Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حکم ہجرت مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف میں تھے پھر آپ کو ہجرت کا حکم ہوا اور یہ آیت اتری ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کفار مکہ نے مشورہ کیا کہ آپ کو قتل کر دیں یا نکال دیں یا قید کرلیں پس اللہ کیا یہی ارادہ ہوا کہ اہل مکہ کو ان کی بداعمالیوں کا مزہ چکھا دے ۔ اس نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے جانے کا حکم فرمایا ۔ یہی اس آیت میں بیان ہو رہا ھے ۔ قتادہ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں مدینے میں داخل ہونا اور مکے سے نکلنا یہی قول سب سے زیادہ مشہور ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سچائی کے داخلے سے مراد موت ہے اور سچائی سے نکلنے سے مراد موت کے بعد کی زندگی ہے اور اقوال بھی ہیں لیکن زیادہ صحیح پہلا قول ہی ہے ۔ امام ابن جریر بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں پھر حکم ہوا کہ غلبے اور مدد کی دعا ہم سے کرو ۔ اس دعا پر اللہ تعالیٰ نے فارس اور روم کا ملک اور عزت دینے کا وعدہ فرما لیا اتنا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم معلوم کر چکے تھے کہ بغیر غلبے کے دین کی اشاعت اور زور ناممکن ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے مدد و غلبہ طلب کیا تاکہ کتاب اللہ اور حدود اللہ ، فرائض شرع اور قیام دین آپ کر سکیں یہ غلب بھی اللہ کی ایک زبردست رحمت ہے ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو ایک دوسرے کو کھا جاتا ۔ ہر زور اور کمزور کا شکار کر لیتا ۔ سلطنا نصیرا سے مراد کھلی دلیل بھی ہے لیکن پہلا قول پہلا ہی ہے اس لئے کہ حق کے ساتھ غلبہ اور طاقت بھی ضروری چیز ہے تاکہ مخالفین حق دبے رہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے لوہے کے اتارنے کے احسان کو قرآن میں خاص طور پر ذکر کیا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ سلطنت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بہت سی برائیوں کو روک دیتا ہے جو صرف قرآن سے نہیں رک سکتی تھیں ۔ یہ بالکل واقعہ ہے بہت سے لوگ ہیں کہ قرآن کی نصیحتیں اس کے وعدے وعید ان کو بدکاریوں سے نہیں ہٹا سکتے ۔ لیکن اسلامی طاقت سے مرعوب ہو کر وہ برائیوں سے رک جاتے ہیں پھر کافروں کی گوشمالی کی جاتی ہے کہ اللہ کی جانب سے حق آ چکا ۔ سچائی اتر آئی ، جس میں کوئی شک شبہ نہیں ، قرآن ایمان نفع دینے والا سچا علم منجانب اللہ آ گیا ، کفر برباد و غارت اور بےنام و نشان ہو گیا ، وہ حق کے مقابلہ میں بےدست و پاثابت ہوا ، حق نے باطل کا دماغ پاش پاش کر دیا اور نابود اور بےوجود ہو گیا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں آئے بیت اللہ کے آس پاس تین سو ساٹھ بت تھے ، آپ اپنے ہاتھ کی لکڑی سے انہیں کچوکے دے رہے تھے اور یہی آیت پڑھتے تھے اور فرماتے جاتے تھے حق آ چکا باطل نہ دوبارہ آ سکتا ہے نہ لوٹ سکتا ہے ۔ ابو یعلی میں ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکے میں آئے ، بیت اللہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت تھے ، جن کی پوجا پاٹ کی جاتی تھی آپ نے فورا حکم دیا کا ان سب کو اوندھے منہ گرا دو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

80۔ 1 بعض کہتے ہیں کہ یہ ہجرت کے موقع پر نازل ہوئی جب آپ کو مدینے میں داخل ہونے اور مکہ سے نکلنے کا مسئلہ درپیش تھا، بعض کہتے ہیں اس کے معنی ہیں مجھے سچائی کے ساتھ موت دینا اور سچائی کے ساتھ قیامت والے دن اٹھانا۔ بعض کہتے ہیں کہ مجھے قبر میں سچا داخل کرنا اور قیامت کے دن جب قبر سے اٹھائے تو سچائی کے ساتھ قبر سے نکالنا وغیرہ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ چونکہ یہ دعا ہے اس لئے اس کے عموم میں سب باتیں آجاتی ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠١] اس آیت میں آپ کی ہجرت کی طرف واضح اشارہ ہے جو اس آیت کے نزول کے تقریباً ایک سال بعد واقع ہونے والی تھی اور جو دعا آپ کو سکھائی گئی وہ یہ تھی کہ یا اللہ ایسی صورت پیدا فرما کہ میں جہاں بھی جاؤں حق و صداقت کی خاطر جاؤں اور جہاں سے نکلوں (مثلاً مکہ سے) تو حق و صداقت ہی کی خاطر نکلوں یا یہ مطلب ہے کہ جہاں مجھے پہنچانا ہے نہایت آبرو اور خوش اسلوبی کے ساتھ مجھے وہاں لے جا کہ حق و صداقت کا بول بالا رہے اور جہاں سے مجھے نکالنا ہے تو اس وقت بھی آبرو اور خوش اسلوبی سے نکال کہ دشمن ذلیل و خوار اور دوست شاداں وفرحاں ہوں، سچائی کی فتح ہو اور باطل سرنگوں ہو۔ - [١٠٢] دین کے نفاذ کے لئے اقتدار کی ضرورت :۔ اس جملہ کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ مجھے خود ایسا اقتدار اور حکومت عطا فرما جس میں تیری مدد اور نصرت شامل حال ہو۔ دوسرا یہ کہ کسی اقتدار یا حکومت کے دل میں یہ بات ڈال دے کہ وہ میرے اس کام یعنی دین حق کی سربلندی کے لیے میرا مددگار ثابت ہو۔ - اس آیت سے دو باتیں ضمناً معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ دین حق کے نفاذ کے لیے اقتدار اور غلبہ ضروری ہے محض پندو نصائح سے لاتوں کے بھوت کبھی نہ راہ راست پر آسکتے ہیں اور نہ اپنی معاندانہ سرگرمیاں چھوڑنے پر تیار ہوتے ہیں۔ اور ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ سمجھانے کے بعد ڈنڈے کی بھی ضرورت پیش آجاتی ہے۔ لہذا اقامت دین کے لیے دعوت دین کے علاوہ غلبہ و اقتدار کے لیے کوشش کرنا بھی ویسا ہی ضروری ہے۔- طلب امارت کن صورتوں میں ناجائز ہے ؟ اور دوسری یہ کہ طلب امارت جسے شریعت نے مذموم قرار دیا ہے صرف اس صورت میں مذموم ہے جبکہ اس سے مقصود محض حصول مال و جاہ ہو۔ اور اگر اس سے مقصود اقامت دین ہو تو ایسے اقتدار کے حصول کی کوشش مذموم تو درکنار، فرض کفایہ ہے اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ کسی موزوں تر آدمی کو برسر اقتدار لانے کی کوشش کرے اور اگر وہ خود ہی موزوں تر ہو اور کوئی دوسرا آدمی اس غرض کے لیے مل نہ رہا ہو تو خود اپنے لیے بھی حصول اقتدار کی کوشش ضروری ہوتی ہے۔ (نیز دیکھئے سورة یوسف آیت نمبر ٥٥ کا حاشیہ)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے ہر امتی کو یہ دعا سکھائی کہ اے میرے رب تو مجھے دنیا و آخرت میں جس جگہ بھی داخل کرے باعزت اور آبرو مندانہ طریقے سے داخل کر اور جس جگہ سے بھی نکالے باعزت طریقے سے نکال اور میرے لیے دلیل وبرہان کے ساتھ قوت و سلطنت کا ایسا غلبہ عطا فرما جو میرا مددگار ہو۔ دلیل کے غلبے کے لیے دعوت اور سلطنت کے غلبے کے لیے جہاد ضروری ہے، جس کا پہلا قدم دار الکفر سے ہجرت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ آیت اس وقت اتری جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہجرت کا حکم دیا گیا، چناچہ یہ دعا قبول ہوئی اور آپ آبرو مندانہ طور پر مدینہ وارد ہوئے، انصار سے اور مہاجرین سے دین کی مدد بھی ہوئی۔ - ” سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا “ سے اس آیت میں مراد قوت و سلطنت کا غلبہ ہے، کیونکہ دلیل وبرہان میں تو آپ مکہ میں بھی ہر وقت غالب تھے۔ کوئی شخص سورة کوثر جیسی ایک سورت بھی نہ بنا سکا تھا، اب عناد اور ضد سے اکڑی ہوئی گردنوں کے لیے جہاد کی ضرورت تھی، جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے ساتھ ساتھ لوہا بھی نازل فرمایا۔ دیکھیے سورة حدید (٢٥) کی تفسیر۔ اہل حق کے لیے حق سے دشمنی رکھنے والوں پر غلبہ حاصل کرنا فرض ہے، تب ہی وہ اسلام کو تمام ادیان پر غالب کرسکتے ہیں اور اپنی سلطنت ہی میں وہ پورے اسلام پر عمل کرسکتے ہیں جو اب صرف مسجد، نکاح اور جنازے وغیرہ تک رہ گیا ہے۔ بعض اہل علم نے فرمایا : ” إِنَّ اللّٰہَ لَیَزَعُ بالسُّلْطَانِ مَا لَا یَزَعُ بالْقُرْآنِ “ ” اللہ تعالیٰ سلطان کے ذریعے سے ان فواحش اور گناہوں سے روک دیتا ہے جن کے ارتکاب سے بہت سے لوگ قرآن سننے کے باوجود باز نہیں آتے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ الآیہ سابقہ آیات میں اول کفار مکہ کی ایذاؤں اور ان تدبیروں کا ذکر تھا جو وہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہونچانے کے لئے کرتے تھے اس کے ساتھ یہ بھی مذکور ہوا کہ ان کی یہ تدبیریں کامیاب نہیں ہوں گی اور ان کے مقابلہ میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اصل تدبیر کے درجہ میں تو صرف پنجگانہ نماز قائم کرنے اور تہجد گذاری کی تلقین فرمائی اس کے بعد آخرت میں آپ کو سب انبیاء سے اعلیٰ مقام یعنی مقام محمود عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا جو آخرت میں پورا ہوگا مذکورہ آیت وَقُلْ رَّبِّ میں حق تعالیٰ نے اسی دنیا میں اول آپ کو کفار کے مکائد اور ایذاؤں سے نجات دینے کی تدبیر بصورت ہجرت مدینہ ارشاد فرمائی اور اس کے بعد فتح مکہ کی بشارت وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ میں ارشاد فرمائی گئی۔- جامع ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ معظمہ میں تھے پھر آپ کو ہجرت مدینہ کا حکم دیا گیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ اس میں لفظ مُدْخَلَ اور مُخْــرَجَ داخل ہونے اور خاج ہونے کی جگہ میں اسم ظرف ہے اور ان کے ساتھ صفت صدق بڑھانے سے مراد یہ ہے کہ یہ نکلنا اور داخل ہونا سب اللہ کی مرضی کے مطابق خیر و خوبی کے ساتھ ہو کیونکہ لفظ صدق عربی زبان میں ہر ایسے فعل کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جو ظاہرا اور باطنا درست اور بہتر ہو قرآن کریم میں قدم صدق اور لسان صدق اور مقعد صدق کے الفاظ اسی معنی میں استعمال ہوئے ہیں - داخل ہونے کی جگہ سے مراد مدینہ اور خارج ہونے کی جگہ سے مراد مکہ ہے مطلب یہ ہے کہ یا اللہ مدینہ میں میرا داخلہ خیر و خوبی کے ساتھ ہوجائے وہاں کوئی خلاف طبع اور ناگوار صورت پیش نہ آئے اور مکہ مکرمہ سے میرا نکلنا خیر و خوبی کے ساتھ ہوجائے کہ وطن اور گھر بار کی محبت میں دل الجھا نہ رہے اس آیت کی تفسیر میں کچھ اور اقوال بھی آئے ہیں مگر یہ تفسیر حضرت حسن بصری اور قتادہ سے منقول ہے ابن کثیر نے اسی کو اصح الاقوال کہا ہے ابن جریر نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ترتیب کا تقاضہ یہ تھا کہ پہلے مخرج پھر مدخل کا ذکر ہوتا مگر یہاں مدخل کو مقدم اور مخرج کو مؤ خر کرنے میں شاید اس طرف اشارہ ہو کہ مکہ مکرمہ سے نکلنا خود کوئی مقصد نہ تھا بلکہ بیت اللہ کو چھوڑنا انتہائی صدمہ کی چیز تھی البتہ اسلام اور مسلمانوں کیلئے مامن تلاش کرنا مقصد تھا جو داخلہ مدینہ کی ذریعہ حاصل ہونے کی امید تھی اس لئے جو مقصد تھا اس کو مقدم رکھا گیا۔