Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

88۔ 1 قرآن مجید سے متعلق یہ چلینج اس سے قبل بھی کئی جگہ گزر چکا ہے۔ یہ چلینج آج تک تشنہ جواب ہے

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٨] یہ چیلنج پہلے سورة بقرہ کی آیت نمبر ٢٣، ٢٤۔ سورة یونس کی آیت نمبر ٣٧، ٣٨، سورة ہود کی آیت نمبر ١٣، ١٤، میں بھی مذکور ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ ۔۔ : اس آیت میں پورے قرآن کی مثل لانے کا چیلنج ہے، سورة ہود (١٣) میں دس سورتوں کا، بقرہ (٢٣) اور یونس (٣٨) میں ایک سورت کا اور سورة طور (٣٤) میں اس کے بھی بعض حصے کا، مگر قرآن کا اعجاز یہ ہے کہ نہ اس زمانے میں کفار اس کا جواب دے سکے اور نہ آئندہ قیامت تک اس کا جواب ممکن ہے۔ یہاں انسانوں کے ساتھ جنات کو بھی شامل کردیا ہے، اس لیے کہ کفار یہ اتہام لگاتے تھے کہ کوئی جن اس (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر القا کرجاتا ہے اور پھر جنوں کو اپنے سے اعلیٰ اور عالم الغیب بھی سمجھتے تھے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ یہ مضمون قرآن مجید کی چند آیات میں آیا ہے جس میں پوری دنیائے انسان کو خطاب کر کے یہ دعوی کیا گیا ہے کہ اگر تم قرآن کو اللہ کا کلام نہیں مانتے بلکہ کسی انسان کا بنایا ہوا مانتے ہو تو پھر تم بھی انسان ہو اس کی مثال بنا کر دکھلا دو اس آیت میں اس دعوی کے ساتھ یہ بھی فرما دیا گیا کہ صرف انسان نہیں جنات کو بھی اپنے ساتھ ملا لو اور پھر تم سب مل کر قرآن کی ایک سورت بلکہ ایک آیت کی مثال بھی نہ بنا سکو گے۔- اس مضمون کا اس جگہ پر اعادہ ممکن ہے کہ یہ بتلانے کے لئے ہو کہ تم جو ہمارے رسول سے مختلف قسم کے سوالات روح وغیرہ کے متعلق ان کی رسالت و نبوت کی آزمائش کے لئے کرتے ہو کیوں ان فضول قصوں میں پڑے ہو خود قرآن کریم کو دیکھ لو تو آپ کی نبوت و رسالت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کیونکہ جب ساری دنیا کے جن و انس اس کی ادنی سی مثال بنانے سے عاجز ہیں تو اس کے کلام الہی ہونے میں کیا شبہ رہتا ہے اور جب قرآن کریم کا کلام الہی ہونا اس بداہت سے ثابت ہوگیا تو آپ کی نبوت و رسالت میں کسی شبہ کی کیا گنجائش رہتی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا 88؀- جمع - الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] ،- ( ج م ع ) الجمع ( ف )- کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے - جِنّ- والجِنّ يقال علی وجهين : أحدهما للروحانيين المستترة عن الحواس کلها بإزاء الإنس، فعلی هذا تدخل فيه الملائكة والشیاطین، فكلّ ملائكة جنّ ، ولیس کلّ جنّ ملائكة، وعلی هذا قال أبو صالح «4» : الملائكة كلها جنّ ، وقیل : بل الجن بعض الروحانيين، وذلک أنّ الروحانيين ثلاثة :- أخيار : وهم الملائكة .- وأشرار : وهم الشیاطین .- وأوساط فيهم أخيار وأشرار : وهم الجن، ويدلّ علی ذلک قوله تعالی: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن 1- 14] .- والجِنَّة : جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی:- وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] .- الجن - جن ( اس کی جمع جنتہ آتی ہے اور ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔ (1) انسان کے مقابلہ میں ان تمام روحانیوں کو جن کہا جاتا ہے جو حواس سے مستور ہیں ۔ اس صورت میں جن کا لفظ ملائکہ اور شیاطین دونوں کو شامل ہوتا ہے لھذا تمام فرشتے جن ہیں لیکن تمام جن فرشتے نہیں ہیں ۔ اسی بناء پر ابو صالح نے کہا ہے کہ سب فرشتے جن ہیں ۔ ( 2) بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ جن روحانیوں کی ایک قسم ہیں کیونکہ وحانیات تین قسم ہیں ۔ (1) اخیار ( نیک ) اور یہ فرشتے ہیں ( 2) اشرا ( بد ) اور یہ شیاطین ہیں ۔ ( 3) اوساط جن میں بعض نیک اور بعض بد ہیں اور یہ جن ہیں چناچہ صورت جن کی ابتدائی آیات ۔ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ إلى قوله : وَأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَّا الْقاسِطُونَ [ الجن 1- 14] اور یہ کہ ہم بعض فرمانبردار ہیں بعض ( نافرماں ) گنہگار ہیں ۔ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جنوں میں بعض نیک اور بعض بد ہیں ۔ الجنۃ جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- ظھیر - ، وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ 22] ، أي : معین «3» . فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ- [ القصص 86] ، وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم 4] ، وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً- [ الفرقان ] ، أي : معینا للشّيطان علی الرّحمن . وقال أبو عبیدة «1» : الظَّهِيرُ هو المَظْهُورُ به . أي : هيّنا علی ربّه کا لشّيء الذي خلّفته، من قولک :- ظَهَرْتُ بکذا، أي : خلفته ولم ألتفت إليه .- ظھیر - الظھیر۔ مدد گار ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما لَهُ مِنْهُمْ مِنْ ظَهِيرٍ [ سبأ 22] اور نہ ان میں سے کوئی خدا کا مددگار ہے ۔ فَلا تَكُونَنَّ ظَهِيراً لِلْكافِرِينَ [ القصص 86] تو تم ہر گز کافروں کے مددگار نہ ہونا ۔ وَالْمَلائِكَةُ بَعْدَ ذلِكَ ظَهِيرٌ [ التحریم 4] اور ان کے علاوہ اور فرشتے بھی مددگار ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْكافِرُ عَلى رَبِّهِ ظَهِيراً [ الفرقان اور کافر اپنے پروردگار کی مخالفت میں بڑا زورمارتا ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ کافر خدائے رحمٰن کی مخالفت میں شیطان کا مددگار بنا ہوا ہے ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ یہاں ظھیر کے معنی ہیں پس پشت ڈالا ہوا اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کافر کی مثال اس چیز کی سی ہے جسے بےوقعت سمجھ کر پس پشت ڈال دیا جائے اور یہ ظھر ت بکذا سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میں نے اسے پس پشت ڈال دیا اور درخواعتناء نہ سمجھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

اعجاز قرآن - قول باری ہے (قل لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن لایاتون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیراً کہہ دو کہ اگر انسان اور جن سب کے سب مل کر اس قرآن جیسی کوئی چیز لانے کی کوشش کریں تو نہ لاسکیں گے، چاہے وہ ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں) اس آیت میں اعجاز قرآن پر بھرپور دلالت موجود ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ الفاظ قرآن کی ترتیب میں مستقل طور پر اعجاز موجود ہے اور معانی اور ان کی تنسیق میں مستقل طور پر اعجاز ہے۔ انہوں نے اس پر اس چیز سے استدلال کیا ہے کہ قرآن اس آیت میں تمام اہل عرب و عجم اور جن و انس کو چیلنج کر رہا ہے۔ اب یہ بات تو واضح ہے کہ اہل عجم کو عربی زبان سے نابلد ہونے کی بنا پر نظم قرآنی یعنی الفاظ کے متعلق چیلنج نہیں دیا جاسکتا اس لئے ضروری ہے کہ انہیں قرآن کے معانی اور ان کی ترتیب و تنسیق کی جہت سے چیلنج کیا جائے، الفاظ کی ترتیب و نظم کی جہت سے چیلنج نہ کیا جائے۔ بعض حضرات قرآن کے اعجاز کو صرف نظم الفاظ کی جہت سے تسلیم کرتے ہیں یعنی الفاظ کی ترتیب اور عبارت کی فصاحت و بلاغت میں اعجاز کا ظہور ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اعجاز قرآن کے کئی وجوہ ہیں۔ جن میں سے نظم الفاظ کی خوبصورتی عبارت کی اعلیٰ فصاحت و بلاغت اور اس کا اختصار نیز قلیل الفاظ کے اندر معانی کثیرہ کا وجود وغیرہ ہیں۔ - دوسری طرف پورے قرآن مجید میں ایک لفظ ایسا نہیں ہے جو معیار سے گرا ہوا ہو یا بھرتی کے طور پر لایا گیا ہو یا الفاظ و معانی میں کوئی تناقض یا اختلاف و تضاد ہو۔ ان تمام وجوہ کے لحاظ سے پورا قرآن ایک ہی منہاج اور معیار پر برقرار ہے۔ اس کے برعکس مخلوق کے کلام کی یہ خصویت ہے کہ طویل ہونے کی صورت میں یہ کلام غیر معیاری الفاظ ، گھٹیا معانی اور معانی میں تناقض سے پاک نہیں رہ سکتا۔ دنیا کی تمام زبانوں میں اہل زبان کے کلام کے اندر مذکورہ بالا عیوب و نقائص موجود ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق صرف عربی زبان کے ساتھ نہیں ہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ اہل عجم کو درج بالا معانی جیسے معانی پیش کرنے کا چیلنج دیا گیا ہو جو ہمارے مذکورہ ان تمام عیوب و نقائص سے پاک ہو جن کی بنا پر ایک کلام غیر معیاری قرار دیا جاتا ہے۔ ایک اور جہت سے اسے دیکھیے ، فصاحت و بلاغت کا تعلق صرف عربی زبان کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اس کا وجود دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی ہے اگرچہ عربی زبان دنیا کی فصیح و بلیغ ترین زبان ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ قرآن فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ ترین مقام پر جاگزیں ہے اس لئے ممکن ہے کہ اہل عجم کو اس بات کا چیلنج دیا گیا ہو کہ وہ ایسا کلام پیش کریں جو ان کی اپنی زبان میں فصاحت و بلاغت کے اعلیٰ ترین درجے پر پہنچا ہوا ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٨) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مکہ والوں سے فرما دیجیے کہ اگر تمام انسان اور جنات اس بات کے لیے جمع ہوجائیں کہ اس قرآن کریم جیسا فصیح وبلیغ قرآن بنا دیں جس میں اومر و نواہی، وعدے وعید، ناسخ ومنسوخ، محکم و متشابہ اور جو امور ہوچکے اور جو ہونے والے ہیں سب ہی کا بیان ہو، تب بھی ایسا نہ لاسکیں گے، اگرچہ ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔- شان نزول : (آیت ) ”۔ قل لئن اجتمعت الانس والجن “۔ (الخ)- ابن اسحاق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سعید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ یا عکرمہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے واسطہ سے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہودیوں کی ایک جماعت میں آئے تو وہ (یہودی) لوگ کہنے لگے کہ ہم آپ کا اتباع کیسے کریں، حالانکہ آپ نے ہمارا قبلہ بھی چھوڑ دیا ہے اور یہ جو قرآن کریم آپ لے آئے ہیں اس میں ہم توریت کی طرح اتصال نہیں دیکھتے تو ہمارے لیے ایسی کتاب نازل کروائیے جسے ہم پہچانتے ہوں ورنہ ہم آپ کے پاس جیسی آپ کتاب لے کر آئے ہیں ویسی کتاب لے کر آتے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی آپ فرما دیجیے کہ اگر تمام انسان اور جنات سب اس بات کے لیے جمع ہوجائیں کہ اس قرآن جیسا لائیں تب بھی ایسا نہ لاسکیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٨٨ (قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا)- اس موضوع پر قرآن کا اپنے مخاطبین سے یہ سب سے پہلا مطالبہ ہے جس میں ان سے پورے قرآن کا جواب دینے کو کہا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :105 یہ چیلنج اس سے پہلے قرآن مجید میں تین مقامات پر گزر چکا ہے ۔ سوررہ بقرہ ، آیات۲۳ ، ۲٤ ۔ سورہ یونس ، آیت ۳۸ اور سورہ ہود ، آیت ١۳ ۔ آگے سورہ طور ، آیات ۳۳ ۔ ۳٤ میں بھی یہی مضمون آرہا ہے ۔ ان سب مقامات پر یہ بات کفار کے اس الزام کے جواب میں ارشاد ہوئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ قرآن تصنیف کر لیا ہے اور خواہ مخواہ وہ اسے خدا کا کلام بنا کر پیش کر رہے ہیں ۔ مزید برآں سورہ یونس ، آیت ١٦ میں اسی الزام کی تردید کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا گیا کہ قُلْ لَّوْ شَآءَ اللہُ مَا تَلَوْ تُہُ عَلَیْکُمْ وَلَآ اَدْرٰکُمْ بِہ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہ اَفَلَا تَعْقِلُونَ ۔ یعنی ” اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہو کہ اگر اللہ نے یہ نہ چاہا ہوتا کہ میں قرآن تمہیں سناؤں تو میں ہرگز نہ سنا سکتا تھا بلکہ اللہ تمہیں اس کی خبر تک نہ دیتا ۔ آخر میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں ، کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے“؟ ان آیات میں قرآن کے کلام الہی ہونے پر جو استدلال کیا گیا ہے وہ دراصل تین دلیلوں سے مرکب ہے: ایک یہ کہ یہ قرآن اپنی زبان ، اسلوب بیان ، طرز استدلال ، مضامین ، مباحث ، تعلیمات اور اخبار غیب کے لحاظ سے ایک معجزہ ہے جس کی نظیر لانا انسانی قدرت سے باہر ہے ۔ تم کہتے ہو کہ اسے ایک انسان نے تصنیف کیا ہے ، مگر ہم کہتے ہیں کہ تمام دنیا کے انسان مل کر بھی اس شان کی کتاب تصنیف نہیں کر سکتے ۔ بلکہ اگر وہ جن جنہیں مشرکین نے اپنا معبود بنا رکھا ہے ، اور جن کی معبودیت پر یہ کتاب علانیہ ضرب لگا رہی ہے ، منکرین قرآن کی مدد پر اکٹھے ہو جائیں تو وہ بھی ان کو اس قابل نہیں بنا سکتے کہ قرآن کے پائے کی کتاب تصنیف کر کے اس چلینج کو رد کر سکیں ۔ تیسرے یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں قرآن سنا کر کہں غائب نہیں ہو جاتے بلکہ تمہارے درمیان ہی رہتے سہتے ہیں ۔ تم ان کی زبان سے قرآن بھی سنتے ہو اور دوسری گفتگوئیں اور تقاریر بھی سنا کرتے ہو ۔ قرآن کے کلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے کلام میں زبان اور اسلوب کا اتنا نمایاں فرق ہے کہ کسی ایک انسان کے دو اس قدر مختلف اسٹائل کبھی ہو نہیں سکتے ۔ یہ فرق صرف اسی زمانہ میں واضح نہیں تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ملک کے لوگوں میں رہتے سہتے تھے ۔ بلکہ آج بھی حدیث کی کتابوں میں آپ کے سینکڑوں اقوال اور خطبے موجود ہیں ۔ ان کی زبان اسلوب قرآن کی زبان اور اسلوب سے اس قدر مختلف ہیں کہ زبان و ادب کا کوئی رمز آشنا نقاد یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ یہ دونوں ایک ہی شخص کے کلام ہو سکتے ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ یونس حاشیہ ۲١ ۔ الطور ، حواشی ۲۲ ، ۲۷ )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani