اوقات صلوۃ کی نشاندہی نمازوں کو وقتوں کی پابندی کے ساتھ ادا کرنے کا حکم ہو رہا ہے دلوک سے مراد غرب ہے یا زوال ہے ۔ امام ابن جریر زوال کے قول کو پسند فرماتے ہیں اور اکثر مفسرین کا قول بھی یہی ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے ساتھ ان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جنہیں آپ نے چاہا دعوت کی ، کھانا کھا کر سورج ڈھل جانے کے بعد آپ میرے ہاں سے چلے ، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا ، چلو یہی وقت دلوک شمس کا ہے ۔ پس پانچوں نمازوں کا وقت اس آیت میں بیان ہو گیا ۔ غسق سے ۔ مراد اندھیرا ہے جو کہتے ہیں کہ دلوک سے مراد غروبي ہے ، ان کے نزدیک ظہر عصر مغرب عشا کا بیان تو اس میں ہے اور فجر کا بیان وقران الفجر میں ہے ۔ حدیث سے بہ تواتر اقوال وافعال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچوں نمازوں کے اوقات ثابت ہیں اور مسلمان بحمد للہ اب تک اس پر ہیں ، ہر پچھلے زمانے کے لوگ اگلے زمانے والوں سے برابر لیتے چلے آتے ہیں ۔ جیسے کہ ان مسائل کے بیان کی جگہ اس کی تفصیل موجود ہے والحمد للہ ۔ صبح کی تلاوت قرآن پر دن اور رات کے فرشتے آتے ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے تنہا شخص کی نماز پر جماعت جماعت کی نماز پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے ۔ صبح کن نماز کے وقت دن اور رات کے فرشتے اکھٹے ہوتے ہیں ۔ اسے بیان فرما کر راوی حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم قرآن کی آیت کو پڑھ لو وقران الفجر الخ ، بخاری و مسلم میں ہے کہ رات کے اور دن کے فرشتے تم میں برابر پے در پے آتے رہتے ہیں ، صبح کی اور عصر کی نماز کے وقت ان کا اجتماع ہو جاتا ہے تم میں جن فرشتوں نے رات گزاری وہ جب چڑھ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرماتا ہے ، باوجود یہ کہ وہ ان سے زیادہ جاننے والا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم ان کے پاس پہنچے تو انہیں نماز میں پایا اور واپس آئے تو نماز میں چھوڑ کر آئے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ چوکیدار فرشتے صبح کی نماز میں جمع ہوتے ہیں پھر یہ چڑھ جاتے ہیں اور وہ ٹھیر جاتے ہیں ۔ ابن جریر کی ایک حدیث میں اللہ تعالیٰ کے نزول فرمانے اور اس ارشاد فرمانے کا ذکر کیا کہ کوئی ہے ؟ جو مجھ سے استغفار کرے اور میں اسے بخشوں کوئی ہے ؟ کہ مجھ سے سوال کرے اور میں اسے دوں ۔ کوئی ہے ؟ جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا کو قبول کروں ۔ یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی ہے پس اس وقت پر اللہ تعالیٰ موجود ہوتا ہے اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کی نماز کا حکم فرماتا ہے ، فرشوں کا تو حکم ہے ہی ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ فرض نماز کے بعد کونسی نماز افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا رات کی نماز ۔ تہجد کہتے ہیں نیند کے بعد کی نماز کو ، لغت میں مفسرین کی تفسیروں میں اور حدیث میں یہ موجود ہے آپ کی عادت بھی یہی تھی کہ سو کر اٹھتے پھر تہجد پڑھتے ۔ جیسے کہ اپنی جگہ بیان موجود ہے ۔ ہاں حسن بصری کا قول ہے کہ جو نماز عشا کے بعد ہو ۔ ممکن ہے کہ اس سے بھی مراد سو جانے کے بعد ہو ۔ پھر فرمایا یہ زیادتی تیرے لئے ہے ۔ بعض تو کہتے ہیں ، تہجد کی نمازوں کے برخلاف صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض تھی ۔ بعض کہتے ہیں یہ خصوصیت اس وجہ سے ہے کہ آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف تھے اور امتیوں کی اس نماز کے وجہ سے ان کے گناہ دور ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے اس حکم کی بجا آوری پر ہم تجھے اس جگہ کھڑا کریں گے کہ جہاں کھڑا ہونے پر تمام مخلوق آپ کی تعریفیں کرے گی اور خود خالق اکبر بھی ۔ کہتے ہیں کہ مقام محمود پر قیامت کے دن آپ اپنی امت کی شفاعت کے لئے جائیں گے تاکہ اس دن کی گھبراہٹ سے آپ انہیں راحت دیں ۔ حضرت حدیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں لوگ ایک ہی میدان میں جمع کئے جائیں گے پکارنے والا اپنی آواز انہیں سنائے گا ، آنکھیں کھل جائیں گے ، ننگے پاؤں ننگ بدن ہوں گے ، جیسے کہ پیدا کئے گے تھے ، سب کھڑے ہوں گے ، کوئی بھی بغیر اجازت الہٰی بات نہ کر سکے گا ، آواز آئے گی ، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کہیں گے لبیک وسعدیک ۔ اے اللہ تمام بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے ۔ برائی تیری جانب سے نہیں ۔ راہ یافتہ وہی ہے جسے تو ہدایت بخشے ، تیرا غلام تیرے سامنے موجود ہے ، وہ تیری ہی مدد سے قائم ہے ، وہ تیری ہی جانب جھکنے والا ہے ۔ تیری پکڑ سے سوائے تیرے دربار کے اور کوئی پناہ نہیں تو برکتوں اور بلندیوں والا ہے اے رب البیت تو پاک ہے ۔ مقام محمود کا تعاف یہ مقام محمود جس کا ذکر اللہ عز و جل نے اس آیت میں کیا ہے ۔ پس یہ مقام مقام شفاعت ہے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں قیامت کے دن سب سے پہلے زمین سے آپ باہر آئیں گے ۔ اور سب سے پہلے شفاعت آپ ہی کریں گے ۔ اہل علم کہتے ہیں کہ یہی مقام محمود ہے جس کا وعدہ اللہ کریم نے اپنے رسول مقبول سے کیا ہے ۔ صلی اللہ علیہ وسلم بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی بزرگیاں ایسی ملیں گی جن میں کوئی آپ کی برابری کا نہیں ۔ سب سے پہلے آپ ہی کی قبر کی زمین شق ہو گی اور آپ سواری پر سوار محشر کی طرف جائیں گے ، آپ کا ایک جھنڈا ہو گا کہ حضرت آدم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس ہو آئیں اور سب انکار کر دیں ۔ پھر آپ کے پاس آئیں گے اور آپ اس کے لئے تیار ہوں گے جیسے کہ اس کی حدیثیں مفصل آ رہی ہے ان شاء اللہ آپ ان لوگوں کی شفاعت کریں گے جن کی بابت حکم ہو چکا ہو گا کہ انہیں جہنم کی طرف لے جائیں ۔ پھر وہ آپ کی شفاعت سے واپس لوٹا دئے جائیں گے ، سب سے پہلے آپ ہی جنت میں لے جانے کی پہلے سفارشی ہوں گے ۔ جیسے کہ صحیح مسلم کی حدیث سے ثابت ہے ۔ صور کی حدیث میں ہے کہ تمام مومن آپ ہی کی شفاعت سے جنت میں جائیں گے ۔ سب سے پہلے آپ جنت میں جائیں گے اور آپ کی امت اور امتوں سے پہلے جائے گی ۔ آپ کی شفاعت سے کم درجے کے جنتی اعلی اور بلند درجے پائیں گے ۔ آپ ہی صاحب وسیلہ ہیں جو جنت کی سب سے اعلی منزل ہے جو آپ کے سوا کسی اور کو نہیں ملنے کی ۔ یہ صحیح ہے کہ بحکم الہٰی گنہگاروں کی شفاعت فرشتے بھی کریں گے ، نبی بھی کریں گے ، مومن بھی کریں گے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت جس قدر لوگوں کے بارے میں ہو گی ان کی گنتی کا سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو علم نہیں اس میں کوئی آپ کی مثل اور برابر نہیں ۔ کتاب السیرت کے آخر میں باب الخصائص میں میں نے اسے خوب تفصیل سے بیان کیا ہے والحمد للہ ۔ اب مقام محمود کے بارے کی حدیثیں سنئے ۔ اللہ ہماری مدد کرے ۔ بخاری میں ہے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں لوگ قیامت کے دن گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہوں گے ہر امت اپنے نبی کے پیچھے ہو گی کہ اے فلاں ہماری شفاعت کیجئے ، اے فلاں ہماری شفاعت کیجئے یہاں تک کہ شفاعت کی انتہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہو گی ۔ پس یہی وہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود پر کھڑا کرے گا ۔ ابن جریر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سورج بہت نزدیک ہو گا یہاں تک کہ پسینہ آدھے کانوں تک پہنچ جائے گا ، اسی حالت میں لوگ حضرت آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے ، وہ صاف انکار کر دیں گے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہیں گے آب یہی جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں گے آپ مخلوق کی شفاعت کے لئے چلیں گے یہاں تک کہ جنت کے دروازے کا کنڈا تھام لیں ، پس اس وقت آپ کی تعریفیں کریں گے ۔ بخاری میں ہے جو شخص اذان سن کر دعا ( اللہم رب ھذہ الدعوۃ التامۃ ) الخ پڑھ لے اس کے لئے قیامت کے دن میری شفاعت حلال ہے ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت کے دن میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب اور ان کا سفارشی ہوں گا میں یہ کچھ بطور فخر کے نہیں کہتا ۔ اسے ترمذی بھی لائے ہیں اور حسن صحیح کہا ہے ۔ ابن ماجہ میں بھی یہ ہے ۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ حدیث گزر چکی ہے جس میں قرآن کو سات قرأت وں پر پڑھنے کا بیان ہے اس کے آخر میں ہے کہ میں نے کہا اے اللہ میری امت کو بخش ، الہٰی میری امت کو بخش ، تیری دعا میں نے اس دن کے لئے اٹھا رکھی ہے ، جس دن تمام مخلوق میری طرف رعبت کرے گی ، یہاں تک کہ اگر ابراہیم علیہ السلام بھی ۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن جمع ہوں گے پھر ان کے دل میں خیال ڈالا جائے گا کہ ہم کسی سے کہیں کہ وہ ہماری سفارش کر کے ہمیں اس جگہ سے آرام دے ، پس سب کے سب حضرت آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے آدم آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ، آپ کے لئے اپنے فرشتوں سے سجدہ کرایا آپ کو تمام چیزوں کے نام بتائے آپ اپنے رب کے پاس ہماری سفارش لے جائیے تاکہ ہمیں اس جگہ سے راحت ملے ، حضرت آدم علیہ السلام جواب دیں گے کہ میں اس قابل نہیں ہوں آپ کو اپنا گناہ یاد آ جائے گا اور اللہ تعالیٰ سے شرمانے لگیں ، فرمائیں گے تم حضرت نوح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جاؤ وہ اللہ کے پہلے رسول ہیں ، جنہیں زمین والوں کی طرف اللہ پاک نے بھیجا یہ آئیں گے یہاں سے بھی جواب پائیں گے کہ میں اس کے لائق نہیں ہوں ، آپ کو بھی اپنی خطا یاد آئے گی کہ اللہ سے وہ سوال کیا تھا جس کا آپ کو علم نہ تھا ۔ پس اپنے پروردگار سے شرمائیں جائیں گے اور فرمائیں گے تم ابراہیم خلیل الرحمن علیہ السلام کے پاس جاؤ وہ آپ کے پاس آئیں گے ، آپ فرمائیں کے ، میں اس قابل نہیں تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ ، ان سے اللہ نے کلام کیا ہے اور انہیں تورات دی ہے لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے لیکن وہ کہیں گے مجھ میں اتنی قابلیت کہاں ؟ پھر آپ اس قتل کا ذکر کریں گے جو بغیر کسی مقتول کے معاوضے کے آپ نے کر دیا تھا پس بوجہ اس کے شرمانے لگیں گے اور کہیں گے تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ جو اللہ کے بندے اس کا کلمہ اور اس کی روح ہے ۔ وہ یہاں آئیں گے لیکن آپ فرمائیں گے میں اس جگہ کے قابل نہیں ہوں ۔ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ جن کے اول آخر تمام گناہ بخش دئے گئے ہیں ، پس وہ میرے پاس آئیں گے میں کھڑا ہوؤں گا ۔ اپنے رب سے اجازت چاہوں گا جب اسے دیکھوں گا تو سجدے میں گر پڑوں گا ۔ جب تک اللہ کو منظور ہو گا میں سجدے میں ہی رہوں گا پھر فرمایا جائے گا ، اے محمد سر اٹھائیے ، کہئے ، سنا جائے گا ، شفاعت کیجئے ، قبول کی جائے گی ، مانگئے دیا جائے گا ، پس میں سر اٹھاؤں گا اور اللہ کی وہ تعریفیں کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا ۔ پھر میں سفارش پیش کروں گا ، میرے لئے ایک حد مقرر کر دی جائے گی ، میں انہیں جنت میں پہچا آؤں گا ، پھر دوبارہ جناب باری میں حاضر ہو کر اپنے رب کی وہ حمد بیان کروں گا جو وہ مجھے سکھائے گا پھر میں شفاعت کروں گا تو میرے لئے ایک حد مقرر کر دی جائے گی میں انہیں بھی جنت میں پہنچا آؤں گا ۔ پھر تیسری مرتبہ لوٹوں گا اپنے رب کو دیکھتے ہی سجدے میں گر پڑوں گا جب تک وہ چاہے اسی حالت میں پڑا رہوں گا پھر فرمایا جائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سر اٹھا ، بات کر ، سنی جائے گی ۔ سوال کر ، عطا فرمایا جائے گا ۔ سفارش کر ، قبول کی جائے ۔ چنانچہ میں سر اٹھا کر وہ حمد بیان کر کے جو مجھے وہی سکھائے گا سفارش کروں گا ۔ پھر چوتھی بار واپس آؤں گا اور کہوں گا باری تعالیٰ اب تو صرف وہی باقی رہ گئے ہیں جنہیں قرآن نے روک لیا ہے ۔ فرماتے ہیں جہنم میں سے وہ شخص بھی نکل آئے گا جس نے لا الہ الا اللہ کہا ہو اور ان کے دل میں ایک ذرے جتنا ایمان ہو ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ہے ۔ مسند احمد میں ہے آپ فرماتے ہیں میری امت پل صراط سے گزر رہی ہو گی میں وہیں کھڑا دیکھ رہا ہوں گا جو میرے پاس حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں اور فرمائیں گے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم انبیا کی جماعت آپ سے کچھ مانگتی ہے وہ سب آپ کے لئے جمع ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ تمام امتوں کو جہاں بھی چاہے ، الگ الگ کر دے ، اس وقت وہ سخت غم میں ہیں ، تمام مخلوق پسینوں میں گویا لگام چڑھا دی گئی ہے ۔ مومن پر تو وہ مثل زکام کے ہے لیکن کافر پر تو موت کا ڈھانپ لینا ہے ۔ آپ فرمائیں گے کہ ٹھیرو میں آتا ہوں پس آپ جائیں گے عرش تلے کھڑے رہیں گے اور وہ عزت و آبرو ملے گی کہ کسی برگزیدہ فرشتے اور کسی بھیجے ہوئے نبی رسول کو نہ ملی ہو پھر اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل علیہ السلام کی طرف وحی کرے گا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ اور کہو کہ آپ سر اٹھائیے ، مانگئے ، ملے گا ، سفارش کیجئے ، قبول ہو گی ، پس مجھے اپنی امت کی شفاعت ملے گی کہ ہر ننانوے میں سے ایک نکال لاؤں میں بار بار اپنے رب عز و جل کی طرف آتا جاتا رہوں گا اور ہر بار سفاش کروں گا یہاں تک کہ جناب باری مجھ سے ارشاد فرمائے گا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جاؤ مخلوق الہٰی میں سے جس نے ایک دن بھی خلوص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کی گواہی دی ہو اور اسی پر مرا ہو ، اسے بھی جنت میں پہنچا آؤ ۔ مسند احمد میں ہے حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت معاویہ سے رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے اس وقت ایک شخص کچھ کہہ رہا تھا ، انہوں نے بھی کچھ کہنے کی اجازت مانگی ، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجازت دی ۔ آپ کا خیال یہ تھا کہ جو کچھ یہ پہلا شخص کہہ رہا ہے وہی بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کہیں گے ۔ حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے ہیں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ زمین پر جتنے درخت اور کنکر ہیں ، ان کی گنتی کے برابر لوگوں کی شفاعت میں کروں گا ، پس اے معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کو تو اس کی امید ہو اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے ناامید ہوں؟ مسند احمد میں ہے کہ ملیکہ کے دونوں لڑکے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے ہماری ماں ہمارے والد کی بڑی ہی عزت کرتی تھیں ، بچوں پر بڑی مہربانی اور شفقت کرتی تھیں ، مہمانداری میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھتی تھیں ۔ ہاں انہوں نے جاہلیت کے زمانے میں اپنی زندہ لڑکیاں درگور کر دی تھیں ، آپ نے فرمایا پھر وہ جہنم میں پہنچی ۔ وہ دونوں ملول خاطر ہو کر لوٹے تو آپ نے حکم دیا کہ انہیں واپس بلا لاؤ وہ لوٹے اور ان کے چہروں پر خوشی تھی کہ اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی اچھی بات سنائیں گے ۔ آپ نے فرمایا سنو میری ماں اور تمہاری ماں دونوں ایک ساتھ ہی ہیں ، ایک منافق یہ سن کر کہنگ لگا کہ اس سے اس کی ماں کو کیا فائدہ ؟ ہم اس کے پیچھے جاتے ہیں ایک انصاری جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ سوالات کرنے کا عادی تھا ، کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس کے یا ان دونوں کے بارے میں آپ سے اللہ تعالیٰ نے کوئی وعدہ کیا ہے ؟ آپ سمجھ گئے کہ اس نے کچھ سنا ہے ، فرمانے لگے نہ میرے رب نے چاہا نہ مجھے اس بارے میں کوئی طمع دی ۔ سنو میں قیامت کے دن مقام محمود پر پہنچایا جاؤں گا انصاری نے کہا وہ کیا مقام ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ اس وقت جب کہ تمہیں ننگے بدن بےختنہ لایا جائے گا ۔ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے خلیل کو کپڑے پہناؤ ۔ پس دو چادریں سفید رنگ کی پہنائی جائیں گی اور آپ عرش کی طرف منہ کئے بیٹھ جائیں گے پھر میرا لباس لایا جائے گا میں ان کی دائیں طرف اس جگہ کھڑا ہوؤں گا کہ تمام اگلے پچھلے لوگ رشک کریں گے اور کوثر سے لگ کر حوض تک ان کے لئے کھول دیا جائے گا ، منافق کہنے لگے پانی کے جاری ہونے کے لئے تو مٹی اور کنکر لازمی ہیں آپ نے فرمایا اس کی مٹی مشک ہے اور کنکر موتی ہیں ۔ اس نے کہا ، ہم نے تو کبھی ایسا نہیں سنا ۔ اچھا پانی کے کنارے درخت بھی ہونے چاہیئں ، انصاری نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا وہاں درخت بھی ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں سونے کی شاخوں والے ۔ منافق نے کہا آج جیسی بات تو ہم نے کبھی نہیں سنی ۔ اچھا درختوں میں پتے اور پھل بھی ہونے چاہئیں ۔ انصاری نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا ان درختوں میں پھل بھی ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا ہاں رنگا رنگ کے جواہر اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ہو گا اور شہد سے زیادہ میٹھا ہو گا ۔ ایک گھونٹ بھی جس نم اس میں سے پی لیا ، وہ کبھی بھی پیاسا نہ ہو گا اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ پھر کبھی آسودہ نہ ہو گا ۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ عز و جل شفاعت کی اجازت دے گا ، پس روح القدس حضرت جبرائیل علیہ السلام کھڑے ہوں گے ، پھر حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کھڑے ہوں گے آپ سے زیادہ کسی کی شفاعت نہ ہو گی یہی مقام محمود ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ لوگ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے ، میں اپنی امت سمیت ایک ٹیلے پر کھڑا ہوؤں گا ، مجھے اللہ تعالیٰ سبز رنگ حلہ پہنائے گا ، پھر مجھے اجازت دی جائے گی اور جو کچھ کہنا چاہوں گا ، کہوں گا یہی مقام محمود ہے جس کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے مجھے سجدہ کرنے کی اجازت دی جائے گی اور مجھے ہی سب سے پہلے سر اٹھانے کی اجازت ملے گی ، میں اپنے آگے پیچھے دائیں بائیں دیکھ کر اپنی امت کو اور امتوں میں پہچان لوں گا ، کسی نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ساری امتیں جو حضرت نوح کے وقت تک کی ہوں گی ان سب میں سے آپ خاص اپنی امت کیسے پہچان لیں گے ؟ آپ نے فرمایا وضو کے اثر سے ان کے ہاتھ پاؤں منہ چمک رہے ہوں گے ان کے سوا اور کوئی ایسا نہ ہو گا اور میں انہیں یوں پہچان لوں گا کہ ان کے نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں ملیں گے اور نشان یہ ہے کہ ان کی اولادیں ان کے آگے آگے چل پھر رہی ہوں گی ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا اور شانے کا گوشت چونکہ آپ کو زیادہ مرغوب تھا ، وہی آپ کو دیا گیا آپ اس میں سے گوشت توڑ توڑ کر کھانے لگے اور فرمایا قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار میں ہوں ۔ اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک ہی میدان میں جمع کرے گا آواز دینے والا انہیں سنائے گا ۔ نگاہیں اوپر کو چڑھ جائیں گی سورج بالکل نزدیک ہو جائے گا اور لوگ ایسی سختی اور رنج و غم میں مبتلا ہو جائیں گے جو ناقابل برداشت ہے ۔ اس وقت وہ آپس میں کہیں گے کہ دیکھو تو سہی ہم سب کس مصیبت میں مبتلا ہیں ، چلو کسی سے کہہ کر اسے سفارشی بنا کر اللہ تعالیٰ کے پاس بھیجیں ۔ چنانچہ مشورہ سے طے ہو گا اور لوگ حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ہے ، آپ میں اپنی روح پھونکی ہے ، اپنے فرشتوں کو آپ کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دے کر ان سے سجدہ کرایا ہے ۔ آپ کیا ہماری خستہ حالی ملاحظہ نہیں فرما رہے ؟ آپ پروردگار سے شفاعت کی دعا کیجئے ۔ حضرت آدم علیہ السلام جواب دیں گے کہ میرا رب آج اس قدر غضبناک ہو رہا ہے کہ کبھی اس سے پہلے ایسا غضبناک نہیں ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک درخت سے روکا تھا ، لیکن مجھ سے نافرمانی ہو گئی ۔ آج تو مجھے خود اپنا خیال لگا ہوا ہے ۔ نفسا نفسی لگی ہوئی ہے ۔ تم کسی اور کے پاس جاؤ نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ لوگ وہاں سے حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے نوح علیہ السلام آپ کو زمین والوں کی طرف سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے رسول بنا کر بھیجا ۔ آپ کا نام اس نے شکر گزار بندہ رکھا ۔ آپ ہمارے لئے اپنے رب کے پاس شفاعت کیجئے ، دیکھئے تو ہم کس مصیبت میں مبتلا ہیں ؟ حضرت نوح علیہ السلام جواب دیں گے کہ آج تو میرا پروردگار اس قدر غضبناک ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا غصے میں ہوا نہ اسے کے بعد کبھی ایسا غصے ہو گا ۔ میرے لئے ایک دعا تھی جو میں نے اپنے قوم کے خلاف مانگ لی مجھے تو آج اپنی پڑی ہے ، نفسا نفسی لگ رہی ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں کے ، آپ نبی اللہ ہیں ، آپ خلیل اللہ ہیں ، کیا آپ ہماری یہ بپتا نہیں دیکھتے ؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام فرمائیں گے کہ میرا رب آج اس قدر غضبناک ہے کہ کبھی اس سے پہلے ایسا ناراض ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی اس سے زیادہ غصے میں آئے گا پھر آپ آپنے جھوٹ یاد کر کے نفسی نفسی کرنے لگیں گے اور فرمائیں گے میرے سوا کسی اور کے پاس جاؤ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ ۔ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے موسیٰ علیہ السلام ہماری شفاعت لے جائیے دیکھئے تو کیسی سخت آفت میں ہیں ؟ آپ فرمائیں گے آج تو میرا رب اس قدر نارض ہے ایسا کہ اس سے پہلے کبھی ایسا ناراض نہیں ہوا اور نہ کبھی اس کے بعد ایسا ناراض ہو گا ، میں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر ایک انسان کو مار ڈالا تھا ۔ نفسی نفسی تم مجھے چھوڑ کسی اور سے کہو تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ ۔ لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے عیسیٰ علیہ السلام آپ رسول اللہ کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں جو مریم علیہ السلام کی طرف بھیجی گئی بچپن میں گہوارے میں ہی آپ نے بولنا شروع کر دیا تھا چاہے ہمارے رب سے ہماری شفاعت کیجئے خیال تو فرمائیے کہ ہم کس قدر بےچین ہیں ؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جواب دیں گے کہ آج جیسا غصہ تو نہ پہلے تھا ، نہ بعد میں ہو گا ، نفسی نفسی نفسی ، آپ اپنے کسی گناہ کا ذکر نہ کریں گے ۔ فرمائیں گے تم کسی اور ہی کے پاس جاؤ ۔ دیکھو میں بتاؤں تم سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ چنانچہ وہ سب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ رسول اللہ ہیں ، آپ خاتم الانبیاء ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دئے ہیں ۔ آپ ہماری شفاعت کیجئے دیکھئے تو ہم کیسی سخت بلاؤں میں گھرے ہوئے ہیں ، پھر میں کھڑا ہوؤں گأ اور عرش تلے آ کر اپنے رب عز و جل کے سامنے سجدے میں گر پڑوں گا ۔ پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد و ثنا کے وہ الفاظ کھولے گا جو مجھ سے پہلے کسی اور پر نہیں کھلے تھے ۔ پھر مجھ سے فرمایا جائے گا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر اٹھاؤ ، مانگو ، تمہیں ملے گا ، شفاعت کرو ، منظور ہو گی ۔ میں اپنا سر سجدے سے اٹھاؤں گا اور کہوں گا میرے پروردگار میری امت ، میرے رب میری امت ، اے اللہ میری امت ، پس مجھ سے فرمایا جائے گا ، جاؤ اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جن پر حساب نہیں ، جنت میں لے جاؤ انہیں جنت کے داہنی طرف کے دروازے سے پہنچاؤ لیکن اور تمام دروازوں سے بھی روک نہیں ۔ اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے ، جنت کی دو چوکھٹوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا مکہ ور حمیر میں یا مکہ اور بصری میں ۔ یہ حدیث بخاری و مسلم میں بھی ہے ۔ مسلم شریف میں ہے قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار میں ہوں اس دن سب سے پہلے میری قبر کی زمین شق ہو گی ، میں ہی پہلا شفیع ہوں اور پہلا شفاعت قبول کیا گیا ۔ ابن جریر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا یہ شفاعت ہے ۔ مسند احمد میں ہے مقام محمود وہ مقام ہے ، جس میں میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا ۔ عبد الرزاق میں ہے کہ قیامت کے دن کھال کی طرح اللہ تعالیٰ زمین کو کھینچ لے گا یہاں تک کہ ہر شخص کے لئے صرف اپنے دونوں قدم ٹکانے کی جگہ ہی رہے گی سب سے پہلے اسے اس نے نہیں دیکھا ۔ میں کہوں گا کہ باری تعالیٰ اس فرشتے نے مجھ سے کہا تھا کہ اسے تو میری طرف بھیج رہا تھا اللہ تعالیٰ عز و جل فرمائے گا اس نے سچ کہا اب میں یہ کہہ کر شفاعت کروں گا کہ اے اللہ تیرے بندوں نے زمین کے مختلف حصوں میں تیری عبادت کی ہے ، آپ فرماتے ہیں یہی مقام محمود ہے ۔ یہ حدیث مرسل ہے ۔
