مستحق تعریف قرآن مجید ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اللہ ہر امر کے شروع اور اس کے خاتمے پر اپنی تعریف و حمد کرتا ہے ہر حال میں وہ قابل حمد اور لائق ثنا اور سزاوار تعریف ہے اول آخر مستحق حمد فقط اسی کی ذات والا صفات ہم اس نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم نازل فرمایا جو اس کتاب کو ٹھیک ٹھاک اور سیدھا اور راست رکھا ہے جس میں کوئی کجی کوئی کسر کوئی کمی نہیں صراط مستقیم کی رہبر واضح جلی صاف اور واضح ہے ۔ بدکاروں کو ڈرانے والی ، نیک کاروں کو خوشخبریاں سنانے والی ، معتدل ، سیدھی ، مخالفوں منکروں کو خوفناک عذابوں کی خبر دینے والی یہ کتاب ہے ۔ جو عذاب اللہ کی طرف کے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایسے عذاب کہ نہ اس کے سے عذاب کسی کے نہ اس کی سی پکڑ کسی کی ۔ ہاں جو اس پر یقین کرے ایمان لائے نیک عمل کرے اسے یہ کتاب اجر عظیم کی خوشی سناتی ہے ۔ جس ثواب کو پائندگی اور دوام ہے وہ جنت انہیں ملے گی جس میں کبھی فنا نہیں جس کی نعمتیں غیر فانی ہیں ۔ اور انہیں بھی یہ عذابوں سے آگاہ کرتا ہے جو اللہ کی اولاد ٹھیراتے ہیں جیسے مشرکین مکہ کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں بتاتے تھے ۔ مشرکین کے سوالات بے علمی اور جہالت کے ساتھ منہ سے بول پڑتے ہیں یہ تو یہ ان کے بڑے بھی ایسی باتیں بےعلمی سے کہتے رہے کلمۃ کا نصب تمیز کی بنا پر ہے تقدیر عبارت اس طرح ہے کبرت کلمتہم ھذہ کلمۃ اور کہا گیا ہے کہ یہ تعجب کے طور پر ہے ۔ تقدیر عبارتیہ ہے اعظم بکلمتہم کلمۃ جیسے کہا جاتا ہے اکرم بزید رجلا بعض بصریوں کا یہی قول ہے ۔ مکہ کے بعض قاریوں نے اسے کلمتہ پڑھا جیسے ہے کہا جاتا ہے عظم قولک وکبر شانک جمہور کی قرأت پر تو معنی بالکل ظاہر ہیں کہ ان کے اس کلمے کی برائی اور اس کا نہایت ہی برا ہونا بیان ہو رہا ہے جو محض بےدلیل ہے صرف کذب و افترا ہے اسی لئے فرمایا کہ محض جھوٹ بکتے ہیں اس سورت کا شان نزول یہ بیان ہو گیا ہے کہ قریشیوں نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابو محیط کو مدینے کے یہودی علماء کے پاس بھیجا کہ تم جا کر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بابت کل حالات ان سے بیان کرو ان کے پاس اگلے انبیاء کا علم ہے ان سے پوچھو ان کی بابت کیا رائے ہے ؟ یہ دونوں مدینے گئے احبار مدینہ سے ملے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات و اوصاف بیان کئے آپ کی تعلیم کا ذکر کیا اور کہا کہ تم ذی علم ہو بتاؤ ان کی نسبت کیا خیال ہے ؟ انہوں نے کہا دیکھو ہم تمہیں ایک فیصلہ کن بات بتاتے ہیں تم جا کر ان سے تین سوالات کرو اگر جواب دے دیں تو ان کے سچے ہونے میں کچھ شک نہیں بیشک وہ اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور اگر جواب نہ دیں سکیں تو آپ کے جھوٹا ہونے میں بھی کوئی شک نہیں پھر جو تم چاہو کرو ۔ ان سے پوچھو اگلے زمانے میں جو نوجوان چلے گئے تھے ان کا واقعہ بیان کرو ۔ وہ ایک عجیب واقعہ ہے ۔ اور اس شخص کے حالات دریافت کرو جس نے تمام زمین کا گشت لگایا تھا مشرق مغرب ہو آیا تھا ۔ اور روح کی ماہیت دریافت کرو اگر بتا دے تو اسے نبی مان کر اس کی اتباع کرو اور اگر نہ بتا سکے تو وہ شخص جھوٹا ہے جو چاہو کرو ۔ یہ دونوں وہاں سے واپس آئے اور قریشیوں سے کہا لو بھئی آخری اور انتہائی فیصلے کی بات انہوں نے بتا دی ہے ۔ اب چلو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کریں چنانچہ یہ سب آپ کے پاس آئے اور تینوں سوالات کئے ۔ آپ نے فرمایا تم کل آؤ میں تمہیں جواب دوں لیکن انشاء اللہ کہنا بھول گئے پندرہ دن گزر گئے نہ آپ پر وحی آئی نہ اللہ کی طرف سے ان باتوں کا جواب معلوم کرایا گیا اہل مکہ جوش میں آ گئے اور کہنے لگے کہ لیجئے صاحب کل کا وعدہ تھا آج پندرھواں دن ہے لیکن وہ بتا نہیں سکے ادھر آپ کو دوہرا غم ستانے لگا قریشیوں کو جواب نہ ملنے پر ان کی باتیں سننے کا اور وحی کے بند ہو جانے کا پھر حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے سورہ کہف نازل ہوئی اسی میں انشاء اللہ نہ کہنے پر آپ کو ڈانٹا گیا ان نوجوانوں کا قصہ بیان کیا گیا اور اس سیاح کا ذکر کیا گیا اور آیت ( وَيَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ ۭ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَآ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا 85 ) 17- الإسراء:85 ) میں روح کی بابت جواب دیا گیا ۔
کہف کے معنی غار کے ہیں۔ اس میں اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس لئے اسے سورة کہف کہا جاتا ہے۔ اس کی ابتدائی دس آیات اور آخری دس آیات کی فضیلت حدیث میں بیان کی گئی ہے کہ جو ان کو یاد کرے اور پڑھے گا وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا (صحیح مسلم) اور اس کی تلاوت جمعہ کے دن کرے گا تو آئندہ جمعے تک اس کے لئے خاص نور کی روشنی رہے گی، اور اس کے پڑھنے سے گھر میں سکون و برکت نازل ہوتی ہے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے سورة کہف پڑھی گھر میں ایک جانور بھی تھا، وہ بدکنا شروع ہوگیا، انہوں نے غور سے دیکھا کہ کیا بات ہے ؟ تو انھیں ایک بادل نظر آیا، جس نے انھیں ڈھانپ رکھا تھا، صحابی نے اس واقعہ کا ذکر جب نبی سے کیا، تو آپ نے فرمایا، اسے پڑھا کرو۔ قرآن پڑھتے وقت سکینۃ نازل ہوتی ہے (صحیح بخاری) 1۔ 1 یا کوئی کجی اور راہ اعتدال سے انحراف اس میں نہیں رکھا بلکہ اسے قیم یعنی سیدھا رکھا۔ یا قیم کے معنی، بندوں کے دینی و دنیاوی مصالح کی رعایت و حفاظت کرنے والی کتاب۔
[ ١] سورة کہف کی فضیلت میں مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : - ١۔ براء بن عازب کہتے ہیں کہ ایک شخص رات کو گھر میں یہ سورت پڑھ رہا تھا اور گھوڑا بھی وہیں بندھا ہوا تھا گھوڑا بدکنے لگا۔ اس نے اوپر جو سر اٹھا کر دیکھا تو ایک نور دکھائی دیا جو بادل کی طرح سایہ کیے ہوئے تھا صبح اس نے یہ واقعہ رسول اللہ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا یہ سکینہ (نور اطمینان) ہے جو اس کے پڑھنے سے نازل ہوئی تھی۔ (ترمذی، ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی سورة کہف) اس واقعہ کو بخاری اور مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔- ٢۔ سیدنا ابو الدرداء کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو شخص اس سورة کی ابتدائی تین آیات پڑھتا رہے وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا (ترمذی، ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی سورة الکہف) اور مسلم میں اس طرح ہے کہ جو شخص سورة کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرے وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا۔ (مسلم بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب فضائل القرآن۔ پہلی فصل)- ٣۔ ابو سعید کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو شخص جمعہ کے دن سورة کہف پڑھے دو جمعوں کے درمیان اس کے لیے نور روشن ہوجاتا ہے۔ (بیہقی فی الدعوات الکبیر۔ بحوالہ مشکوۃ کتاب فضائل القرآن۔ تیسری فصل) - [ ١۔ الف ] یعنی اللہ تعالیٰ کے مستحق حمد و ثنا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے ایسی کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے مطالب صاف صاف بیان کرتی ہے نہ اس کے مطالب میں کوئی پیچ و خم ہے اور نہ اس کے انداز بیان میں کوئی پیچیدگی یا الجھاؤ ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ ۔۔ : یہ سورت ان پانچ سورتوں میں شامل ہے جن کی ابتدا ” اَلْحَمْدُ “ کے ساتھ ہوئی ہے، دوسری چار سورتیں فاتحہ، انعام، سبا اور فاطر ہیں۔ پچھلی سورت کا خاتمہ بھی ” اَلْحَمْدُ “ کے ساتھ ہوا ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہر کام کی ابتدا اور انتہا اللہ کے پاکیزہ نام کے ساتھ یا اس کی حمد کے ساتھ کرنی چاہیے۔ ان تمام سورتوں میں سے ہر سورت کا طریقہ اگرچہ مختلف ہے مگر مقصود لوگوں کو اس بات کا یقین دلانا ہے کہ حمد کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے، اور کوئی نہیں، کیونکہ کسی میں کوئی خوبی ہے تو اللہ تعالیٰ ہی کی عطا کردہ ہے۔ - الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ : سورة فاتحہ میں اللہ تعالیٰ کے تمام حمد کا مالک ہونے کی دلیل کے لیے چار صفات بیان ہوئی ہیں، یہاں اللہ تعالیٰ کے تمام حمد اور خوبیوں کا مالک ہونے کی ایک ہی دلیل بیان کی گئی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر ” اَلْکِتٰب “ نازل فرمانا ہے۔ کیونکہ دوسرے تمام انعامات اگرچہ ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں مگر یہ نعمت سب سے اہم ہے، کیونکہ اس پر ہمیشہ کی زندگی یعنی اخروی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار ہے۔ - عَلٰي عَبْدِهِ : ” اپنے بندے پر، اپنے غلام پر “ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا خاص عبد قرار دینے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بےانتہا شان بیان ہوئی ہے، اگرچہ زمین و آسمان میں رہنے والی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی غلام ہے، مگر ” اپنا غلام “ کہنے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو عزت ملی وہ بہت کم لوگوں کو ملی ہے، جیسا کہ (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ ) [ بنی إسرائیل : ١ ] میں ہے اور اس کتاب کی بھی تعریف ہے جو نازل کی گئی۔ ” اَلْکِتٰبُ “ میں الف لام عہد کا ہے، یعنی یہ کتاب، مراد قرآن کریم ہے، کیونکہ جب صرف ” اَلْکِتٰب “ کہا جائے تو قرآن کریم ہی مراد ہوتا ہے، اس لیے کہ اس کے سوا کسی اور میں یہ کمال ہی نہیں کہ اسے ” اَلْکِتٰب “ کہا جاسکے۔- وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا : ” عِوَجًا “ کجی، ٹیڑھا پن۔ ” عِوجاً “ پر تنوین عموم کے لیے ہے جو نفی کے بعد آکر مزید عام ہوگیا ہے، یعنی اس کتاب میں کسی بھی قسم کا کوئی ٹیڑھا پن نہیں، نہ الفاظ میں، نہ معانی میں، نہ فصاحت و بلاغت میں، نہ یہ کہ اس کی آیات کا آپس میں کوئی اختلاف ہو، یا اس کی کوئی خبر غلط نکلے، یا کوئی حکم حکمت سے خالی ہو۔ دیکھیے زمر (٢٨) ، بنی اسرائیل (٩ تا ١٠) اور نساء (٨٢) ۔
