Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

فکری مغالطے اور کفار اکثر لوگ ایمان سے اور رسولوں کی تابعداری سے اسی بنا پر رک گئے کہ انہیں یہ سمجھ نہ آیا کہ کوئی انسان بھی رسول بن سکتا ہے ۔ وہ اس پر سخت تر متعجب ہوئے اور آخر انکار کر بیٹھے اور صاف کہہ گئے کہ کیا ایک انسان ہماری رہبری کرے گا ؟ فرعون اور اسکی قوم نے بھی یہی کہا تھا کہ ہم اپنے جیسے دو انسانوں پر ایمان کیسے لائیں خصوصا اس صورت میں کہ ان کی ساری قوم ہمارے ماتحتی میں ہے ۔ یہی اور امتوں نے اپنے زمانے کے نبیوں سے کہا تھا کہ تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو سوا اس کے کچھ نہیں کہ تم ہمیں اپنے بڑوں کے معبودوں سے بہکا رہے ہو اچھا لاؤ کوئی زبردست ثبوت پیش کرو ۔ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ۔ اسکے بعد اللہ اپنے لطف و کرم اور انسانوں میں سے رسولوں کے بھیجنے کی وجہ کو بیان فرماتا ہے اور اس حکمت کو ظاہر فرماتا ہے کہ اگر فرشتے رسالت کا کام انجام دیتے تو نہ انکے پاس تم بیٹھ اٹھ سکتے نہ انکی باتیں پوری طرح سے سمجھ سکتے ۔ انسانی رسول چونکہ تمہارے ہی ہم جنس ہوتے ہیں تم ان سے خلا ملا رکھ سکتے ہو ، ان کی عادات و اطوار دیکھ سکتے ہو اور مل جل کر ان سے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کر سکتے ہو ، ان کا عمل دیکھ کر خود سیکھ سکتے ہو جیسے فرمان ہے آیت ( لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ ١٦٤؁ ) 3-آل عمران:164 ) ۔ اور آیت میں ہے ( لقد جاء کم رسول من انفسکم ) الخ ۔ اور آیت میں ہے ( كَمَآ اَرْسَلْنَا فِيْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ يَتْلُوْا عَلَيْكُمْ اٰيٰتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ١٥١؀ړ ) 2- البقرة:151 ) ۔ مطلب سب کا یہی ہے کہ یہ تو اللہ کا زبردست احسان ہے کہ اس نے تم میں سے ہی اپنے رسول بھیجے کہ وہ آیات الہٰی تمہیں پڑھ کر سنائیں ، تمہارے اخلاق پاکیزہ کریں اور تمہیں کتاب و حکمت سکھائیں اور جن چیزوں سے تم بےعلم تھے وہ تمہیں عالم بنا دیں پس تمہیں میری یاد کی کثرت کرنی چاہئے تاکہ میں بھی تمہیں یاد کروں ۔ تمہیں میری شکر گزاری کرنی چاہئے اور ناشکری سے بچنا چاہئے ۔ یہاں فرماتا ہے کہ اگر زمین کی آبادی فرشتوں کی ہوتی تو بیشک ہم کسی آسمانی فرشتے کو ان میں رسول بنا کر بھیجتے چونکہ تم خود انسان ہو ہم نے اسی مصلحت سے انسانوں میں سے ہی اپنے رسول بنا کر تم میں بھیجے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

94۔ 1 یعنی کسی انسان کا رسول ہونا، کفار و مشرکین کے لئے سخت تعجب کی بات تھی، وہ یہ بات مانتے ہی نہ تھے کہ ہمارے جیسا انسان، جو ہماری طرح چلتا پھرتا ہے، ہماری طرح کھاتا پیتا ہے، ہماری طرح انسانی رشتوں میں منسلک ہے، وہ رسول بن جائے۔ یہی تعجب ان کے ایمان میں مانع رہا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١٢] بشریت کی وجہ سے رسالت اور رسالت کی وجہ سے بشریت کا انکار :۔ انبیاء و رسل کے مخالفین کا ہمیشہ یہ اعتراض رہا ہے کہ چونکہ یہ رسول ہماری طرح کا ہی انسان ہے، ہماری طرح ہی کھاتا پیتا، چلتا پھرتا، شادی کرتا اور صاحب اولاد ہے جو احتیاجات ہمیں لاحق ہیں وہ اسے بھی لاحق ہیں۔ پھر یہ نبی کیسے ہوسکتا ہے ؟ گویا کافر اس وجہ سے انبیاء کی نبوت کا انکار کرتے تھے کہ وہ بشر ہیں۔ پھر بعد میں انہی نبیوں کی امت میں سے ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے فرط عقیدت سے ان کی نبوت و رسالت کو تو ان کی حد سے متجاوز تسلیم کیا مگر ان کی بشریت سے انکار کردیا۔ پھر کسی نے اپنے نبی کو خدا کا درجہ دے دیا۔ کسی نے خدا کے بیٹے کا اور کسی نے یوں کہا کہ خدا اس میں حلول کر گیا ہے گویا ان دونوں انتہا پسندوں کی نظر میں بشریت اور رسالت کا ایک ذات میں جمع ہونا ناممکن ہی بنا رہا۔ کافروں نے بشریت کی وجہ سے رسالت کا انکار کیا اور فرط عقیدت رکھنے والوں نے رسالت کی وجہ سے بشریت کا انکار کردیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا ۔۔ : یعنی یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آئی کہ ایک شخص بشر ہوتے ہوئے اللہ کا رسول کیسے ہوسکتا ہے، اگر اللہ کو کوئی رسول بھیجنا ہوتا تو کسی فرشتے کو بھیج دیتا۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بشر ہونے کو جانتے تھے، آپ کے آبا و اجداد اور ازواج و اولاد، کھانے پینے، چلنے پھرنے اور دوسری تمام انسانی ضروریات کو دیکھتے تھے، اس لیے آپ کو رسول ماننے کے لیے تیار نہ تھے۔ اب بہت سے مسلمان کہلانے والے جو باپ دادا سے مسلمان چلے آ رہے ہیں، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول مانتے ہیں، مگر آپ کو بشر ماننے کے لیے ہرگز تیار نہیں، کیونکہ مشرکین عرب اور ان لوگوں کا ذہن ایک ہے۔ انھوں نے کہا، بشر رسول نہیں ہوسکتا اور انھوں نے کہا، رسول بشر نہیں ہوسکتا۔ ” فَمَا أَشْبَہَ اللَّیْلَۃَ بالْبَارِحَۃِ “ (سو آج کی رات کل رات سے کس قدر ملتی جلتی ہے) اللہ تعالیٰ نے کفار کا یہ شبہ کئی آیات میں بیان فرمایا ہے، دیکھیے سورة یونس (٢) ، تغابن (٦) ، سورة ق (١، ٢) اور انعام (٨، ٩) حقیقت یہ ہے کہ ان سب لوگوں نے اپنی بےبصیرتی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے ہاں بشر کے مقام اور عزت و کرامت کو پہچانا ہی نہیں۔ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٧٠) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

اللہ کا رسول انسان ہی ہوسکتا ہے فرشتے انسانوں کی طرف رسول نہیں ہو سکتے :- عام کفار و مشرکین کا خیال تھا کہ بشر یعنی آدمی اللہ کا رسول نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ تو ہماری طرح تمام حوائج انسانی کا عادی ہوتا ہے پھر اس کو ہم پر کیا فوقیت حاصل ہے کہ ہم اس کو اللہ کا رسول سمجھیں اور اپنا مقتدا بنالیں ان کے اس خیال کا جواب قرآن کریم میں کئی جگہ مختلف عنوانات سے دیا گیا ہے یہاں آیت مَا مَنَعَ النَّاس میں جو جواب دیا گیا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کا رسول جن لوگوں کی طرف بھیجا جائے وہ انھیں کی جنس میں سے ہونا ضروری ہے اگر یہ آدمی ہیں تو رسول بھی آدمی ہونا چاہئے کیونکہ غیر جنس کے ساتھ باہم مناسبت نہیں ہوتی اور بلا مناسبت کے رشد و ہدایت کا فائدہ حاصل نہیں ہوتا اگر آدمیوں کی طرف کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیج دیں جو نہ بھوک کو جانتا ہے نہ پیاس کو نہ جنسی خواہشات کو نہ سردی گرمی کے احساس کو نہ اس کو کبھی محنت سے تکان لاحق ہوتا ہے تو وہ انسانوں سے بھی ایسے ہی عمل کی توقع رکھتا ہے ان کی کمزوری و مجبوری کا احساس نہ کرتا اسی طرح انسان جب یہ سمجھتے کہ یہ تو فرشتہ ہے ہم اس کے کاموں کی نقل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے تو اس کا اتباع خاک کرتے یہ فائدہ اصلاح اور رشد و ہدایت کا صرف اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ اللہ کا رسول ہو تو جنس بشر سے جو تمام انسانی جذبات اور طبعی خواہشات کا خود بھی حامل ہو مگر ساتھ ہی اس کو ایک شان ملکیت کی بھی حاصل ہو کہ عام انسانوں اور فرشتوں کے درمیان واسطہ اور رابطہ کا کام کرسکے وحی لانے والے فرشتوں سے وحی حاصل کرے اور اپنے ہم جنس انسانوں کو پہونچائے۔- اس تقریر سے یہ شبہ بھی دور ہوگیا کہ جب انسان فرشتہ سے فیض حاصل نہیں کرسکتا تو پھر رسول باوجود انسان ہونے کے کس طرح ان سے فیض وحی حاصل کرسکے گا۔- رہا یہ شبہ کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت میں مجانست شرط ہے پھر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنات کا رسول کس طرح بنایا گیا جنات تو انسان کے ہم جنس نہیں تو جواب یہ ہے کہ رسول صرف انسان نہیں بلکہ اس میں ایک شان ملکیت کی بھی ہوتی ہے اس کی وجہ سے جنات کو بھی مناسبت ان سے ہو سکتی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا 94؀- منع - المنع يقال في ضدّ العطيّة، يقال : رجل مانع ومنّاع . أي : بخیل . قال اللہ تعالی: وَيَمْنَعُونَ- الْماعُونَ [ الماعون 7] ، وقال : مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] ، ويقال في الحماية، ومنه :- مكان منیع، وقد منع وفلان ذو مَنَعَة . أي : عزیز ممتنع علی من يرومه . قال تعالی: أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] ، وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] ، ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] أي : ما حملک ؟