اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کا شمار ناممکن ۔ حکم ہوتا ہے کہ اللہ کی عظمت سمجھانے کے لئے دنیا میں اعلان کر دیجئے کہ اگر روئے زمین کے سمندروں کی سیاہی بن جائے اور پھر اللہ کے کلمات اللہ کی قدرتوں کے اظہار ، اللہ کی باتیں ، اللہ کی حکمتیں لکھنی شروع کی جائیں تو یہ تمام سیاہی ختم ہوجائے گی لیکن اللہ کی تعریفیں ختم نہ ہوں گی ۔ گو پھر ایسے ہی دریا لائے جائیں اور پھر لائے جائیں اور پھر لائے جائیں لیکن ناممکن کہ اللہ کی قدرتیں اس کی حکمتیں اس کی دلیلیں ختم ہوجائیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کا فرمان ہے ( وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَةٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 27 ) 31- لقمان:27 ) یعنی روئے زمین کے درختوں کی قلمیں بن جائیں اور تمام سمندروں کی سیاہیاں بن جائیں پھر ان کے بعد سات سمندر اور بھی لائے جائیں لیکن ناممکن ہے کہ کلمات الہٰی پورے لکھ لئے جائیں اللہ کی عزت اور حکمت اس کا غلبہ اور قدرت وہی جانتا ہے ۔ تمام انسانوں کا علم اللہ کے علمی مقابلہ میں اتنا بھی نہیں جتنا سمندر کے مقابلے میں قطرہ ۔ تمام درختوں کی قلمیں گھس گھس کر ختم ہوجائیں تمام سمندروں کی سیاہیاں نبڑ جائیں لیکن کلمات الہٰی ویسے ہی رہ جائیں گے جیسے تھے وہ ان گنت ہیں ، کون ہے ؟ جو اللہ کی صحیح اور پوری قدروعزت جان سکے ؟ کون ہے جو اس کی پوری ثنا وصفت بجا لا سکے ؟ بیشک ہمارا رب ویسا ہی ہے جیسا وہ خود فرما رہا ہے ۔ بیشک ہم جو تعریفیں اس کی کریں وہ ان سب سے سوا ہے ۔ اور ان سب سے بڑھ چڑھ کر ہے ۔ یاد رکھو جس طرح ساری زمین کے مقابلے پر ایک رائی کا دانہ ہے اسی طرح جنت کی اور آخرت کی نعمتوں کے مقابل تمام دنیا کی نعمتیں ہیں ۔
109۔ 1 کَلِمَاَت سے مراد، اللہ تعالیٰ کا علم محیط، اس کی حکمتیں اور وہ دلائل وبرائین ہیں جو اس کی واحدنیت پر دال ہیں۔ انسانی عقلیں ان سب کا احا طہ نہیں کرسکتیں اور دنیا بھر کے درختوں کے قلم بن جائیں اور سارے سمندر بلکہ ان کی مثل اور بھی سمندر ہوں، وہ سب سیاہی میں بدل جائیں، قلم گھس جائیں گے اور سیاہی ختم ہوجائے گی، لیکن رب کے کلمات اور اس کی حکمتیں ضبط تحریر میں نہیں آسکیں گی۔
[٨٩] اللہ کے کلمات سے کیا مراد ہے ؟ کلمات سے مراد اللہ تعالیٰ کے کارنامے، کمالات اور عجائبات قدرت ہیں اور یہ لامتناہی اور بےحدد حساب ہیں جن میں ہر آن مزید وسعت بھی ہوتی رہتی ہے اور سمندر یا سمندروں کا پانی خواہ کتنا ہی کثیر مقدار میں ہو بہرحال اس کی ایک حد ہے اور ایک محدود چیز کا لامحدود چیز سے کیا مقابلہ ہوسکتا ہے لہذا سمندروں کی سیاہی تو ختم ہوسکتی ہے لیکن اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوسکتے۔
قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا ۔۔ : کیونکہ سمندر مخلوق ہے جس کی حد اور انتہا ہے، جب کہ اللہ کا کلام اس کی صفت ہے، مخلوق نہیں، نہ اللہ کی ذات کی کوئی انتہا ہے نہ اس کی صفات کی۔ اگر اللہ کے کلمات لکھنے کے لیے سارے سمندر سیاہی بن جائیں اور زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں، پھر اتنی سیاہی ہم اور لے آئیں، بلکہ مزید سات سمندر سیاہی بن جائیں تو سب ختم ہوجائیں گے، مگر اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے۔ (دیکھیے لقمان : ٢٧) کیونکہ محدود چیز لا متناہی اور غیر محدو و کا احاطہ کبھی نہیں کرسکتی۔ - 3 اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح اللہ کی ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، اسی طرح اس کی دوسری صفات کی طرح صفت کلام بھی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ وہ جب چاہے، جس سے چاہے، جو چاہے کلام کرتا ہے، اس کے کلام کی کوئی انتہا نہیں، وہ ہمیشہ کلام پر قادر رہے گا، جیسے رسولوں کے متعلق فرمایا : (مِنْھُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ ) [ البقرۃ : ٢٥٣ ] ” ان میں سے بعض سے اللہ نے کلام فرمایا۔ “ اور فرمایا : (وَكَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِــيْمًا) [ النساء : ١٦٤] ” اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا، خود کلام کرنا۔ “ اور فرمایا : (وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ) [ التوبۃ : ٦ ] ” اور اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دے، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے۔ “ اتنی واضح آیات کے باوجود مسلمانوں کے بہت سے گمراہ فرقے اللہ تعالیٰ کی صفت کلام کے منکر ہیں۔ ان کے مطابق اللہ کا کلام وہ معانی ہیں جو اس کی ذات میں ہیں۔ وہ بول نہیں سکتا، نہ اس کے الفاظ ہیں نہ آواز۔ الفاظ اور آواز کو اس نے پیدا کیا ہے، اس لیے یہ قرآن بھی مخلوق ہے، اللہ کا کلام نہیں۔ صرف اس کا مفہوم و معنی اللہ کی صفت ہے۔ چناچہ ان میں سے بعض نے کہا کہ نماز میں قرآنی آیت کا مفہوم عربی الفاظ کے بجائے فارسی، اردو یا کسی اور زبان میں ادا کردیا جائے تو نماز ہوجائے گی، کیونکہ قرآن کی تلاوت ہوگئی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق قرآن عربی ہے۔ دیکھیے سورة یوسف (٣) وغیرہ۔ امام اہل السنہ احمد ابن حنبل (رح) نے انھی گمراہ فرقوں کی طرف سے بیشمار عذاب برداشت کیے، مگر قرآن کو اللہ کا کلام کہتے رہے، اسے مخلوق نہیں مانا اور امت کو صراط مستقیم سے ہٹنے نہیں دیا۔ بھلا کوئی شخص اپنے آپ کو تو کلام پر قادر سمجھے اور اپنے لیے گونگا ہونے کو عیب جانے، حالانکہ گونگے کے دل میں بھی معانی موجود ہوتے ہیں، مگر تمام صفات حسنہ کے مالک کے متعلق کہے کہ وہ نہ بولتا ہے نہ سنتا ہے، نہ دیکھتا ہے، نہ کوئی اس کا کلام سن سکتا ہے۔ ایسا عاجز رب انھی کو مبارک ہو قرآن و حدیث میں مذکور ہمارا رب تو بولتا بھی ہے، سنتا بھی اور وہ تمام صفات کمال کا مالک ہے۔ بعض پیغمبروں نے خود اس کا کلام سنا، بعض کو فرشتے کے ذریعے سے پہنچا، رسولوں کی معرفت آیا ہوا کلام ہم پڑھتے بھی ہیں اور سنتے بھی۔ [ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی نِعَمِہِ الشَّامِلَۃِ وَ آلَاءِہِ الْکَامِلَۃِ ]- 3 یہاں انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ ان عقل پرستوں نے صفات کا انکار کیوں کیا ؟ پھر قرآن کے الفاظ کو مخلوق کہنے پر اتنا اصرار کیوں کیا کہ جو بھی قرآن کو مخلوق نہ کہے وہ ہر قسم کے سرکاری عہدے سے معزول ہے، حتیٰ کہ وہ نہ کسی مسجد کا خطیب ہوسکتا ہے نہ امام، نہ اپنے طور پر کسی مسجد میں پڑھا سکتا ہے، نہ درس دے سکتا ہے اور اہل السنہ، خصوصاً ان کے امام احمد ابن حنبل (رح) نے اس کے انکار میں اتنی شدت کیوں کی اور اتنا عذاب کیوں جھیلا ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ خیر القرون گزرنے کے بعد عملی کمزوریوں کی وجہ سے طبائع قرآن و سنت پر عمل کی پابندیوں کو بوجھ سمجھنے لگیں، حکمرانوں کی مطلق العنانی میں بھی یہ دونوں چیزیں رکاوٹ تھیں، جیسا کہ ہم آج کل کے اکثر حکمرانوں اور ان کی اسلامی نظریاتی کونسلوں کے علماء کو دیکھتے ہیں۔ چناچہ علمائے سوء نے عقل کا نام لے کر آزادی کی راہ میں رکاوٹ بننے والی ہر چیز کو راستے سے ہٹا دینے کی کوششیں شروع کردیں۔ انھی دنوں مامون الرشید نے یونانی کتابوں کے تراجم کروائے تھے۔ دنیاوی معاملات میں اپنے پیش رو لوگوں کے تجربات سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں، مگر ساتھ ہی یونانی فلسفے کا بھی ترجمہ ہوا تو اللہ تعالیٰ کے متعلق بھی ان کے عقائد ان لوگوں پر اثر انداز ہوئے۔ چناچہ معتزلہ، یعنی عقل پرستوں نے ان کے کچھ بنیادی اصول تسلیم کرلیے، مثلاً ایک سے ایک ہی چیز کا صدور ہوسکتا ہے۔ محل حوادث حادث ہوتا ہے، یعنی جس سے کوئی نئی چیز وجود میں آئے وہ ذات قدیم، یعنی اللہ تعالیٰ نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نہ دیکھتا ہے، نہ سنتا ہے، نہ بولتا ہے، نہ حرکت کرسکتا ہے، نہ وہ عرش پر ہے، نہ آسمان پر اترتا ہے، نہ قیامت کے دن زمین پر آئے گا، کیونکہ یہ سب حوادث ہیں۔ یہ عقائد قرآن و حدیث کا صاف انکار تھے، کیونکہ قرآن کے مطابق اللہ تعالیٰ ہر وقت نئی سے نئی حالت میں ہے، فرمایا : (كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ ) [ الرحمٰن : ٢٩ ] ” ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔ “ وہ سمیع ہے، بصیر ہے، قیامت کے دن زمین پر آئے گا وغیرہ۔ ان لوگوں کے مقابلے میں مسلم علماء میں سے ایک تو متکلمین اٹھے جنھوں نے ان کا جواب دیا، مگر بدقسمتی سے ان کے اصول مان بیٹھے، چناچہ انھوں نے فلاسفہ کے اصول بچانے کے لیے قرآن و حدیث کی تاویل بلکہ تحریف کی۔ کلام بھی چونکہ حادث ہے، یعنی ہر لفظ پہلے کے بعد نئے سے نیا آتا ہے اور ان کے بقول اللہ تعالیٰ ایسی چیزوں کا محل نہیں، لہٰذا انھوں نے اللہ کے کلام کا انکار کرنے کے لیے تاویل کا سہارا لیا اور کہا کہ قرآن کے معانی قدیم ہیں، وہ تو اللہ کی ذات میں ہیں، مگر الفاظ مخلوق ہیں، اصل مفہوم جس زبان اور جن الفاظ میں بھی ادا ہوجائے وہی قرآن ہے۔ حدیث سے وہ پہلے ہی یہ کہہ کر جان چھڑا چکے تھے کہ حدیث سے قرآن پر اضافہ نہیں ہوسکتا اور یہ کہ ان کے کہنے کے مطابق غیر فقیہ صحابی کی روایت کردہ حدیث قیاس کے خلاف ہو تو رد کردی جائے گی۔ رہا قرآن تو اس میں من مانی تبدیلی کے لیے اس کے الفاظ کو اللہ کا کلام ماننے سے انکار کردیا، صرف معنی و مفہوم کو قرآن قرار دیا۔ یہود و نصاریٰ میں بھی تحریف کا دروازہ یہیں سے کھلا کہ تورات و انجیل کے تراجم کو اللہ کا کلام کہہ دیا گیا، حتیٰ کہ اصل زبان والی کتابیں دنیا سے مفقود ہوگئیں۔ تراجم میں تبدیلی کچھ مشکل نہ تھی، لہٰذا اب وہ کتب اس قابل ہی نہیں رہیں کہ ان پر اعتماد کیا جاسکے۔ امام احمد ابن حنبل (رح) ان کے عقلی ڈھکوسلوں کے مقابلے میں کہتے تھے کہ کوئی آیت یا حدیث پڑھو جس میں ہو کہ قرآن مخلوق ہے، ہم مان لیں گے۔ امام صاحب اسی پر قائم رہے۔ قرآن کے الفاظ ہی کو اللہ کا کلام کہنے پر ڈٹے رہے، جس کے نتیجے میں قرآن محفوظ رہا اور حدیث بھی حجت رہی۔ یہ (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ) [ الحجر : ٩ ] کے وعدے کی تکمیل تھی۔ ان لوگوں نے مسلمانوں سے ان کی معنوی قوت ختم کرنے کے لیے ایمان کو بھی صرف دل کا فعل قرار دیا، اقرار کو بھی صرف مسلمان تسلیم ہونے کے لیے ضروری قرار دیا، اقرار نہ بھی کرے تو لوگوں کے نزدیک نہ سہی اللہ کے ہاں پکا مومن ہے۔ اقرار کرلے، عمل نہ بھی کرے تو اللہ کے ہاں اور مسلمانوں کے ہاں پکا مومن ہے۔ یہ اہل سنت محدثین ہی تھے جنھوں نے اسلام پر ان حملوں کا دفاع کیا اور جو سختی بھی ان پر گزری اسے برداشت کیا۔ کتنے ہی اس امتحان میں ناکام ہوئے، کتنے شہادت پا کر سرخرو ہوئے۔ اب بھی قرآن و حدیث پر قائم رہنے والوں کا ایسے لوگوں سے مقابلہ جاری ہے جو قرآن کے الفاظ کو اللہ کا کلام نہیں مانتے، اللہ تعالیٰ کی صفات، سننے، دیکھنے، رحم کرنے، اترنے، چڑھنے، عرش پر ہونے کو نہیں مانتے۔ اس کے ساتھ ہی اسلام کے ٹھیکیدار بھی بنے ہوئے ہیں۔ یہ اللہ ہی کا فضل ہے کہ قرآن و سنت پر قائم علماء صریح دلائل سے ان لوگوں کے عقائد کا باطل ہونا بیان کرتے رہتے ہیں اور قرآن و حدیث پر ذرہ برابر آنچ آنے دیتے ہیں نہ ان میں کوئی لفظی یا معنوی تحریف برداشت کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَرِثُ ھٰذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلَفٍ عُدُوْلُہُ یَنْفُوْنَ عَنْہُ تَأْوِیْلَ الْجَاھِلِیْنَ وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِیْنَ وَ تَحْرِیْفَ الْغَالِیْنَ ) [ السنن الکبریٰ للبیھقی : ١٠؍٢٠٩، ح : ٢١٤٣٩ ] ” قرآن و حدیث کے اس علم کے وارث بعد میں آنے والے تمام لوگوں میں سے ان کے وہ عادل لوگ ہوں گے جو اس سے جاہلوں کی تاویل، باطل پرستوں کے گھڑے ہوئے جھوٹ اور غلو کرنے والوں کی تحریف کو دور کریں گے۔ “ [ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْھُمْ ]
خلاصہ تفسیر :- آپ لوگوں سے فرما دیجئے کہ اگر میرے رب کی باتیں (یعنی وہ کلمات و عبارات جو اللہ تعالیٰ کے اوصاف اور کمالات پر دلالت کرتے ہوں اور ان سے اللہ تعالیٰ کے کمالات و اوصاف کو کوئی بیان کرنے لگے تو ایسے کلمات کو) لکھنے کے لئے سمندر (کا پانی ) روشنائی (کی جگہ) ہو ( اور اس سے لکھنا شروع کرے) تو میرے رب کی باتیں ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجائے گا (اور سب باتیں احاطہ میں نہ آئیں گی) اگرچہ اس سمندر کے مثل ایک دوسرا سمندر (اس کی) مدد کے لئے ہم لے آئیں (تب بھی وہ باتیں ختم نہ ہوں اور دوسرا سمندر بھی ختم ہوجائے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے کلمات غیر متناہی ہیں اس کے سوا جن چیزوں کو کافروں نے اللہ کا شریک مانا ہے ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں اس لئے الوہیت و ربوبیت (خدا ہونا اور رب ہونا) اسی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے اس لئے ان لوگوں سے) آپ (یہ بھی) کہہ دیجئے کہ میں تو تم سب کی طرح بشر ہوں (نہ خدائی کا دعوے دار ہوں نہ فرشتہ ہونے کا ہاں) میرے پاس (اللہ کی طرف سے) وحی آتی ہے (اور) تمہارا معبود برحق ایک ہی معبود ہے تو جو شخص اپنے رب سے ملنے کی آرزو رکھے (اور اس کا محبوب بننا چاہے) تو (مجھ کو رسول مان کر میری شریعت کے موافق) نیک کام کرتا رہے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔
قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا ١٠٩- بحر - أصل البَحْر : كل مکان واسع جامع للماء الکثير، هذا هو الأصل، ثم اعتبر تارة سعته - المعاینة، فيقال : بَحَرْتُ كذا : أوسعته سعة البحر، تشبيها به، ومنه : بَحرْتُ البعیر : شققت أذنه شقا واسعا، ومنه سمیت البَحِيرَة . قال تعالی: ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] ، وذلک ما کانوا يجعلونه بالناقة إذا ولدت عشرة أبطن شقوا أذنها فيسيبونها، فلا ترکب ولا يحمل عليها، وسموا کلّ متوسّع في شيء بَحْراً ، حتی قالوا : فرس بحر، باعتبار سعة جريه، وقال عليه الصلاة والسلام في فرس ركبه : «وجدته بحرا» «1» وللمتوسع في علمه بحر، وقد تَبَحَّرَ أي : توسع في كذا، والتَبَحُّرُ في العلم : التوسع واعتبر من البحر تارة ملوحته فقیل : ماء بَحْرَانِي، أي : ملح، وقد أَبْحَرَ الماء . قال الشاعر :- 39-- قد عاد ماء الأرض بحرا فزادني ... إلى مرضي أن أبحر المشرب العذب - «2» وقال بعضهم : البَحْرُ يقال في الأصل للماء الملح دون العذب «3» ، وقوله تعالی: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] إنما سمي العذب بحرا لکونه مع الملح، كما يقال للشمس والقمر : قمران، وقیل السحاب الذي كثر ماؤه : بنات بحر «4» . وقوله تعالی: ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ- [ الروم 41] قيل : أراد في البوادي والأرياف لا فيما بين الماء، وقولهم : لقیته صحرة بحرة، أي : ظاهرا حيث لا بناء يستره .- ( ب ح ر) البحر - ( سمندر ) اصل میں اس وسیع مقام کو کہتے ہیں جہاں کثرت سے پانی جمع ہو پھر کبھی اس کی ظاہری وسعت کے اعتبار سے بطور تشبیہ بحرت کذا کا محارہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی سمندر کی طرح کسی چیز کو وسیع کردینا کے ہیں اسی سے بحرت البعیر ہے یعنی میں نے بہت زیادہ اونٹ کے کان کو چیز ڈالا یا پھاڑ دیا اور اس طرح کان چر ہے ہوئے اونٹ کو البحیرۃ کہا جا تا ہے قرآن میں ہے ما جَعَلَ اللَّهُ مِنْ بَحِيرَةٍ [ المائدة 103] یعنی للہ تعالیٰ نے بحیرہ جانور کا حکم نہیں دیا کفار کی عادت تھی کہ جو اونٹنی دس بچے جن چکتی تو اس کا کان پھاڑ کر بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے نہ اس پر سواری کرتے اور نہ بوجھ لادیتے ۔ اور جس کو کسی صنعت میں وسعت حاصل ہوجائے اسے بحر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ بہت زیادہ دوڑ نے والے گھوڑے کو بحر کہہ دیا جاتا ہے ۔ آنحضرت نے ایک گھوڑے پر سواری کے بعد فرمایا : ( 26 ) وجدتہ بحرا کہ میں نے اسے سمندر پایا ۔ اسی طرح وسعت علمی کے اعتبار سے بھی بحر کہہ دیا جاتا ہے اور تبحر فی کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں چیز میں بہت وسعت حاصل کرلی اور البتحرفی العلم علم میں وسعت حاصل کرنا ۔ اور کبھی سمندر کی ملوحت اور نمکین کے اعتبار سے کھاری اور کڑوے پانی کو بحر انی کہد یتے ہیں ۔ ابحرالماء ۔ پانی کڑھا ہوگیا ۔ شاعر نے کہا ہے : ( 39 ) قدعا دماء الا رض بحر فزادنی الی مرض ان ابحر المشراب العذاب زمین کا پانی کڑوا ہوگیا تو شریں گھاٹ کے تلخ ہونے سے میرے مرض میں اضافہ کردیا اور آیت کریمہ : مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هذا عَذْبٌ فُراتٌ وَهذا مِلْحٌ أُجاجٌ [ الفرقان 53] بحرین ھذا عذاب فرات ولھذا وھذا ملح اجاج ( 25 ۔ 53 ) دو دریا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا میں عذاب کو بحر کہنا ملح کے بالمقابل آنے کی وجہ سے ہے جیسا کہ سورج اور چاند کو قمران کہا جاتا ہے اور بنات بحر کے معنی زیادہ بارش برسانے والے بادلوں کے ہیں ۔ اور آیت : ظَهَرَ الْفَسادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ [ الروم 41] کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ بحر سے سمندر مراد نہیں ہے بلکہ بر سے جنگلات اور بحر سے زرخیز علاقے مراد ہیں ۔ لقیتہ صحرۃ بحرۃ میں اسے ایسے میدان میں ملا جہاں کوئی اوٹ نہ تھی ؟ - مد - أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] . وأكثر ما جاء الإمْدَادُ في المحبوب والمدُّ في المکروه نحو : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور 22] أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون 55] ، وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح 12] ، يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران 125] ، أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ- [ النمل 36] ، وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم 79] ، وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ- [ البقرة 15] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف 202] ، وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان 27] فمن قولهم : مَدَّهُ نهرٌ آخرُ ، ولیس هو مما ذکرناه من الإمدادِ والمدِّ المحبوبِ والمکروهِ ، وإنما هو من قولهم : مَدَدْتُ الدّواةَ أَمُدُّهَا «1» ، وقوله : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف 109] والمُدُّ من المکاييل معروف .- ( م د د ) المد - کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ مددتہ فی غیہ ۔ گمراہی پر مہلت دینا اور فورا گرفت نہ کرنا ۔ مددت الابل اونٹ کو مدید پلایا ۔ اور مدید اس بیج اور آٹے کو کہتے ہیں جو پانی میں بھگو کر باہم ملا دیا گیا ہو امددت الجیش بمدد کا مددینا ۔ کمک بھیجنا۔ امددت الانسان بطعام کسی کی طعام ( غلہ ) سے مددکرنا قرآن پاک میں عموما امد ( افعال) اچھی چیز کے لئے اور مد ( ثلاثی مجرد ) بری چیز کے لئے ) استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور 22] اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون 55] کیا یہ لوگ خیا کرتے ہیں ک ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں ۔ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح 12] اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران 125] تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیجے گا ۔ أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل 36] کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو ۔ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم 79] اور اس کے لئے آراستہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں ۔ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت اور سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف 202] اور ان ( کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں لیکن آیت کریمہ : وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان 27] اور سمندر ( کا تمام پانی ) روشنائی ہو اور مہار ت سمندر اور ( روشنائی ہوجائیں ) میں یمددہ کا صیغہ مدہ نھرا اخر کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ امداد یا مد سے نہیں ہے جو کسی محبوب یا مکروہ وہ چیز کے متعلق استعمال ہوتے ہیں بلکہ یہ مددت الداواۃ امد ھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دوات میں روشنائی ڈالنا کے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف 109] اگرچہ ہم دیسا اور سمندر اس کی مددکو لائیں ۔ میں مداد یعنی روشنائی کے معنی مراد ہیں ۔ المد۔ غلہ ناپنے کا ایک مشہور پیمانہ ۔ ۔- كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- نفد - النَّفَادُ : الفَناءُ. قال تعالی: إِنَّ هذا لَرِزْقُنا ما لَهُ مِنْ نَفادٍ [ ص 54] يقال : نَفِدَ يَنْفَدُ «1» قال تعالی: قُلْ لَوْ كانَ الْبَحْرُ مِداداً لِكَلِماتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ [ الكهف 109] ، ما نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ [ لقمان 27] . وأَنْفَدُوا : فَنِيَ زادُهم، وخَصْمٌ مُنَافِدٌ: إذا خَاصَمَ لِيُنْفِدَ حُجَّةَ صاحبِهِ ، يقال : نَافَدْتُهُ فَنَفَدْتُهُ.- ( ن ف د ) النفاد - ( س ) ختم ہوجانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ هذا لَرِزْقُنا ما لَهُ مِنْ نَفادٍ [ ص 54] یہ ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا ۔ اور اس معنی میں فعل نفد ( س ) استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قُلْ لَوْ كانَ الْبَحْرُ مِداداً لِكَلِماتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ [ الكهف 109] کہہ دو کہ اگر سمندر میرے پروردگار کی باتوں کے لکھنے کے لئے سیاہی ہو تو قبل اس کے کہ میرے پروردگار کی باتیں تمام ہوں سمندر ختم ہوجائے ما نَفِدَتْ كَلِماتُ اللَّهِ [ لقمان 27] تو خدا کی باتیں ( یعنی اس کی صفتیں ختم نہ ہوں ۔ انفدوا ان کا تو شہ ختم ہوگیا ۔ اور خصم منا فد دوسرے کی حجت کو ختم کرنے کے لئے جھگڑنے والے کو کہتے ہیں اور نافدۃ ونفد تہ کے معنی دوسرے کی دلیل کو ختم کرنے کے ہیں ۔- جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔
(١٠٩) اور اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ خصوصا یہود سے بھی فرما دیجیے کہ اگر میرے پروردگار کی باتیں اور اس کے علم و کمالات لکھنے کے لیے سمندر کا پانی روشنائی کی جگہ ہو تو میرے رب کی باتیں ختم ہونے سے پہلے اس جیسا دوسرا سمندر بھی ختم ہوجائے۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ قل لو کان البحر “۔ (الخ)- امام حاکم (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت نقل کی ہے کہ قریش نے یہود سے کہا کہ ہمیں کچھ چیز بتاؤ جس کو ہم اس رسول سے پوچھیں، یہود نے کہا روح کے بارے میں سوال کرو، چناچہ قرآن نے آپ سے روح کے بارے میں سوال کیا، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ( آیت) ” ویسئلونک عن الروح قل الروح من امر ربی وما اوتیتم من العلم الا قلیلا “ (الخ) اس پر یہود کہنے لگے کہ ہمیں بہت علم دیا گیا ہے ہمیں توریت دی گئی ہے اور جن کو توریت دی گئی ہو انھیں خیر کثیر دی گئی، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اگر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے سمندر روشنائی ہو تو میرے رب کی باتیں ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہوجائے۔
آیت ١٠٩ (قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّيْ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا)- یہاں پر سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت سے پہلے کی آیت کو دوبارہ ذہن میں لائیں : (قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَط اَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی) ” آپ کہہ دیجیے کہ تم پکارو اللہ (کہہ کر) یا پکارو رحمن (کہہ کر) جس (نام) سے بھی تم پکارو اسی کے ہیں تمام نام اچھے “۔ سورة بنی اسرائیل کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے اسماء کا ذکر ہے ‘ جبکہ یہاں آیت زیر نظر میں اللہ تعالیٰ کے کلمات کا ذکر ہے۔ اللہ کے کلمات سے مراد اس کی مختلف النوع مخلوقات ہیں اور اس کی ہر مخلوق اس کے ایک کلمہ کن کا ظہور ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کی جملہ مخلوقات کا احاطہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ سورة لقمان میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا ہے : (وَلَوْ اَنَّ مَا فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْم بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ) ” اور اگر زمین کے تمام درخت قلمیں بن جائیں اور سمندر سیاہی ہو اس کے بعد سات سمندر اور ہوں تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہیں ہوں گے۔ یقیناً اللہ غالب حکمت والا ہے۔ “
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :80 باتوں سے مراد اس کے کام اور کمالات اور عجائب قدرت و حکمت ہیں ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، لقمان ، حاشیہ 48 ۔
53: اللہ تعالیٰ کی باتوں سے مراد اللہ تعالیٰ کی صفات اور کمالات کا تذکرہ ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرت اس کی حکمت اور اس کے کمالات اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ان کو قلم بند کیا جائے تو بڑے بڑے سمندروں کو روشنائی بناکر لکھا جائے، تو سمندر کے سمندر خشک ہوجائیں گے اور اللہ تعالیٰ کی صفات اور کمالات کا بیان ختم نہیں ہوگا۔