Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

93۔ 1 زُخْرُف کے اصل معنی زینت کے ہیں مَزِخَرَفُ ، مزین چیز کو کہتے ہیں۔ لیکن یہاں اسکے معنی سونے کے ہیں۔ 93۔ 2 یعنی ہم میں سے ہر شخص اسے صاف صاف خود پڑھ سکتا ہو۔ 93۔ 3 مطلب یہ ہے کہ میرے رب کے اندر تو ہر طرح کی طاقت ہے، وہ چاہے تو تمہارے مطالبے آن واحد میں لفظ کُنْ سے پورے فرما دے۔ لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے میں تو (تمہاری طرح) ایک بشر ہوں۔ کیا کوئی بشر ان چیزوں پر قادر ہے ؟ جو مجھ سے مطالبہ کرتے ہو۔ ہاں، اس کے ساتھ میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔ لیکن رسول کا کام صرف اللہ کا پیغام پہنچانا ہے، اور وہ میں نے پہنچا دیا اور پہنچا رہا ہوں۔ لوگوں کے مطالبات پر معجزات ظاہر کر کے دکھانا یہ رسالت کا حصہ نہیں ہے۔ البتہ اگر اللہ چاہے تو صدق رسالت کے لئے ایک آدھا معجزہ دکھا دیا جاتا ہے لیکن لوگوں کی خواہشات پر اگر معجزے دکھانے شروع کردیئے جائیں تو یہ سلسلہ کہیں بھی جا کر نہیں رک سکے گا ہر آدمی اپنی خواہش کے مطابق نیا معجزہ دیکھنے کا آرزو مند ہوگا اور رسول پھر اسی کام پر لگا رہے گا تبلیغ ودعوت کا اصل کام ٹھپ ہوجائے گا اس لیے معجزات کا صدور صرف اللہ کی مشیت سے ہی ممکن ہے اور میں بھی اس کی مشیت میں دخل اندازی کا مجاز نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٠] وہ حسی معجزے جن کا کفار مکہ مطالبہ کیا کرتے تھے :۔ ان آیات میں کفار مکہ کے ان مطالبات کو یک جابیان کیا جارہا ہے جو وہ وقتاً فوقتاً نبوت کی دلیل پر حسی معجزہ کی صورت میں مطالبہ کرتے رہے تھے۔ وہ اس قسم کے مطالبہ کرنے میں قطعاً حق بجانب نہیں تھے کیونکہ کئی معجزات وہ ایسے دیکھ چکے تھے جو آپ کی نبوت پر واضح دلائل تھے مثلاً بار بار کے چیلنج کے باوجود وہ قرآن جیسا کلام نہ پیش کرسکے تھے۔ چاند پھٹنے کا واقعہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا۔ واقعہ اسراء کے سلسلہ میں بیت المقدس کی ساخت پر وہ سوال و جواب کرچکے تھے۔ یہ سب باتیں ان کے قلبی اطمینان کے لیے کافی تھیں۔ مگر خوئے بدرا بہا نہ بسیار کے مصداق وہ نئے سے نئے مطالبے کرتے ہی رہتے تھے جن میں سے چند ایک یہ تھے کہ آپ یہاں پانی کے چشمے بہادیں تاکہ ہمارے لیے پانی کی قلت دور ہو نیز یہاں سے پہاڑوں کو دور ہٹادیں تاکہ ہمیں رہنے کو کچھ میدان میسر آئے اور اس میں کھیتی اور کھجوریں اور انگور کے باغ پیدا ہوں یا جیسے ہمیں دھمکی دیتے رہتے ہو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دو ۔ جس سے نہ ہم رہیں اور نہ تم اور یہ روز روز کی تکرار ختم ہوجائے۔ یا جس فرشتے کے متعلق کہتے ہو کہ وہ مجھ پر نازل ہوتا ہے کم از کم ہم اسے ہی دیکھ لیں یا اگر تم ہمارا بھلا نہ کرسکو تو تمہارا اپنا ہی گھر سونے کا یا سنہرا بن جائے یا ہمارے سامنے تم آسمان کی طرف چڑھو اور جب اترو تو تمہارے ہاتھوں میں ہماری طرف ایک کتاب ہونا چاہیے۔ جس میں ہمیں خطاب کیا گیا ہو کہ یہ واقعی نبی ہے اور اس پر ایمان لے آؤ تو تب ہی ہم تمہاری نبوت پر ایمان لاسکتے ہیں۔- [١١١] مطالبات کا جواب :۔ کفار مکہ کے ان سب اوٹ پٹانگ قسم کے سب مطالبات کا اللہ تعالیٰ نے ایک مختصر سے جملہ میں جواب دے دیا ہے یعنی آپ ان لوگوں سے کہہ دیں کہ میں نے تم سے یہ کب کہا تھا کہ میں خدائی اختیارات کا مالک اور قادر مطلق ہوں ایسے سب کام تو اللہ تعالیٰ کے اختیار اور قبضہ ئقدرت میں ہیں۔ اگر میں نے تمہارے سامنے اپنی خدائی کا دعویٰ کیا ہوتا تو تم مجھ سے ایسے مطالبے پیش کرنے میں حق بجانب تھے مگر میں تو صرف یہ دعویٰ کر رہا ہوں کہ میں تمہارے ہی جیسا ایک انسان ہوں۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا رسول اور پیغامبر ضرور بنایا ہے۔ اگر تم نے میرا امتحان لینا ہے تو اس پیغام کو جانچو، میری صداقت کو پرکھو، میری سابقہ زندگی تمہارے سامنے ہے، مجھ میں جو عیب نظر آتا ہے اس کی نشان دہی کرو۔ آخر تمہارے ان مطالبات کا میرے دعٰوئے رسالت سے کیا تعلق ہے ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ ۔۔ : ” زُخْرُفٍ “ اصل میں زینت کو کہتے ہیں، یہاں یہ لفظ سونے کے معنی میں ہے، کیونکہ جو چیزیں زینت کے لیے استعمال ہوتی ہیں ان میں سونا بہت قیمتی اور خوبصورت ہے۔ ” ترقی “ ” رَقٰی یَرْقِيْ رُقْیَۃً “ (ض) دم کرنا اور ” رَقِيَ یَرْقٰی رُقِیًّا “ (ع) چڑھنا۔ - قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ ۔۔ : یہاں قرآن نے کفار کے چھ مطالبوں کا ذکر کیا ہے، جن کے ضمن میں کئی اور مطالبے ہیں۔ فرمایا، میرا رب ہر عیب اور عجز سے پاک ہے، وہ یہ سب کچھ کرسکتا ہے مگر اپنی مرضی سے۔ رہا مجھ سے مطالبے کرنا تو میں تو محض ایک بشر ہوں جو پیغام پہنچانے والا ہے، کیا تم کسی بشر کے متعلق بتاسکتے ہو کہ وہ اس قسم کے تصرفات کی طاقت رکھتا ہو اور پھر میرا کوئی اختیار بھی نہیں، نہ کوئی بات میری اپنی ہے، میں تو محض اللہ کا رسول، یعنی اس کی طرف سے پیغام پہنچانے کے لیے بھیجا ہوا ہوں اور اس کے حکم کا تابع ہوں، تو میں اس کے اذن کے بغیر یہ چیزیں کیسے لاسکتا ہوں۔ امام رازی کہتے ہیں کہ رسول کے سچا ہونے کے لیے تو ایک معجزہ ہی کافی ہوتا ہے اور آپ کو وہ معجزہ قرآن دیا گیا۔ اب اس کے بعد اگر متعدد معجزات کو معیار صدق قرار دیا جائے تو یہ سلسلہ ختم ہی نہ ہو سکے گا، اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور پہلے تمام رسولوں نے ایسے موقع پر معذرت کردی کہ یہ اللہ کا کام ہے، ہم تو محض بشر اور رسول ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِي السَّمَاۗءِ ۭ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ ۭ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا 93؀ۧ- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - زخرف - الزُّخْرُفُ : الزّينة المزوّقة، ومنه قيل للذّهب : زُخْرُفٌ ، وقال : أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَها [يونس 24] ، وقال : بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ [ الإسراء 93] ، أي : ذهب مزوّق، وقال : وَزُخْرُفاً [ الزخرف 35] ، وقال : زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] ، أي : المزوّقات من الکلام .- ( زخ رف )- الزخرف اصل میں اس زینت کو کہتے ہیں جو ملمع سے حاصل ہو اسی سے سونے کو بھی زخرف کہا جاتا ہے ( کیونکہ یہ زیبائش کے کام آتا ہے ) ۔ قرآن میں ہے :۔ أَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَها [يونس 24] ، یہاں تک کہ زمین سبزے سے خوشنما اور آراستہ ہوگئی ۔ بَيْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ [ الإسراء 93] طلائی گھر ۔ وَزُخْرُفاً [ الزخرف 35] اور سونے کے ( دروازے ) اور زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] کے معنی ہیں " ملمع کی ہوئی باتیں "- رقی - رَقِيتُ في الدّرج والسّلم أَرْقَى رُقِيّاً ، ارْتَقَيْتُ أيضا . قال تعالی: فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ- [ ص 10] ، وقیل : ارْقَ علی ظلعک «1» ، أي : اصعد وإن كنت ظالعا . ورَقَيْتُ من الرُّقْيَةِ.- وقیل : كيف رَقْيُكَ ورُقْيَتُكَ ، فالأوّل المصدر، والثاني الاسم . قال تعالی: لَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ- [ الإسراء 93] ، أي : لرقیتک، وقوله تعالی: وَقِيلَ مَنْ راقٍ [ القیامة 27] ، أي : من يَرْقِيهِ تنبيها أنه لا رَاقِي يَرْقِيهِ فيحميه، وذلک إشارة إلى نحو ما قال الشاعر :- 197-- وإذا المنيّة أنشبت أظفارها ... ألفیت کلّ تمیمة لا تنفع - «2» وقال ابن عباس : معناه من يَرْقَى بروحه، أملائكة الرّحمة أم ملائكة العذاب «3» ؟ والتَّرْقُوَةُ : مقدّم الحلق في أعلی الصّدر حيث ما يَتَرَقَّى فيه النّفس كَلَّا إِذا بَلَغَتِ التَّراقِيَ- [ القیامة 26] .- ( ر ق ی ) رقی - ( س ) رقیا ۔ فی السلم کے معنی سیڑھی پر چڑھنے کے ہیں اور ارتقی ( افتعال ) بھی اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآں میں ہے :۔ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبابِ [ ص 10] تو ان کو چاہیے کہ سیڑھیاں لگا کر آسمان پر چڑھیں ۔ مثل مشہور ہے :۔ ارق علی ظلعک یعنی اپنی طاقت کے مطابق چلو اور طاقت سے زیادہ اپنے آپ پر بوجھ نہ ڈالو ۔ اور رقیت بمعنی رقیہ یعنی افسوس کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ محاورہ ہے ۔ ؛کیف رقیک اور قیتک کہ تمہارا افسوس کیسا ہے ۔ اس میں رقی مصدر ہے اور رقیۃ اسم اور آیت کریمہ : لَنْ نُؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ [ الإسراء 93] یعنی ہم تیرے افسوں پر یقین کرنے والے نہیں ہیں ۔ میں رقی بمعنی رقیۃ کے ہے ۔ اور آیت ؛۔ وَقِيلَ مَنْ راقٍ [ القیامة 27] اور کون افسوں کرے ۔ میں اسے بات پر تنبیہ ہے کہ اس وقت جھاڑ پھونک سے کوئی اس کی جان نہیں بچا سکے گا ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) (190) وإذا المنيّة أنشبت أظفارها ... ألفیت کلّ تمیمة لا تنفع کہ جب موت اپنا پنجہ گاڑ دیتی ہے ۔ تو کوئی افسوں کارگر نہیں ہوتا ۔ ابن عباس نے من راق کے معنی کئے ہیں کہ کونسے فرشتے اس کی روح لے کر اوپر جائیں یعنی ملائکہ رحمت یا ملائکہ عذاب ۔ الترقوۃ ہنسلی کی ہڈی کو کہتے ہیں اس لحاظ سے کہ سانس پھول کر وہیں تک چڑھتی ہے اس کی جمع تراقی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَلَّا إِذا بَلَغَتِ التَّراقِيَ [ القیامة 26] سنوجی جب جان بدن سے نکل کر گلے تک پہنچ جائیگی ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - قرأ - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] - ( ق ر ء) قرءت المرءۃ وقرءت الدم - ۔ القراءۃ کے معنی حروف وکلمات کو ترتیل میں جمع کرنے کے ہیں کیونکہ ایک حروت کے بولنے کو قراءت نہیں کہا جاتا ہے اور نہ یہ عام ہر چیز کے جمع کے کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ لہذ ا اجمعت القوم کی بجاے قررءت القوم کہنا صحیح نہیں ہے ۔ القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔- سبحان - و ( سُبْحَانَ ) أصله مصدر نحو : غفران، قال فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] ، وسُبْحانَكَ لا عِلْمَ لَنا [ البقرة 32] ، وقول الشاعرسبحان من علقمة الفاخر - «1» قيل : تقدیره سبحان علقمة علی طریق التّهكّم، فزاد فيه ( من) ردّا إلى أصله «2» ، وقیل : أراد سبحان اللہ من أجل علقمة، فحذف المضاف إليه . والسُّبُّوحُ القدّوس من أسماء اللہ تعالیٰ «3» ، ولیس في کلامهم فعّول سواهما «4» ، وقد يفتحان، نحو : كلّوب وسمّور، والسُّبْحَةُ : التّسبیح، وقد يقال للخرزات التي بها يسبّح : سبحة .- ( س ب ح ) السبح - ۔ سبحان یہ اصل میں غفران کی طرح مصدر ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَسُبْحانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ [ الروم 17] سو جس وقت تم لوگوں کو شام ہو اللہ کی تسبیح بیان کرو ۔ تو پاک ذات ) ہے ہم کو کچھ معلوم نہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( سریع) (218) سبحان من علقمۃ الفاخر سبحان اللہ علقمہ بھی فخر کرتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں سبحان علقمۃ ہے اس میں معنی اضافت کو ظاہر کرنے کے لئے زائد ہے اور علقمۃ کی طرف سبحان کی اضافت بطور تہکم ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ، ، سبحان اللہ من اجل علقمۃ ہے اس صورت میں اس کا مضاف الیہ محذوف ہوگا ۔ السبوح القدوس یہ اسماء حسنیٰ سے ہے اور عربی زبان میں فعول کے وزن پر صرف یہ دو کلمے ہی آتے ہیں اور ان کو فاء کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے جیسے کلوب وسمود السبحۃ بمعنی تسبیح ہے اور ان منکوں کو بھی سبحۃ کہاجاتا ہے جن پر تسبیح پڑھی جاتی ہے ۔- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت بنایا۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٣) یا آپ کے پاس کوئی سونے، چاندی کا بنا ہوا گھر نہ ہو یا آپ آسمان پر نہ چڑھ جائیں اور پھر وہاں سے ہمارے پاس فرشتے لے کر نہ آئیں جو اس بات کی آکر گواہی دیں کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور ہم تو آپ کے آسمان پر چڑھنے کا بھی کبھی باور نہ کریں جب تک کہ آپ ہمارے پاس اللہ کی طرف سے ایک تحریر نہ لائیں جس کو ہم پڑھ بھی لیں کہ اس میں آپ کی رسالت کے متعلق لکھا ہو، اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے فرما دیجیے کہ میرا پروردگار تو اولاد اور شریک سب چیزوں سے پاک ہے میں بجائے اس کے آدمی ہوں اور تمام رسولوں کی طرح رسول ہوں اور کیا ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ )- ان لوگوں کے ان تمام مطالبات کے جواب میں صرف ایک بات فرمائی گئی :- (قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا)- یعنی میں بھی تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں۔ میں بھی اسی طرح پیدا ہوا ہوں جس طرح تم سب لوگ پیدا ہوئے ہو۔ میں تمہاری ہی طرح کھاتا پیتا ہوں دنیا کے کام کاج کرتا ہوں بازاروں میں چلتا پھرتا ہوں اور میں نے ہر سطح پر کاروبار بھی کیا ہے۔ میں تمہارے درمیان ایک عمر گزار چکا ہوں اور میری سیرت اور اخلاق و کردار روز روشن کی طرح تمہارے سامنے ہے۔ مجھ میں اور تم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ میرے پاس اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے اور اللہ کا وہ پیغام جو بذریعہ وحی مجھ تک پہنچتا ہے وہ میں تم لوگوں تک پہنچانے پر مامور ہوں۔