- وقیل : ما الذي صدّك وحملک علی ترک ذلک ؟- يقال : امرأة منیعة كناية عن العفیفة . وقیل :- مَنَاعِ. أي : امنع، کقولهم : نَزَالِ. أي : انْزِلْ.- ( م ن ع ) المنع ۔- یہ عطا کی ضد ہے ۔ رجل مانع امناع بخیل آدمی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيَمْنَعُونَالْماعُونَ [ الماعون 7] اور برتنے کی چیزیں عاریۃ نہیں دیتے ۔ مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ [ ق 25] جو مال میں بخل کر نیوالا ہے اور منع کے معنی حمایت اور حفاظت کے بھی آتے ہیں اسی سے مکان منیع کا محاورہ ہے جس کے معیم محفوظ مکان کے ہیں اور منع کے معنی حفاظت کرنے کے فلان ومنعۃ وہ بلند مر تبہ اور محفوظ ہے کہ اس تک دشمنوں کی رسائی ناممکن ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَسْتَحْوِذْ عَلَيْكُمْ وَنَمْنَعْكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ [ النساء 141] کیا ہم تم پر غالب نہیں تھے اور تم کو مسلمانون کے ہاتھ سے بچایا نہیں ۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ [ البقرة 114] اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا کی سجدوں سے منع کرے ۔ اور آیت : ۔ ما مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ [ الأعراف 12] میں مانععک کے معنی ہیں کہ کسی چیز نے تمہیں اکسایا اور بعض نے اس کا معنی مالذی سدک وحملک علٰی ترک سجود پر اکسایا او مراۃ منیعۃ عفیفہ عورت ۔ اور منا ع اسم بمعنی امنع ( امر ) جیسے نزل بمعنی انزل ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] ،- فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] ، أي : توجههم ومضيّهم .- ( ب ع ث ) البعث - ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے - پس بعث دو قم) پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا - دوم بعث الہی - یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٩٤) اور جس وقت ان مکہ والوں کے پاس رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن کریم لے کر آچکے ہیں، اس وقت ان کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے سے سوائے اس کے اور کیا امر مانع ہوا کہ انہوں نے کہا کہ کیا ہماری طرف آدمی کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٩٤ (وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاۗءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا)- ان کا کہنا تھا کہ اس کام کے لیے ان کی طرف کوئی فرشتہ بھیجا جاتا تو بھی کوئی بات تھی۔ اب وہ اپنی ہی طرح کے ایک انسان کو آخر کیونکر اللہ کا رسول مان لیں ؟ ان کے اس اعتراض کے جواب میں جو دلیل دی جا رہی ہے وہ بہت اہم ہے :

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل حاشیہ نمبر :107 یعنی ہر زمانے کے جاہل لوگ اسی غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں کہ بشر کبھی پیغمبر نہیں ہو سکتا ۔ اسی لیے جب کوئی رسول آیا تو انہوں نے یہ دیکھ کر کہ کھاتا ہے ، پیتا ہے ، بیوی بچے رکھتا ہے ، گوشت پوست کا بنا ہوا ہے ، فیصلہ کر دیا کہ پیغمبر نہیں ہے ، کیونکہ بشر ہے ۔ اور جب وہ گزر گیا تو ایک مدت کے بعد اس کے عقیدت مندوں میں ایسے لوگ پیدا ہونے شروع ہو گئے جو کہنے لگے کہ وہ بشر نہیں تھا ، کیونکہ پیغمبر تھا ۔ چنانچہ کسی نے اس کو خدا بنایا ، کسی نے اسے خدا کا بیٹا کہا ، اور کسی نے کہا کہ خدا اس میں حلول کر گیا تھا ۔ غرض بشریت اور پیغمبری کا ایک ذات میں جمع ہونا جاہلوں کے لیے ہمیشہ ایک معما ہی بنا رہا ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ یس ، حاشیہ ١١ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani