طبیہ کا ہے کہ یہود مدینہ ایک روز رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے ابو القاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر آپ اپنی نبوت کے دعوے میں سچے ہیں تو آپ کو چاہئے کہ ملک شام میں جا کر رہیں کیونکہ ملک شام ہی محشر کی زمین ہے اور وہی انبیاء (علیہم السلام) کی زمین ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان کے کلام کا کچھ اثر ہوا اور غزوہ تبوک کے وقت جو ملک شام کا سفر ہوا تو آپ کا قصد یہ تھا کہ ملک شام کو اپنا ایک مستقر بنائیں مگر یہ آیت نازل ہوئی وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ جس میں آپ کو اس ارادہ سے روک دیا گیا مگر ابن کثیر نے اس روایت کو نقل کر کے ناقابل اطمینان قرار دیا ہے۔- اور اس آیت کا مصداق ایک دوسرا واقعہ بتلایا ہے جو مکہ مکرمہ میں پیش آیا اور اس سورت کا مکی ہونا اس کے لئے قوی قرینہ ہے اور وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ کفار قریش نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ مکرمہ سے نکالنے کا ارادہ کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ اور اس میں کفار مکہ کو اس پر تنبیہ فرمائی کہ اگر وہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ سے نکال دیں گے تو پھر خود بھی مکہ میں دیر تک چین سے نہ بیٹھ سکیں گے ابن کثیر نے اسی واقعہ کا مصداق آیت ہونا راجح قرار دیا ہے اور پھر بتلایا کہ قرآن کریم کی یہ وعید بھی کفار مکہ نے کھلی آنکھیں دیکھ لی کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمائی تو مکہ والے ایک دن بھی مکہ میں چین سے نہیں بیٹھ سکے صرف ڈیڑھ سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو میدان بدر میں جمع کردیا جہاں ان کے ستر سردار مارے گئے اور ان کی قوت ٹوٹ گئی پھر غزوہ احد کے آخری نتیجہ میں ان پر مزید ہیبت طاری ہوگئی اور غزوہ احزاب کے آخری معرکہ نے تو ان کی کمر ہی توڑ دی اور ہجرت کے آٹھویں سال رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پورا مکہ مکرمہ فتح کرلیا۔
وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا 76- كَادَ- ووُضِعَ «كَادَ» لمقاربة الفعل، يقال : كَادَ يفعل : إذا لم يكن قد فعل، وإذا کان معه حرف نفي يكون لما قد وقع، ويكون قریبا من أن لا يكون . نحو قوله تعالی: لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] ، وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] ، تَكادُ السَّماواتُ- [ مریم 90] ، يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] ، يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] ، إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] ولا فرق بين أن يكون حرف النّفي متقدما عليه أو متأخّرا عنه . نحو : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] ، لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] . وقلّما يستعمل في كاد أن إلا في ضرورة الشّعر «1» . قال - قد كَادَ من طول البلی أن يمصحا«2» أي : يمضي ويدرس .- ( ک و د ) کاد - ( س ) فعل مقارب ہے یعنی کسی فعل کے قریب الوقوع ہون کو بیان کرنے کے لئے آتا ہے مثلا کا دیفعل قریب تھا وہ اس کا م کو گزرتا یعنی کرنے والا تھا مگر کیا نہیں قرآن میں لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئاً قَلِيلًا[ الإسراء 74] تو تم کسی قدر ان کی طرف مائل ہونے ہی لگے تھے ۔ وَإِنْ كادُوا[ الإسراء 73] قریب تھا کہ یہ ( کافر) لگ تم اس سے بچلا دیں ۔ تَكادُ السَّماواتُ [ مریم 90] قریب ہے کہ ( اس فتنہ ) سے آسمان پھٹ پڑیں ۔ ؛ يَكادُ الْبَرْقُ [ البقرة 20] قریب ہے ک کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصاحب کو اچک لے جائے ۔ يَكادُونَ يَسْطُونَ [ الحج 72] قریب ہوتے ہیں کہ ان پر حملہ کردیں إِنْ كِدْتَ لَتُرْدِينِ [ الصافات 56] تو تو مجھے ہلا ہی کرچکا تھا ۔ اور اگر ا ن کے ساتھ حرف نفی آجائے تو اثباتی حالت کے برعکدس فعل وقوع کو بیان کرنے کیلئے آتا ہے جو قوع کے قریب نہ ہوا اور حروف نفی اس پر مقدم ہو یا متاخر دونوں صورتوں میں ایک ہی معنی دیتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَما کادُوا يَفْعَلُونَ [ البقرة 71] اور وہ ا یسا کرنے والے تھے نہیں ۔ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ [ النساء 78] کہ بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور کاد کے بعد ا ان کا استعمال صرف ضرورت شعری کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ( الرجز) ( 387 ) قد کاد من طول البلیٰ ان یمصحا قریب تھا کہ زیادہ بوسیدہ گی کے باعث وہ سٹ جائے - فز - قال تعالی: وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ [ الإسراء 64] ، أي : أزعج، وقال تعالی: فَأَرادَ أَنْ يَسْتَفِزَّهُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ الإسراء 103] ، أي : يزعجهم، وفَزَّنِي فلان، أي : أزعجني، والْفَزُّ : ولد البقرة، وسمّي بذلک لما تصوّر فيه من الخفّة، كما يسمّى عجلا لما تصوّر فيه من العجلة .- ( ف ز ز ) الا ستفزاز - ہلکا سمجھنا گھبرادینا اور جگہ سے ہٹا دینا قرآن میں ہے : ۔ وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ [ الإسراء 64] اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ ۔ فَأَرادَ أَنْ يَسْتَفِزَّهُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ الإسراء 103] تو اس نے چاہا کہ انہیں گڑ بڑ اکر سر امین ( مصر میں سے نکال دے ۔ اور فزنی فلان کے معنی ہیں اس نے مجھے پریشان کر کے میری جگہ سے ہٹا دیا اور گائے کے بچہ کو فز کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں خفت یعنی سکی پائی جاتی ہے جس طرح کہ اس میں عجلت جلدی بازی کا تصور کر کے اسے عجل کہا جاتا ہے ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔ خلف ( پیچھے )- خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11]- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔
(٧٦) اور نیز یہ یہودی اس سرزمین مدینہ منورہ سے آپ کے قدم ہی اکھاڑنے لگے تھے تاکہ آپ کو شام کی طرف نکال دیں۔
آیت ٧٦ (وَاِنْ كَادُوْا لَيَسْتَفِزُّوْنَكَ مِنَ الْاَرْضِ لِيُخْرِجُوْكَ مِنْهَا وَاِذًا لَّا يَلْبَثُوْنَ خِلٰفَكَ اِلَّا قَلِيْلًا)- یہ مکی دور کے آخری ایام کے ان حالات کی جھلک ہے جب اس کش مکش کی شدت انتہا کو پہنچ چکی تھی اور حالات بیحد نازک رخ اختیار کرچکے تھے۔ یہاں پر رسول اللہ کو (معاذ اللہ) مکہ سے نکالنے کے لیے قریش کی منصوبہ بندی کا صرف ذکر کیا گیا ہے مگر اس کی نفی کرنے کے بجائے یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ اگر ایسا ہوا تو آپ کے بعد وہ خود بھی یہاں پر زیادہ عرصہ نہیں رہ سکیں گے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ قریش کے اکثر سردار تو ہجرت کے دوسرے برس ہی جنگ بدر میں قتل ہوگئے جبکہ صرف آٹھ سال بعد مکہ شہر پر آپ کا باقاعدہ تسلط بھی قائم ہوگیا۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :89 یہ صریح پیشین گوئی ہے جو اس وقت تو صرف ایک دھمکی نظر آتی تھی ، مگر دس گیارہ سال کے اندر ہی حرف بحرف سچی ثابت ہوگئی ۔ اس سورة کے نزول پر ایک ہی سال گزرا تھا کہ کفار مکہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وطن سے نکل جانے پر مجبور کر دیا اور اس پر ۸ سال سے زیادہ نہ گزرے تھے کہ آپ فاتح کی حیثیت سے مکہ معظمہ میں داخل ہوئے ۔ اور پھر دو سال کے اندر اندر سر زمین عرب مشرکین کے وجود سے پاک کر دی گئی ۔ پھر جو بھی اس ملک میں رہا مسلمان بن کر رہا ، مشرک بن کر وہاں نہ ٹھیر سکا ۔
42: یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمانے کے بعد یہ کافر لوگ بھی مکہ مکرمہ میں زیادہ عرصہ نہیں رہ سکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ہجرت کے آٹھ سال بعد مکہ مکرمہ فتح ہوگیا۔ اور نویں سال تمام کافروں کو یہاں سے نکل جانے کا حکم مل گیا جس کی تفصیل سورۃ توبہ کے شروع میں گذر چکی ہے۔