قریش کے امراء کی آخری کوشش ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ربیعہ کے جو بیٹے عتبہ اور شیبہ اور ابو سفیان بن حرب اور بنی عبدالدار قبیلے کے دو شخص اور ابو البحتری بنی اسد کا اور اسود بن مطلب بن اسعد اور زمعہ بن اسود اور ولید بن مغیرہ اور ابو جہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ اور امیہ بن خلف اور عاص بن وائل اور نبیہ اور منبہ سہمی حجاج کے لڑکے ، یہ سب یا ان میں سے کچھ سورج کے غروب ہو جانے کے بعد کعبۃ اللہ کے پیچھے جمع ہوئے اور کہنے لگے بھئی کسی کو بھیج کر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو بلوا لو اور اس سے کہہ سن کر آج فیصلہ کر لو تاکہ کوئی عذر باقی نہ رہے چنانچہ قاصد گیا اور خبر دی کہ آپ کی قوم کے اشراف لوگ جمع ہوئے ہیں اور آپ کو یاد کیا ہے چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان لوگوں کا ہر وقت خیال رہتا تھا آپ کے جی میں آئی کہ بہت ممکن ہے اللہ نے انہیں صحیح سمجھ دے دی ہو اور یہ راہ راست پر آ جائیں اس لئے آپ فورا ہی تشریف لائے ۔ قریشیوں نے آپ کو دیکھتے ہی کہا سنئے آج ہم آپ پر حجت پوری کر دیتے ہیں تاکہ پھر ہم پر کسی قسم کا الزام نہ آئے اسی لئے ہم نے آپ کو بلوایا ہے واللہ کسی نے اپنی قوم کو اس مصیبت میں نہیں ڈالا ہو گا جو مصیبت تم نے ہم پر کھڑی کر رکھی ہے ، تم ہمارے باپ دادوں کو گالیاں دیتے ہو ہمارے دین کو برا کہتے ہو ہمارے بزرگوں کو بیوقوف بتاتے ہو ہمارے مبعودوں کو برا کہتے ہو تم نے ہم میں تفریق ڈال دی لڑائیاں کھڑی کر دیں واللہ آپ نے ہمیں کسی برائی کے پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ، اب صاف صاف سن لیجئے اور سوچ سمجھ کر جواب دیئجے اگر آپ کا ارادہ ان تمام باتوں سے مال جمع کرنے کا ہے تو ہم موجود ہیں ہم خود آپ کو اس قدر مال جمع کر دیتے ہیں کہ آپ کے برابر ہم میں سے کوئی مالدار نہ ہو اور اگر آپ کا ارادہ اس سے یہ ہے کہ آپ ہم پر سرداری کریں تو لو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں ہم آپ کی سرداری کو تسلیم کرتے ہیں اور آپ کی تابعداری منظور کرتے ہیں ۔ اگر آپ بادشاہت کے طالب ہیں تو واللہ ہم آپ کی بادشاہت کا اعلان کر دیتے ہیں اور اگر واقعی آپ کے دماغ میں کوئی فتور ہے ، کوئی جن آپ کو ستا رہا ہے تو ہم موجود ہیں دل کھول کر رقمیں خرچ کر کے تمہارا علاج معالجہ کریں گے یہاں تک کہ آپ کو شفا ہو جائے یا ہم معذور سمجھ لئے جائیں ۔ یہ سب سن کر سردار رسولاں شفیع پیغمبراں صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ سنو بحمد اللہ مجھے کوئی دماغی عارضہ یا خلل یا آسیب نہیں نہ میں اپنی اس رسالت کی وجہ سے مالدار بننا چاہتا ہوں نہ کسی سرداری کی طمع ہے نہ بادشاہ بننا چاہتا ہوں بلکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تم سب کی طرف اپنا رسول برحق بنا کر بھیجا ہے اور مجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں خوشخبریاں سنا دوں اور ڈرا دھمکا دوں ۔ میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچا دئیے ، تمہاری سچی خیر خواہی کی ، تم اگر قبول کر لو گے تو دونوں جہان میں جہان نصیب دار بن جاؤ گے اور اگر نامنظور کر دو گے تو میں صبر کروں گا یہاں تک کہ جناب باری تعالیٰ شانہ مجھ میں اور تم میں سچا فیصلہ فرما دے ( او کماقال ) اب سرداران قوم نے کہا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر آپ کو ہماری ان باتوں میں سے ایک بھی منظور نہیں تو اب اور سنو یہ تو خود تمہیں بھی معلوم ہے کہ ہم سے زیادہ تنگ شہر کسی اور کا نہیں ، ہم سے زیادہ کم مال کوئی قوم نہیں ، ہم سے پیٹ پیٹ کر بہت کم روزی حاصل کرنے والی بھی کوئی قوم نہیں تو آپ اپنے رب سے جس نے آپ کو اپنی رسالت دے کر بھیجا ہے دعا کیجئے کہ یہ پہاڑ یہاں سے ہٹا لے تاکہ ہمارا علاقہ کشادہ ہو جائے ، ہمارے شہروں کو وسعت ہو جائے ۔ اس میں نہریں چشمے اور دریا جاری ہو جائیں جیسے کہ شام اور عراق میں ہیں اور یہ بھی دعا کیجئے کہ ہمارے باپ دادا زندہ ہو جائیں اور ان میں قصی بن کلاب ضرور ہو وہ ہم میں ایک بزرگ اور سچا شخص تھا ہم اس سے پوچھ لیں گے وہ آپ کی بابت جو کہہ دے گا ہمیں اطمینان ہو جائے گا اگر آپ نے یہ کر دیا تو ہمیں آپ کی رسالت پر ایمان آ جائے گا اور ہم آپ کی دل سے تصدیق کرنے لگیں گے اور آپ کی بزرگی کے قائل ہو جائیں گے ۔ آپ نے فرمایا میں ان چیزوں کے ساتھ نہیں بھیجا گیا ۔ ان میں سے کوئی کام میرے بس کا نہیں ۔ میں تو اللہ کی باتیں تمہیں پہنچانے کے لئے آیا ہوں ۔ تم قبول کر لو ، دونوں جہان میں خوش رہو گے ۔ نہ قبول کرو گے تو میں صبر کروں گا ۔ اللہ کے حکم پر منتظر رہوں گا یہاں تک کہ پروردگار عالم مجھ میں اور تم میں فیصلہ فرما دے ۔ انہوں نے کہا اچھا یہ بھی نہ سہی لیجئے ہم خود آپ کے لئے ہی تجویز کرتے ہیں آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ کوئی فرشتہ آپ کے پاس بھیجے جو آپ کی باتوں کی سچائی اور تصدیق کر دے آپ کی طرف سے ہمیں جواب دے اور اس سے کہہ کر آپ اپنے لئے باغات اور خزانے اور سونے چاندی کے محل بنوا لیجئے تاکہ خود آپ کی حالت تو سنور جائے بازاروں میں چلنا پھرنا ہماری تلاش معاش میں نکلنا یہ تو چھوٹ جائے ۔ یہ اگر ہو جائے تو ہم مان لیں گے کہ واقعی اللہ تعالیٰ کے ہاں آپ کی عزت ہے اور آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں ۔ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا نہ میں یہ کروں نہ اپنے رب سے یہ طلب کروں نہ اس کے ساتھ میں بھیجا گیا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے بشیر و نذیر بنایا ہے بس اور کچھ نہیں ۔ تم مان لو تو دونوں جہان میں اپنا بھلا کرو گے اور نہ مانو نہ سہی ۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا پرودگار میرے اور تمہارے درمیان کیا فیصلہ چاہے نہ کرے ۔ مشرکین نے کہا سنئے کیا اللہ تعالیٰ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ تجھے پہلے سے مطلع کر دیتا اور یہ بھی بتا دیتا کہ تجھے کیا جواب دینا چاہئے اور جب ہم تیری نہ مانیں تو وہ ہمارے ساتھ کیا کرے گا ۔ سنئے ہم نے تو سنا ہے کہ آپ کو یہ سب کچھ یمامہ کا ایک شخص رحمان نامی ہے وہ سکھا جاتا ہے اللہ کی قسم ہم تو رحمان پر ایمان لانے کے نہیں ۔ ناممکن ہے کہ ہم اسے مانیں ہم نے آپ سے سبکدوشی حاصل کر لی جو کچھ کہنا سننا تھا کہہ سن چکے اور آپ نے ہماری واجبی اور انصاف کی بات بھی نہیں مانی اب کان کھول کر ہوشیار ہو کر سن لیجئے کہ ہم آپ کو اس حالت میں آزاد نہیں رکھ سکتے اب یا تو ہم آپ کو ہلاک کر دیں گے یا آپ ہمیں تباہ کر دیں کوئی کہنے لگا ہم تو فرشتوں کو پوجتے ہیں جو اللہ کی بیٹیاں ہیں کسی نے کہا جب تک تو اللہ تعالیٰ کو اور اس کے فرشتوں کو کھلم کھلا ہمارے پاس نہ لائے ہم ایمان نہ لائیں گے ۔ پھر مجلس برخاست ہوئی ۔ عبداللہ بن ابی ، امیہ بن مغیرہ بن عبداللہ بن مخزوم جو آب کی پھوپھی حضرت عاتکہ بن عبدالمطلب کا لڑکا تھا آپ کے ساتھ ہو لیا اور کہنے لگا کہ یہ تو بڑی نامنصفی کی بات ہے کہ قوم نے جو کہا وہ بھی آپ نے منظور نہ کیا پھر جو طلب کیا وہ بھی آپ نے پورا نہ کیا پھر جس چیز سے آپ انہیں ڈراتے تھے وہ مانگا وہ بھی آپ نے یہ کیا اب تو اللہ کی قسم میں آپ پر ایمان لاؤں گا ہی نہیں جب تک کہ آپ سیڑھی لگا کر آسمان پر چڑھ کر کوئی کتاب نہ لائیں اور چار فرشتے اپنے ساتھ اپنے گواہ بنا کر نہ لائیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام باتوں سے سخت رنجیدہ ہوئے ۔ گئے تو آپ بڑے شوق سے تھے کہ شاید قوم کے سردار میری کچھ مان لیں لیکن جب ان کی سرکشی اور ایمان سے دوری آپنے دیکھی بڑے ہی مغموم ہو کر واپس اپنے گھر آئے ، صلی اللہ علیہ وسلم ۔ بات یہ ہے کہ ان کی یہ تمام باتیں بطور کفر و عناد اور بطور نیچا دکھانے اور لاجواب کرنے کے تھیں ورنہ اگر ایمان لانے کے لئے نیک نیتی سے یہ سوالات ہوتے تو بہت ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں یہ معجزے دکھا دیتاچنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا کہ اگر آپ کی چاہت ہو تو جو یہ مانگتے ہیں میں دکھا دوں لیکن یہ یاد رہے کہ اگر پھر بھی ایمان نہ لائے تو انہیں وہ عبرتناک سزائیں دوں گا جو کسی کو نہ دی ہوں ۔ اور اگر آپ چاہیں تو میں ان پر توبہ کی قبولیت کا اور رحمت کا دروازہ کھلا رکھوں آپ نے دوسری بات پسند فرمائی ۔ اللہ اپنے نبی رحمت اور نبی توبہ پر درود و سلام بہت بہت نازل فرمائے اسی بات اور اسی حکمت کا ذکر آیت ( وما منعنا ان نرسل بالایات ) الخ میں اور آیت ( وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِيْرًا Ċ ) 25- الفرقان:7 ) میں بھڈ ہے کہ یہ سب چیزیں ہمارے بس میں ہیں اور یہ سب ممکن ہے لیکن اسی وجہ سے کہ ان کے ظاہر ہو جانے کے بعد ایمان نہ لانے والوں کو پھر ہم چھوڑا نہیں کرتے ۔ ہم ان نشانات کو روک رکھتے ہیں اور ان کفار کو ڈھیل دے رکھی ہے اور ان کا آخر ٹھکارنا جہنم بنا رکھاہے ۔ پس ان کا سوال تھا کہ ریگستان عرب میں نہریں چل پڑیں دریا ابل پڑیں وغیرہ ظاہر ہے کہ ان میں کوئی کام بھی اس قادر و قیوم اللہ پر بھاری نہیں سب کچھ اس کی قدرت تلے اور اس کے فرمان تلے ہے ۔ لیکن وہ بخوبی جانتا ہے کہ یہ ازلی کافر ان معجزوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہیں لانے کے ۔ جیسے فرمان ہے ( اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 96ۙ ) 10- یونس:96 ) یعنی جن پر تیرے رب کی بات ثابت ہو چکی ہے انہیں باوجود تمام تر معجزات دیکھ لینے کے بھی ایمان نصیب نہ ہو گا یہاں تک کہ وہ المناک عذابوں کا معائنہ نہ کرلیں ۔ ولو اننا الخ میں فرمایا کہ اے نبی ان کی خواہش کے مطابق اگر ہم ان پر فرشتے بھی نازل فرمائیں اور مردے بھی ان سے باتیں کرلیں اور اتنا ہی نہیں بلکہ غیب کی تمام چیز کھلم کھلا ان کے سامنے ظاہر کر دیں تو بھی یہ کافر بغیر مشیت الہٰی ایمان لانے کے نہیں ان میں سے اکثر جہالت کے پتلے ہیں ۔ اپنے لئیے دریا طلب کرنے کے بعد انہوں نے کہا اچھا آپ ہی کے لئے باغات اور نہریں ہو جائیں ۔ پھر کہا کہ اچھا یہ بھی نہ سہی تو آپ کہتے ہی ہیں کہ قیامت کے دن آسمان پھٹ جائے گا ، ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا تو اب آج ہی ہم پر اس کے ٹکڑے گرا دیئجے چنانچہ انہوں نے خود بھی اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کی اے اللہ اگر یہ سب کچھ تیری جانب سے ہی برحق ہم پر آسمان سے پتھر برسا ۔ الخ ۔ شعیب علیہ السلام کی قوم نے بھی یہی خواہش کی تھی جس بنا پر ان پر سائبان کے دن کا عذاب اترا ۔ لیکن چونکہ ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ العالمین اور نبی التوبۃ تھے آپ نے اللہ سے دعا کی کہ وہ انہیں ہلاکت سے بچا لے ممکن ہے یہ نہیں تو ان کی اولادیں ہی ایمان قبول کرلیں ، توحید اختیار کرلیں اور شرک چھوڑ دیں ۔ آپ کی یہ آرزو پوری ہوئی ، عذاب نہ اترا ۔ خود ان میں سے بھی بہت سوں کو ایمان کی دولت نصیب ہوئی یہاں تک کہ عبداللہ بن امیہ جس نے آخر میں حضرت کے ساتھ جا کر آپ کو باتیں سنائی تھیں اور ایمان نہ لانے کی قسمیں کھائیں تھیں وہ بھی اسلام کے جھنڈے تلے آئے رضی اللہ عنہ زخرف سے مراد سونا ہے بلکہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت میں لفظ من ذہب ہے ۔ کفار کا اور مطالبہ یہ تھا کہ تیرے لئے سونے کا گھر ہو جائے یا ہمارے دیکھتے ہوئے تو سیڑھی لگا کر آسمان پر پہنچ جائے اور وہاں سے کوئی کتاب لائے جو ہر ایک کے نام کی الگ الگ ہو راتوں رات ان کے سرہانے وہ پرچے پہنچ جائیں ان پر ان کے نام لکھے ہوئے ہوں اس کے جواب میں حکم ہوا کہ ان سے کہہ دو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے آگے کسی کی کچھ نہیں چلتی وہ اپنی سلطنت اور مملکت کا تنہا مالک ہے جو چاہے کرے جو نہ چاہے نہ کرے تمہاری منہ مانگی چیز ظاہر کرے نہ کرے یہ اس کے اختیار کی بات ہے میں تو صرف پیغام رب پہنچانے والا ہوں میں نے اپنا فرض ادا کر دیا احکام الہٰی تمہیں پہنچا دئیے اب جو تم نے مانگا وہ اللہ کی بس کی بات ہے نہ کہ میرے بس کی ۔ مسند احمد میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بطحا مکہ کی بابت مجھ سے فرمایا گیا کہ اگر تم چاہو تو میں اسے سونے کا بنا دوں میں نے گزارش کی کہ نہیں اے اللہ میری تو یہ چاہت ہے کہ ایک روز پیٹ بھرا رہوں اور دوسرے روز بھوکا رہوں میں تیری طرف جھکوں ، تضرع اور زاری کروں اور بکثرت تیری یاد کروں ۔ بھرے پیٹ ہو جاؤں تو تیری حمد کروں ، تیرا شکر بجا لاؤں ۔ ترمذی میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف کہا ہے ۔
90۔ 1 ایمان لانے کے لئے قریش مکہ نے یہ مطالبات پیش کئے
وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا ۔۔ : ” يَنْۢبُوْعًا “ ” نَبَعَ یَنْبِعُ “ (ض، ن، ع) پھوٹ نکلنا، بروزن ” یَفْعُوْلٌ“ یاء مبالغہ کے لیے بڑھائی گئی ہے، وہ چشمہ جو ہمیشہ جاری رہے۔ ” اَلْاَرْضِ “ میں الف لام عہد کا ہے، یعنی اس مکہ کی سنگلاخ زمین سے جہاں پانی کا نشان نہیں۔ ” ینبوعا “ کے مطالبے کا مقصد یہ ہے کہ انھیں صرف اتنا پانی کافی نہیں جو ان کی ضرورت پوری کرے، بلکہ بہت بڑا اور ہمیشہ جاری رہنے والا چشمہ جاری ہونا چاہیے۔- کفار جب قرآن کے معجزے کا جواب نہ دے سکے تو انھوں نے اپنے ایمان لانے کے لیے مزید معجزوں کا مطالبہ داغ دیا، جیسا کہ لاجواب ہونے والے لوگ کیا کرتے ہیں۔ ان تمام مطالبات کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ کہنے کا حکم دیا وہ آگے آ رہا ہے۔
