جہنم کو دیکھ کر ۔ کافر جہنم میں جانے سے پہلے جہنم کو اور اس کے عذاب کو دیکھ لیں گے اور یہ یقین کر کے کہ وہ اسی میں داخل ہونے والے ہیں داخل ہونے سے پہلے ہی جلنے کڑھنے لگیں گے غم ورنج ڈر خوف کے مارے گھلنے لگیں گے ۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ جہنم کو قیامت کے دن گھسیٹ کر لایا جائے گا جس کی ستر ہزار لگامیں ہونگی ہر ایک لگام پر ستر ستر ہزار فرشتے ہوں گے ۔ یہ کافر دنیا کی ساری زندگی میں اپنی آنکھوں اور کانوں کے بیکار کئے بیٹھے رہے ، نہ حق دیکھا ، نہ حق سنا نہ مانا نہ عمل کیا ۔ شیطان کا ساتھ دیا اور رحمان کے ذکر سے غفلت برتی ۔ اللہ کے احکام اور ممانعت کو پس پشت ڈالے رہے ۔ یہی سمجھتے رہے کہ ان کے جھوٹے معبود ہی انہیں سارے نفع پہنچائیں گے اور کل سختیاں دور کریں گے ۔ محض غلظ خیال ہے بلکہ وہ تو ان کی عبادت کے بھی منکر ہو جائیں گے اور ان کے دشمن بن کر کھڑے ہوں گے ۔ ان کافروں کی منزل تو جہنم ہی ہے جو ابھی سے تیار ہے ۔
ۙوَّعَرَضْنَا جَهَنَّمَ ۔۔ : یہ پیش کرنا بھی عذاب سے پہلے عذاب ہوگا۔ دیکھیے اسی سورت کی آیت (٥٣) کی تفسیر۔
وَّعَرَضْنَا جَہَنَّمَ يَوْمَىِٕذٍ لِّلْكٰفِرِيْنَ عَرْضَۨا ١٠٠ۙ- عرض - أَعْرَضَ الشیءُ : بدا عُرْضُهُ ، وعَرَضْتُ العودَ علی الإناء، واعْتَرَضَ الشیءُ في حلقه : وقف فيه بِالْعَرْضِ ، واعْتَرَضَ الفرسُ في مشيه، وفيه عُرْضِيَّةٌ. أي : اعْتِرَاضٌ في مشيه من الصّعوبة، وعَرَضْتُ الشیءَ علی البیع، وعلی فلان، ولفلان نحو : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] ،- ( ع ر ض ) العرض - اعرض الشئی اس کی ایک جانب ظاہر ہوگئی عرضت العود علی الاناء برتن پر لکڑی کو چوڑی جانب سے رکھا ۔ عرضت الشئی علی فلان اولفلان میں نے فلاں کے سامنے وہ چیزیں پیش کی ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔ - جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ- معرّب جهنام «1» ، وقال أبو مسلم : كهنّام «2» ، والله أعلم .- ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔
(١٠٠۔ ١٠١) اور قیامت کے دن دوزخ کو کافروں کے سامنے ان کے داخل کرنے سے پہلے پیش کردیں گے جو ہماری توحید اور ہماری کتاب قرآن سے اندھے تھے اور وہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی کی وجہ سے قرآن کریم سن بھی نہیں سکتے تھے۔
آیت ١٠٠ (وَّعَرَضْنَا جَهَنَّمَ يَوْمَىِٕذٍ لِّلْكٰفِرِيْنَ عَرْضَۨا)- کہ دیکھ لو اپنی آنکھوں سے اسے ہم نے تمہارے انجام کے لیے تیار کر رکھا ہے۔