سورة کہف کی خصوصیات اور فضائل :- مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، مسند احمد میں حضرت ابو الدردا (رض) سے ایک روایت ہے کہ جس شخص نے سورة کہف کی پہلی دس آیتیں حفظ کرلیں وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا، اور کتب مذکورہ میں حضرت ابوالدردا (رض) ہی سے ایک دوسری روایت میں یہی مضمون سورة کہف کی آخری دس آیتیں یاد کرنے کے متعلق منقول ہے اور مسند احمد میں بروایت حضرت سہل بن معاذ (رض) یہ منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص سورة کہف کی پہلی اور آخری آیتیں پڑھ لے تو اس کے لئے اس کے قدم سے سر تک ایک نور ہوجاتا ہے اور جو پوری سورت پڑھ لے جو اس کے لئے زمین سے آسمان تک نور ہوجاتا ہے۔- اور حافظ ضیاء مقدسی نے اپنی کتاب مختارہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن سورة کہف پڑھ لے وہ آٹھ روز تک ہر فتنہ سے معصوم رہے گا، اور اگر دجال نکل آئے تو یہ اس کے فتنہ سے بھی معصوم رہے گا۔ یہ سب روایات تفسیر ابن کثیر سے لی گئی ہیں - روح المعانی میں دیلمی سے بروایت حضرت انس (رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سورة کہف پوری کی پوری ایک وقت میں نازل ہوئی، اور ستر ہزار فرشتے اس کے ساتھ آئے، جس سے اس کی عظمت شان ظاہر ہوتی ہے۔- شان نزول :- امام ابن جریر طبری نے بروایت حضرت ابن عباس (رض) نقل کیا ہے کہ ( مکہ مکرمہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا چرچا ہوا اور قریش مکہ اس سے پریشان ہوئے تو) انہوں نے اپنے دو آدمی نضر بن حارث اور عقبہ ابن ابی معیط کو مدینہ طیبہ کے علماء یہود کے پاس بھیجا کہ وہ لوگ کتب سابقہ تورات و انجیل کے عالم ہیں وہ آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ علماء یہود نے ان کو بتلایا کہ تم لوگ ان سے تین سوالات کرو، اگر انہوں نے ان کا جواب صحیح دے دیاتو سمجھ لو کہ وہ اللہ کے نبی ہیں، اور یہ نہ کرسکے تو یہ سمجھ لو کہ یہ بات بنانے والے ہیں رسول نہیں۔ ایک تو ان سے ان نوجوانوں کا حال دریافت کرو جو قدیم زمانے میں اپنے شہر سے نکل گئے تھے ان کا کیا واقعہ ہے، کیونکہ یہ واقعہ عجیبہ ہے، دوسرے ان سے اس شخص کا حال پوچھو جس نے دنیا کی مشرق و مغرب اور تمام زمین کا سفر کیا اس کا کیا واقعہ ہے، تیسرے ان سے روح کے متعلق سوال کرو کہ وہ کیا چیز ہے ؟- یہ دونوں قریشی مکہ مکرمہ واپس آئے اور اپنی برادری کے لوگوں سے کہا کہ ہم ایک فیصلہ کن صورت حال لے کر آئے ہیں، علماء یہود کا پورا قصہ سنا دیا، پھر یہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں یہ سوالات لے کر حاضر ہوئے، آپ نے سن کر فرمایا کہ میں اس کا جواب کل دوں گا، مگر آپ اس وقت انشاء اللہ کہنا بھول گئے یہ لوگ لوٹ گئے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وحی الہی کے انتطار میں رہے کہ ان سوالات کا جواب وحی سے بتلا دیا جائے گا، مگر وعدے کے مطابق اگلے دن تک کوئی وحی نہ آئی، بلکہ پندرہ دن اسی حال پر گذر گئے کہ نہ جبرائیل امین آئے نہ کوئی وحی نازل ہوئی، قریش مکہ نے مذاق اڑانا شروع کیا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے سخت رنج و غم پہونچا۔