Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

79۔ 1 بعض کہتے ہیں تہجد اضداد میں سے ہے جس کے معنی سونے کے بھی ہیں اور نیند سے بیدار ہونے کے بھی۔ اور یہاں یہی دوسرے معنی ہیں کہ رات کو سو کر اٹھیں اور نوافل پڑھیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ہجود کے اصل معنی تو رات کو سونے کے ہی ہیں، لیکن باب تفعل میں جانے سے اس میں پرہیز کے معنی پیدا ہوگئے جیسے تأثم کے معنی ہیں اس نے گناہ سے اجتناب کیا، یا بچا، اس طرح تہجد کے معنی ہونگے، سونے سے بچنا جو رات کو سونے سے بچا اور قیام کیا۔ بہرحال تہجد کا مفہوم رات کے پچھلے پہر اٹھ کر نوافل پڑھنا۔ ساری رات قیام اللیل کرنا خلاف سنت ہے۔ نبی رات کے پہلے حصے میں سوتے اور پچھلے حصے میں اٹھ کر تہجد پڑھتے۔ یہی طریقہ سنت ہے۔ 79۔ 2 بعض نے اس کے معنی کئے ہیں یہ ایک زائد فرض ہے جو آپ کے لئے خاص ہے، اس طرح وہ کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تہجد بھی اسی طرح فرض تھی، جس طرح پانچ نمازیں فرض تھیں۔ البتہ امت کے لئے تہجد کی نماز فرض نہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ تہجد آپ پر فرض تھی نہ آپ کی امت پر۔ یہ ایک زائد عبادت ہے جس کی فضیلت یقینا بہت ہے اور اس وقت اللہ اپنی عبادت سے بڑا خوش ہوتا ہے۔ تاہم یہ نماز فرض و واجب نہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تھی اور نہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت پر ہی فرض ہے۔ 79۔ 3 یہ وہ مقام ہے جو قیامت والے دن اللہ تعالیٰ نبی کو عطا فرمائے گا اور اس مقام پر ہی آپ وہ شفاعت عظمٰی فرمائیں گے، جس کے بعد لوگوں کا حساب کتاب ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٨] نماز تہجد کی رکعات :۔ تہجد کے لغوی معنی تو صرف رات کو ایک دفعہ سونے کے بعد رات کے ہی کسی حصہ میں بیدار ہونا ہے اور اس سے شرعاً وہ نماز مراد ہے جو رات کو سونے کے بعد طلوع فجر سے پہلے پہلے رات کے کسی حصہ میں نصف شب کے بعد ادا کی جائے۔ اس نماز کی تعداد رکعات اور وقت کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے :۔- ١۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک رات میں اپنی خالہ ام المومنین میمونہ (بنت حارث) کے ہاں سویا میں تو بچھونے کی چوڑان میں لیٹا اور آپ اور آپ کی بیوی لمبے رخ میں آپ نے کچھ آرام فرمایا۔ اور کم و بیش آدھی رات کے وقت آپ اٹھے۔ بیٹھ کر اپنی آنکھیں ملنے لگے۔ پھر اچھی طرح وضو کرکے نماز پڑھنے لگے۔ میں نے بھی اٹھ کر وضو کیا اور آپ کے بائیں جانب ساتھ ہی کھڑا ہوگیا۔ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور دایاں کان پکڑ کر مجھے اپنے (پیچھے سے لاکر) دائیں طرف کردیا۔ آپ نے دو رکعتیں پڑھیں پھر دو ، پھر دو ، پھر دو ، پھر دو اور پھر دو (کل بارہ رکعات) پھر وتر پڑھا پھر لیٹ رہے تاآنکہ موذن آپ کے پاس آیا : پھر آپ نے دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھیں۔ پھر باہر نکلے اور صبح کی نماز پڑھائی۔ (بخاری، کتاب الوضوء باب قراءۃ القرآن نیز کتاب العلم۔ باب السمر بالعلم)- ٢۔ سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے رات (تہجد) کی نماز کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا : دو ، دو رکعت کرکے پڑھو۔ پھر جب کسی کو صبح ہوجانے کا ڈر ہو تو ایک رکعت پڑھ لے وہ ساری نماز کو طاق بنا دے گی عبداللہ بن عمر (رض) کہا کرتے کہ آپ نے یہ حکم دیا ہے کہ رات کی نماز کے اخیر میں وتر پڑھا کرو۔ (بخاری، کتاب الصلوٰۃ۔ باب الحلق والجلوس فی المسجد)- [٩٩] یعنی نماز تہجد آپ پر تازیست فرض رہی۔ واقعہ معراج اور پانچ نمازوں کی فرضیت سے پہلے نماز تہجد مسلمانوں پر فرض تھی جیسا کہ سورة مزمل کے پہلے رکوع میں اس کی وضاحت ہے۔ پھر جب پانچ نمازیں فرض ہوگئیں تو عام مسلمانوں پر نماز تہجد فرض نہ رہی جیسا کہ سورة مزمل کے دوسرے رکوع میں (فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ 20؀ ) 73 ۔ المزمل :20) سے واضح ہوتا ہے اور آپ پر یہ نماز اسی آیت کی رو سے فرض ہوئی۔ جب صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں سورة فتح نازل ہوئی اور اس میں آپ کو اللہ نے یہ خوشخبری دی کہ اللہ نے آپ کی سب اگلی پچھلی لغزشیں معاف فرما دی ہیں۔ تو آپ اس نماز میں پہلے سے بھی زیادہ قیام فرمانے لگے۔ چناچہ بروایت بخاری نماز تہجد میں لمبے قیام کی وجہ سے آپ کے پاؤں متورم ہوجاتے تھے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ اللہ نے تو آپ کی سب اگلی پچھلی لغزشیں معاف فرما دیں پھر آپ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں ؟ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا : ( اَفَلاَ اَکُوْنَ عَبْدًاشَکُوْرًا۔ ) یعنی کیا پھر میں اللہ کے اس احسان اور فضل کے عوض اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں (بخاری، کتاب التہجد۔ باب قیام النبی اللیل حتی ترم قدماہ۔۔ )- امت کے لیے اگرچہ یہ نماز نفل ہے اور امت پر مشقت کی وجہ سے اس کی فرضیت ساقط کردی گئی ہے۔ تاہم اس نماز کی بہت فضیلت آئی ہے اور اس کی بہت ترغیب دی گئی ہے۔ گویا ہماری مروجہ شرعی اصطلاح میں سنت مؤکدہ ہے۔ - نماز تراویح یا قیام اللیل :۔ واضح رہے کہ نماز تہجد ہی کا دوسرا نام قیام اللیل ہے جیسا کہ بخاری کے عنوان باب سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ اور ماہ رمضان میں قیام اللیل کو نماز تراویح کا نام دیا گیا ہے جو ماہ رمضان میں عموماً نماز عشاء کے بعد متصل ہی باجماعت نماز ادا کرلی جاتی ہے۔ رسول اللہ نے ماہ رمضان میں یہ نماز تہجد (یا قیام اللیل یا تراویح) صرف دو دن باجماعت پڑھائی تھی۔ پھر تیسرے یا چوتھے دن پھر لوگ نماز کے لیے جمع ہوئے تو آپ جماعت کے لیے نکلے ہی نہیں اور صبح کی نماز کے بعد آپ نے صحابہ سے جماعت کے لیے نہ آنے کی یہ وجہ بیان فرمائی کہ میں اس بات سے ڈر گیا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کردی جائے اور یہ واقعہ رمضان میں ہوا۔ (بخاری، کتاب التہجد باب تحریض النبی علی قیام اللیل، نیز کتاب الصوم باب فضل من قام رمضان) اور یہ نماز آپ نے ہمیشہ گیارہ رکعت ہی ادا کی۔ آٹھ رکعت تراویح اور تین رکعت وتر جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) سے پوچھا کہ رسول اللہ رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے ؟ سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا کہ رمضان ہو یا غیر رمضان آپ گیارہ رکعت سے زیادہ لبھی نہیں پڑھتے تھے۔ پہلے چار رکعت پڑھتے اور ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا کہنا۔ پھر چار رکعت پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا کہنا۔ پھر تین رکعت پڑھتے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) کہتی ہیں کہ میں نے کہا : یارسول اللہ آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں آپ نے فرمایا : عائشہ (رض) آنکھیں (ظاہر میں) سوتی ہیں مگر دل نہیں سوتا ۔ (بخاری، کتاب التہجد، باب قیام النبی باللیل فی رمضان وغیرہ)- اب باجماعت نماز تراویح کے متعلق درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :- عبدالرحمن بن عبد قاری کہتے ہیں کہ رمضان کی ایک رات میں سیدنا عمر کے ساتھ (ان کے دور خلافت میں) مسجد نبوی میں گیا۔ ہم نے دیکھا کہ لوگ مختلف ٹولیوں میں نماز تراویح ادا کر رہے ہیں۔ کوئی تو اکیلا ہی پڑھ رہا ہے۔ اور کچھ ٹولیاں ایک امام کے پیچھے نماز ادا کر رہی ہیں۔ سیدنا عمر کہنے لگے کہ اگر میں ان سب کو ایک امام کے پیچھے اکٹھا کردوں تو یہ بہتر ہوگا۔ یہ ارادہ کرنے کے بعد آپ نے سیدنا ابی بن کعب کو سب لوگوں کا امام بنادیا۔ پھر اس کے بعد کسی دوسری رات میں سیدنا عمر کے ہمراہ مسجد میں گیا تو دیکھا کہ سب لوگ اپنے قاری (ابی بن کعبص) کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہیں۔ سیدنا عمر نے کہا نعم البدعۃ ھذہ یعنی یہ بدعت تو اچھی ہے نیز لوگوں سے کہا کہ رات کا وہ حصہ جس میں تم سوتے رہتے ہو اس حصے سے افضل ہے جس میں تم نماز پڑھتے ہو اور لوگ شروع رات میں تراویح پڑھ لیتے۔ (قیام اللیل کرلیتے) بخاری، کتاب الصوم، باب فضل من قام رمضان)- سیدنا عمر اور باجماعت نماز تراویح :۔ اس حدیث سے درج ذیل امور کا پتہ چلتا ہے :- ١۔ سیدنا عمر نے جب تراویح کی نماز باجماعت کا حکم دیا تو نہ آپ خود اس میں شامل ہوئے نہ آپ کے ساتھی عبدالرحمن بن عبد قاری۔ اسی طرح جب کسی دوسری رات معائنہ کیا تو جماعت دیکھ کر بھی نہ آپ خود اس میں شامل ہوئے اور نہ آپ کے ساتھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس جماعت کو نہ ضروری سمجھتے تھے اور نہ بہتر ورنہ آپ خود اس میں شامل ہوجاتے۔- ٢۔ سیدنا عمر نے یہ وضاحت بھی فرما دی کہ قیام اللیل یا نماز تراویح کے لیے رات کا پہلا حصہ افضل نہیں جس میں یہ لوگ باجماعت نماز پڑھ رہے تھے بلکہ رات کا آخری حصہ افضل ہے اور سیدنا عمر خود رات کے آخری حصہ میں ہی اکیلے نماز ادا کرتے تھے۔- ٣۔ آپ نے جو یہ فرمایا کہ یہ اچھی بدعت ہے تو اس سے آپ کی مراد صرف موجودہ شکل تھی۔ یعنی متفرق طور پر پڑھنے سے اکٹھے نماز پڑھنا بہتر ہے۔ ورنہ یہ شرعی اور اصطلاحی معنوں میں بدعت نہیں تھی۔ (جو بہرصورت گمراہی ہوتی ہے) کیونکہ قیام اللیل رسول اللہ نے خود بھی کیا اور صحابہ کرام نے بھی۔ علاوہ ازیں کم از کم تین دن آپ نے جماعت بھی کرائی تھی گویا اس کی دو بنیادیں سنت نبوی سے ثابت تھیں۔ لہذا اسے معروف معنوں میں بدعت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور موطا امام مالک کی روایت کے مطابق آپ نے جب نماز تراویح کی جماعت کا حکم دیا تو گیارہ رکعت (وتر سمیت) کا ہی حکم دیا تھا۔- ہمارے ہاں عشاء کے بعد نماز تراویح باجماعت رائج ہے۔ اس میں دو مصلحتیں ضرور ہیں ایک تو حفاظ کرام کو اس بہانے دہرائی کا موقع مل جاتا ہے۔ دوسرے لوگوں کی سہولت بھی اسی وقت میں ہے ورنہ افضل وقت وہی ہے جس کی سیدنا عمر نے وضاحت کردی ہے۔- [١٠٠] مقام محمود کی مختلف توجیہات :۔ مقام محمود سے مراد ایسا مرتبہ ہے کہ سب لوگ آپ کی حمد و ثنا کرنے لگیں۔ اور اس کی کئی توجیہات ہیں مثلاً ایک یہ کہ ایسا مقام قدر و منزلت اور حمد و ستائش آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی آپ کی آخری زندگی میں عطا فرما دیا تھا، دوسری یہ کہ جنت میں ایک بلند مقام ہے جس کا نام ہی مقام محمود ہے وہ آپ کو عطا کیا جائے گا اور تیسری یہ کہ قیامت کے دن کی ہولناکیوں کو دیکھ کر سب لوگ گھبراہٹ میں ہوں گے وہ چاہیں گے کہ اللہ کے حضور ان کی کوئی سفارش کرے وہ سیدنا آدم اور پھر ان کے بعد باری باری سب انبیاء سے سفارش کی التجا کریں گے مگر ہر نبی اپنی کوئی نہ کوئی تقصیر یاد کرکے معذرت کر دے گا۔ بالآخر سب لوگ رسول اللہ کے پاس آئیں گے تو آپ لوگوں کی یہ التجا قبول کرکے اللہ کے حضور ان کی سفارش کریں گے۔۔ (تفصیل کے لیے دیکھئے سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٥٥ کے حواشی) اس توجیہ کے لحاظ سے مقام محمود سے مراد مقام شفاعت ہے جیسا کہ آپ نے خود بھی یہی وضاحت فرمائی ہے۔ چناچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ کسی نے آپ سے مقام محمود کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اس سے مراد مقام شفاعت ہے (ترمذی، ابو اب التفسیر) اس وقت سب لوگوں کی زبان پر آپ کی حمد و ستائش جاری ہوجائے گی۔- نیز ہمیں اذان کے بعد جو دعا سکھائی گئی ہے اس میں ہر شخص آپ کے لیے مقام محمود پر کھڑا ہونے کی دعا کرتا ہے جس میں ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کوئی بلند مرتبہ بزرگ اپنے سے چھوٹے یا کم تر درجہ کے آدمی کو اپنے حق میں دعا کے لیے کہہ سکتا ہے اور چھوٹے یا کم تر درجہ کے آدمی کی دعا اپنے سے بلند مرتبہ بزرگ کے حق میں قبول ہوسکتی ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ ۔۔ : ” مِنْ “ بعض کے معنی میں ہے۔ ” ھُجُوْدٌ“ نیند کو کہتے ہیں۔ تہجد ترک ہجود، یعنی نیند ترک کرنے کا نام ہے، خواہ رات سونے کے بعد اٹھ کر ہو یا عشاء کے فوراً بعد نیند کے بجائے قیام کیا جائے۔ تہجد کے لیے سو کر اٹھنا ضروری نہیں۔ سورة مزمل میں فرمایا، رات کا کچھ حصہ قرآن کی تلاوت پر مشتمل نماز کے ساتھ نیند کو ترک کیجیے۔ تفصیل سورة مزمل کی ابتدائی اور آخری آیات میں ملاحظہ فرمائیں۔- نَافِلَةً لَّكَ : ” نَافِلَةً “ جو فرض سے زائد ہو، جمع نوافل۔ بعض لوگ اس کا معنی یہ کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تہجد ایک زائد فرض ہے، باقی عوام کے لیے نفل ہے۔ مگر ”ۧاَقِمِ الصَّلٰوةَ “ سے لے کر آیات کے آخر تک کے اول مخاطب اگرچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں مگر ان تمام احکام کا مخاطب امت کا ہر فرد بھی ہے۔ اس لیے تحقیق یہی ہے کہ تہجد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی فرض نہیں تھی۔- عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ ۔۔ : ” عَسٰٓي “ کا معنی ” امید ہے “ ، ” قریب ہے “ ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ یہ لفظ فرمائے تو وہ کام واقع ہونا ضروری ہوتا ہے، کیونکہ ” عَسٰٓي “ طمع اور امید دلانے کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے، جو ملک الملوک ہے، عار ہے کہ امید دلا کر اسے پورا نہ کرے۔ ” مَقَامًا مَّحْمُوْدًا “ کے لفظی معنی ہیں ” ایسا مقام جس کی تعریف کی جائے “ اور حقیقت یہ ہے کہ ہر مخلص تہجد پڑھنے والے کو اس کی صلاحیت کے مطابق دنیا اور آخرت میں یہ مقام حاصل ہوتا ہے کہ دنیا میں لوگ اس سے محبت رکھتے اور تعریف کرتے ہیں اور آخرت میں بھی اسے یہ نعمت اس کی حیثیت کے مطابق حاصل ہوگی۔ دیکھیے سورة مریم (٩٦) اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ نعمت عطا فرمائے۔ سب سے اونچا ” مقام محمود “ جو صرف ایک ہی شخص کو ملے گا اور جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا ہے، وہ مقام شفاعت ہے، جس پر سب پہلے اور پچھلے آپ کی تعریف کریں گے۔ ایک شفاعت میدان محشر کی تنگی سے خلاصی دلا کر حساب کتاب شروع کرنے کی عام شفاعت ہے کہ اس پر سب پہلے اور پچھلے آپ کی تعریف کریں گے اور ایک اپنی امت کے لیے خاص شفاعت ہے جس پر پوری امت آپ کی احسان مند ہوگی اور تعریف کرے گی۔ آپ کے نام ” احمد “ اور ” محمد “ کی شان اس وقت پوری طرح ظاہر ہوگی۔ عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ قیامت کے دن لوگ گروہوں کی شکل میں ہوں گے، ہر امت اپنے نبی کا پیچھا کرے گی کہ اے فلاں آپ سفارش کیجیے، یہاں تک کہ آخر میں شفاعت (کی درخواست) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک آپہنچے گی تو یہ وہ دن ہے جب اللہ آپ کو مقام محمود پر کھڑا کرے گا۔ [ بخاری، التفسیر، سورة بني إسرائیل، باب قولہ : ( عسی أن یبعثک ربک مقامًا محمودا ) : ٤٧١٨ ]- جابر بن عبداللہ (رض) سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص اذان سنے، پھر یہ دعا پڑھے : ( اَللَّھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ وَالصَّلَاۃِ الْقَاءِمَۃِ ، آتِ مُحَمَّدَنِا الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَنِا الَّذِيْ وَعَدْتَّہُ ) تو اسے قیامت کے دن میری شفاعت نصیب ہوگی۔ “ [ بخاری، الأذان، باب الدعاء عند النداء : ٦١٤ ] شاہ عبد القادر (رض) لکھتے ہیں : ” نیند سے جاگ کر قرآن پڑھا کر، یہ حکم سب سے زیادہ تجھ کو دیا ہے کہ تجھ کو بڑا مرتبہ دینا ہے، وہ تعریف کا مقام ہے، شفاعت (کبریٰ ) کا کہ جب کوئی پیغمبر نہ بول سکے گا تب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ سے عرض کر کے خلق کو چھڑوائیں گے تکلیف سے۔ “ (موضح)- 3 بعض لوگوں نے مقام محمود کی تفسیر یہ کی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عرش پر اپنے ساتھ بٹھائے گا۔ طبری نے مجاہد کا یہ قول نقل کیا ہے۔ بعض روایات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی نقل کی جاتی ہیں۔ حافظ ذہبی (رض) نے اپنی کتاب ” اَلْعُلُوُّ لِلّٰہِ الْعَظِیْمِ “ میں محمد بن مصعب کے ترجمہ میں فرمایا : ” رہا ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عرش پر بیٹھنے کا معاملہ تو اس کے متعلق کوئی نص (آیت یا حدیث) ثابت نہیں، بلکہ اس باب میں ایک ضعیف و کمزور روایت ہے اور مجاہد نے آیت کی جو تفسیر کی ہے بعض اہل کلام نے اس کا انکار کیا ہے۔ “ (ملخص از تفسیر قاسمی) ظاہر ہے کہ تابعی کے قول سے دین خصوصاً عقیدہ سے متعلق کوئی بات ثابت نہیں ہوسکتی۔ مزید دیکھیے سورة بنی اسرائیل کی آیت (٤٢) امام ذہبی (رض) نے کیا خوب فرمایا : ” بدعت اور غلو کا نتیجہ دیکھیے کہ ایک طرف ایک منکر اثر کو لے کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عرش پر بٹھایا جا رہا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے عرش اور بلندی پر ہونے کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ کے صریح فرمان : (اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى) کو رد کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ “ (ملخص از قاسمی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

نماز تہجد کا وقت اور اسکے احکام و مسائل :- (آیت) وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ لفظ تہجد ہجود سے مشتق ہے اور یہ لفظ دو متضاد معنے کیلئے استعمال ہوتا ہے اس کے معنے سونے کے بھی آتے ہیں اور جاگنے بیدار ہونے کے بھی اس جگہ وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ کے معنی یہ ہیں کہ رات کے کچھ حصہ میں قرآن کے ساتھ بیدار رہا کرو کیونکہ بہ کی ضمیر قرآن کی طرف راجع ہے (مظہری)- قرآن کے ساتھ بیدار رہنے کا مطلب نماز ادا کرنا ہے اسی رات کی نماز کو اصطلاح شرع میں نماز تہجد کہا جاتا ہے اور عموما اس کا یہ مفہوم لیا گیا ہے کہ کچھ دیر سو کر اٹھنے کے بعد جو نماز پڑھی جائے وہ نماز تہجد ہے لیکن تفسیر مظہری میں ہے کہ مفہوم اس آیت کا اتنا ہے کہ رات کے کچھ حصے میں نماز کے لئے سونے کو ترک کردو اور یہ مفہوم جس طرح کچھ دیر سونے کے بعد جاگ کر نماز پڑھنے پر صادق ہے اسی طرح شروع ہی میں نماز کے لیے نیند کو موخر کرکے نماز پڑھنے پر صادق آتا ہے اس لئے نماز تہجد کے لئے پہلے نیند ہونے کی شرط قرآن کا مدلول نہیں پھر بعض روایات حدیث سے بھی تہجد کے اس عام معنے پر استدلال کیا ہے۔ فیصل اور امام ابن کثیر نے حضرت حسن بصری سے نماز تہجد کی جو تعریف نقل کی ہے وہ بھی اسی عموم پر شاہد ہے اس کے الفاظ یہ ہیں۔- قال الحسن البصری ھو ماکان بعد العشاء ویحمل علیٰ ماکان بعد النوم (ابن کثیر) حسن بصری فرماتے ہیں کہ نماز تہجد ہر اس نماز پر صادق ہے جو عشاء کے بعد پڑھی جائے البتہ تعامل کی وجہ سے اس کو کچھ نیند کے بعد پر محمول کیا جائے گا۔- اس کا حاصل یہ ہے کہ نماز تہجد کے اصل مفہوم میں بعد النوم ہونا شرط نہیں اور الفاظ قرآن میں بھی یہ شرط موجود نہیں لیکن عموما تعامل رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) اجمعین کا یہی رہا ہے کہ نماز آخر رات میں بیدار ہو کر پڑھتے تھے اس لئے اس کی فضیلت اس کی افضل صورت یہی ہوگی۔- نماز تہجد فرض ہے یانفل :- نَافِلَةً لَّكَ لفظ نفل اور نافلہ کے لغوی معنے زائد کے ہیں اسی لئے اس نماز اور صدقہ خیرات وغیرہ کو نفل کہتے ہیں جو شرعا واجب اور ضروری نہ ہو جس کے کرنے میں ثواب ہے اور نہ کرنے میں نہ کوئی گناہ ہے اور نہ کسی قسم کی برائی اس آیت میں نماز تہجد کے ساتھ نافِلَةً لَّكَ کے الفاظ سے ظاہرا یہ سمجھا جاتا ہے کہ نماز تہجد خصوصیت کے ساتھ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے نفل ہے حالانکہ اس کے نفل ہونے میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پوری امت سب ہی شریک ہیں اسی لئے بعض حضرات مفسرین نے اس جگہ نافلہ کو فریضہ کی صفت قرار دے کر معنی یہ قرار دیئے ہیں کہ عام امت پر تو صرف پانچ وقت کی نماز فرض ہے مگر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تہجد بھی ایک زائد فرض ہے تو یہاں لفظ نافلہ بمعنے فرض زائد کے ہے نفل کے عام معنی میں نہیں۔- اور تحقیق صحیح اس معاملہ کی یہ ہے کہ ابتداء اسلام میں جب سورة مزمل نازل ہوئی تو اس وقت پانچ نمازیں تو فرض ہوئی نہ تھیں صرف تہجد کی نماز سب پر فرض تھی اسی فرض کا ذکر سورة مزمل میں ہے پھر شب معراج میں پانچ نمازیں فرض کر دیگئیں تو تہجد کی فرضیت عام امت سے تو باتفاق منسوخ ہوگئی اور اس میں اختلاف رہا کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی فرضیت منسوخ ہوئی یا یہ خصوصی طور پر آپ کے ذمہ فرض رہا اور اس آیت میں نافِلَةً لَّكَ کے یہی معنی ہیں کہ نماز تہجد آپ کے ذمہ ایک زائد فرض ہے مگر تفسیر قرطبی میں ہے کہ یہ کئی وجہ سے صحیح نہیں اول یہ کہ فرض کو نفل سے تعبیر کرنے کہ کوئی وجہ نہیں اگر کہا جائے کہ مجاز ہے تو یہ ایک ایسا مجاز ہوگا جس کی کوئی حقیقت نہیں دوسرے احادیث صحیحہ میں صرف پانچ نمازوں کی تیعین کے ساتھ فرض ہونے کا ذکر ہے اور ایک حدیث میں اس کے آخر میں یہ بھی مذکور ہے کہ شب معراج میں جو اول پچاس نمازیں فرض کی گئی تھیں پھر تخفیف کرکے پانچ کر دیگئیں تو اگرچہ عدد گھٹا دیا گیا مگر ثواب پچاس ہی کا ملے گا اور پھر فرمایا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ یعنی میرا قول بدلا نہیں کرتا جب پچاس کا حکم دیا تھا تو ثواب پچاس ہی کا دیا جائے گا اگرچہ عمل میں کمی کردی گئی۔