خلاصہ تفسیر :- سابقہ آیات میں کفار کے چند سوالات اور ان کے جوابات ذکر کئے گئے ہیں مذکور الصدر آیات میں ان کے چند معاندانہ سوالات اور بےسروپا فرمائشوں کا ذکر اور ان کا جواب ہے (اخرجہ ابن جریر عن ابن عباس) اور یہ لوگ (باوجود اس کے کہ اعجاز قرآنی کے ذریعے آپ کی نبوت و رسالت کا کافی اور واضح ثبوت ان کو مل چکا پھر بھی از راہ عناد ایمان نہیں لاتے اور یہ بہانے کرتے ہیں کہ) کہتے ہیں کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان نہ لاویں گے جب تک آپ ہمارے لئے (مکہ کی) زمین سے کوئی چشمہ جاری نہ کردیں یا خاص آپ کے لئے کھجور اور انگور کا کوئی باغ نہ ہو پھر اس باغ کے بیچ بیچ میں جگہ جگہ بہت سی نہریں آپ جاری کردیں یا جیسا آپ کہا کرتے ہیں آپ آسمان کے ٹکڑے ہم پر نہ گراویں (جیسا کہ اس آیت قرآن میں ارشاد ہے (آیت) اِنْ نَّشَاْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاۗءِ (یعنی ہم چاہیں تو ان کو زمین کے اندر دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں) یا آپ اللہ کو اور فرشتوں کو (ہمارے) سامنے نہ لاکھڑا کردیں (کہ ہم کھلم کھلا دیکھ لیں) یا آپ کے پاس کوئی سونے کا بنا ہوا گھر نہ ہو یا آپ آسمان پر (ہمارے سامنے) نہ چڑھ جاویں اور ہم تو آپ کے (آسمان پر) چڑھنے کا کبھی بھی یقین نہ کریں گے جب تک کہ (وہاں سے) آپ ہمارے پاس ایک کتاب نہ لاویں جس کو ہم پڑھ بھی لیں (اور اس میں آپ کے آسمان پر پہنچنے کی تصدیق بطور رسید لکھی ہوئی ہو) آپ (ان سب خرافات کے جواب میں) فرما دیجئے کہ سبحان اللہ میں بجز اس کے کہ آدمی ہوں (مگر) پیغمبر ہوں اور کیا ہوں (کہ ان فرمائشوں کو پورا کرنا میری قدرت میں ہو یہ قدرت مطلقہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے بشریت اپنی ذات میں خود عجز و بےاختیاری کو مقتضی ہے رہا رسالت کا معاملہ تو وہ بھی اس کو متقضی نہیں ہے کہ اللہ کے رسول کو ہر چیز کا مکمل اختیار ہو بلکہ نبوت و رسالت کے لئے تو اتنی بات کافی ہے کہ رسالت کی کوئی صاف واضح دلیل آ جاوے جس پر اہل عقل کو اعتراض نہ ہو سکے اور وہ دلیل اعجاز قرآنی اور دوسرے معجزات کی صورت میں بارہا پیش کی جا چکی ہے اس لئے نبوت و رسالت کے لئے ان فرمائشوں کا مطالبہ کا حق نہیں جس چیز کو وہ حکمت کے مطابق دیکھتے ہیں ظاہر بھی کردیتے ہیں مگر یہ ضروری نہیں کہ تمہاری سب فرمائشیں پوری کریں اور جس وقت ان لوگوں کے پاس ہدایت (یعنی رسالت کی صحیح دلیل مثل اعجاز قرآن کے) پہنچ چکی اس وقت ان کو ایمان لانے سے بجز اس کے اور کوئی (قابل التفات) بات مانع نہیں ہوئی کہ انہوں نے (بشریت کو رسالت کے منافی سمجھا اس لئے کہا) کیا اللہ تعالیٰ نے بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے (یعنی ایسا نہیں ہو سکتا) آپ (جواب میں ہماری طرف سے) فرما دیجئے کہ اگر زمین پر فرشتے (رہتے) ہوتے کہ اس پر چلتے بستے تو ہم البتہ ان پر آسمان سے فرشتہ کو رسول بنا کر بھیجتے۔