78۔ 1 دلوک کے معنی زوال کے اور غسق کے معنی تاریکی کے ہیں۔ آفتاب کے ڈھلنے کے بعد، ظہر اور عصر کی نماز اور رات کی تاریکی تک مراد مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں اور قرآن الفجر سے مراد فجر کی نماز ہے۔ قرآن، نماز کے معنی میں ہے۔ اس کو قرآن سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ فجر میں قرأت لمبی ہوتی ہے۔ اس طرح اس آیت میں پانچوں فرض نمازوں کا اجمالی ذکر آجاتا ہے۔ جن کی تفیصلات احادیث میں ملتی ہیں اور جو امت کے لئے عملی تواتر سے بھی ثابت ہیں۔ 78۔ 2 یعنی اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں بلکہ دن کے فرشتوں اور رات کے فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے (صحیح بخاری) ، تفسیر بنی اسرائیل) ایک اور حدیث میں ہے کہ رات والے فرشتے جب اللہ کے پاس جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ خود خوب جانتا ہے تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ فرشتے کہتے ہیں ہم ان کے پاس گئے تھے، اس وقت بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس سے آئے ہیں تو انھیں نماز پڑھتے ہوئے ہی چھوڑ کر آئے ہیں۔ البخاری ومسلم
[٩٦] پانچ نمازوں کا ذکر :۔ معراج کی رات پانچ نمازیں فرض ہوئیں۔ اس آیت میں ان نمازوں کے اوقات کا ذکر ہے۔ چار نمازیں یعنی ظہر، عصر، مغرب اور عشاء تو زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک ہوئیں اور پانچویں نماز پوپھٹنے یا طلوع آفتاب سے پیشتر ہے۔ اس سے پہلی آیت میں کفار کی ایذا رسانیوں اور ان سے متعلق اللہ کے دستور کا ذکر تھا۔ یہاں نمازوں کا ذکر اس وجہ سے لایا گیا ہے اور مشکلات اور مصائب کے وقت صبر اور نماز سے ہی مدد طلب کرنے کا حکم ہے۔ نماز سے تعلق باللہ پیدا ہوتا ہے قلبی سکون حاصل ہوتا ہے۔ اور مشکلات کے سامنے سینہ سپر ہوجانے کی قوت پیدا ہوتی ہے ان پانچ نمازوں کے اوقات کا اس آیت میں مجملاً ذکر آیا ہے تفصیل کے لیے سورة نساء کی آیت نمبر ١٠٣ کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔- نمازوں کے اوقات کی تعیین میں مصلحت :۔ مشرکوں اور بت پرستوں کی اکثریت ایسی رہی ہے کہ جو سورج کو ایک بڑا طاقتور دیوتا تسلیم کرتی اور اس کی پوجا پاٹ کرتی رہی ہے۔ یہ لوگ بالخصوص تین اوقات میں پرستش کرتے تھے۔ سورج چڑھنے کے وقت سر پر آنے کے وقت اور غروب ہونے کے وقت۔ لہذا ان اوقات میں آپ نے نماز کی ادائیگی سے منع فرما دیا خواہ یہ نماز نوافل ہوں یا کسی نماز کی قضا ہو۔ علاوہ ازیں سورج کی پرستش۔ اس کے عروج کے اوقات میں کی جاتی رہی ہے یعنی دھوپ میں گرمی آنے سے لے کر نصف النہار تک۔ لہذا ان اوقات میں کوئی نماز نہیں رکھی گئی تاکہ ان سورج پرستوں سے اوقات میں بھی مشابہت نہ ہونے پائے۔ بلکہ ان اوقات میں نماز کی ادائیگی سے سختی سے روک دیا گیا۔- [٩٧] فجر کی نماز کو قرآن الفجر کیوں کہا گیا :۔ قرآن الفجر سے مراد نماز فجر ہے۔ اہل عرب میں یہ دستور عام ہے کہ وہ کسی چیز کا جزو اشرف بول کر اس سے مراد کل لے لیتے ہیں۔ اسی دستور کے مطابق یہاں قرآن کا لفظ آیا ہے۔ کیونکہ کوئی نماز ایسی ہی نہیں جس کی ہر رکعت میں کم از کم سورة فاتحہ نہ پڑھی جاتی ہو۔ اسی طرح قرآن میں نماز کے لیے کہیں صرف رکوع کا ذکر آیا ہے اور کہیں صرف سجود کا اور نماز فجر کے ساتھ بالخصوص قرآن کا ذکر اس لیے ہے کہ اس نماز میں قرآن کی قرأت دوسری نمازوں کی نسبت لمبی ہوتی ہے اور مشہود سے مراد یہ ہے کہ اس نماز کے دوران فرشتے بھی حاضر ہوتے اور قرآن سنتے ہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے :- سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ : نماز باجماعت اکیلے نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے اور صبح کی نماز کے وقت رات اور دن کے فرشتے اکٹھے ہوجاتے ہیں یہ حدیث بیان کرنے کے بعد سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے کہ اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو۔ (اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ ۭ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا 78) 17 ۔ الإسراء :78) (بخاری، کتاب التفسیر نیز کتاب الاذان۔ باب فضل صلوۃ الفجر فی جماعۃ)
اَقِمِ الصَّلٰوةَ ۔۔ : شروع سورت سے توحید و رسالت اور آخرت کے دلائل اور ان پر اعتراضات کے جوابات کے بعد اعمال کا ذکر فرمایا۔ (رازی) پچھلی آیات کے ساتھ ایک اور مناسبت یہ ہے کہ دشمنوں کے مقابلے کے لیے نماز قائم کیجیے، یہ آپ کے لیے ان سے مقابلے کی قوت کا ذریعہ بنے گی، اسی لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تو نماز پڑھتے۔ [ أبوداوٗد، التطوع، باب وقت قیام النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من اللیل : ١٣١٦ ] اعمال میں سب سے افضل نماز ہے، کیونکہ کلمۂ اسلام کے بعد یہ مسلمان ہونے کی پہلی شرط اور علامت ہے (دیکھیے توبہ : ٥، ١١) اور اس میں دوسرے ارکان اسلام کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ شامل ہے۔ زکوٰۃ اس طرح کہ مالی منفعت قربان کیے بغیر آدمی نماز کے لیے جاہی نہیں سکتا، روزہ اس طرح کہ دوران نماز میں روزے کی تمام پابندیاں عائد ہوتی ہیں، حج اس طرح کہ قبلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جاتی ہے اور کلمۂ اسلام تشہد میں شامل ہے اور نماز کا مغز یہ ہے کہ پوری دنیا سے تعلق توڑ کر ایک اللہ سے پوری طرح تعلق جوڑ لے۔ ان آیات میں اقامت صلاۃ کے حکم کے ساتھ اس کے پانچ اوقات بھی بیان فرمائے، یہ اوقات قولاً و فعلاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تواتر کے ساتھ ثابت ہیں اور پوری امت مسلمہ چودہ صدیوں سے ان اوقات پر نماز پڑھتی آئی ہے۔ نمازوں کے اوقات کے لیے مزید دیکھیے سورة ہود (١١٤) ، سورة روم (١٧، ١٨) اور سورة طٰہٰ (١٣٠) تین نمازوں کا صراحت سے ذکر سورة نور (٥٨) میں ہے، لیکن نمازوں کے اوقات کے اول و آخر کی مکمل حد بندی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمائی اور آپ کو جبریل (علیہ السلام) نے دو دن نماز پڑھ کر سکھائی۔ [ دیکھیے بخاری، مواقیت الصلوٰۃ، باب مواقیت الصلوٰۃ و فضلھا : ٥٢١۔ مسلم : ٦١٣، ٦١٤ ]- لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ : قاموس میں ہے : ” دَلَکَتِ الشَّمْسُ اَیْ غَرَبَتْ أَوِ اصْفَرَّتْ أَوْ مَالَتْ أَوْ زَالَتْ عَنْ کَبِدِ السَّمَاءِ “ یعنی ” دَلَکَتِ الشَّمْسُ “ کا معنی ہے کہ سورج غروب ہوگیا، یا زرد ہوگیا، یا مائل ہوگیا، یا آسمان کے وسط سے ڈھل گیا۔ “ اس میں تین نمازوں کا ذکر ہے، کیونکہ مشترک لفظ ایک سے زیادہ معنوں میں بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ سورج ڈھلنے کے وقت ظہر، زردی کی (غیر محسوس) ابتدا کے وقت عصر کی نماز ہے (پوری طرح زرد ہونے پر نماز مکروہ ہے) اور سورج غروب ہونے کے ساتھ مغرب کی نماز ہے۔ ” غَسَقِ الَّيْلِ “ کا معنی شروع رات کا اندھیرا ہے۔ شفق غائب ہونے کے ساتھ اندھیرا مکمل ہوتے ہی عشاء کا وقت ہوجاتا ہے۔ ” اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ “ (سورج ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک) کا معنی تو یہ ہے کہ یہ تمام وقت مسلسل نماز قائم رکھو، مگر یہ اس لیے فرمایا کہ آدمی نماز پڑھ کر اگلی نماز کے انتظار میں ہو تو وہ نماز ہی میں مشغول شمار ہوتا ہے، گویا یہ تمام وقت نماز ہی میں گزرا۔ اس میں ہر وقت نماز کی طرف توجہ رکھنے کی ترغیب ہے۔ ابوسعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّکُمْ لَمْ تَزَالُوْا فِيْ صَلاَۃٍ مَا انْتَظَرْتُمُ الصَّلاَۃَ ) [ أبوداوٗد، الصلاۃ، باب وقت العشاء الآخرۃ : ٤٢٢۔ ترمذي : ٣٣٠ ] ” تم اس وقت تک نماز میں رہو گے جب تک نماز کا انتظار کرتے رہو گے۔ “ پھر رات کی نیند کے وقفے کے بعد صبح کی نماز کا وقت ہے، اس لیے اسے الگ ذکر فرمایا۔ (نظم الدرر للبقاعی)- وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ : ” أَیْ وَأَقِمْ قُرْآنَ الْفَجْرِ “ یعنی فجر کی نماز قائم کر۔ یہاں نماز کو قرآن فرمایا، کیونکہ قرآن نماز کا اہم جز ہے اور یہاں جز بول کر کل مراد لیا ہے، جیسا کہ قیام یا ” رَکْعَۃٌ“ یا ” سَجْدَۃٌ“ سے پوری نماز مراد ہوتی ہے۔ یہاں نماز کو قرآن کہنے کی وجہ یہ ہے کہ صبح کی نماز میں قرآن زیادہ پڑھا جاتا ہے بہ نسبت دوسری نمازوں کے۔ ۭ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا : ” مَشْهُوْدًا “ جس میں حاضر ہوا جائے، یعنی اس میں رات اور دن کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ [ دیکھیے بخاری، الأذان، باب فضل صلاۃ الفجر في جماعۃ : ٦٤٨ ] یہ معنی بھی ہے کہ رات بھر کے آرام کے بعد طبیعت قرآن پڑھنے اور سننے کے لیے حاضر ہوتی ہے۔