- اگرچہ سیرت و کردار اور مرتبہ رسالت و نبوت کے اعتبار سے عام انسانوں سے نبی اکرم کی کوئی مناسبت نہیں مگر عام بشری تقاضوں کے حوالے سے انہیں یہ جواب دیا گیا کہ میں بھی ایک انسان ہی ہوں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :106 معجزات کے مطالبے کا ایک جواب اس سے پہلے آیت ۵۹ وَمَا نُرْسِلُ بِالْاٰيٰتِ اِلَّا تَخْوِيْفًا میں گزر چکا ہے ۔ اب یہاں اسی مطالبے کا دوسرا جواب دیا گیا ہے ۔ اس مختصر سے جواب کی بلاغت تعریف سے بالاتر ہے ۔ مخالفین کا مطالبہ یہ تھا کہ اگر تم پیغمبر ہو تو ابھی زمین کی طرف ایک اشارہ کرو اور یکایک ایک چشمہ پھوٹ بہے ، یا فورا ایک لہلہاتا باغ پیدا ہو جائے اور اس میں نہریں جاریں ہوجائیں ۔ آسمان کی طرف اشارہ کرو اور تمہارے جھٹلانے والوں پر آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر جائے ۔ ایک پھونک مارو اور چشم زدن میں سونے کا ایک محل بن کر تیار ہوجائے ۔ ایک آواز دو اور ہمارے سامنے خدا اور اس کے فرشتے فورا آ کھڑے ہوں اور وہ شہادت دیں کہ ہم ہی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے ۔ ہماری آنکھوں کے سامنے آسمان پر چڑھ کر جاؤ اور اللہ میاں سے ایک خط ہمارے نام لکھوا لاؤ جسے ہم ہاتھ سے چھوئیں اور آنکھوں سے پڑھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لمبے چوڑے مطالبوں کا بس یہ جواب دے کر چھوڑ دیا گیا کہ ان سے کہو ، پاک ہے میرا پروردگار کیا میں ایک پیغام لانے والے انسان کے سوا اور بھی کچھ ہوں ؟ یعنی بیوقوفوں کیا میں نے خدا ہونے کا دعوی کیا تھا کہ تم یہ مطالبے مجھ سے کرنے لگے؟ میں نے تم سے کب کہا تھا کہ میں قادر مطلق ہوں؟ میں نے کب کہا تھا کہ زمین و آسمان پر میری حکومت چل رہی ہے؟ میرا دعوی تو اول روز سے یہی تھا کہ میں خدا کی طرف سے پیغام لانے والا ایک انسان ہوں ۔ تمہیں جانچنا ہے تو میرے پیغام کو جانچو ۔ ایمان لانا ہے تو اس پیغام کی صداقت و معقولیت دیکھ کر ایمان لاؤ ۔ انکار کرنا ہے تو اس پیغام میں کوئی نقص نکال کر دکھاؤ ۔ میری صداقت کا اطمینان کرنا ہے تو ایک انسان ہونے کی حیثیت سے میری زندگی کو ، میرے اخلاق کو ، میرے کام کو دیکھو ۔ یہ سب کچھ چھوڑ کر تم مجھ سے یہ کیا مطالبہ کرنے لگے کہ زمین پھاڑو اور آسمان گراؤ؟ آخر پیغمبری کا ان کاموں سے کیا تعلق ہے؟

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

50: آیت ۸۹ سے ۹۲۔ ان آیات میں مشرکینِ مکہ کے وہ مطالبات بیان فرمائے گئے ہیں جو وہ محض ضد کی بنا پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے کیا کرتے تھے۔ آپ کے متعدد معجزات اِن پر ظاہر ہوچکے تھے، لیکن وہ پھر بھی نت نئی فرمائشوں سے باز نہیں آتے تھے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ان ساری فرمائشوں کا یہ مختصر جواب دینے کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ میں خدا نہیں ہوں کہ یہ سارے کام میرے اختیار میں ہوں۔ میں تو ایک اِنسان ہوں، البتہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے پیغمبر بناکر بھیجا ہے، لہٰذا اﷲ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت جو معجزات مجھے عطا فرمادئیے ہیں، اُن سے زیادہ اپنے اختیار سے میں کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا۔