Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم ۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ یہ سب سے آخری آیت ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ۔ حکم ہوتا ہے کہ آپ لوگوں سے فرمائیں کہ میں تم جیسا ہی ایک انسان ہوں ، تم بھی انسان ہو ، اگر مجھے جھوٹا جانتے ہو تو لاؤ اس قرآن جیسا ایک قرآن تم بھی بنا کر پیش کر دو ۔ دیکھو میں کوئی غیب داں تو نہیں تم نے مجھ سے ذوالقرنین کا واقعہ دریافت کیا ۔ اصحاب کہف کا قصہ پوچھا تو میں نے ان کے صحیح واقعات تمہارے سامنے بیان کر دئیے جو نفس الامر کے مطابق ہیں اگر میرے پاس اللہ کی وحی نہ آتی تو میں ان گذشتہ واقعات کو جس طرح وہ ہوئے ہیں تمہارے سامنے کس طرح بیان کر سکتا ؟ سنو تمام تر وحی کا خلاصہ یہ ہے کہ تم موحد بن جاؤ شرک کو چھوڑ دو ۔ میری دعوت یہی ہے جو بھی تم میں سے اللہ سے مل کر اجروثواب لینا چاہتاہو اسے شریعت کے مطابق عمل کرنے چاہئیں اور شرک سے بالکل بچنا چاہیں ان دونوں ارکان کے بغیر کوئی عمل اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں ، خلوص ہو اور مطابقت سنت ہو ۔ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ بہت سے نیک کاموں میں باوجود مرضی الہٰی کی تلاش کے میرا ارادہ یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ میری نیکی دیکھیں تو میرے لئے کیا حکم ہے آپ خاموش رہے اور یہ آیت اتری ، یہ حدیث مرسل ہے ۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ ایک شخص نماز روزہ صدقہ خیرات حج زکوٰۃ کرتا ہے ، اللہ کی رضامندی بھی ڈھونڈتا ہے اور لوگوں میں نیک نامی اور بڑائی بھی ۔ آپ نے فرمایا اس کی کل عبادت اکارت ہے اللہ تعالیٰ شرک سے بیزار ہے جو اس کی عبادت میں اور نیت بھی کرے تو اللہ تعالیٰ فرما دیتا ہے کہ یہ سب اسی دوسرے کو دے دو مجھے اس کی کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ حضرت سعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس باری باری آتے ، رات گزارتے ، کبھی آپ کو کئی کام ہوتا تو فرما دیتے ایسے لوگ بہت زیادہ تھے ایک شب ہم آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا یہ کیا کھسر پھسر کر رہے ہو ؟ ہم نے جواب دیا یا رسول اللہ ہماری توبہ ہے ہم مسیج دجال کا ذکر رہے تھے اور دل ہمارے خوفزدہ تھے ۔ آپ نے فرمایا میں تمہیں اس سے بھی زیادہ دہشت ناک بات بتاؤں ؟ وہ پوشیدہ شرک ہے کہ انسان دوسرے انسان کو دکھانے کے لئے نماز پڑھے ۔ مسند احمد میں ہے ابن غنم کہتے ہیں میں اور حضرت ابو درداء جابیہ کی مسجد میں گئے وہاں ہمیں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ ملے بائیں ہاتھ سے تو انہوں نے میرا داہنا ہاتھ تھام لیا اور اپنے داہنے ہاتھ سے حضرت ابو درداء کا بایاں ہاتھ تھام لیا اور اسی طرح ہم تینوں وہاں سے باتیں کرتے ہوئے نکلے ۔ آپ فرمانے لگے دیکھو اگر تم دونوں یا تم میں سے جو بھی زندہ رہا تو ممکن ہے اس وقت کو بھی وہ دیکھ لے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن سیکھا ہوا بھلا آدمی حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھنے والا اور ہر حکم کو مناسب جگہ رکھنے والا آئے اور اس کی قدرومنزلت لوگوں میں ایسی ہو جیسی مردہ گدھے کی سر کی ۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عوف بن مالک آگئے اور بیٹھتے ہی حضرت شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا لوگوں مجھے تو تم پر سب سے زیادہ اس کا ڈر ہے جو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے یعنی پوشیدہ خواہش اور شرک کا ۔ اس پر حضرت عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ معاف فرمائے ہم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس بات سے شیطان مایوس ہوگیا ہے کہ اس جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کی جائے ۔ ہاں پوشیدہ شہوات تو یہی خواہش کی چیزیں عورتیں وغیرہ ہیں لیکن یہ شرک ہماری سمجھ میں تو نہیں آیا جس سے آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں ۔ حضرت شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے اچھا بتاؤ تو ایک آدمی دوسروں کے دکھانے کے لئے نماز روزہ صدقہ خیرات کرتا ہے ۔ اس کا حکم تمہارے نزدیک کیا ہے ؟ کیا اس نے شرک کیا ؟ سب نے جواب دیا بیشک ایسا شخص مشرک ہے ، آپ نے فرمایا میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص دکھاوے کے لئے نماز پڑھے وہ مشرک ہے جو دنیا کو دکھانے کے لئے روزے رکھے وہ مشرک ہے جو لوگوں میں اپنی سخاوت جتانے کے لئے صدقہ خیرات کرے وہ بھی مشرک ہے اس پر حضرت عوف بن مالک نے کہا کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ایسے اعمال میں جو اللہ کے لئے ہو اللہ اسے قبول فرمالے اور جو دوسرے کے لئے ہو اسے رد کر دے ؟ حضرت شداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا یہ ہرگز نہیں ہونے کا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جناب باری عزوجل کا ارشاد ہے کہ میں سب سے بہتر حصے والا ہوں ، جو بھی میرے ساتھ کسی عمل میں دوسرے کر شریک کرے میں اپنا حصہ بھی اسی دوسرے کے سپرد کردیتا ہوں ۔ اور نہایت بےپرواہی سے جز کل سب کو چھوڑ دیتا ہوں اور روایت میں ہے کہ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دن رونے لگے ہم نے پوچھا حضرت آپ کیسے رو رہے ہیں فرمانے لگے ایک حدیث یاد آگئی ہے اور اس نے رلا دیا ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ ڈر شرک اور پوشیدہ شہوت کا ہے ۔ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی ؟ آپ نے فرمایا ہاں سنو وہ چاند پتھر بت کو نہ پوجے گی بلکہ اپنے اعمال میں ریا کاری کرے گی ۔ پوشیدہ شہوت یہ ہے کہ صبح روزے سے ہے اور کوئی خواہش سامنے آئی روزہ چھوڑ دیا ( ابن ماجہ مسند احمد ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے میں تمام شریکوں سے بہتر ہوں ۔ میرے ساتھ جو بھی کسی کو ملالے میں اس سے بری ہوں اور اس کا وہ پورا عمل اس غیر کے لئے ہی ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے مجھے تمہاری نسبت سب سے زیادہ ڈر چھوٹے شرک کا ہے لوگوں نے پوچھا وہ چھوٹا شرک کیا ہے ؟ فرمایا ریاکاری ۔ قیامت کے دن ریاکاروں کو جواب ملے گا کہ جاؤ جن کے لئے عمل کئے تھے انہی کے پاس جزا مانگو ۔ دیکھو پاتے بھی ہو ؟ ابو سعید بن ابو فضالہ انصاری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ جب اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو جمع کرے گا جس دن کے آنے میں کوئی شک شبہ نہیں اس دن ایک پکارنے والا پکارے گا کہ جس نے اپنے جس عمل میں اللہ کے ساتھ دوسرے کو ملایا ہوا سے چاہئے کہ اپنے اس عمل کا بدلہ اس دوسرے سے مانگ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ ساجھے سے بہت ہی بےنیاز ہے ۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ریاکار کو عذاب بھی سب کو دکھا کر ہوگا اور نیک اعمال لوگوں کو سنانے والے کو عذاب بھی سب کو سنا کر ہوگا ( مسند احمد ) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی یہ روایت مروی ہے ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اپنے نیک اعمال اچھا لنے والے کو اللہ تعالیٰ ضرور رسوا کرے گا اس کے اخلاق بگڑ جائیں گے اور وہ لوگوں کی نگاہوں میں حقیر وذلیل ہوگا ۔ یہ بیان فرما کر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رونے لگے ( مسند احمد ) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے قیامت کے دن انسان کے نیک اعمال کے مہر شدہ صحیفے اللہ کے سامنے پیش ہوں گے ۔ جناب باری عزوجل فرمائے گا اسے پھینک دو اسے قبول کرو اسے قبول کرو اسے پھنیک دو اس وقت فرشتے عرض کریں گے کہ اے اللہ تبارک وتعالیٰ جہاں تک ہمارا علم ہے ہم تو اس شخص کے اعمال نیک ہی جانتے ہیں جواب ملے گا کہ جن کو میں پھینکوا رہا ہوں یہ وہ اعمال ہیں جن میں صرف میری ہی رضامند مطلوب نہ تھی بلکہ ان کی ریاکاری تھی آج میں تو صرف ان اعمال کو قبول کروں گا جو صرف میرے لئے ہی کئے گئے ہوں ( بزار ) ارشاد ہے کہ جو دکھاوے سناوے کے لئے کھڑا ہواہو وہ جب تک نہ بیٹھے اللہ کے غصے اور غضب میں رہی رہتا ہے ابو یعلی کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص لوگوں کے دیکھتے ہوئے تو ٹھہر ٹھہر کر اچھی کر کے نماز پڑھے اور تنہائی میں بری طرح جلدی جلدی بےدلی سے ادا کرے اس نے اپنے پروردگار عزوجل کی توہین کی ۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس آیت کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن کی آخری آیت بتاتے ہیں لیکن یہ قول اشکال سے خالی نہیں کیونکہ سورۃ کہف پوری کی پوری مکے شریف میں نازل ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد مدینے میں برابر دس سال تک قرآن کریم اترتا رہا تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہو کہ یہ آیت آخری ہے یعنی کسی دوسری آیت سے منسوخ نہیں ہوئی ۔ اس میں جو حکم ہے وہ آخر تک بدلانہیں اس کے بعد کوئی ایسی آیت نہیں اتری جس میں تبدیلی وتغیر کرے واللہ اعلم ۔ ایک بہت ہی غریب حدیث حافظ ابو بکر بزار رحمۃاللہ علیہ اپنی کتاب میں لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص آیت ( من کان یرجو ) الخ ، کو رات کے وقت پڑھے گا اللہ تعالیٰ اسے اتنا بڑا نور عطا فرمائے گا جو عدن سے مکے شریف تک پہنچے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

110۔ 1 اس لئے میں بھی رب کی باتوں کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ 110۔ 2 البتہ مجھے یہ امتیاز حاصل ہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے۔ اسی وحی کی بدولت میں نے اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق اللہ کی طرف سے نازل کردہ وہ باتیں بیان کی ہیں جن پر مرور ایام کی دبیز تہیں پڑی ہوئی تھیں یا ان کی حقیقت افسانوں میں گم ہوگئی تھی۔ علاوہ ازیں اس وحی میں سب سے اہم حکم یہ دیا گیا ہے کہ تم سب کا معبود صرف ایک ہے۔ 110۔ 3 عمل صالح وہ ہے جو سنت کے مطابق ہو، یعنی جو اپنے رب کی ملاقات کا یقین رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ ہر عمل سنت نبوی کے مطابق کرے اور دوسرا اللہ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، اس لئے کہ بدعت اور شرک دونوں ہی ضبط اعمال کا سبب ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں سے ہر مسلمان کو مفوظ رکھے۔ ہجرت حبشہ کے واقعات میں بیان کیا گیا کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی اور اس کے مصاحبین اور امرا کے سامنے جب سورة مریم کا ابتدائی حصہ حضرت جعفر بن ابی طالب (رض) نے پڑھ کر سنایا تو ان سب کی ڈاڑھیاں آنسوؤں سے تر ہوگئیں اور نجاشی نے کہا کہ یہ قرآن اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جو لے کر آئے ہیں، یہ سب ایک ہی مشعل کی کرنیں ہیں (فتح القدیر) ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٠] کفار کا یہ اعتراض اور اس کا جواب متعدد بار پہلے بھی گزر چکا ہے یعنی میں بھی تمہاری ہی طرح ایک انسان ہوں، کھاتا ہوں، پیتا ہوں، چلتا ہوں، نکاح اور شادیاں کرتا ہوں البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں، یہ جواب تو ان لوگوں کو تھا جو آپ کو رسول نہیں مانتے تھے اور جو جانتے تھے (یعنی صحابہ کرام) ان کے سامنے بھی آپ نے متعدد بار انسان ہونے کے ناطے سے بشری کمزوریوں کا اعتراف فرمایا تھا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔- ١۔ آپ کا صحابہ کرام (رض) کے سامنے بشر ہونے کا کئی بار اعتراف اقرار :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ نے نماز پڑھائی تو اس میں کچھ کمی بیشی کردی جب سلام پھیرا تو لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ نماز کے متعلق کوئی نیا حکم آیا ہے ؟ آپ نے پوچھا کیوں کیا بات ہے ؟ لوگوں نے کہا آپ نے اتنی رکعت پڑھی ہیں یہ سن کر آپ الٹے پاؤں پھرے قبلہ کی طرف منہ کیا (سہو کے) دو سجدے کیے پھر سلام پھیرا پھر ہماری طرف منہ کرکے فرمایا : اگر نماز کے بارے میں کوئی نیا حکم آتا تو میں ضرور تمہیں بتادیتا لیکن بات یہ ہے کہ میں بھی تمہاری طرح آدمی ہوں جیسے تم بھول جاتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں تو جب میں بھولوں مجھے یاد دلا دیا کرو اور جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک پڑجائے تو اپنے ظن غالب کے مطابق اپنی نماز پوری کرے پھر سلام پھیرے اور سہو کے دو سجدے کرلے (بخاری، کتاب الصلوۃ۔ باب التوجہ نحو القبلۃ)- ٢۔ ام المومنین سیدہ ام سلمہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : میں بھی ایک بشر ہی ہوں اور تم آپس میں جھگڑتے ہوئے میرے پاس آتے ہو اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تم میں سے ایک فریق دلائل دینے میں دوسرے سے زیادہ چرب زبان ہوتا ہے اور میں اس کے دلائل سن کر اسی کے حق میں فیصلہ کردیتا ہوں۔ اب اگر میں کسی فریق کو اس کے بھائی کا کچھ حق دلا دوں تو یاد رکھو میں اسے آگ کا ایک ٹکڑا دلا رہا ہوں (بخاری، کتاب الاحکام۔ باب موعظۃ الامام للخصوم)- اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ آپ کو علم غیب نہیں تھا جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔- ٣۔ سیدنا رافع بن خدیج فرماتے ہیں کہ رسول اللہ مدینہ تشریف لائے تو اس وقت لوگ کھجور میں پیوند لگاتے تھے آپ نے پوچھا : یہ کیا کرتے ہو ؟ صحابہ کرام نے جواب دیا : ہم تو ایسا ہی کیا کرتے ہیں آپ نے فرمایا : اگر تم یہ کام نہ کرو تو شاید بہتر ہوگا لوگوں نے پیوند لگانا چھوڑ دیا تو کھجور پھل کم لائی۔ صحابہ نے یہ بات رسول اللہ سے بیان کی تو آپ نے فرمایا : میں بھی ایک بشر ہی ہوں جب میں تمہیں تمہارے دین کی کسی بات کا حکم دوں تو اس پر عمل کرو اور جب میں کوئی بات اپنی رائے سے کہوں تو میں بھی آخر آدمی ہی ہوں (یعنی مجھ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے) (مسلم۔ کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ماقالہ، دون ما ذکرہ، من معائش الدنیا علی سبیل الرای)- آپ کی شان میں افراط وتفریط کا شکار ہونے والے حضرات :۔ یہ احادیث ہمیں اس لیے درج کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ رسول اللہ کے بارے میں آپ کی امت افراط وتفریط کا شکار ہوگئی کچھ لوگ تو اس بات پر مصر ہیں کہ آپ بشر تھے ہی نہیں بلکہ نور تھے یہ احادیث انھیں کو سمجھانے اور ان پر حجت کے طور پر درج کی گئی ہیں۔ دوسرا فریق جو تفریط کا شکار ہوا تو وہ آپ کو ایک عام انسان کی سطح پر لے آیا اور دلیل یہ دی کہ انما کلمہ حصر ہے حالانکہ انما محض الوہیت اور عبودیت میں امتیاز کا فائدہ دے رہا ہے یعنی رسول اللہ میں الوہیت کا کچھ بھی حصہ نہیں اس سے کمالات نبوت کی نفی مراد نہیں۔ بخاری میں علامات النبوۃ فی الاسلام کے عنوان کے تحت آپ کے سینکڑوں معجزات مذکور ہیں لہذا رسول اللہ کو عام انسانوں جیسا ایک معمولی انسان سمجھنا انتہائی گستاخی اور سخت نادانی ہے۔