خلاصہ تفسیر :- آفتاب ڈھلنے کے بعد سے رات کے اندھیرے تک نمازیں ادا کیجئے (اس میں ظہر عصر مغرب عشاء چار نمازیں آگئیں جیسا کہ حدیث میں اس اجمال کی تفصیل بیان کردی گئی ہے) اور صبح کی نماز بھی (اداکریں) بیشک صبح کی نماز (فرشتوں کے) حاضر ہونے کا وقت ہے (صبح کا وقت چونکہ نیند سے بیدار ہونے کا وقت ہے جس میں سستی کا خطرہ تھا اس لئے اس کو الگ کر کے اہتمام کے ساتھ بیان فرمایا اور اس کی ایک مزید فضیلت بھی یہ بیان کردی کہ اس وقت میں فرشتے جمع ہوتے ہیں اس کی تفصیل حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ انسان کی حفاظت اور اس کے اعمال کو لکھنے والے فرشتے دن کے الگ اور رات کے الگ ہیں صبح کی نماز میں دونوں جماعتیں فرشتوں کی جمع ہوتی ہیں رات کے فرشتے اپنا کام ختم کر کے اور دن کے فرشتے اپنا کام سنبھالنے کے لئے مجتمع ہوجاتے ہیں اسی طرح شام کو عصر کی نماز میں دونوں جماعتیں جمع ہوتی ہیں اور ظاہر ہے کہ فرشتوں کا اجتماع باعث برکات ہے اور کسی قدر رات کے حصے میں بھی (نماز ادا کریں) یعنی اس میں نماز تہجد پڑھا کریں جو کہ آپ کے لئے (پانچ نمازوں کے علاوہ) ایک زائد چیز ہے (اس زائد سے مراد بعض کے نزدیک ایک زائد فرض ہے جو خاص رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فرض کیا گیا اور بعض نے مراد زائد سے نفل لی ہے) امید (یعنی وعدہ) ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں جگہ دے گا (مقام محمود سے مراد شفاعت کبری کا مقام ہے جو محشر میں تمام بنی آدم کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا ہوگا) اور آپ یہ دعا کیجے کہ اے میرے رب (مکہ سے جانے کے بعد) مجھ کو (جہاں لے جانا ہو) خوبی (یعنی راحت) کے ساتھ پہنچائیو اور (جب) مکہ سے لے جانا ہو تو) مجھ کو خوبی (یعنی راحت) کے ساتھ لے جائیو اور مجھ کو اپنے پاس سے (ان کفارپر) ایسا غلبہ دیجئو جس کے ساتھ (آپ کی) نصرت (اور مدد) ہو (جس سے وہ غلبہ پائدار اور ترقی پذیر ہو ورنہ عارضی غلبہ تو کبھی کفار کو بھی ہوجاتا ہے مگر اس کے ساتھ اللہ کی نصرت نہیں ہوتی اس لئے پائدار نہیں ہوتا) اور کہہ دیجئے کہ (بس اب دین) حق (غالب ہونے کو) آیا اور باطل گیا گذرا ہوا واقعی باطل چیز تو یوں ہی آتی جاتی رہتی ہے (ہجرت کے بعد مکہ فتح ہوا تو یہ سب وعدے پورے ہوگئے) اور ہم ایسی چیز یعنی قرآن نازل کرتے ہیں کہ وہ ایمان والوں کے حق میں تو شفا اور رحمت ہے (کیونکہ وہ اس کو مانتے اور اس پر عمل کرتے ہیں جس سے ان پر رحمت ہوتی اور عقائد باطلہ اور خیالات فاسدہ سے شفا ہوتی ہے) اور ظالموں کو اس سے اور الٹا نقصان بڑھتا ہے (کہ جب وہ اس کو نہیں مانتے تو اللہ تعالیٰ کے قہر و عذاب کے مستحق ہوجاتے ہیں )- معارف و مسائل :- دشمنوں کے مکر و کید سے بچنے کا بہترین علاج نماز ہے :- سابقہ آیات میں اعداء اسلام کی مخالفت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مختلف قسم کی تکلیفوں میں مبتلا کرنے کی تدبیریں اور اس کا جواب مذکور تھا اس کے بعد آیات صدر میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اقامت صلوۃ کا حکم دینے میں اس طرف اشارہ ہے کہ دشمنوں کے مکر و کید اور ایذاؤں سے بچنے کا بہترین علاج نماز کی اقامت ہے جیسا کہ سورة حجر کی آیت میں اس سے زیادہ واضح الفاظ میں یہ ارشاد ہے (آیت) وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ (یعنی ہم جانتے ہیں کہ کفار کے دل آزار اقوال سے آپ دل تنگ ہوتے ہیں تو آپ اللہ کی حمد کے ساتھ تسبیح کیا کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجائیں (قرطبی)- اس آیت میں دشمنوں کی ایذاؤں کا علاج اللہ کے ذکر حمد و تسبیح اور نماز میں مشغول ہوجانے کو قرار دیا ہے ذکر اللہ اور نماز بالخاصہ ان سے بچنے کا علاج ہے اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ دشمنوں کی ایذاؤں سے بچنا اللہ تعالیٰ کی مدد پر موقوف ہے اور اللہ کی مدد حاصل کرنے کا سب سے افضل ذریعہ نماز ہے جیسا کہ قرآن کریم کا ارشاد ہے (آیت) وَاسْتَعِيْنُوْا بالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ (یعنی مدد حاصل کرو صبر اور نماز کے ذریعہ )- نماز پنجگانہ کا حکم :- جمہور ائمہ تفسیر نے اس آیت کو پانچوں نمازوں کے لئے جامع حکم قرار دیا ہے کیونکہ لوگ کا لفظ اگرچہ اصل میں میلان کے معنی میں آتا ہے اور میلان آفتاب زوال کے وقت شروع ہوتا ہے اور غروب کو بھی کہہ سکتے ہیں لیکن جمہور صحابہ وتابعین نے اس جگہ لفظ ولوک کے معنی زوال آفتاب ہی کے لئے ہیں (کما فصلہ القرطبی و المظہری و ابن کثیر)- اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ ۔ لفظ غسق کے معنی رات کی تاریکی مکمل ہوجانے کے ہیں امام مالک نے حضرت ابن عباس (رض) سے غسق کی یہی تفسیر نقل فرمائی ہے۔- اس طرح (آیت) لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ ۔ میں چار نمازیں آگئیں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور ان میں سے دو نمازوں کا ابتدائی وقت بھی بتلا دیا گیا کہ ظہر کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور عشاء کا وقت غَسَقِ الَّيْل سے یعنی جس وقت رات کی تاریکی مکمل ہوجائے اسی لئے امام اعظم ابوحنیفہ (رح) نے وقت عشاء کی ابتدا اس وقت سے قرار دی ہے جبکہ شفق احمر کے بعد شفق ابیض بھی غروب ہوجائے یہ سب جانتے ہیں کہ غروب آفتاب کے متصل افق مغرب پر ایک سرخی نمودار ہوتی ہے اور اس سرخی کے بعد ایک قسم کی سفیدی افق پر پھیلی ہوئی نظر آتی ہے پھر وہ سفیدی بھی غروب ہوجاتی ہے یہ ظاہر ہے کہ رات کی تاریکی مکمل اس وقت ہوگئی جبکہ افق کی سفیدی بھی ختم ہوجائے اس لئے اس لفظ میں امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے دوسرے ائمہ نے شفق احمر کے غروب ہونے پر وقت عشاء کی ابتدا قرار دی ہے اور اسی کو غَسَقِ الَّيْل کی تفسیر قرار دیا ہے۔- وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ اس جگہ لفظ قرآن بول کر نماز مراد لی گئی ہے کیونکہ قرآن نماز کا جز اہم ہے اکثر ائمہ تفسیر ابن کثیر قرطبی مظہری وغیرہ نے یہی معنے لکھے ہیں اس لئے مطلب آیت کا یہ ہوگیا کہ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ کے الفاظ میں چار نمازوں کا بیان تھا یہ پانچویں نماز فجر کا بیان ہے اس کو الگ کر کے بیان کرنے میں اس نماز کی خاص اہمیت اور فضیلت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔- كَانَ مَشْهُوْدًا یہ لفظ شہادت سے مشتق ہے جس کے معنے میں حاضر ہونا اس وقت میں حسب نصریح احادیث صحیحہ رات اور دن کے دونوں فرشتوں کی جماعتیں حاضر نماز ہوتی ہیں اس لئے اس کو مشہود کہا گیا ہے اس آیت میں پانچ نمازوں کا حکم اجمال کے ساتھ آیا ہے جس کی مکمل تفسیر و تشریح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول و فعل سے بتلائی ہیں اور جب تک اس تشریح پر عمل نہ کیا جائے کوئی شخص نماز ادا ہی نہیں کرسکتا معلوم نہیں کہ جو لوگ قرآن کو بغیر حدیث اور بیان رسول کے سمجھنے کا دعوی کرتے ہیں وہ نماز کیسے پڑھتے ہیں اس طرح اس آیت میں نماز کے اندر قراءت قرآن کا ذکر بھی اجمالا آیا ہے اس کی تفصیلی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول و عمل سے یہ ثابت ہوئی کہ نماز فجر میں قراءت طویل کی جائے بقدر استطاعت اور ظہر و جمعہ میں اس سے کم اور عصر و عشاء میں متوسط اور مغرب میں بہت مختصر۔ مغرب میں طول قراءت اور فجر میں اختصار جو بعض روایات میں آیا ہے وہ عملا متروک ہے امام قرطبی نے صحیح مسلم کی وہ روایت جس میں مغرب کی نماز میں سورة اعراف اور مرسلات وغیرہ طویل سورتوں کا پڑھنا یا صبح کی نماز میں صرف معوذتین پر اکتفا کرنا منقول ہے اس کو نقل کر کے فرمایا فمتروک بالعمل ولا نکارہ علی معاذا لتطویل وبامرہ الائمۃ بالتخفیف یعنی یہ اتفاقی واقعات مغرب میں طول قراءت اور فجر میں اختصار کے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دائمی عمل سے نیز زبانی ارشادات کی وجہ سے متروک ہیں (قرطبی)
اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ ۭ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا - صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- دلك - دُلُوک الشمس : ميلها للغروب . قال تعالی: أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ [ الإسراء 78] ، هو من قولهم : دَلَكْتُ الشمس : دفعتها بالرّاح، ومنه : دلکت الشیء في الرّاحة، ودَالَكْتُ الرّجلَ : إذا ماطلته، والدَّلُوك : ما دلکته من طيب، والدَّلِيك : طعام يتّخذ من الزّبد والتّمر - ( د ل ک )- دلوک ( الشمس ) کے معنی ہیں آفتاب کا ( زوال ) مائل بہ غروب ہونا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ [ الإسراء 78] اے محمد سورج کے ڈھلنے سے نماز پڑھا کرو ۔ یہ اصل میں دللت الشمس کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں کوئی چیز دیکھنے کے لئے آنکھوں کے اوپر ہتھیلی رکھ کر دھوپ کو دفع کرنا ۔ اور اسی سے دللت الشئیء فی الرحۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی چیز کو ہتھلی میں لے کر ملنے کے ہیں دللت الرجل لیت لعل کرنا ۔ الدلوک ۔ ایک قسم کی خوشبو جسے بدن پر ملا جاتا ہے ۔ الدلیک ۔ ایک قسم کا کھانا جو مسکہ اور کھجور سے تیار ہوتا ہے ۔- شمس - الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] ، وقال :- الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها .- ( ش م س ) الشمس - کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔ ( ش م ل ) الشمال ۔ بایاں ضد یمین ۔ قرآن میں ہے ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق 17] جو دائیں اور بائیں بیٹھے ہیں ۔ نیز چھوٹی چادر جس سے بائیں جانب ڈھانپ لی جاء ے اس بھی شمال کہا جاتا ہے جس طرح کہ عربی زبان میں دوسرے اعضار کی مناسبت سے لباس کے مختلف نام رکھے گئے ہیں ۔ مثلا قمیض کی آستین کو ید ( ہاتھ ) اور جو حصہ سینہ اور پشت پر آئے اسے صدر اور ظہر کہا جاتا ہے اور پائجامہ کے پائنہ کو رجاح سے موسم کردیتے ہیں وغیرہ ذالک ۔ اور الاشتمال بالثوب کپڑے کو اس طرح لپیٹا کہ اس کا بالائی سر ا بائیں جانب ڈالا جائے حدیث میں ہے ۔ ( 101 ) نھی اشتما (رح) الصماء کہ اشتمازل الصماء ممنوع ہے ۔ اور استعارہ کے طور پر کمبل کو جو جسم پر لپیٹا جاتا ہے ۔ شملتہ ومشمل کہا جاتا ہے اور اسی ست شملھم الامر کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی امر کے سب کو شامل اور عام ہوجانے کے ہیں ۔ پھر شمال کے لفظ سے مجازا کہا جاتا ہے ۔ شملت الشاۃ بکری کے تھنوں پر غلاف چڑھانا اور شمال کے معنی عادت بھی آتے ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی چادر کی طرح انسان پر مشتمل ہوجاتی ہے ۔ الشمول شراب کیونکہ وہ عقل کو ڈھانپ لیتی ہے اور شراب کو شمول کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ عقل کو ڈھانپ لینے کی وجہ سے خمر کہا جاتا ہے ۔ - الشمال ( بکسرالشین )- وہ ہوا جو کعبہ کی بائیں جانب سے چلتی ہے اور اس میں ایک مغت شمال ( بفتحہ شین بھی ہے ۔ شامل واشمل کے معنی شمال کی جانب میں جانے کے ہیں جسیے جنوب سے اجنب ۔ ( جنوب کو جاتا ) کنایہ کے طور پر تلوار کو شمل کہا جاتا ہے جیسا کہ اسے رداع سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اسی سے مرتد یا بالسیف ومتدر عالہ کی طرح جاء مشتملا بسیفتہ کا محاورہ ہے ۔ : ناقتہ شملتہ و شمال باوشمال کی طرح تیز اونٹنی ۔ اور شاعر کے قول ع ( الکامل ) ( 262 ) ولتعرفن خلائقا مشمولتہ ولتند من ولات ساعتہ سندم تم عمدہ اخلاق کو پہچان لوگے اور تم پشمانی اٹھاؤگے لیکن وہ وقت پیشمانی کا نہیں ہوگا ۔ میں مشمولتہ سے مراد پاکیزہ اخلاق ہیں گویا باد شمال نے ( شراب کی طرح ) انہیں ٹھنڈا اور خوش گوار بنادیا ۔- غسق - غَسَقُ اللیل : شدّة ظلمته . قال تعالی: إِلى غَسَقِ اللَّيْلِ [ الإسراء 78] ، والْغَاسِقُ : اللیل المظلم . قال : وَمِنْ شَرِّ غاسِقٍ إِذا وَقَبَ [ الفلق 3] ، وذلک عبارة عن النائبة باللیل کالطارق، وقیل : القمر إذا کسف فاسودّ. والْغَسَّاقُ : ما يقطر من جلود أهل النار، قال :إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ 25]- ( غ س ق )- غسق اللیل کے معنی ( ابتدائے ) رات کی سخت تارییم کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : إِلى غَسَقِ اللَّيْلِ [ الإسراء 78] رات کی تاریکی تک الغاسق تاریک رات قرآن میں ہے ۔: وَمِنْ شَرِّ غاسِقٍ إِذا وَقَبَ [ الفلق 3] اور شب تاریک کی برائی سے جب اسکی تاریکی چھا جائے ۔ اور اس سے مراد رات کے وقت پیش آنے والی مصیبت یا حادثہ کے ہیں جیسے طارق رات کے وقت آنے والا بعض نے کہا کہ غاسق چاند کو کہتے ہیں جب کہ وہ گہن لگ کر سیاہ ہوجائے الغساق دوزخیوں کے جسموں سے بہنے والا لہو یا پیب ۔ قرآن میں ہے :إِلَّا حَمِيماً وَغَسَّاقاً [ عمّ 25] مگر گرم پانی اور بہتی پیب ۔- فجر - الْفَجْرُ : شقّ الشیء شقّا واسعا كَفَجَرَ الإنسان السّكرَيقال : فَجَرْتُهُ فَانْفَجَرَ وفَجَّرْتُهُ فَتَفَجَّرَ. قال تعالی: وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] ، فَتُفَجِّرَ الْأَنْهارَ [ الإسراء 91] ، تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً- [ الإسراء 90] ، وقرئ تفجر . وقال : فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] ، ومنه قيل للصّبح : فَجْرٌ ، لکونه فجر اللیل . قال تعالی: وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر 1- 2] ، إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء 78] ، وقیل : الفَجْرُ فجران : الکاذب، وهو كذَنَبِ السَّرْحان، والصّادق، وبه يتعلّق حکم الصّوم والصّلاة، قال : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة 187] .- والفُجُورُ :- شقّ ستر الدّيانة، يقال : فَجَرَ فُجُوراً فهو فَاجِرٌ ، وجمعه : فُجَّارٌ وفَجَرَةٌ. قال : كَلَّا إِنَّ كِتابَ الفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ [ المطففین 7] ، وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ [ الانفطار 14] ، أُولئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ [ عبس 42] ، وقوله : بَلْ يُرِيدُ الْإِنْسانُ لِيَفْجُرَ أَمامَهُ [ القیامة 5] ، أي : يريد الحیاة ليتعاطی الفجور فيها . وقیل : معناه ليذنب فيها . وقیل : معناه يذنب ويقول غدا أتوب، ثم لا يفعل فيكون ذلک فجورا لبذله عهدا لا يفي به .- وسمّي الکاذب فاجرا لکون الکذب بعض الفجور . وقولهم : ( ونخلع ونترک من يَفْجُرُكَ ) أي : من يكذبك . وقیل : من يتباعد عنك، وأيّام الفِجَارِ : وقائع اشتدّت بين العرب .- ( ف ج ر ) الفجر - کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھا ڑ نے اور شق کردینے کے ہیں جیسے محاورہ ہے فجر الانسان السکری اس نے بند میں وسیع شکاف ڈال دیا فجرتہ فانفجرتہ فتفجر شدت کے ساتھ پانی کو پھاڑ کر بہایا قرآن میں ہے : ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی اور اس کے بیچ میں نہریں بہا نکالو ۔ تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء 90] جب تک کہ ہمارے لئے زمین میں سے چشمے جاری ( نہ) کردو ۔ اور ایک قرآت میں تفجر ( بصیغہ تفعیل ) ہے ۔ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ۔ اور اسی سے - صبح کو فجر کہا جاتا ہے - کیونکہ صبح کی روشنی بھی رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر 1- 2] فجر کی قسم اور دس راتوں کی ۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء 78] کیونکہ صبح کے وقت قرآن پڑھنا موجب حضور ( ملائکہ ) ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فجر دو قسم پر ہے ایک فجر کا ذب جو بھیڑیئے کی دم کی طرح ( سیدھی روشنی سی نمودار ہوتی ہے دوم فجر صادق جس کے ساتھ نماز روزہ وغیرہ احکام تعلق رکھتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة 187] یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی ) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ ( رکھ کر ) رات تک پورا کرو - ۔ الفجور - کے معنی دین کی پردہ دری یعنی نافرمانی کرکے ہیں ۔ اس کا باب فجر یفجر فجور ا فھو فاجر ( بدکار ) ہے اور فاجر کی جمع فجار وفجرۃ ہے ۔ قرآن میں ہے : كَلَّا إِنَّ كِتابَ الفُجَّارِ لَفِي سِجِّينٍ [ المطففین 7] سن رکھو بدکاروں کے اعمال سجین میں ہیں ۔ وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ [ الانفطار 14] اور بدکار دوزخ میں ۔ أُولئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ [ عبس 42] یہ کفار بدکردار ہیں ۔ اور آیت کریمہ : بَلْ يُرِيدُ الْإِنْسانُ لِيَفْجُرَ أَمامَهُ [ القیامة 5] مگر انسان چاہتا ہے کہ آگے کو خود سری کرتا جائے ۔ یعنی وہ زندگی اس لئے چاہتا ہے کہ اس میں فسق وفجور کا ارتکاب کرے ۔ بعض نے اس کے معنی لیذنب فیھا ( تاکہ اس میں گناہ کرے ) کئے ہیں اور بعض نے اس کے یہ معنی کئے ہیں کہ انسان گناہ کرتا ہے اور دل میں کہتا ہے کہ کل توبہ کرلوں گا ۔ لیکن پھر تائب نہیں ہوتا تو یہ سراسر فجور ہے کیو کہ وہ عہد کرکے اسے توڑ ڈالتا ہے اور کاذب کو فاجر کہاجاتا ہے کیونکہ کذب بیانی بھی فجور کی ایک قسم ہے ۔ چناچہ ایک قول ہے (65) ونخلع ونترک من يَفْجُرُكَیعنی جو تجھے جھٹلاتا ہے اسے ہم ترک کرتے ہیں ۔ بعض نے من یفجرک کے معنی من یتباعد عنک کئے ہیں یعنی جو تجھ سے علیحدہ اور دور ہوتا ہے ۔ ایام الفجار خانہ جنگی کے ایام جو عربوں میں واقع ہوی ۔
نمازوں کے اوقات کا ذکر - قول باری ہے (اقم الصلوۃ لدلوک الشمس الی غسق اللیل ۔ نماز قائم کرو زوال آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک) حضرت ابن مسعود اور ابو عبدالرحمٰن تسلمی سے مروی ہے کہ دلوک شمس سے غروب آفتاب مراد ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابوبرزہ، سلمی، حضرت جابر اور حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ دلوک شمس سے زوال آفتاب مراد ہے۔ تابعین کی ایک جماعت سے بھی یہی معنی مروی ہیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ ان صحابہ کرام کا قول ہے کہ دلوک، میلان اور جھکائو کو کہتے ہیں۔ اس بارے میں ان کی رائے قابل قبول ہے اس لئے کہ یہ تمام تمام اہل زبان تھے ۔ جب بات اس طرح ہے تو یہ درست ہے کہ دلوک سے وہ جھکائو مراد لیا جائے جو زوال آفتاب کے وقت ہوتا ہے اور وہ جھکائو بھی جو غروب آفتاب کے موقع پر ہوتا ہے۔ اگر اس سے زوال آفتاب مراد لیا جائے تو آیت ظہر، عصر، مغرب اور عشاء چاروں نمازوں کو متضمن ہوگی اس لئے کہ ان اوقات کا تعلق مذکورہ بالا فرض نمازوں کے ساتھ ہے ، اس صورت میں غسق اللیل ان نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کرنے کی انتہا قرار پائے گا۔ ابوجعفر سے مروی ہے کہ آدھی رات کو غسق اللیل، کہتے ہیں اس سے یہ دلالت ہوگی کہ نصف شب، عشاء کی نماز کے مستحب وقت کی انتہا ہے اور اسکے بعد تک عشاء کو مئوخر کرنا مکروہ ہوگا اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے غروب آفتاب مراد لیا جائے اس صورت میں آیت مغرب کی نماز کے وقت کے لئے بیان ہوگی کہ اس کا وقت غروب آفتاب سے لے کر رات کے اندھیرے تک رہتا ہے۔ - غسق اللیل کی تشریح - غسق اللیل کی تشریح میں اختلاف رائے ہے۔ امام مالک نے دائود بن الحصین سے روایت کی ہے، انہوں نے ایک راوی سے اور اس راوی نے حضرت ابن عباس سے کہ آپ فرمایا کرتے تھے۔ ” غسق اللیل رات کی تاریکی اور اس کے چھا جانے کو کہتے ہیں۔ “ لیث بن سعد نے مجاہد سے اور انہوںں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ آپ فرماتے تھے۔ ” دلوک شمس جب سورج ڈھل جائے تا غسق اللیل جب سورج غروب ہوجائے۔ “ مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود کہا کرتے تھے۔ ” دلوک شمس جب سورج غروب ہوجائے تو غسق اللیل جب شفق غائب ہوجائے۔ “ حضرت عبداللہ بن مسعود سے یہ بھی مروی ہے کہ جب سورج غروب ہوگیا تو آپ نے کہا۔” یہ غسق اللیل ہے۔ “ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے۔ ” سورج کے غائب ہوجانے کو غسق اللیل کہتے ہیں۔ “ حسن بصری سے مروی ہے کہ غسق اللیل مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں۔ ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ غسق اللیل عشاء کی نماز کا نام ہے ابوجعفر کا قول ہے کہ نصف شب کا نام غسق اللیل ہے۔ - ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جن حضرات نے دلوک شمس کے معنی غروب آفتاب لئے ہیں ان کے نزدیک غسق اللیل کے معنی غروب آفتاب ہونا درست نہیں ہوگا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے دلوک شمس کو ابتدا قرار دے کر غسق اللیل کو اس کی انتہا بنادیا اور یہ بات درست نہیں کہ ایک چیز خود اپنی ذات کی انتہا بھی قرار دی جائے اور اس طرح ایک ہی چیز ابتدا بھی ہوجائے اور انتہا بھی ۔ اس لئے اگر دلوک سے غروب آفتاب مراد لیا جائے گا تو اس صورت میں غسق اللیل یا تو شفق ہوگا جو مغرب کی نماز کا وقت آخر ہوتا ہے۔ یا اجتماع ظلمت یعنی رات کا اندھیرا ہوگا اور اجتماع ظلمت خود شفق کے غائب ہونے کا نام ہے اس لئے رتا کا اندھیرا اس وقت چھا جاتا ہے جب سفیدی غائب ہوجاتی ہے یا غسق اللیل عشاء کی نماز کے مستحب وقت کی انتہا ہوگا یعنی آدھی رات۔ اس صورت میں غسق اللیل دو نمازوں یعنی مغرب اور عشاء کو متضمن ہوگا۔- قول باری ہے (وقرآن الفجر ان قران الفجر کان مشھوداً اور فجر کے قرآن کا بھی التزام کرو کیونکہ قرآن فجر مشہود ہوتا ہے) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ فقرہ قول باری (اقم الصلوۃ لدلوک الشمس) پر معطوف ہے۔ ترتیب کلام اس طرح ہے ”(قم قرآن الفجر (قرآن فجر کو قائم کرو) اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ نماز فجر میں قرأت واجب ہے اس لئے کہ امر کا صیغہ وجوب کے معنوں پر محمول ہوتا ہے اس وقت صرف نماز کے اندر ہی قرأت کا وجوب ہوسکتا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ قرآن فجر کے معنی فجر کی نماز کے ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات و وجوہ سے غلط ہے۔ اول یہ کہ لفظ قرأت سے نماز کی تعبیر درست نہیں ہے کیونکہ اس سے کلام کو اس کے حقیقی معنی سے ہٹا کر کسی دلیل کے بغیر مجازی معنی کی طرف پھیر دینا لازم آت ا ہے۔ دوسری وجہ نسق تلاوت میں یہ قول باری ہے (ومن اللیل فتھجدبہ نافلۃ لک اور رات کو تہجد پڑھو، یہ تمہارے لئے نفل ہے) فجر کی نماز کے ساتھ رات کے وقت تہجد محال ہے جبکہ قول باری (بہ) میں ضمیر قرآن فجر کی طرف راج ہو جس کا ذکر اس سے پہلے ہوا ہے، اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قرآن فجر سے قرأت کے حقیقی معنی مراد ہیں اس لئے کہ قرآن کے ساتھ تہجد ممکن ہے جس کی فجر کی نماز کے اند رقرأت کی جاتی ہے جبکہ نماز فجر کے ساتھ تہجد محال ہے۔ علاوہ ازیں اگر قرآن فجر سے نماز فجر مراد لینا درست بھی ہوجائے جس کا معترض نے ذکر کیا ہے تو بھی نماز میں قرأت کے وجوب پر قرآن فجر کی دلالت بحالہ قائم رہتی ہے وہ اس طرح کہ قرأت سے نماز کی تعبیر صرف اس لئے کی گئی ہے کہ قرأت نماز کے ارکان اور اس کے فرائض میں داخل ہے۔
(٧٨) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سورج غروب ہونے کے بعد نماز ظہر اور عصر اور رات آنے پر مغرب و عشاء کی نماز ادا کیجیے اور صبح کی نماز بھی ادا کیجیے، بیشک صبح کی نماز رات اور دن کے فرشتوں کے حاضر ہونے کا وقت ہے۔
آیت ٧٨ (اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ )- یہ حکم پنج گانہ نماز کے نظام کے بارے میں ہے۔ سورج کے ڈھلنے کے ساتھ ہی ظہر کی نماز کا وقت ہوجاتا ہے۔ پھر عصر مغرب اور عشاء کی نمازوں کا ایک سلسلہ ہے جو رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ پانچویں نماز یعنی فجر کو یہاں پر ” قرآن الفجر “ سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ اس میں طویل قرأت کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ نماز پنجگانہ کے اوقات کے بارے میں یہ حکم عمومی نوعیت کا ہے جبکہ ہر نماز کے وقت کی خصوصیت کے ساتھ نشاندہی بعد میں حضرت جبرائیل نے کی جس کی تفصیل کتب احادیث میں ملتی ہے۔- (اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا)- گویا فجر کا وقت نماز اور قرأت کے اعتبار سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ رات بھر جسمانی اور ذہنی آرام کے بعد فجر کے وقت انسان تازہ دم ہوتا ہے۔ اس وجہ سے نماز میں اس کی حضوری قلب کی کیفیت بھی بہتر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ فجر کا وقت فرشتوں کی حاضری کے اعتبار سے بھی اہم ہے۔ دنیا کے معاملات کی نگرانی کرنے والے فرشتوں کی ڈیوٹیاں صبح اور عصر کے اوقات میں تبدیل ہوتی ہیں۔ چناچہ ان دونوں نمازوں میں دونوں جماعتوں کے فرشتے موجود ہوتے ہیں۔ ڈیوٹی سے فارغ ہو کر جانے والے فرشتے بھی اور آئندہ ڈیوٹی کا چارج لینے والے بھی۔ لہٰذا فرشتوں کی اس حاضری کی وجہ سے بھی نماز فجر خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :91 مشکلات و مصائب کے اس طوفان کا ذکر کرنے کے بعد فورا ہی نماز قائم کرنے کا حکم دے کر اللہ تعالی نے یہ لطیف اشارہ فرمایا ہے کہ وہ ثابت قدمی جو ان حالات میں ایک مومن کو درکار ہے اقامت صلوۃ سے حاصل ہوتی ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :92 ”زوال آفتاب“ ہم نے دلوک الشمس کا ترجمہ کیا ہے ۔ اگرچہ بعض صحابہ و تابعین نے دلوک سے مراد غروب بھی لیا ہے ، لیکن اکثریت کی رائے یہی ہے کہ اس سے مراد آفتاب کا نصف النہار سے ڈھل جاتا ہے ۔ حضرت عمر ، ابن عمر ، انس بن مالک ، ابو برزة الاسلمی رضی اللہ عنہم حسن بصری ۔ شعبی ، عطاء ۔ مجاہد رحمہم اللہ اور ایک روایت کی رو سے ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق رحمہما اللہ سے بھی یہی قول مروی ہے ۔ بلکہ بعض احادیث میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی دلوک شمس کی یہی تشریح منقول ہے ، اگرچہ ان کی سند کچھ زیادہ قوی نہں ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :93 غسق اللیل بعض کے نزدیک ” رات کا پوری طرح تاریک ہو جانا “ ہے ، اور بعض اس سے نصف شب مراد لیتے ہیں ۔ اگر پہلا قول تسلیم کیا جائے تو اس سے عشاء کا اول وقت مراد ہوگا ، اور اگر دوسرا قول صحیح مانا جائے تو پھر یہ اشارہ عشاء کے آخر وقت کی طرف ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :94 فجر کے لغوی معنی ہیں”پو پھٹنا“ ۔ یعنی وہ وقت جب اول اول سپیدئہ صبح رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتا ہے ۔ فجر کے قرآن سے مراد فجر کی نماز ہے ۔ قرآن مجید میں نماز کے لیے کہیں تو صلوة کا لفظ استعمال ہوا ہے اور کہیں اس کے مختلف اجزاء میں سے کسی جز کا نام لے کر پوری نماز مراد لی گئی ہے ، مثلا تسبیح ، حمد ، ذکر ، قیام ، رکوع ، سجود وغیرہ ۔ اسی طرح یہاں فجر کےوقت قرآن پڑھنے کا مطلب محض قرآن پڑھنا نہیں ، بلکہ نماز میں قرآن پڑھنا ہے ۔ اس طریقہ سے قرآن مجید نے ضمنا یہ اشارہ کر دیا ہے کہ نماز کن اجزاء سے مرکب ہونی چاہیے ۔ اور انہی اشارات کی رہنمائی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی وہ ہئیت مقرر فرمائی جو مسلمانوں میں رائج ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :95 قرآن فجر کے مشہود ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے فرشتے اس کے گواہ بنتے ہیں ، جیسا کہ احادیث میں بتصریح بیان ہوا ہے ۔ اگر چہ فرشتے ہر نماز اور ہر نیکی کے گواہ ہیں ، لیکن جب خاص طور پر نماز فجر کی قرأت پر ان کی گواہی کا ذکر کیا گیا ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اسے ایک خاص اہمیت حاصل ہے ۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز میں طویل قرأت کرنے کا طریقہ اختیار فرمایا اور اسی کی پیروی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے کی اور بعد کے ائمہ نے اسے مستحب قرار دیا ۔ اس آیت میں مجملا یہ بتایا گیا ہے کہ پنج وقتہ نماز ، جو معراج کے موقع پر فرض کی گئی تھی ، اس کے اوقات کی تنظیم کس طرح کی جائے ۔ حکم ہوا کہ ایک نماز تو طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لی جائے ، اور باقی چار نمازیں زوال آفتاب کے بعد سے ظلمت شب تک پڑھی جائیں ۔ پھر اس حکم کی تشریح کے لیے جبریل علیہ السلام بھیجے گئے جنہوں نے نماز کے ٹھیک ٹھیک اوقات کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ۔ چنانچہ ابو داؤد علیہ السلام اور ترمذی میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبریل علیہ السلام نے دو مرتبہ مجھ کو بیت اللہ کے قریب نماز پڑھائی ۔ پہلے دن ظہر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جبکہ سورج ابھی ڈھلا ہی تھا اور سایہ ایک جوتی کے تسمے سے زیادہ دراز نہ تھا ، پھر عصر کی نماز ایسے وقت پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے اپنے قد کے برابر تھا ، پھر مغرب کی نماز ٹھیک اس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے ، پھر عشاء کی نماز شفق غائب ہوتے ہی پڑھا دی ، اور فجر کی نماز اس وقت پڑھائی جبکہ روزہ دار پر کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے ۔ دوسرے دن انہوں نے ظہر کی نماز مجھے اس وقت پڑھائی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے قد کے برابر تھا ، اور عصر کی نماز اس وقت جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے قد سے دوگنا ہو گیا ، اور مغرب کی نماز اس وقت جبکہ روزہ دار روزہ افطار کرتا ہے ، اور عشاء کی نماز ایک تہائی گزر جانے پر ، اور فجر کی نماز اچھی طرح روشنی پھیل جانے پر ۔ پھر جبریل علیہ السلام نے پلٹ کر مجھ سے کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، یہی اوقات انبیاء علیہم السلام کے نماز پڑھنے کے ہیں ، اور نمازوں کے صحیح اوقات ان دونوں وقتوں کے درمیان ہیں“ ۔ ( یعنی پہلے دن ہر وقت کی ابتداء اور دوسرے دن ہر وقت کی انتہا بتائی گئی ہے ۔ ہر وقت کی نماز ان دونوں کے درمیان ادا ہونی چاہیے ) ۔ قرآن مجید میں خود بھی نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف مختلف مواقع پر اشارے کیے گئے ہیں ۔ چنانچہ سورہ ہود میں فرمایا: اَقِمِ الصَّلوٰةَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ۔ ط ( آیت ١١٤ ) ”نماز قائم کر دن کے دونوں کناروں پر ( یعنی فجر اور مغرب ) اور کچھ رات گزرنے پر ( یعنی عشاء ) “ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا وَمِنْ اٰنآئیَ الّیْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّھَارِ ( آیت ١۳۰ ) اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر طلوع آفتاب سے پہلے ( فجر ) اور غروب آفتاب سے پہلے ( عصر ) اور رات کے اوقات میں پھر تبیح کر ( عشاء ) اور دن کے سروں پر ( یعنی صبح ، ظہر اور مغرب ) پھر سورہ روم میں ارشاد ہوا: فَسُبْحٰنَ اللہِ حِینَ تُمسُونَ وَحِیْنَ تُصْبِحُوْ نَہ وَلَہُ الْحَمدُ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْضِ وَعَشِیًّا وَّ حِیْنَ تُظْھِرُوْنَ ( آیات ١۷ ۔ ١۸ ) پس اللہ کی تسبیح کرو جبکہ تم شام کرتے ہو ( مغرب ) اور صبح کرتے ہو ( فجر ) ۔ اسی کے لیے حمد ہے آسمانوں میں اور زمین میں ۔ اور اس کی تسبیح کرو دن کے آخری حصے میں ( عصر ) اور جبکہ تم دوپہر کرتے ہو ( ظہر ) نماز کے اوقات کا یہ نظام مقرر کرنے میں جو مصلحتیں ملحوظ رکھی گئی ہیں ان میں سے ایک اہم مصلحت یہ بھی ہے کہ آفتاب پرستوں کے اوقات عبادت سے اجتناب کیا جائے ۔ آفتاب ہر زمانے میں مشرکین کا سب سے بڑا ، یا بہت بڑا معبود رہا ہے ، اور اس کے طلوع و غروب کے اوقات خاص طور پر ان کے اوقات عبادت رہے ہیں ، اس لیے ان اوقات میں تو نماز پڑھنا حرام کر دیا گیا ۔ اس کے علاوہ آفتاب کی پرستش زیادہ تر اس کے عروج کے اوقات میں کی جاتی رہی ہے ، لہٰذا اسلام میں حکم دیا گیا کہ تم دن کی نمازیں زوال آفتاب کے بعد پڑھنی شروع کرو اور صبح کی نماز طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ لیا کرو ۔ اس مصلحت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود متعدد احادیث میں بیان فرمایا ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں حضرت عمرو بن عَبَسہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اوقات دریافت کیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صل صلوة الصبح ثم اقصر عن الصلوة حین تطلع الشمس حتٰی ترتفع فانھا تطلع حین تطلع بین قرنی الشیطن وحینئِذ یسجد لہ الکفار ۔ صبح کی نماز پڑھو اور جب سورج نکلنے لگے تو نماز سے رک جاؤ ، یہاں تک کہ سورج بلند ہو جائے ۔ کیونکہ سورج جب نکلتا ہے تو شیطان کے سینگوں کے درمیان نکلتا ہے اور اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں ۔ پھر آپ نے عصر کی نماز کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ثم اقصر عن الصلوة حتی تغرب الشمس فانھا تغرب بین قرنی الشیطن وحینئذ یسجد لھا الکفار ( رواہ مسلم ) ” غروب ہوتا ہے اور اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں ۔ “ اس حدیث میں سورج کا شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع اور غروب ہونا ایک استعارہ ہے یہ تصور دلانے کے لیے کہ شیطان اس کے نکلنے اور ڈوبنے کے اوقات کو لوگوں کے لیے ایک فتنہ عظیم بنا دیتا ہے ۔ گویا جب لوگ اس کو نکلتے اور ڈوبتے دیکھ کر سجدہ ریز ہوتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیطان اسے اپنے لیے سر پر لیے ہوئے آیا ہے اور سر ہی پر لیے جا رہا ہے ۔ اس استعارے کی گرہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے اس فقرے میں کھول دی ہے کہ ” اس وقت کفار اس کو سجدہ کرتے ہیں “ ۔
43:: سورج ڈھلنے کے بعد سے رات کے اندھیرے تک ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی چار نمازوں کی طرف اشارہ ہے، اور فجر کی نماز کا ذکر الگ سے اس لئے فرمایا گیا ہے کہ اس وقت لوگوں کو نماز کے لئے اٹھنا پڑتا ہے، جس میں دوسری نمازوں کے مقابلے میں زیادہ مشقت ہوتی ہے، اس لئے اس کو خاص اہمیت کے ساتھ الگ ذکر فرمایا گیا ہے۔ 44: اکثر مفسرین نے اس کا یہ مطلب بیان فرمایا ہے کہ صبح کی نماز میں جو تلاوت کی جاتی ہے اس میں فرشتوں کا مجمع حاضر ہوتا ہے، احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی نگرانی کے لئے جو فرشتے مقرر ہیں وہ باری باری اپنے فرائض انجام دیتے ہیں، چنانچہ ایک جماعت فجر کے وقت آتی ہے جو سارے دن اپنے فرائض انجام دیتی ہے، اور دوسری جماعت شام کو عصر کے وقت آتی ہے، پہلی جماعت فجر کی نماز میں آکر شریک ہوتی ہے، اور بعض مفسرین نے اس سے نمازیوں کی حاضری مراد لی ہے، یعنی فجر کی نماز میں چونکہ نمازیوں کو حاضری کا موقع دینے کے لئے اس نماز میں لمبی تلاوت کرنی چاہئے۔