- ان روایات کا حاصل یہی ہے کہ عام امت اور خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر پانچ نمازوں کے سوا کوئی اور نماز فرض نہیں ہے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نافِلَةً لَّكَ کا لفظ اگر اس جگہ فریضہ زائد کے معنی میں ہوتا تو اس کے بعد لفظ لَّكَ کے بجائے عَلَیک ہونا چاہئے تھا جو وجوب پر دلالت کرتا ہے لفظ لَّكَ تو صرف جواز اور اجازت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔- اسی طرح تفسیر مظہری میں صحیح اس کو قرار دیا ہے کہ جب تہجد کی فرضیت امت سے منسوخ ہوئی تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی منسوخ ہوگئی اور سب کے لئے نفل رہ گیا مگر اس صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت کیا ہے نفل ہونا تو سب ہی کے لئے ثابت ہے پھر نافِلَةً لَّكَ فرمانے کا کیا حاصل ہوگا جواب یہ ہے کہ حسب تصریح احادیث تمام امت کی نوافل اور تمام نفلی عبادات ان کے گناہوں کا کفارہ اور فرض نمازوں میں جو کوتاہی کمی رہ جائے اس کی تکمیل کا کام دیتی ہیں مگر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گناہوں سے بھی معصوم ہیں اور نماز کے آداب میں کوتاہی سے بھی اس لئے آپ کے حق میں نفلی عبادت بالکل زائد ہی ہے جو کسی کوتاہی کا تدارک نہیں بلکہ محض زیادت تقرب کا ذریعہ ہے (قرطبی ومظہری ) ۔- نماز تہجد نفل ہے یا سنت مؤ کدہ :- سنت موکدہ کے لئے جو عام ضابطہ فقہاء کا ہے کہ جس کام پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عملا مداومت فرمائی ہو اور بلا مجبوری کے نہ چھوڑا ہو وہ سنت موکدہ ہے بجز اس کے کہ کسی دلیل شرعی سے یہ ثابت ہوجائے کہ یہ کام آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص تھا عام امت کے لئے نہیں تھا اس ضابطہ کا تقاضا بظاہر یہی ہے کہ نماز تہجد بھی سب کیلئے سنت مؤ کدہ قرار پائے نہ کہ صرف نفل کیونکہ اس نماز پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مداومت سنت متواترہ سے ثابت ہے اور خصوصیت کی کوئی دلیل نہیں اس لئے عام امت کے لئے بھی سنت مؤ کدہ ہونا چاہئے تفسیر مظہری میں اس کو مختار اور راجح قرار دیا ہے اور اس کے موکدہ ہونے پر حضرت ابن مسعود (رض) کی اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کے بارے میں جو پہلے تہجد پڑھا کرتا تھا پھر چھوڑدیا یہ ارشاد فرمایا کہ اس کے کان میں شیطان نے پیشاب کردیا ہے اس طرح کی وعید اور تنبیہ صرف نفل میں نہیں ہو سکتی اس سے معلوم ہوا کہ یہ سنت موکدہ ہے۔- اور جن حضرات نے تہجد کو صرف نفل قرار دیا ہے وہ اس مواظبت اور مداومت کو آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت قرار دیتے ہیں اور تہجد پڑھنے والے کے ترک تہجد پر جو زجر کے الفاظ ارشاد فرمائے وہ دراصل مطلقا ترک پر نہیں بلکہ اول عادت ڈالنے کے بعد ترک کرنے پر ہیں کیونکہ آدمی جس نفل کی عادت ڈال لے باتفاق امت اس کو چاہئے کہ اس پر مداومت کرے اگر عادت ڈالنے کے بعد چھوڑ یگا تو قابل ملامت ہوگا کیونکہ عادت کے بعد بلاعذر ترک ایک قسم کے اعراض کی علامت ہے اور جو شروع سے عادی نہ ہو تو اس پر کوئی ملامت نہیں واللہ اعلم۔- تہجد کی تعداد رکعات :- صحیح بخاری ومسلم میں حضرت صدیقہ عائشہ (رض) کی روایت یہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رمضان یا غیر رمضان میں کبھی گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے ان گیارہ رکعات میں حنفیہ کے نزدیک تین رکعتیں وتر کی ہوتی تھیں باقی آٹھ تہجد کی۔- اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں صدیقہ عائشہ (رض) کے یہ الفاظ منقول ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے جن میں وتر بھی شامل ہیں اور دو رکعتیں سنت فجر کی بھی (مظہری) سنت فجر کو رات کی نماز میں بوجہ رمضان کے شمار کرلیا ہے) ان روایات سے معلوم ہوا کہ عام عادت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ تھی کہ تہجد کی نماز میں آٹھ رکعات ادا فرماتے تھے۔- لیکن صدیقہ عائشہ (رض) ہی کی ایک روایت سے یہ بھی ثابت ہے کہ کبھی کبھی اس تعداد سے کم چار یا چھ رکعات پر بھی اکتفاء فرمایا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں آپ سے یہ منقول ہے کہ حضرت مسروق نے صدیقہ (رض) سے تہجد کی نماز کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا کہ سات نو اور گیارہ رکعات ہوتی تھیں علاوہ سنت فجر کے (مظہری عن البخاری) حنفیہ کے قاعدہ کے مطابق تین رکعت وتر کی ہوئی تو سات میں چار نو میں سے چھ گیارہ میں سے آٹھ تہجد کی رکعتیں رہ جاتی ہیں۔- نماز تہجد کی کیفیت :- جو عام روایات حدیث سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ ابتدا میں دو رکعت ہلکی مختصر قراءت کے ساتھ پھر باقی رکعات میں قراءت بھی طویل اور رکوع سجدہ بھی طویل ہوتا اور یہ طول بسا اوقات بہت زیادہ ہوجاتا تھا کبھی کچھ کم (یہ خلاصہ ان روایات حدیث کا ہے جو اس جگہ تفیسر مظہری میں نقل کی گئی ہیں )- مقام محمود :- رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس آیت میں مقام محمود کا وعدہ کیا گیا ہے اور یہ مقام تمام انبیاء (علیہم السلام) میں سے آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص ہے اس کی تفسیر میں اقوال مختلف ہیں مگر صحیح وہ ہے جو احادیث صحیحہ میں خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے یہ مقام شفاعت کبری کا ہے کہ میدان حشر میں جس وقت تمام بنی آدم جمع ہوں گے اور ہر نبی و پیغمبر سے شفاعت کی درخواست کریں گے تو انبیاء (علیہم السلام) عذر کردیں گے صرف رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ شرف عطا ہوگا کہ تمام بنی آدم کی شفاعت فرما دینگے تفصیل اس کی روایات حدیث میں طویل ہے جو اس جگہ ابن کثیر اور تفسیر مظہری میں لکھی ہے۔- انبیاء (علیہم السلام) اور صلحاء امت کی شفاعت مقبول ہوگی :- اسلامی فرقوں میں سے خوارج اور معتزلہ شفاعت انبیاء (علیہم السلام) کے منکر ہیں وہ کہتے ہیں کہ گناہ کبیرہ کسی کی شفاعت سے معاف نہیں ہوگا مگر احادیث متواترہ اس پر شاہد ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) کی بلکہ صلحاء امت کی بھی شفاعت گناہگاروں کے حق میں مقبول ہوگی بہت سے لوگوں کے گناہ شفاعت سے معاف کردیئے جاویں گے۔- ابن ماجہ اور بیہقی میں بروایت عثمان (رض) منقول ہے کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز اول انبیاء (علیہم السلام) گناہگاروں کی شفاعت کرینگے پھر علماء پھر شہداء اور دہلمی نے بروایت ابن عمر (رض) نقل کیا ہے کہ آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ عالم سے کہا جائے گا کہ آپ اپنے شاگردوں کی شفاعت کرسکتے ہیں اگرچہ ان کی تعداد آسمان کے ستاروں کی برابر ہو۔ - اور ابو داؤد اور ابن حبان نے بروایت ابی الدرداء (رض) مرفوعا نقل کیا ہے کہ شہید کی شفاعت اس کے خاندان کے ستر آدمیوں کے متعلق قبول کی جائے گی۔- مسند احمد طبرانی اور بیہقی نے بسند صحیح حضرت ابو امامہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میری امت کے ایک آدمی کی شفاعت پر قبیلہ ربیعہ اور مضر کے تمام لوگوں سے زیادہ آدمی جنت میں داخل کئے جاویں گے۔- ایک سوال و جواب :- یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شفاعت فرماویں گے اور آپ کی شفاعت سے کوئی مومن دوزخ میں نہ رہ جاوے گا تو پھر امت کے علماء و صلحا کی شفاعت کس لئے اور کیونکر ہوگی تفسیر مظہری میں ہے کہ غالبا صورت یہ ہوگی کہ علماء اور صلحاء امت جن لوگوں کی شفاعت کرنا چاہیں گے وہ اپنی شفاعت آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کریں گے پھر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حق تعالیٰ کی بارگاہ میں شفاعت فرماویں گے۔- فائدہ :- ایک حدیث میں ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا شفاعتی لاھل الکبائر من امتی یعنی میری شفاعت میری امت کے ان لوگوں کے لئے ہوگی جنہوں نے کبیرہ گناہ کئے تھے اس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل کبائر کی شفاعت آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص ہوگی کوئی فرشتہ یا امت کا فرد اہل کبائر کی شفاعت نہ کرسکے گا بلکہ صلحاء امت کی شفاعت صغیرہ گناہ والوں کے لئے ہوگی۔- نماز تہجد کو مقام شفاعت حاصل ہونے میں خاص دخل ہے :- حضرت مجدد الف ثانی نے فرمایا کہ اس آیت میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اول نماز تہجد کا حکم دیا گیا پھر مقام محمود یعنی شفاعت کبری کا وعدہ کیا گیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز تہجد کو مقام شفاعت حاصل ہونے میں خاص دخل ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا 79؀- ليل - يقال : لَيْلٌ ولَيْلَةٌ ، وجمعها : لَيَالٍ ولَيَائِلُ ولَيْلَاتٌ ، وقیل : لَيْلٌ أَلْيَلُ ، ولیلة لَيْلَاءُ. وقیل :- أصل ليلة لَيْلَاةٌ بدلیل تصغیرها علی لُيَيْلَةٍ ، وجمعها علی ليال . قال اللہ تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] - ( ل ی ل ) لیل ولیلۃ - کے معنی رات کے ہیں اس کی جمع لیال ولیا ئل ولیلات آتی ہے اور نہایت تاریک رات کو لیل الیل ولیلہ لیلاء کہا جاتا ہے بعض نے کہا ہے کہ لیلۃ اصل میں لیلاۃ ہے کیونکہ اس کی تصغیر لیلۃ اور جمع لیال آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر 1] ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل ( کرنا شروع ) وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ [إبراهيم 33] اور رات اور دن کو تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔ - هجد - الهُجُود : النّوم، والهَاجِد : النّائم، وهجّدته فتهجّد : أزلت هجوده نحو : مرّضته . ومعناه :- أيقظته فتیقّظ، وقوله : وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ [ الإسراء 79] أي : تيقّظ بالقرآن، وذلک حثّ علی إقامة الصلاة في اللیل المذکور في قوله : قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا نِصْفَهُ [ المزمل 2- 3] والمتهجّد : المصلّي ليلا، وأهجد البعیر : ألقی جرانه علی الأرض متحرّيا للهجود .- ( ھ ج د )- (رح) اھجود کے معنی نیند کے ہیں اور نائم سوئے ہوئے ) آدمی کو ھا جد کہا جاتا ہے اور ھجدتہ ( ازالہ کماخذ ) کے معنی ہیں میں نے اس کی نیند کو دور کیا تو وہ جاگ گیا جیسا کہ مر ضتہ کے معنی ہوتے ہیں ۔ میں نے اس کے مرض کو دور کیا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ [ الإسراء 79] اور رات کے وقت میں نماز تہجد بھی پڑھا کرو ۔ اس آیت میں رات کے قیام میں قرآن پڑھنے کی تر غیب دی گئی ہے ۔ جیسے دوسری جگہ اسی کو قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا نِصْفَهُ [ المزمل 2- 3] رات کے وقت نماز میں کھڑے رہا کرو وساری رات سے کہ یعنی آدھی رات ۔ قیام کیساتھ تعبیر فرمایا ہے ۔ المتھجد کے معنی رات کو نیند سے اٹھ کر نماز پڑھنے والا کے ہیں ۔ اھجد البعیر کے معنی اونٹ کا خواب کیووقت اپنا سینہ زمین پر رکھ دینے کے ہیں ۔- نفل - النَّفَلُ قيل : هو الغَنِيمَةُ بعَيْنِهَا لکن اختلفتِ العبارةُ عنه لاختلافِ الاعْتِبَارِ ، فإنه إذا اعتُبِر بکونه مظفوراً به يقال له : غَنِيمَةٌ ، وإذا اعْتُبِرَ بکونه مِنْحَةً من اللہ ابتداءً من غير وجوبٍ يقال له : نَفَلٌ ، ومنهم من فَرَقَ بينهما من حيثُ العمومُ والخصوصُ ، فقال : الغَنِيمَةُ ما حَصَلَ مسْتَغْنَماً بِتَعَبٍ کان أو غَيْرِ تَعَبٍ ، وباستحقاقٍ کان أو غيرِ استحقاقٍ ، وقبل الظَّفَرِ کان أو بَعْدَهُ. والنَّفَلُ : ما يَحْصُلُ للإنسانِ قبْلَ القِسْمَةِ من جُمْلَةِ الغَنِيمَةِ ، وقیل : هو ما يَحْصُلُ للمسلمین بغیر قتالٍ ، وهو الفَيْءُ «2» ، وقیل هو ما يُفْصَلُ من المَتَاعِ ونحوه بَعْدَ ما تُقْسَمُ الغنائمُ ، وعلی ذلک حُمِلَ قولُه تعالی: يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفالِ الآية [ الأنفال 1] ، وأصل ذلک من النَّفْلِ. أي : الزیادةِ علی الواجبِ ، ويقال له : النَّافِلَةُ. قال تعالی: وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نافِلَةً لَكَ [ الإسراء 79] ، وعلی هذا قوله : وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ وَيَعْقُوبَ نافِلَةً [ الأنبیاء 72] وهو وَلَدُ الوَلَدِ ، ويقال :- نَفَلْتُهُ كذا . أي : أعطيْتُهُ نَفْلًا، ونَفَلَهُ السّلطانُ : أعطاه سَلَبَ قَتِيلِهِ نَفْلًا . أي : تَفَضُّلًا وتبرُّعاً ، والنَّوْفَلُ : الكثيرُ العَطَاءِ ، وانْتَفَلْتُ من کذا : انْتَقَيْتُ منه .- ( ن ف ل )- النفل بعض کے نزدیک نفل اور غنیمت ایک ہی چیز کے دونام ہیں ان میں صرف اعتباری فرق ہے اس لحاظ سے کہ وہ فتح کے بعد چھینا ہوا مال ہوتا ہے اسے غنیمت کہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا غیر لازم ہونے کے لحاظ نفل کہلاتا ہے ۔ بعض کے نزدیک ان میں نسبت عموم وخصؤص مطلق ہے یعنی غنیمت عام ہے اور ہر اس مال کو کہتے ہیں جو لوٹ سے حاصل ہو خواہ مشقت سے ہو یا بلا مشقت کے فتح سے قبل حاصل ہو یا بعد میں استحقاق سے حاصل ہو یا بغیر استحقاق کے اور نفل خاض کر اس مال کو کہتے ہیں ۔ جو غنیمت سے قبل از تقسیم حاصل ہوا ہو ۔ بعض کے نزدیک نفل وہ مال ہے جو بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائے اور اسے فے بھی کہتے ہیں اور بعض نے کہا ہے جو سامان وغیرہ تقسیم غنائم کے بعد بانٹا جاتا ہے ۔ اسے نفل کہا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفالِالآية [ الأنفال 1]( اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجاہد لوگ ) آپ سے غنیمت کے مال کے بارے میں در یافت کرتے ہیں کہ کیا حکم ہے ) اصل میں انفال نفل سے ہے جس کے معنی واجب پر زیادتی کے ہیں اور اسے نافلۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نافِلَةً لَكَ [ الإسراء 79] اور بعض حصہ شب میں بیدار ہوا کرو اور تہجد کی نماز پڑھا کرو یہ شب خیزی تمہارے لئے سبب زیادہ ثواب اور نماز تہجد تم کو نفل ہی اور آیت کریمہ : ۔ وَوَهَبْنا لَهُ إِسْحاقَ وَيَعْقُوبَ نافِلَةً [ الأنبیاء 72] اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق عطا کئے اور مستنراد وبر آن یعقوب ۔ میں نافلۃ بھی اسی معنی پر محمول ہے اور یہاں اس سے مراد اولاد کی اولاد ہے محاورہ ہے ۔ نقلتہ کذا میں نے اسے بطور نفل کے دیا ۔ نفلۃ السلطان بادشاہ نے اسے تبرع کے طور پر قتیل کا سامان سے دیا النوافل عطائے کثیر ۔ انتفلت من کذا میں نے اس سے چن لیا ۔- عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین في ذلك . فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ- [ المائدة 52] ، عَسى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ [ التحریم 5] ، وَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ [ البقرة 216] ، فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ [ محمد 22] ، هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتالُ [ البقرة 246] ، فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْراً كَثِيراً [ النساء 19] . والمُعْسِيَاتُ «1» من الإبل : ما انقطع لبنه فيرجی أن يعود لبنها، فيقال : عَسِيَ الشّيءُ يَعْسُو : إذا صَلُبَ ، وعَسِيَ اللّيلُ يَعْسَى. أي : أَظْلَمَ. «2» .- ( ع س ی )- عسیٰ کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اسی طرح فرمایا : ۔ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] سو قریب ہے کہ خدا فتح بھیجے عَسى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ [ التحریم 5] اگر پیغمبر تم کو طلاق دے دیں تو عجب نہیں کہ انکار پروردگار وَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ [ البقرة 216] مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو ۔ فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ [ محمد 22] تم سے عجب نہیں کہ اگر تم حاکم ہوجاؤ ۔ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتالُ [ البقرة 246] کہ اگر تم کو جہاد کا حکم دیا جائے تو عجب نہیں فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْراً كَثِيراً [ النساء 19] اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور خدا اس میں بہت سی بھلائی پیدا کر دے ۔ المعسیانشتر مادہ جس کا دودھ منقطع ہوگیا ہو اور اس کے لوٹ آنے کی امید ہو ۔ عسی الیل یعسو رات کا تاریک ہوجانا ۔- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] ،- فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل :- فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] ، وقال - عزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ :- وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] ، أي : توجههم ومضيّهم .- ( ب ع ث ) البعث - ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7]- وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے - پس بعث دو قمن پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا - دوم بعث الہی - یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) «1» . فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] . وعلی هذا قوله تعالی: وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران 80] أي : آلهة، وتزعمون أنهم الباري مسبّب الأسباب، والمتولّي لمصالح العباد، وبالإضافة يقال له ولغیره، نحو قوله : رَبِّ الْعالَمِينَ [ الفاتحة 1] ، ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات 126] ، ويقال : رَبُّ الدّار، ورَبُّ الفرس لصاحبهما، وعلی ذلک قول اللہ تعالی: اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف 42] ، وقوله تعالی: ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف 50] ، وقوله : قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف 23] ، قيل : عنی به اللہ تعالی، وقیل : عنی به الملک الذي ربّاه «2» ، والأوّل أليق بقوله . والرَّبَّانِيُّ قيل : منسوب إلى الرّبّان، ولفظ فعلان من : فعل يبنی نحو :- عطشان وسکران، وقلّما يبنی من فعل، وقد جاء نعسان . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ الذي هو المصدر، وهو الذي يربّ العلم کالحکيم، وقیل : منسوب إليه، ومعناه، يربّ نفسه بالعلم، وکلاهما في التحقیق متلازمان، لأنّ من ربّ نفسه بالعلم فقد ربّ العلم، ومن ربّ العلم فقد ربّ نفسه به . وقیل : هو منسوب إلى الرّبّ ، أي : اللہ تعالی، فالرّبّانيّ کقولهم : إلهيّ ، وزیادة النون فيه كزيادته في قولهم : لحیانيّ ، وجسمانيّ «1» . قال عليّ رضي اللہ عنه : (أنا ربّانيّ هذه الأمّة) والجمع ربّانيّون . قال تعالی: لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة 63] ، كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران 79] ، وقیل : ربّانيّ لفظ في الأصل سریانيّ ، وأخلق بذلک «2» ، فقلّما يوجد في کلامهم، وقوله تعالی: رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران 146] ، فالرِّبِّيُّ کالرّبّانيّ. والرّبوبيّة مصدر، يقال في اللہ عزّ وجلّ ، والرِّبَابَة تقال في غيره، وجمع الرّبّ أرْبابٌ ، قال تعالی: أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف 39] ، ولم يكن من حقّ الرّبّ أن يجمع إذ کان إطلاقه لا يتناول إلّا اللہ تعالی، لکن أتى بلفظ الجمع فيه علی حسب اعتقاداتهم، لا علی ما عليه ذات الشیء في نفسه، والرّبّ لا يقال في التّعارف إلّا في الله، وجمعه أربّة، وربوب، قال الشاعر :- 173-- کانت أربّتهم بهز وغرّهم ... عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا - «3» وقال آخر :- 174-- وكنت امرأ أفضت إليك ربابتي ... وقبلک ربّتني فضعت ربوب - «4» ويقال للعقد في موالاة الغیر : الرِّبَابَةُ ، ولما يجمع فيه القدح ربابة، واختصّ الرّابّ والرّابّة بأحد الزّوجین إذا تولّى تربية الولد من زوج کان قبله، والرّبيب والرّبيبة بذلک الولد، قال تعالی: وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء 23] ، وربّبت الأديم بالسّمن، والدّواء بالعسل، وسقاء مربوب، قال الشاعر :- 175-- فكوني له کالسّمن ربّت بالأدم - «5» والرَّبَابُ : السّحاب، سمّي بذلک لأنّه يربّ- النبات، وبهذا النّظر سمّي المطر درّا، وشبّه السّحاب باللّقوح . وأَرَبَّتِ السّحابة : دامت، وحقیقته أنها صارت ذات تربية، وتصوّر فيه معنی الإقامة فقیل : أَرَبَّ فلانٌ بمکان کذا تشبيها بإقامة الرّباب، وَ «رُبَّ» لاستقلال الشیء، ولما يكون وقتا بعد وقت، نحو : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا - [ الحجر 2] .- ( ر ب ب ) الرب - ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کمال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ ورببہ تینوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گناہ بخشنے والا پروردگار ،۔ نیز فرمایا :۔ وَلا يَأْمُرَكُمْ أَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلائِكَةَ وَالنَّبِيِّينَ أَرْباباً [ آل عمران 80] اور وہ تم سے ( کبھی بھی ) یہ نہیں کہے گا کہ فرشتوں اور انبیاء کرام کو خدا مانو ( یعنی انہیں معبود بناؤ ) اور مسبب الاسباب اور مصالح عباد کو کفیل سمجھو ۔ اور اضافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور دوسروں پر بھی ۔ چناچہ فرمایا :۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ [ الفاتحة 1] ہر طرح کی حمد خدا ہی کو ( سزا وار ) ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے ۔ ورَبُّكُمْ وَرَبُّ آبائِكُمُ الْأَوَّلِينَ [ الصافات 126] یعنی اللہ کو جو تمہارا ( بھی ) پروردگار ( ہے ) اور تمہارے پہلے آباؤ اجداد کا ( بھی ) رب الدار گھر کا مالک ۔ رب الفرس گھوڑے کا مالک اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا :۔ اذْكُرْنِي عِنْدَ رَبِّكَ فَأَنْساهُ الشَّيْطانُ ذِكْرَ رَبِّهِ [يوسف 42] اپنے آقا سے میرا بھی تذکرہ کرنا ۔ سو شیطان نے اس کو اپنے آقا سے تذکرہ کرنا بھلا دیا ۔ ارْجِعْ إِلى رَبِّكَ [يوسف 50] اپنے سردار کے پاس لوٹ جاؤ ۔ اور آیت :۔ قالَ مَعاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوايَ [يوسف 23] ( یوسف نے کہا ) معاذاللہ وہ تمہارا شوہر میرا آقا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ ربی سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور بعض نے عزیز مصر مراد لیا ہے ۔ لیکن پہلا قول انسب معلوم ہوتا ہے ۔ ربانی بقول بعض یہ ربان ( صیغہ صفت ) کی طرف منسوب ہے ۔ لیکن عام طور پر فعلان ( صفت ) فعل سے آتا ہے ۔ جیسے عطشان سکران اور فعل ۔ ( فتحہ عین سے بہت کم آتا ہے ) جیسے نعسان ( من نعس ) بعض نے کہا ہے کہ یہ رب ( مصدر ) کی طرف منسوب ہے اور ربانی وہ ہے جو علم کی پرورش کرے جیسے حکیم ( یعنی جو حکمت کو فروغ دے ۔ ) اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رب مصدر کی طرف ہی منسوب ہے اور ربانی وہ ہے ۔ جو علم سے اپنی پرورش کرے ۔ درحقیقت یہ دونوں معنی باہم متلازم ہیں کیونکہ جس نے علم کی پرورش کی تو اس نے علم کے ذریعہ اپنی ذات کی بھی تربیت کی اور جو شخص اس کے ذریعہ اپنی ذات کی تربیت کریگا وہ علم کو بھی فروغ بخشے گا ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ رب بمعنی اللہ کی طرف منسوب ہے اور ربانی بمعنی الھی ہے ( یعنی اللہ والا ) اور اس میں الف نون زائدتان ہیں جیسا کہ جسم ولحی کی نسبت میں جسمانی ولحیانی کہا جاتا ہے ۔ حضرت علی کا قول ہے : انا ربانی ھذہ الامۃ میں اس امت کا عالم ربانی ہوں اس کی جمع ربانیون ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لَوْلا يَنْهاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبارُ [ المائدة 63] انہیں ان کے ربی ( یعنی مشائخ ) کیوں منع نہیں کرتے ۔ كُونُوا رَبَّانِيِّينَ [ آل عمران 79]( بلکہ دوسروں سے کہیگا ) کہ تم خدا پرست ہو کر رہو ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ ربانی اصل میں سریانی لفظ ہے اور یہی قول انسب معلوم ہوتا ہے اس لیے کہ عربی زبان میں یہ لفظ بہت کم پایا جاتا ہے اور آیت :۔ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ [ آل عمران 146] بہت سے اللہ والوں نے ۔ میں ربی بمعنی ربانی ہے ۔ یہ دونوں مصدر ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے ربوبیۃ اور دوسروں کے لئے ربابیۃ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ الرب ( صیغہ صفت ) جمع ارباب ۔ قرآن میں ہے : أَأَرْبابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ [يوسف 39] بھلا ( دیکھو تو سہی کہ ) جدا جدا معبود اچھے یا خدائے یگانہ اور زبردست ۔ اصل تو یہ تھا کہ رب کی جمع نہ آتی ۔ کیونکہ قرآن پاک میں یہ لفظ خاص کر ذات باری تعالیٰ کیلئے استعمال ہوا ہے لیکن عقیدہ کفار کے مطابق بصیغہ جمع استعمال ہوا ہے اور ارباب کے علاوہ اس کی جمع اربۃ وربوب بھی آتی ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( بسیط) کانت اربتھم بھز وغرھم عقد الجوار وکانوا معشرا غدرا ان کے ہم عہد بنی بہز تھے جنہیں عقد جوار نے مغرور کردیا اور درحقیقت وہ غدار لوگ ہیں ۔ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 129) وکنت امرءا افضت الیک ربابتی وقبلک ربنی فضعت ربوب تم آدمی ہو جس تک میری سر پرستی پہنچتی ہے تم سے پہلے بہت سے میرے سرپرست بن چکے ہیں مگر میں ضائع ہوگیا ہوں ۔ ربابۃ : عہد و پیمان یا اس چیز کو کہتے ہیں جس میں قمار بازی کے تیر لپیٹ کر رکھے جاتے ہیں ۔ رابۃ وہ بیوی جو پہلے شوہر سے اپنی اولاد کی تربیت کررہی ہو ۔ اس کا مذکر راب ہے ۔ لیکن وہ اولاد جو پہلے شوہر سے ہو اور دوسرے شوہر کی زیر تربیت ہو یا پہلی بیوی سے ہو اور دوسری بیوی کی آغوش میں پرورش پا رہی ہو ۔ اسے ربیب یا ربیبۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع ربائب آتی ہے قرآن میں ہے : وَرَبائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ [ النساء 23] اور تمہاری بیویوں کی ( پچھلی ) اولاد جو تمہاری گودوں میں ( پرورش پاتی ) ہے ۔ ربیت الادیم بالسمن میں نے چمڑے کو گھی لگا کر نرم کیا ۔ ربیت الدواء بالعسل میں نے شہد سے دوا کی اصلاح کی سقاء مربوب پانی مشک جسے تیل لگا کر نرم کیا گیا ہو ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 170) فکونی لہ کالسمن ربت لہ الادم اس کے لئے ایسی ہوجاؤ جیسے رب لگا ہوا چمڑا گھی کے لئے ہوتا ہے ۔ الرباب : بادل کو کہتے ہیں کیونکہ وہ نباتات کی پرورش کرتا اور اسے بڑھاتا ہے اسی معنی کے اعتبار سے مطر کو در ( دودھ ) اور بادل کو تشبیہا لقوح ( یعنی دودھیلی اونٹنی ) کہا جاتا ہے محاورہ ہے ۔ اربت السحابۃ بدلی متواتر برستی رہی اور اسکے اصل معنی ہیں بدلی صاحب تربیت ہوگئی اس کے بعد اس سے ٹھہرنے کا معنی لے کر یہ لفظ کسی جگہ پر مقیم ہونے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے ارب فلان بمکان کذا اس نے فلان جگہ پر اقامت اختیار کی ۔- رب تقلیل کے لئے آتا ہے اور کبھی تکثیر کے معنی بھی دیتا ہے ۔ جیسے فرمایا : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر 2] کافر بہترے ہی ارمان کریں گے ( کہ ) اے کاش ( ہم بھی ) مسلمان ہوئے ہوتے ۔- حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

