81۔ 1 حدیث میں آتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو وہاں تین سو ساٹھ بت تھے، آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی، آپ چھڑی کی نوک سے ان بتوں کو مارتے جاتے اور (وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ ) 17 ۔ الاسراء :81) ۔ اور (قُلْ جَاۗءَ الْحَـقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ ) 34 ۔ سبأء :49) پڑھتے جاتے (صحیح بخاری)
[١٠٣] فتح مکہ کی پیشگوئی :۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آکر بہت سے مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے اور باقی مسلمانوں پر ان کی سختیاں بہت بڑھ گئی تھیں۔ ان حالات میں ایسی پیشین گوئی اور اس قسم کا اعلان قریش مکہ کے لیے ایک اضحوکہ پھبتی اور مذاق کا سامان بن گیا تھا۔ مگر اللہ کی مہربانی سے حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ اس واقعہ کے نو سال بعد آپ فاتحانہ انداز سے بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے تو اس وقت آپ یہی آیت تلاوت فرما رہے تھے مگر اس وقت یہ آیت ایک واضح حقیقت بن کر قریش مکہ کے سامنے آچکی تھی جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔- ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ جب مکہ فتح ہوا اور آپ مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ آپ کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ آپ اس سے ان بتوں کو ٹھونکا دیتے جاتے اور فرماتے جاتے ( وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا 81) 17 ۔ الإسراء :81) (بخاری۔ کتاب التفسیر)- ٢۔ سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب آپ نے کعبہ میں تصویریں دیکھیں تو آپ اس میں داخل نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ آپ کے حکم سے ساری تصویریں مٹا دی گئیں۔ آپ نے ابراہیم اور اسماعیل کی تصویریں دیکھیں جن کے ہاتھوں میں تیر تھے۔ آپ نے فرمایا : اللہ کی قسم انہوں نے کبھی تیروں سے فال نہیں لی تھی (بخاری۔ کتاب الانبیائ۔ باب واتخذ اللہ ابراہیم خلیلاً )- ٣۔ سیدنا ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ جب آپ بیت اللہ میں داخل ہوئے تو دیکھا وہاں سیدنا ابراہیم اور بی بی مریم کی تصویریں ہیں۔ آپ نے فرمایا : قریش کے کافروں کو کیا ہوگیا ہے وہ سن تو چکے ہیں کہ جس گھر میں مورتیں ہوں وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ یہ ابراہیم کی تصویر ہے۔ ان کو کیا ہوا بھلا وہ پانسوں سے فال لیا کرتے تھے ۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً )
وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی یہ بشارت سنا دینے کا حکم دیا جو تھوڑے ہی عرصے کے بعد پوری ہوگئی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے اور بیت اللہ کے گرد تین سو ساٹھ بت تھے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انھیں ایک لکڑی کے ساتھ کچو کے مارتے جاتے تھے جو آپ کے ہاتھ میں تھی اور یہ کہتے جاتے تھے : (جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا) ” حق آگیا اور باطل مٹ گیا، بیشک باطل ہمیشہ سے مٹنے والا ہے۔ “ (جَاۗءَ الْحَـقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيْدُ ) [ سبا : ٤٩ ] ” حق آگیا اور باطل نہ پہلی دفعہ کچھ کرتا ہے اور نہ دوبارہ کرتا ہے۔ “ [ بخاری، التفسیر، سورة بني إسرائیل، باب : ( و قل جاء الحق وزھق الباطل ) : ٤٧٢٠ ] - اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا 3 : ” ہمیشہ سے “ کا مفہوم ” كَانَ “ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ طنطاوی نے لکھا ہے : ” أَیْ کَانَ غَیْرَ مُسْتَقَرٍّ وَلَا ثَابِتٍ فِيْ کُلِّ وَقْتٍ “ کہ باطل ہر دور میں یعنی ہمیشہ سے نا پائیدار ہے۔
وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ یہ آیت ہجرت کے بعد فتح مکہ کے بارے میں نازل ہوئی حضرت ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت بیت اللہ کے گرد تین سو ساٹھ بتوں کے مجسمے کھڑے ہوئے ہوئے تھے بعض علماء نے اس خاص تعداد کی وجہ یہ بتلائی ہے کہ مشرکین مکہ سال بھر کے دنوں میں ہر دن کا بت الگ رکھتے تھے اس دن میں اس کی پرستش کرتے تھے (قرطبی) آپ جب وہاں پہنچنے تو یہ آیت آپ کی زبان مبارک پر تھی وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اور اپنی لکڑی ایک ایک بت کے سینے میں مارتے جاتے تھے (بخاری ومسلم)- بعض روایات میں ہے کہ اس چھڑی کے نیچے رانگ یا لوہے کی شام لگی ہوئی تھی جب آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس بت کے سینہ میں اس کو مارتے تو وہ الٹا گر جاتا تھا یہاں تک کہ یہ سب بت گر گئے اور پھر آپ نے ان کے توڑنے کا حکم دے دیا (قرطبی بحوالہ قاضی عیاض و قشیری)- شرک و کفر اور باطل کی رسوم و نشانات کا مٹانا واجب ہے :- امام قرطبی نے فرمایا کہ اس آیت میں اس کی دلیل ہے کہ مشرکین کے بت اور دوسرے مشرکانہ نشانات کو مٹانا واجب ہے اور تمام وہ آلات باطلہ جن کا مصرف صرف معصیت ہو ان کا مٹانا بھی اسی حکم میں ہے ابن منذر نے فرمایا کہ تصویریں اور مجسمے جو لکڑی پیتل وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں وہ بھی بتوں ہی کے حکم میں ہیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پردے کو پھاڑ ڈالا جس پر تصوریں نقش و رنگ سے بنائی گئی تھیں اس سے عام تصاویر کا حکم معلوم ہوگیا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آخر زمانے میں تشریف لاویں گے تو صحیح حدیث کے مطابق صلیبوں کو توڑیں گے خنزیر کو قتل کریں گے یہ سب امور اس کی دلیل ہیں کہ شرک و کفر اور باطل کے آلات کو توڑنا اور ضائع کردینا واجب ہے۔
وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۭ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا 81- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- زهق - زَهَقَتْ نفسه : خرجت من الأسف علی الشیء، قال : وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ [ التوبة 55] .- ( ز ھ ق )- زھقت نفسہ کے معنی ہیں کسی چیز پر رنج وغم سے اس کی جان نکل گئی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ [ التوبة 55] اور ان کی جانیں ( اس حال میں ) نکلیں ۔- بطل - البَاطِل : نقیضالحق، وهومالاثباتلهعندالفحصعنه، قالتعالی: ذلِكَبِأَنَّاللَّهَهُوَالْحَقُّوَأَنَّمايَدْعُونَمِنْدُونِهِهُوَالْباطِلُ [ الحج 62]- ( ب ط ل ) الباطل - یہ حق کا بالمقابل ہے اور تحقیق کے بعد جس چیز میں ثبات اور پائیداری نظر نہ آئے اسے باطل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں سے : ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ هُوَ الْباطِلُ [ الحج 62] یہ اس لئے کہ خدا کی ذات برحق ہے اور جن کو یہ لوگ خدا کے سوا کے پکارتے ہیں وہ لغو ہیں ۔
(٨١) اور کہہ دیجیے کہ اب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کریم کے ساتھ تشریف لے آئے ہیں یا یہ کہ اب اسلام کا غلبہ ہوگیا ہے اور مسلمانوں کی کثرت ہوگئی ہے اور شیطان اور شرک اور مشرکین سب ہلاک ہوئے اور واقعی یہ باطل چیزیں تو یوں ہی آتی جاتی رہتی ہیں۔
آیت ٨١ (وَقُلْ جَاۗءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ )- بظاہر تو ابھی اس انقلاب کے آثار نمودار نہیں ہوئے تھے ابھی آٹھ سال بعد جا کر کہیں مکہ فتح ہونے والا تھا ‘ لیکن عالم امر میں چونکہ اس کا فیصلہ ہوچکا تھا لہٰذا ابھی سے آپ کی زبان مبارک سے حق کی آمد اور باطل کے فرار کا اعلان کرایا جا رہا ہے ۔- (اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا)- باطل کو ثبات نہیں۔ جب بھی اس کا حق کے ساتھ معرکہ ہوگا تو حق کے مقابلے میں باطل ہمیشہ پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوجائے گا۔
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :101 یہ اعلان اس وقت کیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مکہ چھوڑ کر حبشہ میں پناہ گزین تھی ، اور باقی مسلمان سخت بیکسی و مظلومی کی حالت میں مکہ اور اطراف مکہ میں زندگی بسر کر رہے تھے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہر وقت خطرے میں تھی ۔ اس وقت بظاہر باطل ہی کا غلبہ تھا اور غلبہ حق کے آثار کہیں دور دور نظر نہ آتے تھے ۔ مگر اسی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دے دیا گیا کہ تم صاف صاف ان باطل پرستوں کو سنا دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا ۔ ایسے وقت میں یہ عجیب اعلان لوگوں کو محض زبان کا پھاگ محسوس ہوا اور انہوں نے اسے ٹھٹھوں میں اڑا دیا ۔ مگر اس پر نو برس ہی گزرے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی شہر مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبے میں جا کر اس باطل کو مٹا دیا جو تین سو ساٹھ بتوں کی صورت میں وہاں سجا رکھا تھا ۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کعبے کے بتوں پر ضرب لگا رہے تھے اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ جآء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا ۔ جآء الحق ومایُبدءُ الباطل ومایُعید ۔
48: اس آیت کریمہ میں یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ حق یعنی اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب ہونے والا ہے، چنانچہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکہ مکرمہ فتح کرلیا اور حرم میں داخل ہو کر کعبے میں بنے ہوئے بت گرائے تو اس وقت آپ کی زبان مبارک پر یہی آیات تھیں۔