- پندرہ دن کے بعد جبرائیل امین سورة کہف لے کر نازل ہوئے (جس میں تاخیر وحی کا سبب بھی بیان کردیا گیا ہے کہ آئندہ زمانے میں کسی کام کے کرنے کا وعدہ کیا جائے تو انشاء اللہ کہنا چاہیے، اس واقعہ میں چونکہ ایسا نہ ہوا اس پر تنبیہ کرنے کے لئے وحی میں تاخیر ہوئی، اس سورة میں اس معاملہ کے متعلق یہ آیتیں آگے آئیں گی (آیت) (وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ ) اور اس سورة میں نوجوانوں کا واقعہ بھی پورا بتلا دیا گیا، جن کو اصحاب کہف کہا جاتا ہے، اور مشرق و مغرب کے سفر کرنے والے ذوالقرنین کے واقعہ کا بھی مفصل بیان آ گیا، اور روح کے سوال کا جواب بھی، (قرطبی و مظہری بحوالہ ابن جریر) (مگر روح کے سوال کا جواب اجمال کے ساتھ دینا مقتضائے حکمت تھا، اس کو سورة بنی اسرائیل کے آخر میں علیحدہ کر کے بیان کردیا گیا، اور اسی سبب سے سورة کہف کو سورة بنی اسرائیل کے بعد رکھا گیا ہے، کذا اذکرہ السیوطی) ۔- خلاصہ تفسیر :- تمام خوبیاں اس اللہ کے لئے ثابت ہیں جس نے اپنے (خاص) بندے (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ کتاب نازل فرمائی، اور اس (کتاب) میں (کسی قسم کی) ذرا بھی کجی نہیں رکھی (نہ لفظی کہ فصاحت و بلاغت کے خلاف ہو، اور نہ معنوی کہ اس کا کوئی حکم حکمت کے خلاف ہو بلکہ اس کو) بالکل استقامت کے سانھ موصوف بنایا ( اور نازل اس لئے کیا کہ) تاکہ وہ ( کتاب کافروں کو عموما) ایک سخت عذاب سے جو من جانب اللہ (ان کو آخرت میں ہوگا) ڈرائے اور اہل ایمان کو جو نیک کام کرتے ہیں یہ خوشخبری دے کہ ان کو (آخرت میں) اچھا اجر ملے گا جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور تاکہ (کفار میں سے بالخصوص) ان لوگوں کو (عذاب سے) ڈرائے جو یوں کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ اولاد رکھتا ہے (اور اولاد کا عقیدہ رکھنے والے کافروں کا عام کافروں سے الگ کر کے اس لئے بیان کیا گیا کہ اس باطل عقیدہ میں عرب کے عام لوگ مشرکین، یہود، نصاری سب ہی مبتلا تھے) نہ تو اس کی کوئی دلیل ان کے پاس ہے، اور نہ ان کے باپ دادوں کے پاس تھی، بڑی بھاری بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے، (اور) وہ لوگ بالکل (ہی) جھوٹ بکتے ہیں (جو عقلا بھی ناممکن ہے، کوئی ادنی عقل والا بھی اس کا قائل نہیں ہو سکتا، اور آپ جو ان لوگوں کے کفر و انکار پر اتنا غم کرتے ہیں کہ) سو شاید آپ ان کے پیچھے اگر یہ لوگ اس مضمون (قرآنی) پر ایمان نہ لائے تو غم سے اپنی جان دیدیں گے (یعنی اتنا غم نہ کیجئے کہ ہلاکت کے قریب کر دے، وجہ یہ ہے کہ دنیا عالم امتحان ہے، اس میں ایمان و کفر اور خیر وشر دونوں کا مجموعہ ہی رہے گا، سبھی مومن ہوجائیں گے ایسا نہ ہوگا، اسی امتحان کے لئے) ہم نے زمین پر کئی چیزوں کو اس (زمین) کے لئے باعث رونق بنایا، تاکہ ہم (اس کے ذریعہ) لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں سے زیادہ اچھا عمل کون کرتا ہے (یہ امتحان کرنا ہے کہ کون اس دنیا کی زنیت اور رونق پر مفتون ہو کر اللہ سے آخرت سے غافل ہوجاتا ہے اور کون نہیں، غرض یہ کہ یہ عالم ابتلا ہے، اور ان کے کفر کا نتیجہ دنیا ہی میں ظاہر ہوجانے کا انتظار نہ کیجئے کیونکہ وہ ہمارا کام ہے، ایک مقررہ وقت پر ہوگا، چناچہ ایک روز وہ آئے گا کہ) ہم زمین کی تمام چیزوں کو ایک صاف میدان کردیں گے ( نہ اس پر کوئی بسنے والا رہے گا نہ کوئی درخت اور پہاڑ اور نہ کوئی مکان و تعمیر، خلاصہ یہ ہے کہ آپ اپنا کام تبلیغ کا کرتے رہئے، منکرین کے انجام بد کا اتنا غم نہ کیجئے) ۔- معارف و مسائل :- (آیت) وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًاقَـيِّمًا لفظ عوج کے معنی کسی قسم کی کجی اور ایک طرف جھکاؤ کے ہیں قرآن کریم اپنے لفظی اور معنوی کلام میں اس سے پاک ہے، نہ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے کسی جگہ ذرہ برابر کمی یا کجی ہو سکتی ہے نہ علم و حکمت کے لحاظ سے، جو مفہوم لفظ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا سے ایک منفی صورت میں بتلایا گیا ہے، پھر تاکید کے لئے اسی مضمون کو مثبت طور پر لفظ قیما سے واضح کردیا ہے، کیونکہ قیما کے معنے ہیں مستقیما اور مستقیم وہی ہے جس میں کوئی ادنی کجی اور میلان کسی جانب نہ ہو، اور یہاں قیم کے ایک دوسرے معنی بھی ہو سکتے ہیں، یعنی نگران اور محافظ، اس معنی کے لحاظ سے اس لفظ کا مفہوم یہ ہوگا کہ قرآن کریم جیسا اپنی ذات میں کامل مکمل ہر قسم کی کجی اور افراط وتفریط سے پاک ہے، اسی طرح یہ دوسروں کو بھی استقامت پر رکھنے والا اور بندوں کی تمام مصالح کی حفاظت کرنے والا ہے، اب خلاصہ ان دونوں کا یہ ہوجائے گا کہ قرآن کریم خود بھی کامل و مکمل ہے اور مخلوق خدا کو بھی کامل و مکمل بنانے والا ہے (مظہری)
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا - حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - عوج - الْعَوْجُ : العطف عن حال الانتصاب، يقال :- عُجْتُ البعیر بزمامه، وفلان ما يَعُوجُ عن شيء يهمّ به، أي : ما يرجع، والعَوَجُ يقال فيما يدرک بالبصر سهلا کالخشب المنتصب ونحوه . والعِوَجُ يقال فيما يدرک بالفکر والبصیرة كما يكون في أرض بسیط يعرف تفاوته بالبصیرة والدّين والمعاش، قال تعالی: قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ،- ( ع و ج ) العوج - ( ن ) کے معنی کسی چیز کے سیدھا کپڑا ہونے کی حالت سے ایک طرف جھک جانا کے ہیں ۔ جیسے عجت البعیر بزمامہ میں نے اونٹ کو اس کی مہار کے ذریعہ ایک طرف مور دیا فلاں مایعوج عن شئی یھم بہ یعنی فلاں اپنے ارادے سے بار نہیں آتا ۔ العوج اس ٹیڑے پن کر کہتے ہیں جو آنکھ سے بسہولت دیکھا جا سکے جیسے کھڑی چیز میں ہوتا ہے مثلا لکڑی وغیرہ اور العوج اس ٹیڑے پن کو کہتے ہیں جو صرف عقل وبصیرت سے دیکھا جا سکے جیسے صاف میدان کو ناہمواری کو غور فکر کے بغیر اس کا ادراک نہیں ہوسکتا یامعاشرہ میں دینی اور معاشی نا ہمواریاں کہ عقل وبصیرت سے ہی ان کا ادراک ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28]( یہ ) قرآن عربی رہے ) جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ہے :
(١) تمام خوبیاں اور شکر والوہیت اس اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہیں جس نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بذریعہ جبریل امین قرآن کریم نازل فرمایا توحید اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نعت وصفت کے بیان میں توریت وانجیل اور تمام آسمانی کتب کے بیان سے اس قرآن کریم میں کوئی مخالفت نہیں کی، یہ آیت مبارکہ یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ انہوں نے کہا تھا کہ قرآن کریم تمام تمام آسمانی کتب کے مخالف ہے تمام کتابوں پر اس کو غالب بنایا۔
آیت ١ (اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ )- رسول اللہ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق اور نسبت ہے اسے یہاں لفظ ” عبد “ سے نمایاں فرمایا گیا ہے۔
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :1 یعنی اس میں کوئی اینچ پینچ کی بات ہے جو سمجھ میں نہ آ سکے ، اور نہ کوئی بات حق و صداقت کے خط مستقیم سے ہٹی ہوئی ہے جسے ماننے میں کسی راستی پسند انسان کو تأمل ہو ۔