نماز تہجد - قول باری ہے (ومن اللیل فتھجد بہ نافلۃ لک اور رات کو تہجد پڑھو یہ تمہارے لئے نفل ہے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابی حضرت حجاج بن عمرو انصاری سے ان کا یہ قول منقول ہے کہ ” تم میں سے جب کوئی شخص رات کی ابتداء سے آخر شب تک قیام کرتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس نے تہجد کی نماز ادا ک رلی ہے۔ نہیں اس نے تہجد کی نماز ادا نہیں کی۔ تہجد وہ نماز ہے جو تھوڑی دیر سونے کے بعد اٹھ کر ادا کی جائے، پھر تھوڑی دیر سونے کے بعد ادا کی جائے، پھر تھوڑی دیر سونے کے بعد ادا کی جائے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز تہجد کی نماز اس طرح ہوتی تھی۔ “ اسود اور علقمہ کا قول ہے کہ تہجد کی نماز سو کر اٹھنے کے بعد ہوتی ہے۔ لغت میں نما ز تہجد کے لئے یا اللہ کے ذکر کے لئے بیدار ہونے کو کہتے ہیں۔ ہجود نیند کو کہتے ہیں۔ ایک قول ہے کہ تہجد اس بیداری کا نام ہے جو نیند کی نفی کرنے والے عمل کے ساتھ کی جائے۔ قول باری (نافلۃ لک) کی تفسیر میں مجاہد کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے یہ نماز اس لئے نفل قرار دی گئی تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کردیئے گئے تھے اس لئے آپ کی طاعات بیاں معنی نفل تھیں کہ ان کے ذریعے آپ کے ثواب میں اضافہ ہوتا تھا جبکہ دوسروں کے لئے یہ گناہوں کا کفارہ بنتی تھیں۔ قتادہ کا قول ہے کہ نافلۃ بمعنی تطوع اور فضیلت ہے۔ سلیمان بن حیان نے روایت بیان کی، انہیں ابو غالب نے اور انہیں حضرت امامہ نے کہ ” جب تم درست طریقے سے وضو کرلو تمہارے گناہ معاف ہوجائیں گے اور اگر اس کے بعد کھڑے ہو کر نماز ادا کرلو تو یہ چیز تمہارے لئے اجر اور فضیلت کا ذریعہ بن جائے گی۔ “ ایک شخص نے پوچھا۔” ابو امامہ، آپ کا کیا خیال ہے کہ ایک شخص اٹھ کر نماز پڑھ لے تو آیا یہ نماز اس کے لئے نافلہ بن جائے گی ؟ “ حضرت ابوا امہ نے جواب میں فرمایا نہیں۔ یہ نماز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے نفل تھی، دوسرے انسان کے لئے یہ کس طرح نفل بن سکتی ہے جبکہ وہ گناہ کرنے اور غلطیوں کے ارتکاب میں کوشاں رہتاے۔ البتہ یہ اس کے لئے اجر اور فضیلت کا ذریعہب ن جائے گی۔ “ اسی طرح حضرت ابوامامہ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا دوسروں کے لئے اس کو نفل قرار دینے سے انکار کردیا۔- عبداللہ بن الصامت نے روایت بیان کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوذر سے فرمایا : ابوذر تمہاری کیفیت اس وقت کیا ہوگی جب کہ تم پر ایسے لوگ حاکم ہوں گے جو فرض نمازیں مئوخر کر کے پڑھیں گے ؟ “ حضرت ابوذر نے عرض کیا :” اللہ کے رسول، پھر ایسے وقت میں مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ “ آپ نے ارشاد فرمایا : نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا، اس کے بعد اگر حاکموں کو نماز کی حالت میں پائو تو تم بھی دوبارہ ان کے ساتھ نماز ادا کرلینا، یہ نماز تمہارے لئے نفل ہوجائے گی۔ “ قتادہ نے شہر بن حوشب سے اور انہوں نے حضرت ابوامامہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔” وضو اپنے ماقبل کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور اس کے بعد اگر نماز پڑھی جائے تو وہ نفل بن جاتی ہے۔ “ لوگوں نے حضرت ابو امامہ سے دریافت کیا کہ آپ نے خود یہ بات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے سنی ہے ؟ انہوں نے فرمایا :” ہاں، ایک دفعہ نہیں، دو دفعہ نہیں، تین دفعہ نہیں، چار دفعہ نہیں، پانچ دفعہ نہیں۔ “ ان دونوں روایتوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسروں کے لئے نافلہ کا اثبات کردیا۔ نافلہ فرض سے زائد کو کہتے ہیں یہ تطوع اور فضیلت ہے۔ اسی سے مال غنیمت میں نفل کا لفظ نکلا ہے۔ نفل اس زائد حصے کو کہتے ہیں جو امام المسلمین لشکر اسلام کے بعض افراد کے لئے ان کے اصل حصوں سے زائد یہ کہہ کر مقرر کردیتا ہے کہ ” جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کرے گا اسے اس کا سارا سامان مل جائے گا “ یا ” کسی کو اگر کوئی سامان ہاتھ لگ جائے وہ اس کا ہوگا۔ “

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٩) اور کسی قدر رات کے حصہ میں بھی قرأت قرآن کریم کیا کیجیے اور سو کر اٹھنے کے بعد تہجد پڑھا کیجیے یہ آپ کے لیے فضیلت کی چیز ہے یا یہ کہ خاص آپ کے لیے ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٩ (وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ )- یہاں لفظ ” بِہٖ “ میں وہی انداز ہے جس کی تکرار اس سے پہلے ہم سورة الانعام میں دیکھ چکے ہیں۔ (اَنْذِر بِہٖ ‘ ذَکِّر بِہٖ ) یعنی انذار تذکیر تبشیر تبلیغ سب قرآن کے ذریعے سے ہو۔ چناچہ یہاں پر رسول اللہ کو تہجد کا حکم دیا گیا تو فرمایا گیا کہ رات کا ایک حصہ آپ قرآن کے ساتھ جاگیے۔ تہجد کی نماز آپ قرآن کے ساتھ پڑھیں۔ گویا تہجد کا مقصد اور اس کی اصل روح یہی ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ قرآن پڑھا جائے۔ چھوٹی چھوٹی سورتوں کے ساتھ رکعتوں کی مخصوص تعداد پوری کرلینے سے یہ مقصد پورا نہیں ہوتا۔ - (نَافِلَةً لَّكَ ڰ عَسٰٓي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا)- ” مقام محمود “ بہت ہی اعلیٰ اور ارفع مقام ہے جس پر آنحضور کو میدان حشر میں اور جنت میں فائز کیا جائے گا۔ ہم اس مقام کی عظمت اور کیفیت کا اندازہ اپنے تصور سے نہیں کرسکتے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :96 تہجد کے معنی ہیں نیند توڑ کر اٹھنے کے ۔ پس رات کے وقت تہجد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ رات کا ایک حصہ سونے کے بعد پھر اٹھ کر نماز پڑھی جائے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :97 نفل کے معنی ہیں فرض سے زائد ۔ اس سے خود بخود یہ اشارہ نکل آیا کہ وہ پانچ نمازیں جن کے اوقات کا نظام پہلی آیت میں بیان کیا گیا تھا ، فرض ہیں ، اور یہ چھٹی نماز فرض سے زائد ہے ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :98 یعنی دنیا اور آخرت میں تم کو ایسے مرتبے پر پہنچا دے جہاں تم محمود خلائق ہو کر رہو ، ہر طرف سے تم پر مدح و ستائش کی بارش ہو ، اور تمہاری ہستی ایک قابل تعریف ہستی بن کر رہے ۔ آج تمہارے مخالفین تمہاری تواضع گالیوں اور علامتوں سے کر رہے ہیں اور ملک بھر میں تم کو بدنام کرنے کے لیے انہوں نے جھوٹے الزامات کا ایک طوفان برپا کر رکھا ہے ، مگر وہ وقت دور نہیں ہے جبکہ دنیا تمہاری تعریفوں سے گونج اٹھے گی اور آخرت میں بھی تم ساری خلق کے ممدوح ہو کر رہو گے ۔ قیامت کے روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام شفاعت پر کھڑا ہونا بھی اسی مرتبہ محمودیت کا ایک حصہ ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

45: اضافی عبادت کا مطلب بعض مفسرین نے یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ نماز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اضافی طور پر فرض تھی، عام مسلمانوں کے لئے فرض نہیں تھی اور بعض مفسرین نے اضافی عبادت کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کی طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے بھی نفلی عبادت ہے۔ 46: مقام محمود کے لفظی معنی قابل تعریف مقام، اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کا وہ منصب ہے جس کے تحت آپ کو شفاعت کا حق دیا جائے گا۔