[٨٢] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جب دیوار ذوالقرنین پیوند خاک ہوجائے گی تو یاجوج ماجوج سمندر کی موجوں کی طرح بیشمار تعداد میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے نکلیں گے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن نفخہ صور ثانی ہوگا تو لوگ اپنی قبروں سے اٹھ کر موجوں کی طرح ایک دوسرے میں گھس جائیں گے اس کے بعد سب اللہ کے سامنے میدان حشر میں اکٹھے کیے جائیں گے۔
وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ يَّمُوْجُ فِيْ بَعْضٍ : اس دن سے مراد یہ ہے کہ ذوالقرنین کی بنائی ہوئی دیوار کے مسمار ہونے کے وقت یاجوج ماجوج سمندر کی موجوں کی طرح بےحساب تعداد میں یلغار کرتے ہوئے نکلیں گے۔ اسی کیفیت کو ( وَهُمْ مِّنْ كُلِّ حَدَبٍ يَّنْسِلُوْنَ ) [ الأنبیاء : ٩٦ ] میں بیان کیا گیا ہے۔ - وَّنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَـجَـمَعْنٰهُمْ جَمْعًا :” الصُّوْرِ “ سے مراد وہ سینگ ہے جس میں فرشتہ پھونک مارے گا تو حشر برپا ہوجائے گا۔ یہ تفسیر خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے، چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلصُّوْرُ قَرْنٌ یُنْفَخُ فِیْہِ ) [ أبوداوٗد، السنۃ، باب في ذکر البعث والصور : ٤٧٤٢۔ الصحیحۃ : ١٠٨٠ ] ” صور وہ قرن ہے جس میں پھونکا جائے گا۔ “ اس آیت میں مذکور نفخہ سے مراد دوسرا نفخہ ہے جس سے سب لوگ قبروں سے نکل کر میدان حشر میں جمع ہوجائیں گے۔
خلاصہ تفسیر :- اور ہم اس روز (یعنی جب اس دیوار کے انہدام کا یوم موعود آئے گا اور یاجوج و ماجوج کا خروج ہوگا تو اس روز ہم) ان کی یہ حالت کریں گے کہ ایک میں ایک گڈ مڈ ہوجائیں گے۔ کیونکہ یہ کثرت سے ہوں گے اور بیک وقت نکل پڑیں گے اور سب ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں ہوں گے) اور (یہ قیامت کے قریب زمانہ میں ہوگا پھر بعد چندے قیامت کا سامان شروع ہوگا ایک بار اول صور پھونکا جائے گا جس سے تمام عالم فنا ہوجائے گا پھر) صور (دوبارہ) پھونکا جائے گا (جس سے سب زندہ ہوجائیں گے) پھر ہم سب کو ایک ایک کرکے (میدان حشر میں) جمع کرلیں گے اور دوزخ کو اس روز کافروں کے سامنے پیش کردیں گے جن کی آنکھوں پر (دنیا میں) ہماری یاد سے (یعنی دین حق کے دیکھنے سے) پردہ پڑا ہوا تھا اور (جس طرح یہ حق کو دیکھتے نہ تھے اسی طرح اس کو) وہ سن بھی نہ سکتے تھے (یعنی حق کو معلوم کرنے کے ذرائع دیکھنے اور سننے کے سب راستے بند کر رکھے تھے)- معارف و مسائل :- (آیت) بَعْضَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ يَّمُوْجُ فِيْ بَعْضٍ کی ضمیر میں ظاہر یہی ہے کہ یاجوج وماجوج کی طرف راجع ہے اور ان کا جو حال اس میں بیان ہوا ہے کہ ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوجائیں گے ظاہر یہ ہے کہ یہ اس وقت کا حال ہے جب کہ ان کا راستہ کھلے گا اور وہ زمین پر پہاڑیوں کی بلندیوں سے جلد بازی کے ساتھ اتریں گے مفسرین نے دوسرے احتمالات بھی لکھے ہیں۔- وَجَـمَعْنٰهُمْ ضمیر عام مخلوق جن و انس کی طرف راجع ہے مراد یہ ہے کہ میدان حشر میں تمام مکلف مخلوق جن و انس کو جمع کردیا جائے گا۔