- فائدہ :- مہم مقاصد کے لئے مقبول دعا :- ہجرت مدینہ کے وقت حق تعالیٰ نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس دعاء کی تلقین فرمائی کہ مکہ سے نکلنا اور پھر مدینہ پہنچنا دونوں خیر و خوبی اور عافیت کے ساتھ ہوں اسی دعاء کا ثمرہ تھا کہ ہجرت کے وقت تعاقب کرنے والے کفار کی زد سے اللہ تعالیٰ نے ہر قدم پر بچایا اور مدینہ طیبہ کو ظاہرا و باطنا آپ کے اور سب مسلمانوں کے لئے سازگار بنایا اسی لئے بعض علماء نے فرمایا کہ یہ دعاء ہر مسلمان کو اپنے تمام مقاصد کے شروع میں یاد رکھنا چاہئے اور ہر مقصد کے لئے یہ دعاء مفید ہے اسی دعا کا تکملہ بعد کا جملہ ہے واجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ معلوم تھا کہ منصب رسالت کے فرائض کی ادائیگی اور دشمنوں کے نرغے میں کام کرنا اپنے بس کا نہیں اس لئے حق تعالیٰ سے غلبہ اور نصرت کی ادائیگی اور دشمنوں کے نرغے میں کام کرنا اپنے بس کا نہیں اس لئے حق تعالیٰ سے غلبہ اور نصرت کی دعا فرمائی جو قبول ہوئی اور اس کے آثار سب کے سامنے آگئے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا 80؀- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - سلط - السَّلَاطَةُ : التّمكّن من القهر، يقال : سَلَّطْتُهُ فَتَسَلَّطَ ، قال تعالی: وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] ، وقال تعالی: وَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] ، ومنه سمّي السُّلْطَانُ ، والسُّلْطَانُ يقال في السَّلَاطَةِ ، نحو : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] ،- ( س ل ط ) السلاطۃ - اس کے معنی غلبہ حاصل کرنے کے ہیں اور سلطتہ فتسلط کے معنی ہیں میں نے اسے مقہود کیا تو وہ مقہود ہوگیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَلَوْ شاءَ اللَّهُ لَسَلَّطَهُمْ [ النساء 90] اور اگر خدا چاہتا تو ان کو تم پر مسلط کردتیاوَلكِنَّ اللَّهَ يُسَلِّطُ رُسُلَهُ عَلى مَنْ يَشاءُ [ الحشر 6] لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے ۔ اور اسی سے بادشاہ کو سلطان ، ، کہا جاتا ہے ۔ اور سلطان کا لفظ تسلط اور غلبہ کے معنی میں بھی آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنا لِوَلِيِّهِ سُلْطاناً [ الإسراء 33] اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٠) اور آپ یوں دعا کیا کیجیے کہ اے میرے پروردگار مجھے مدینہ منورہ میں اچھے طریقے سے داخل کیجیے، اس وقت آپ مدینہ منورہ میں نہیں تھے اور جب میں مدینہ منورہ میں ہوں تو مجھے وہاں سے اچھے طریقے سے لے جائیے اور مکہ مکرمہ میں داخل کیجیے یا یہ کہ مجھے قبر میں خوبی اور راحت کے ساتھ پہنچائیے اور قیامت کے دن قبر سے خوبی و راحت کے ساتھ نکالیے اور مجھے اپنے پاس سے ایسا غلبہ اور قوت عطا کیجیے، جس میں کسی قسم کی کوئی کمی اور نہ کسی کے قول کی تردید ہو۔- شان نزول : (آیت ) ”۔ وقل رب ادخلنی مدخل صدقہ “۔ (الخ)- امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ مکرمہ میں تھے، پھر آپ کو ہجرت کا حکم ہوا، تب آپ پر یہ آیتیں نازل ہوئیں، یعنی اور آپ یوں دعا کیجیے کہ اے رب مجھے اچھے طریقے سے پہنچائیے اور مجھے اچھے طریقے سے لے جائیے اور مجھے اپنے پاس سے ایسا غلبہ دیجیے جس کے ساتھ نصرت ہو یہ روایت اس چیز کے بیان کرنے میں صاف ہے کہ یہ آیت کریمہ مکی ہے اور ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے زیادہ واضح الفاظ کے ساتھ روایت نقل کی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٠ (وَقُلْ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْــرَجَ صِدْقٍ )- یہ ہجرت کی دعا ہے۔ جب ہجرت کا اذن آیا تو ساتھ ہی یہ دعا بھی تعلیم فرما دی گئی کہ اے اللہ تو مجھے جہاں بھی داخل فرمائے یعنی یثرب (مدینہ) میں عزت و تکریم کے ساتھ داخل فرما وہاں پر میرا داخلہ سچا داخلہ ہو اور یہاں مکہ سے مجھے نکالنا ہے تو باعزت طریقے سے نکال۔ یاد کیجیے کہ سورة یونس کی آیت ٩٣ میں بنی اسرائیل کو اچھا ٹھکانہ عطا کیے جانے کا ذکر بھی ” مُبَوَّاَ صِدْقٍ “ کے الفاظ سے ہوا ہے۔- (وَّاجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا)- یعنی مدینہ میں جس نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے اس میں اپنے دین کے غلبے کے اسباب پیدا فرما ‘ اور مجھے وہ طاقت قوت اور اقتدار عطا فرما جس سے دین کی عملی تنفیذ کا کام آسان ہوجائے۔ اس دعا میں رسول اللہ کو بالکل وہی کچھ مانگنے کی تلقین کی جا رہی ہے جو عنقریب آپ کو ملنے والا تھا۔ چناچہ تاریخ گواہ ہے کہ مدینہ میں آپ کا استقبال ایک بادشاہ کی طرح ہوا۔ اوس اور خزرج کے قبائل نے آپ کو اپنا حاکم تسلیم کرلیا۔ یہودیوں کے تینوں قبائل ایک معاہدے کے ذریعے آپ کی مرضی کے تابع ہوگئے اور یوں آپ مدینہ میں داخل ہوتے ہی وہاں کے بےتاج بادشاہ بن گئے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :99 اس دعا کی تلقین سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کا وقت اب بالکل قریب آ لگا تھا ۔ اس لیے فرمایا کہ تمہاری دعا یہ ہونی چاہیے کہ صداقت کا دامن کسی حال میں تم سے نہ چھوٹے ، جہاں سے بھی نکلو صداقت کی خاطر نکلو اور جہاں بھی جاؤ صداقت کے ساتھ جاؤ ۔ سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :100 یعنی یا تو مجھے خود اقتدار عطا کر ، یا کسی حکومت کو میرا مددگار بنا دے تاکہ اس کی حمایت سے میں دنیا کے اس بگاڑ کو درست کر سکوں ، فواحش اور معاصی کے اس سیلاب کو روک سکوں ، اور تیرے قانون عدل کو جاری کر سکوں ۔ یہی تفسیر ہے اس آیت کی جو حسن بصری اور قتادہ رحمہما اللہ نے کی ہے ، اور اسی کو ابن جریر اور ابن کثیر رحمہما اللہ جیسے جلیل القدر مفسرین نے اختیار کیا ہے ، اور اسی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کرتی ہے کہ اِنَّ اللہَ لَیَزَعُ بِالسُّلطَانِ مَا لَا یَزَعُ بِالقُرْاٰنِ ، یعنی اللہ تعالی حکومت کی طاقت سے ان چیزوں کا سدباب کر دیتا ہے جن کا سد باب قرآن سے نہیں کرتا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے وہ صرف وعظ و تذکیر سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کو عمل میں لانے کے لیے سیاسی طاقت بھی درکار ہے ۔ پھر جبکہ یہ دعا اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خود سکھائی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہو ا کہ اقامت دین اور نفاذ شریعت اور اجرائے حدود اللہ کے لیے حکومت چاہنا اور اس کے حصول کی کوشش کرنا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب و مندوب ہے اور وہ لوگ غلطی پر ہیں جو اسے دنیا پرستی یا دنیا طلبی سے تعبیر کرتے ہیں ۔ دنیا پرستی اگر ہے تو یہ کہ کوئی شخص اپنے لیے حکومت کا طالب ہو ۔ رہا خدا کے دین کے لیے حکومت کا طالب ہونا تو یہ دنیا پرستی نہیں بلکہ خدا پرستی ہی کا عین تقاضا ہے ۔ اگر جہاد کے لے تلوار کا طالب ہونا گناہ نہیں ہے تو اجرائے احکام شریعت کے لیے سیاسی اقتدار کا طالب ہونا آخر کیسے گناہ ہو جائے گا ؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

47: یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ کو اپنا مستقر قرار دینے کا حکم ہوا تھا، اس وقت آپ کو یہ دعا مانگنے کی تلقین فرمائی گئی تھی اور اس میں داخل کرنے سے مدینہ منورہ میں داخل کرنا اور نکالنے سے مکہ مکرمہ سے نکالنا مراد ہے، لیکن الفاظ عام ہیں اس لئے یہ دعا ہر اس موقع پر کی جاسکتی ہے جب کوئی کسی نئی جگہ جانے یا نیا کام شروع کرنے کا ارادہ کررہا ہو۔