- معارف و مسائل :- بے سروپا معاندانہ سوالات کا پیغمبرانہ جواب :- آیات مذکورہ میں جو سوالات اور فرمائشیں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنے ایمان لانے کی شرط قرار دے کر کی گئیں وہ سب ایسی ہیں کہ ہر انسان ان کو سن کر ایک قسم کا تمسخر اور ایمان نہ لانے کا بیہودہ بہانے کے سوا کچھ نہیں سمجھ سکتا ایسے سوالات کے جواب میں انسان کو فطرۃ غصہ آتا ہے اور جواب بھی اسی انداز کا دیتا ہے مگر ان آیات میں ان کے بیہودہ سوالات کا جو جواب حق تعالیٰ نے اپنے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین فرمایا وہ قابل نظر اور مصلحین امت کے لئے ہمیشہ یاد رکھنے اور لائحہ عمل بنانے کی چیز ہے کہ ان سب کے جواب میں نہ ان کی بےوقوفی کا اظہار کیا گیا نہ ان کی معاندانہ شرارت کا نہ ان پر کوئی فقرہ کسا گیا بلکہ نہایت سادہ الفاظ میں اصل حقیقت کو واضح کردیا گیا کہ تم لوگ شاید یہ سمجھتے ہو کہ جو شخص خدا کا رسول ہو کر آئے اسے سارے خدائی اختیارات کا مالک اور ہر چیز پر قادر ہونا چاہئے یہ تخیل غلط ہے رسول کا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچانا ہے اللہ تعالیٰ ان کی رسالت کو ثابت کرنے کے لئے بہت سے معجزات بھی بھیجتے ہیں مگر وہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کی قدرت و اختیار سے ہوتا ہے رسول کو خدائی کے اختیارات نہیں ملتے وہ ایک انسان ہوتا ہے اور انسان قوت وقدرت سے باہر نہیں ہوتا بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کی امداد کے لئے اپنی قوت قاہرہ کو ظاہر فرما دیں۔
وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا 90ۙ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- أمن - والإِيمان - يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان - قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم،- ( ا م ن ) الامن - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ - فجر - الْفَجْرُ : شقّ الشیء شقّا واسعا كَفَجَرَ الإنسان السّكرَيقال : فَجَرْتُهُ فَانْفَجَرَ وفَجَّرْتُهُ فَتَفَجَّرَ. قال تعالی: وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] ، فَتُفَجِّرَ الْأَنْهارَ [ الإسراء 91] ، تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً- [ الإسراء 90] ، وقرئ تفجر . وقال : فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] ، ومنه قيل للصّبح : فَجْرٌ ، لکونه فجر اللیل . قال تعالی: وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر 1- 2] ، إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء 78] ، وقیل : الفَجْرُ فجران : الکاذب، وهو كذَنَبِ السَّرْحان، والصّادق، وبه يتعلّق حکم الصّوم والصّلاة، قال : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة 187] .- ( ف ج ر ) الفجر - کے معنی کسی چیز کو وسیع طور پر پھا ڑ نے اور شق کردینے کے ہیں جیسے محاورہ ہے فجر الانسان السکری اس نے بند میں وسیع شکاف ڈال دیا فجرتہ فانفجرتہ فتفجر شدت کے ساتھ پانی کو پھاڑ کر بہایا قرآن میں ہے : ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی اور اس کے بیچ میں نہریں بہا نکالو ۔ تَفْجُرَ لَنا مِنَ الْأَرْضِ يَنْبُوعاً [ الإسراء 90] جب تک کہ ہمارے لئے زمین میں سے چشمے جاری ( نہ) کردو ۔ اور ایک قرآت میں تفجر ( بصیغہ تفعیل ) ہے ۔ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ۔ اور اسی سے - صبح کو فجر کہا جاتا ہے - کیونکہ صبح کی روشنی بھی رات کی تاریکی کو پھاڑ کر نمودار ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْفَجْرِ وَلَيالٍ عَشْرٍ [ الفجر 1- 2] فجر کی قسم اور دس راتوں کی ۔ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كانَ مَشْهُوداً [ الإسراء 78] کیونکہ صبح کے وقت قرآن پڑھنا موجب حضور ( ملائکہ ) ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ فجر دو قسم پر ہے ایک فجر کا ذب جو بھیڑیئے کی دم کی طرح ( سیدھی روشنی سی نمودار ہوتی ہے دوم فجر صادق جس کے ساتھ نماز روزہ وغیرہ احکام تعلق رکھتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيامَ إِلَى اللَّيْلِ [ البقرة 187] یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری رات کی ) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے پھر روزہ ( رکھ کر ) رات تک پورا کرو - أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - نبع - النَّبْعُ : خروج الماء من العین . يقال : نَبَعَ الماءُ يَنْبَعُ نُبُوعاً ونَبْعاً ، واليَنْبُوعُ : العینُ الذي يَخْرُجُ منه الماءُ ، وجمعه : يَنَابِيعُ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَسَلَكَهُ يَنابِيعَ فِي الْأَرْضِ [ الزمر 21] والنَّبْعُ : شجر يُتَّخَذُ منه القِسِيُّ.- ( ن ب ع )- النبع کے معنی چشمہ سے پانی پھوٹنے کے ہیں اور یہ نبع الماء ینبع ( ن ) نبوعا ونبعا کا مصدر ہے اور الینبوع اس چشمہ کو کہتے ہیں جس سے پانی اہل رہا ہو اس کی جمع بنا تیع آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَسَلَكَهُ يَنابِيعَ فِي الْأَرْضِ [ الزمر 21] کیا تم نے نہیں دیکھا کہ خدا آسمان سے پانی نازل کرتا ہے پھر اس کو زمین میں چشمے بنا کر جاری کرتا ہے النبع ایک قسم کا در خت جسکی کمانیں بنتی ہیں
(٩٠) اور عبداللہ بن امیہ مخزومی اور اس کے ساتھی یوں کہتے ہیں کہ ہم آپ کی ہر گزتصدیق نہیں کریں گے جب تک کہ آپ ہمارے لیے سرزمین مکہ میں چشمے اور نہریں نہ جاری کردیں۔- شان نزول : (آیت ) ”۔ وقالوا لن نؤمن لک “۔ (الخ)- ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بواسطہ ابن اسحاق شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عکرمہ (رض) ، حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ عتبہ، شیبہ، ابوسفیان اور عبدالدار کا ایک شخص اور ابوالبختری، اسود بن مطلب، ربیعۃ بن اسود، ولید بن مغیرہ، ابوجہل عبداللہ بن امیہ، امیہ بن خلف، عاص بن وائل، منبیہ بن حجاج منبہ بن الحجاج، ان سب نے باہم جمع ہو کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ آپ اپنی قوم میں جو بات لے کر آئے ہیں، ہمارے علم میں عرب میں سے کوئی بھی ایسی بات لے نہیں آیا، تم نے آباؤ اجداد کو برا کہا دین کو عیب لگایا اور نوعمروں کو بیوقوف بنایا، بتوں کو گالیاں دیں اور جماعت میں تفرقہ ڈالا، سو کوئی برائی ایسی نہیں ہے جو تم نے ہمارے اور اپنے درمیان نہ کی ہو، اگر تم یہ باتیں مال حاصل کرنے کے لیے کرتے ہو تو ہم اپنے مال تمہارے لیے جمع کردیتے ہیں تاکہ تم سب سے زیادہ مالدار ہوجاؤ، اور اگر تم ہمارے اندر عزت اور شرافت چاہتے ہو تو ہم تمہیں اپنا سردار بنادیتے ہیں اور اگر تمہارے پاس یہ لانے والا جو کچھ لے کر آتا ہے کوئی جن ہے کہ جس کا تم پر غلبہ ہوگیا تو ہم آپ کا علاج کرانے اور اس سے آپ کو چھٹکارا دلانے کے لیے اپنے اموال خرچ کرتے ہیں یہ سن کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کچھ تم کہہ رہے ہو ان میں سے میرے اندر کوئی بھی بات نہیں، اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور میرے اور میرے اوپر کتاب نازل کی ہے اور مجھے اس بات کا حکم دیا ہے کہ میں تمہیں خوشخبری سناؤں اور ڈراؤں یہ سن کر یہ لوگ بولے کہ اگر آپ ہماری پیشکش کو نہیں قبول کرتے تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ تمام شہروں میں ہمارے شہر سے زیادہ تنگ اور کوئی شہر نہیں اور نہ ہم سے کم مال والا اور تنگ معیشت والا اور کوئی ہے تو آپ ہمارے لیے اپنے اس پروردگار سے دعا کیجیے کہ جس نے آپ کو بھیجا ہے کہ وہ ہم سے ان پہاڑوں کو چلا کر دور کر دے جن سے ہم پر تنگی ہورہی ہے اور ہمارے لیے ہمارے شہروں کو کشادہ کر دے۔ اور اس میں شام اور عراق کی طرح نہریں جاری کر دے اور ہمارے جو آباؤ اجداد مرچکے ہیں، ان کو ہمارے لیے زندہ کر دے اور اگر تم ایسا نہیں کرسکتے تو اپنی باتوں کی تصدیق کرانے کے لیے اپنے پروردگار سے ایک فرشتہ کی درخواست کراؤ جو آکر تمہاری تصدیق کرے اور ہمارے باغات اور خزانے اور سونے چاندی کے محلات تعمیر کر دے تاکہ جس چیز کی تلاش میں ہم آپ کو دیکھیں اس پر آپ کی مدد کرسکیں کیوں کہ ہم آپ کو بازاروں میں کھڑا ہوا اور روزی کی تلاش کرتا ہوا دیکھتے ہیں اور اگر آپ ایسا کرسکتا ہے کیوں کہ ہم تو جب کہ آپ ان باتوں میں سے کوئی بات نہ پوری کریں ہرگز آپ پر ایمان نہیں لائیں گے یہ سن کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کے درمیان سے اٹھ کھڑے ہوئے تو آپ کے ساتھ عبداللہ بن ابی امیہ بھی کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی قوم نے آپ کے سامنے کئی باتیں رکھیں، مگر آپ نے ان میں سے ایک بھی قبول نہیں کی پھر انہوں نے اپنی ذات کے لیے کچھ باتوں کی درخواست کی تاکہ ان کے ذریعے سے آپ کا اللہ تعالیٰ کے یہاں جو مقام سے اس کو پہچان لیں اگر آپ نے ایسا بھی نہیں کیا پھر جس عذاب سے آپ ان کو ڈراتے ہیں، اس عذاب کے جلدی نازل ہونے کی انہوں نے درخواست کی، اللہ تعالیٰ کی قسم میں تو ہرگز آپ پر ایمان نہیں لاؤں گا جب تک کہ آپ آسمان پر چڑھنے کے لیے ایک سیڑھی نہ بنائیں پھر آپ اس پر چڑھیں اور میں آپ کو خود دیکھوں اور جب آپ وہاں سے آئیں اور آپ کے ساتھ ایک تحریر ہو اور مزید یہ کہ آپ کے ساتھ چار فرشتے ہوں جو آپ کے دعوے کی گواہی دیں کہ آپ اپنے دعوے میں سچے ہیں۔- یہ سن کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہاں سے غمگین ہو کر چل دیئے چناچہ اللہ تعالیٰ نے جو عبداللہ بن ابی امیہ نے آپ سے کہا تھا، اسی کے قول کو براہ تردید آپ نازل کردیا اور سعید بن منصور رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی سنن میں (آیت) ” وقالوا لن نؤمن لک “۔ کی تفسیر میں حضرت سعید بن جبیر کا قول روایت کیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ عبداللہ بن ابی امیہ کے بارے نازل ہوئی ہے، امام سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ مرسل صحیح اور اس سے پہلے والی روایت کے لیے شاہد ہے اس کی سند میں جو ابہام ہے اس کا اس مرسل سے انجبار ہوگیا۔
(حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا)- مشرکین مکہ کی طرف سے اس طرح کے مطالبات بار بار کیے جاتے تھے کہ جب تک آپ ہمیں کوئی معجزہ نہیں دکھائیں گے ہم آپ کو رسول نہیں مانیں گے۔