وَتَرَكْنَا بَعْضَہُمْ يَوْمَىِٕذٍ يَّمُوْجُ فِيْ بَعْضٍ وَّنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَـجَـمَعْنٰہُمْ جَمْعًا ٩٩ۙ- ترك - تَرْكُ الشیء : رفضه قصدا واختیارا، أو قهرا واضطرارا، فمن الأول : وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] ، وقوله :- وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] ، ومن الثاني : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] - ( ت ر ک) ترک - الشیئء کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا کے ہیں خواہ وہ چھوڑنا ارادہ اختیار سے ہو اور خواہ مجبورا چناچہ ارادۃ اور اختیار کے ساتھ چھوڑنے کے متعلق فرمایا : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس روز ہم ان کو چھوڑ دیں گے کہ ور وئے زمین پر پھل کر ( ایک دوسری میں گھسن جائیں وَاتْرُكِ الْبَحْرَ رَهْواً [ الدخان 24] اور دریا سے ( کہ ) خشک ( ہورہا ہوگا ) پاور ہوجاؤ ۔ اور بحالت مجبوری چھوڑ نے کے متعلق فرمایا : كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنَّاتٍ [ الدخان 25] وہ لوگ بہت سے جب باغ چھوڑ گئے ۔- بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - موج - المَوْج في البحر : ما يعلو من غوارب الماء . قال تعالی: فِي مَوْجٍ كَالْجِبالِ [هود 42] ، يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ [ النور 40] ومَاجَ كذا يَمُوجُ ، وتَمَوَّجَ تَمَوُّجاً : اضطرب اضطرابَ الموج . قال تعالی: وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99]- ( م و ج ) الموج - سمندر سے پانی کی جو لہر مغرب کی طرف سے اٹھتی ہے اسے موج کہا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛ ۔ فِي مَوْجٍ كَالْجِبالِ [هود 42] مہروں میں چلنے لگی ( لہریں کیا تھیں گویا پہاڑ ( تھے) يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ [ النور 40] جس پر چلی آتی ہو اور اس کے اوپر اور لہر آرہی ہے ماج کذا یموج وتموج تموجا موج کی طرح سضطرب ہونا۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَتَرَكْنا بَعْضَهُمْ يَوْمَئِذٍ يَمُوجُ فِي بَعْضٍ [ الكهف 99] اس ( روز ) ہم ان کو چھوڑ دیں گے ۔ کہ روئے زمین پر پھیل کر ) ایک دوسرے میں گھس جائیں ۔- نفخ - النَّفْخُ : نَفْخُ الرِّيحِ في الشیءِّ. قال تعالی: يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] ، ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] ، وذلک نحو قوله : فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] ومنه نَفْخُ الرُّوح في النَّشْأَة الأُولی، قال : وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي - [ الحجر 29]- ( ن ف خ ) النفخ - کے معنی کسی چیز میں پھونکنے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ طه 102] ، اور جس دن صور پھونکا جائیگا ۔ وَنُفِخَ فِي الصُّورِ [ الكهف 99] اور جس وقت ) صؤر پھونکا جائے گا ۔ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرى[ الزمر 68] پھر دوسری دفعہ پھونکا جائے گا ۔ اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ۔ فَإِذا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ [ المدثر 8] جب صور پھونکا جائے گا ۔ اور اسی سے نفخ الروح ہے جس کے معنی اس دنیا میں کسی کے اندر روح پھونکنے کے ہیں چناچہ آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي[ الحجر 29] اور اس میں اپنی بےبہا چیز یعنی روح پھونک دوں ۔- صور - الصُّورَةُ : ما ينتقش به الأعيان، ويتميّز بها غيرها، وذلک ضربان : أحدهما محسوس يدركه الخاصّة والعامّة، بل يدركه الإنسان وكثير من الحیوان، كَصُورَةِ الإنسانِ والفرس، والحمار بالمعاینة، والثاني : معقول يدركه الخاصّة دون العامّة، کالصُّورَةِ التي اختصّ الإنسان بها من العقل، والرّويّة، والمعاني التي خصّ بها شيء بشیء، وإلى الصُّورَتَيْنِ أشار بقوله تعالی: ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف 11] ، وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر 64] ، وقال : فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار 8] ، يُصَوِّرُكُمْ فِي الْأَرْحامِ [ آل عمران 6] ، وقال عليه السلام : «إنّ اللہ خلق آدم علی صُورَتِهِ» «4» فَالصُّورَةُ أراد بها ما خصّ الإنسان بها من الهيئة المدرکة بالبصر والبصیرة، وبها فضّله علی كثير من خلقه، وإضافته إلى اللہ سبحانه علی سبیل الملک، لا علی سبیل البعضيّة والتّشبيه، تعالیٰ عن ذلك، وذلک علی سبیل التشریف له کقوله : بيت الله، وناقة الله، ونحو ذلك . قال تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل 87] ، فقد قيل : هو مثل قرن ينفخ فيه، فيجعل اللہ سبحانه ذلک سببا لعود الصُّوَرِ والأرواح إلى أجسامها، وروي في الخبر «أنّ الصُّوَرَ فيه صُورَةُ الناس کلّهم» «1» ، وقوله تعالی:- فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» أي : أَمِلْهُنَّ من الصَّوْرِ ، أي : المیل، وقیل : قَطِّعْهُنَّ صُورَةً صورة، وقرئ : صرهن «3» وقیل : ذلک لغتان، يقال : صِرْتُهُ وصُرْتُهُ «4» ، وقال بعضهم : صُرْهُنَّ ، أي : صِحْ بِهِنَّ ، وذکر الخلیل أنه يقال : عصفور صَوَّارٌ «5» ، وهو المجیب إذا دعي، وذکر أبو بکر النّقاش «6» أنه قرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) «7» بضمّ الصّاد وتشدید الرّاء وفتحها من الصَّرِّ ، أي : الشّدّ ، وقرئ : ( فَصُرَّهُنَّ ) «8» من الصَّرِيرِ ، أي : الصّوت، ومعناه : صِحْ بهنّ. والصَّوَارُ : القطیع من الغنم اعتبارا بالقطع، نحو : الصّرمة والقطیع، والفرقة، وسائر الجماعة المعتبر فيها معنی القطع .- ( ص و ر ) الصورۃ - : کسی عین یعنی مادی چیز کے ظاہر ی نشان اور خدوخال جس سے اسے پہچانا جاسکے اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے یہ دو قسم پر ہیں ( 1) محسوس جن کا ہر خاص وعام ادراک کرسکتا ہو ۔ بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی اس کا ادراک کرلیتے ہیں جیسے انسان فرس حمار وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہیں ( 2 ) صؤرۃ عقلیہ جس کا ادارک خاص خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں اور عوام کے فہم سے وہ بالا تر ہوں جیسے انسانی عقل وفکر کی شکل و صورت یا وہ معانی یعنی خاصے جو ایک چیز میں دوسری سے الگ پائے جاتے ہیں چناچہ صورت کے ان پر ہر دو معانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ۔ ثُمَّ صَوَّرْناكُمْ [ الأعراف 11] پھر تمہاری شکل و صورت بنائی : وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ [ غافر 64] اور اس نے تمہاری صورتیں بنائیں اور صؤرتیں بھی نہایت حسین بنائیں ۔ فِي أَيِّ صُورَةٍ ما شاء رَكَّبَكَ [ الانفطار 8] اور جس صورت میں چاہا تجھے جو ڑدیا ۔ جو ماں کے پیٹ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری صورتیں بناتا ہے ۔ اور حدیث ان اللہ خلق ادم علیٰ صؤرتہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اس کی خصوصی صورت پر تخلیق کیا ۔ میں صورت سے انسان کی وہ شکل اور ہیت مراد ہے جس کا بصرہ اور بصیرت دونوں سے ادارک ہوسکتا ہے اور جس کے ذریعہ انسان کو بہت سی مخلوق پر فضیلت حاصل ہے اور صورتہ میں اگر ہ ضمیر کا مرجع ذات باری تعالیٰ ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ صورت کی اضافت تشبیہ یا تبعیض کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ اضافت ملک یعنی ملحاض شرف کے ہے یعنی اس سے انسان کے شرف کو ظاہر کرنا مقصود ہے جیسا کہ بیت اللہ یا ناقۃ اللہ میں اضافت ہے جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] میں روح کی اضافت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے اور آیت کریمہ وَيَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ [ النمل 87] جس روز صور پھونکا جائیگا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ صؤر سے قرآن یعنی نر سنگھے کی طرح کی کوئی چیز مراد ہے جس میں پھونکا جائیگا ۔ تو اس سے انسانی صورتیں اور روحیں ان کے اجسام کی طرف لوٹ آئیں گی ۔ ایک روایت میں ہے ۔ ان الصورفیہ صورۃ الناس کلھم) کہ صور کے اندر تمام لوگوں کی صورتیں موجود ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَ«2» میں صرھن کے معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنی طرف مائل کرلو اور ہلالو اور یہ صور سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی پارہ پارہ کرنے کے ہیں ایک قرات میں صرھن ہے بعض کے نزدیک صرتہ وصرتہ دونوں ہم معنی ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ صرھن کے معنی ہیں انہیں چلا کر بلاؤ چناچہ خلیل نے کہا ہے کہ عصفور صؤار اس چڑیا کو کہتے ہیں جو بلانے والے کی آواز پر آجائے ابوبکر نقاش نے کہا ہے کہ اس میں ایک قرات فصرھن ضاد کے ضمہ اور مفتوحہ کے ساتھ بھی ہے یہ صر سے مشتق ہے اور معنی باندھنے کے ہیں اور ایک قرات میں فصرھن ہے جو صریربمعنی آواز سے مشتق ہے اور معنی یہ ہیں کہ انہیں بلند آواز دے کر بلاؤ اور قطع کرنے کی مناسبت سے بھیڑبکریوں کے گلہ کو صوار کہاجاتا ہے جیسا کہ صرمۃ قطیع اور فرقۃ وغیرہ الفاظ ہیں کہ قطع یعنی کاٹنے کے معنی کے اعتبار سے ان کا اطلاق جماعت پر ہوتا ہے ۔
(٩٩) اور ان کے نکلنے کے دن یا روم سے واپسی کے دن جب کہ یاجوج ماجوج اس سے نہیں نکل سکیں گے ہم ان کی یہ حالت کردیں گے کہ ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہوجائیں گے اور صور پھونکے جانے کے بعد ہم سب کو جمع کرلیں گے۔
آیت ٩٩ (وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَىِٕذٍ يَّمُوْجُ فِيْ بَعْضٍ )- یہ قیامت سے پہلے رونما ہونے والے جنگی واقعات کی طرف اشارہ ہے۔ قرب قیامت کے واقعات میں سے ایک اہم واقعہ یاجوج و ماجوج کا ظہور بھی ہے۔ احادیث میں ان کے بارے میں ایسی خبریں ہیں کہ وہ دریاؤں اور سمندروں کا پانی پی جائیں گے اور ہرچیز کو ہڑپ کر جائیں گے۔ عین ممکن ہے وہ آدم خور بھی ہوں اور ضرورت پڑنے پر انسانوں کو بھی کھا جائیں۔ جیسے آج ہم چینی قوم کو دیکھتے ہیں کہ وہ سانپ بچھو کتا بلی ہرچیز کو ہڑپ کر جاتے ہیں۔ کثرت آبادی کے لحاظ سے بھی یاجوج و ماجوج کی بیشتر علامات کا تطابق چینی قوم پر ہوتا نظر آتا ہے۔- یاجوج و ماجوج کی یلغار کا نقشہ سورة الانبیاء میں اس طرح کھینچا گیا ہے : (وَہُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ ) ” اور وہ ہر پہاڑ کی ڈھلوان سے اترتے ہوئے نظر آئیں گے “۔ ١٩٦٢ ء میں چین بھارت جنگ کے دوران اخباروں نے چینی افواج کے حملوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے بھی کچھ ایسی ہی تصویر کشی کی تھی : - " . " بہرحال جس طرح یاجوج و ماجوج آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے اپنے ملحقہ علاقوں کی مہذب آبادیوں کو تاخت و تاراج کرتے تھے ‘ اسی طرح قیامت سے پہلے ایک دفعہ پھر وہ دنیا میں تباہی مچائیں گے اور ان کا ظہور اپنی نوعیت کا ایک بہت اہم واقعہ ہوگا۔
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :73 یعنی قیامت کے روز ۔ ذو القرنین نے جو اشارہ قیامت کے وعدۂ بر حق کی طرف کیا تھا اسی کی مناسبت سے یہ فقرے اس کے قول پر اضافہ کرتے ہوئے ارشاد فرمائے جا رہے ہیں ۔
51: اس سے مراد یاجوج ماجوج کا وہ ریلا بھی ہوسکتا ہے جو قیامت کے قریب نکلے گا اور مطلب یہ ہے کہ جب وہ قیامت کے قریب نکلیں گے تو ایک غیر منظم بھیڑ کی شکل میں نکلیں گے اور موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرارہے ہوں گے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ قیامت کے وقت عام لوگوں کی بد حواسی کا بیان ہو کہ قیامت کے ہولناک مناظر دیکھ کر لوگ بدحواسی میں ایک دوسرے سے ٹکرارہے ہوں گے۔