Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

89۔ 1 یہ آیت اسی سورت کے شروع میں بھی گزر چکی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٩] قرآن میں کون کون سے موضوعات پر دلائل دیئے گئے ہیں ؟ اس قرآن میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر، روز آخرت اور قیامت کے واقع ہونے پر، جزاء و سزا کی معقولیت پر، رسول اللہ کی نبوت پر، شرک کی تردید پر، من گھڑت معبودوں کی بےچارگی اور احتیاج پر، نافرمان اقوام سابقہ کے انجام پر مختلف پیراؤں میں دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ اور دلائل ایسے ہیں جنہیں سب لوگ سمجھ سکتے ہیں۔ اور خارجی کائنات اور اپنی اندر کی دنیا میں دیکھ سکتے ہیں۔ اور ہر جگہ نئے اور اچھوتے طرز استدلال کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں اور وہ اتنی کثیر تعداد میں ہیں جو ایک طالب ہدایت کے لیے بہت کافی ہیں مگر ان لوگوں نے ایسی ضد اور ہٹ دھرمی کی راہ اختیار کرلی ہے کہ ہر دلیل سے یہ الٹا ہی اثر لیتے ہیں۔ اس طرح ان کے کفر میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَقَدْ صَرَّفْـنَا للنَّاسِ فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ ۔۔ : اس سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم نے ہر طرح سے چیلنج کیا ہے اور یہ بھی کہ ہم نے توحید کے اثبات اور شرک کی نفی کے لیے ہر قسم کے دلائل پیش کیے ہیں، یا ہر معنی کو فصاحت و بلاغت کے ساتھ ایسے دلکش پیرائے میں بیان کیا ہے کہ وہ مثال کی طرح ذہن میں اترتا چلا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس حد تک بیان اور سمجھانے کا تعلق ہے ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے بنی اسرائیل (٤١) اور کہف (٥٤) ۔- فَاَبٰٓى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا : یعنی کسی طرح بھی ایمان لانے کے لیے تیار نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آخری آیت وَلَقَدْ صَرَّفْـنَا میں یہ بتلا دیا کہ اگرچہ قرآن کریم کا معجزہ اتنا کھلا ہوا ہے کہ اس کے بعد کسی سوال اور شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی مگر ہو یہ رہا ہے کہ لوگ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتے نعمت قرآن کی بھی قدر نہیں پہچانتے اس لئے گمراہی میں بھٹکتے رہتے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ صَرَّفْـنَا لِلنَّاسِ فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ ۡ فَاَبٰٓى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا 89؀- صرف - الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152]- ( ص ر ف ) الصرف - کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے :- ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ - أبى- الإباء : شدة الامتناع، فکل إباء امتناع ولیس کل امتناع إباءا .- قوله تعالی: وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة 32] ، وقال : وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] ، وقوله تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] ، وقوله تعالی: إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى [ طه 116]- ( اب ی )- الاباء ۔ کے معنی شدت امتناع یعنی سختی کے ساتھ انکارکرنا ہیں ۔ یہ لفظ الامتناع سے خاص ہے لہذا ہر اباء کو امتناع کہہ سکتے ہیں مگر ہر امتناع کو اباء نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے ۔ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة : 32] اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں ۔ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ ( سورة التوبة 8) لیکن ان کے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة : 34] اس نے سخت سے انکار کیا اور تکبر کیا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى [ البقرة : 34] مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔ ایک روایت میں ہے (3) کلکم فی الجنۃ الامن ابیٰ ( کہ ) تم سب جنتی ہو مگر وہ شخص جس نے ( اطاعت الہی سے ) انکار کیا ۔ رجل ابی ۔ خود دار آدمی جو کسی کا ظلم برداشت نہ کرے ابیت الضیر ( مضارع تابیٰ ) تجھے اللہ تعالیٰ ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھے ۔ تیس آبیٰ ۔ وہ بکرا چوپہاڑی بکردں کا بول ملا ہوا پانی پی کر بیمار ہوجائے اور پانی نہ پی سکے اس کا مونث ابواء ہے - كفر ( ناشکري)- الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152]- ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ میہ 5 کفران کے متعلق فرمایا : ۔- لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٨٩) اور ہم نے اس قرآن کریم میں مکہ والوں کے لیے وعدے وعید اور ہر قسم مضامین بیان کیے ہیں مگر پھر بھی اکثر لوگوں نے قبول نہ کیا اور کفر ہی پر جمے رہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani