108۔ 1 یعنی اہل جنت، جنت اور اس کی نعمتوں سے کبھی نہ اکتائیں گے کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور جگہ منتقل ہونے کی خواہش ظاہر کریں۔
[٨٨] یعنی رہائش کے لحاظ سے جنت الفردوس اتنی پسند آئے گی کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور جگہ منتقل ہونا قطعاً گوارا نہ کریں گے۔
لَا يَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا : ایک جگہ زیادہ دیر رہنے سے آدمی اکتا جاتا ہے، مگر جنتی جنت سے کبھی دوسری جگہ منتقل ہونا نہیں چاہیں گے، کیونکہ اس سے بہتر عیش کی کوئی جگہ نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْٓ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَۭ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِيْمٍ ) [ حٰآ السجدۃ : ٣١، ٣٢ ] ” اور تمہارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تمہارے دل چاہیں گے اور تمہارے لیے اس میں وہ کچھ ہے جو تم مانگو گے۔ یہ بیحد بخشنے والے، نہایت مہربان کی طرف سے مہمانی ہے۔ “ اور حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيْ الصَّالِحِیْنَ مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ ، وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ ) [ بخاری، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ۔۔ : ٣٢٤٤۔ مسلم : ٢٨٢٤ ] ” میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کیا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا۔ “ اور ان سب نعمتوں سے بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگی، پھر جنت کی نعمتیں ہر آن نئی سے نئی ہوتی رہیں گی، نہ ختم ہوں گی نہ کہیں رکیں گی، کیونکہ وہ اللہ کے کلمۂ کن سے وجود میں آئیں گی اور اللہ کے کلمات کی کوئی انتہا نہیں، دیکھیے اس سے اگلی آیت۔
(آیت) لَا يَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا مقصد یہ بتلانا ہے کہ جنت کا یہ مقام ان کے لئے لازوال دائمی نعمت ہے کیونکہ حق تعالیٰ نے یہ حکم جاری فرما دیا ہے کہ جو شخص جنت میں داخل ہوگیا وہ وہاں سے کبھی نکالا نہ جائے گا مگر یہاں ایک خطرہ کسی کے دل میں یہ گذر سکتا تھا کہ انسان کی فطری عادت یہ ہے کہ ایک جگہ رہتے رہتے اکتا جاتا ہے وہاں سے باہر دوسرے مقامات پر جانے کی خواہش ہوتی ہے اگر جنت سے باہر کہیں جانے کی اجازت نہ ہوتی تو ایک قید محسوس ہونے لگے گی اس کا جواب اس آیت میں دیا گیا کہ جنت کو دوسرے مقامات پر قیاس کرنا جہالت ہے جو شخص جنت میں چلا گیا پھر جو کچھ دنیا میں دیکھا اور برتا تھا جنت کی نعمتوں اور دل کش فضاؤں کے سامنے اس کو وہ سب چیزیں لغو معلوم ہوں گی اور یہاں سے کہیں باہر جانے کا کبھی کسی کے دل میں خیال بھی نہ آئے گا۔
خٰلِدِيْنَ فِيْہَا لَا يَبْغُوْنَ عَنْہَا حِوَلًا ١٠٨- خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔- بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہا ات میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔- حول - أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] - ( ح ول ) الحوال - ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔
آیت ١٠٨ (خٰلِدِيْنَ فِيْهَا لَا يَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا)- یعنی جنت ایسی جگہ نہیں ہے کہ جہاں رہتے رہتے کسی کا جی اکتا جائے۔ دنیا میں انسان ہر وقت تغیر و تبدیلی کا خواہاں ہے۔ تبدیلی کی اسی خواہش کے تحت بری سے بری جگہ پر بھی کچھ دیر کے لیے انسان کا دل بہل جاتا ہے جبکہ اچھی سے اچھی جگہ پر بھی مستقل طور پر رہنا پڑے تو بہت جلد اسے اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہم کشمیر اور سوئزر لینڈ کو ” فردوس بر روئے زمین “ گمان کرتے ہیں لیکن وہاں کے رہنے والے وہاں کی زمینی و آسمانی آفات سے تنگ ہیں۔ اہل جنت مستقل طور پر ایک ہی جگہ رہنے کے باعث اکتائیں گے نہیں اور وہاں سے جگہ بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔- اب اس سورت کی آخری دو آیات آرہی ہیں جو گویا توحید کے دو بہت بڑے خزانے ہیں۔
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :79 یعنی اس حالت سے بہتر اور کوئی حالت ہوگی ہی نہیں کہ جنت کی زندگی کو اس سے بدل لینے کے لیے ان کے دلوں میں کوئی خواہش پیدا ہو ۔