- [٩١] یعنی جو شخص اللہ سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ ملاقات خوشگوار رہے اسے اللہ سے ڈرتے ہوئے نیک اعمال بجا لاتے رہنا چاہیے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اللہ کی عبادت میں شرک کا شائبہ تک نہ ہو ایک تو خالصتاً اسی کی عبادت کرے دوسرے اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کی تعظیم اور اس سے دعا کے جو طریقے مشروع ہیں وہ کسی دوسرے کے لیے بجا نہ لائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ ۔۔ : اللہ کے کبھی ختم نہ ہونے والے کلمات میں سے تمام پیغمبر اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو کلمات لے کر آئے، کفار نے ان پر ایمان لانے سے اس لیے انکار کردیا کہ انھیں لانے والے بشر تھے۔ ان کے خیال میں بشر اللہ کا رسول نہیں ہوسکتا تھا۔ دیکھیے سورة ابراہیم (١١) اور بنی اسرائیل (٩٤) کی تفسیر۔ عقل کے ان اندھوں کو دیکھو کہ احسن تقویم والے انسان کو اللہ کا رسول ماننے کے لیے تیار نہیں، مگر بےجان پتھروں کو معبود مان رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان سے کہہ دیجیے کہ میں تمہاری طرح ایک بشر ہونے کے سوا کچھ نہیں، نہ میں رب ہوں، نہ رب ہونے میں میرا کوئی حصہ ہے، نہ عالم الغیب ہوں، نہ اپنے یا تمہارے لیے کسی نفع یا نقصان کا مالک ہوں، بلکہ میں تمہاری طرح صرف ایک بشر ہوں، آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہوں۔ میرے والدین بھی ہیں، بیوی بچے بھی، کھانے پینے کی اور دوسری بیشمار اشیاء کی محتاجی میں بھی تمہارا شریک ہوں۔ پیدائش، بچپن، جوانی، بڑھاپے، تندرستی، بیماری اور وفات سب میں تمہاری طرح ہوں، ہاں اللہ تعالیٰ کا مجھ پر احسان ہے کہ اس نے اپنے کلمات پہنچانے کے لیے مجھے وحی کا شرف عطا فرمایا ہے، جس کا اصل الاصول ایک اللہ کی عبادت ہے۔ سو تم میری نبوت مانو اور اللہ کی توحید پر ایمان لے آؤ۔ - واضح رہے کہ قرآن مجید کے مطابق رسول بشر ہوتا ہے، جسے اللہ رسالت کے لیے چن لیتا ہے۔ کوئی یہ کہے کہ بشر رسول نہیں ہوسکتا، یا یہ کہے کہ رسول بشر نہیں ہوسکتا، دونوں کا عقیدہ ایک ہے اور دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے اس آیت کی تفسیر یہ کی ہے کہ ” ان مشرکین سے جو آپ کی رسالت کو جھٹلاتے ہیں، کہہ دیجیے کہ میں محض تمہارے جیسا ایک بشر ہوں، پھر جو شخص سمجھتا ہے کہ میں جھوٹا ہوں تو جیسا کلام میں لے کر آیا ہوں وہ لے کر آئے، دیکھو میں نے عالم الغیب نہ ہوتے ہوئے ماضی کے جو واقعات (اصحاب کہف، ذوالقرنین وغیرہ کے) عین واقعہ کے مطابق تمہیں بتائے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ مجھے اطلاع نہ دیتا تو میں تمہیں کبھی نہ بتاسکتا۔ “ یہ تفسیر بھی اچھی ہے۔ - فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ ۔۔ : ” يَرْجُوْا “ ” رَجَاءٌ“ کا معنی امید ہے، اس کے ضمن میں خوف بھی ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ امید پوری نہ ہو۔ غرض اس کے معنی امید اور خوف دونوں کرلیے جاتے ہیں۔ بندے اور اس کے رب کے تعلق کو نمایاں کرکے فرمایا کہ جو اپنے رب کی ملاقات اور دیدار کی امید رکھتا ہے، یا اس سے ملاقات کے وقت اس کے عذاب سے ڈرتا ہے، اس کے لیے دو کام ضروری ہیں، پہلا یہ کہ وہ صالح عمل کرے اور صالح عمل وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے ذریعے سے بتایا ہے، اس کے علاوہ سب بدعت اور گمراہی ہے۔ دوسرا یہ کہ اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے، نہ کسی دوسرے کی عبادت کرکے اور نہ ریا کاری کرکے، کیونکہ غیر اللہ کی عبادت اگر شرک اکبر ہے تو ریا کاری (دکھاوا) شرک اصغر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( قَال اللّٰہُ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی أَنَا أَغْنَی الشُّرَکَاءِ عَنِ الشِّرْکِ ، مَنْ عَمِلَ عَمَلاً أَشْرَکَ فِیْہِ مَعِيَ غَیْرِيْ تَرَکْتُہُ وَ شِرْکَہُ ) [ مسلم، الزھد، باب تحریم الریاء : ٢٩٨٥، عن أبي ہریرہ (رض) ] ” اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے، میں تمام حصے داروں سے کہیں زیادہ (ہر قسم کے) حصے سے بےنیاز ہوں، جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے سوا کسی اور کو حصے دار بنایا تو میں اس عمل کو اور اس کے حصے کو چھوڑ دیتا ہوں۔ “ یعنی میں وہ حصہ بھی قبول نہیں کرتا جو اس عمل میں سے اس نے میرے لیے کیا ہے، کیونکہ اس میں دوسرا بھی حصے دار ہوتا ہے، تو میں اپنا حصہ بھی چھوڑ کر اسی کو دے دیتا ہوں، اب وہ اس کا اجر اسی سے لے، میں تو صرف وہ عمل قبول کرتا ہوں جو سارے کا سارا میرے لیے ہو، کسی دوسرے کا اس میں حصہ نہ ہو۔ جندب (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : ( مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللّٰہُ بِہِ ، وَ مَنْ یُرَاءِيْ یُرَاءِيْ اللّٰہُ بِہِ ) ” جو شخص سنانے (شہرت) کی خاطر عمل کرے اللہ تعالیٰ (اس کی بدنیتی) سب کو سنا دے گا اور جو لوگوں کو دکھانے کے لیے کوئی کام کرے گا اللہ تعالیٰ اسے سب لوگوں کو دکھلا دے گا۔ “ [ بخاری، الرقاق، باب الریاء والسمعۃ : ٦٤٩٩ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل :- سورة کہف کی آخری آیت میں (آیت) وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا کا شان نزول جو روایات حدیث میں مذکور ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں شرک سے مراد شرک خفی یعنی ریاء ہے۔- امام حاکم نے مستدرک میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے یہ روایت نقل کی ہے اور اس کو صحیح علی شرط الشیخین فرمایا ہے روایت یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرتا تھا اس کے ساتھ اس کی یہ خواہش بھی تھی کہ لوگوں میں اس کی بہادری اور غازیانہ عمل پہچانا جائے اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی (جس سے معلوم ہوا کہ جہاد میں ایسی نیت کرنے سے جہاد کا ثواب نہیں ملتا)- اور ابن ابی حاتم اور ابن دنیا نے کتاب الاخلاص میں طاؤس سے نقل کیا ہے کہ ایک صحابی نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا کہ میں بعض اوقات کسی نیک کام کے لئے یا عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور میرا قصد اس سے اللہ تعالیٰ ہی کی رضا ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ دل میں یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ لوگ میرے عمل کو دیکھیں آپ نے یہ سن کر سکوت فرمایا یہاں تک کہ یہ آیت مذکورہ نازل ہوئی۔- اور ابو نعیم اور تاریخ ابن عساکر میں بروایت ابن عباس (رض) لکھا ہے کہ جندب بن زہیر (رض) صحابی جب نماز پڑھتے یا روزہ رکھتے یا صدقہ کرتے پھر دیکھتے کہ لوگ ان اعمال سے انکی تعریف وثناء کر رہے ہیں تو اس سے ان کو خوشی ہوتی اور اپنے اس عمل کو اور زیادہ کردیتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔- خلاصہ ان تمام روایات کا یہی ہے کہ اس آیت میں جس شرک سے منع کیا گیا ہے وہ ریاء کاری کا شرک خفی ہے اور یہ کہ عمل اگرچہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو مگر اس کے ساتھ کوئی نفسانی غرض شہرت و وجاہت کی بھی شامل ہو تو یہ بھی ایک قسم کا شرک خفی ہے جو انسان کے عمل کو ضائع بلکہ مضرت رسان بنا دیتا ہے۔- لیکن بعض دوسری احادیث صحیحہ سے بظاہر اس کے خلاف معلوم ہوتا ہے مثلا ترمذی نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میں بعض اوقات اپنے گھر کے اندر اپنے جائے نماز پر (نماز میں مشغول) ہوتا ہوں اچانک کوئی آدمی آجائے تو مجھے یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے مجھے اس حال میں دیکھا (تو کیا یہ ریاء ہوگئی) رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابوہریرہ (رض) خدا تعالیٰ تم پر رحمت فرمائے تمہیں اس وقت دو اجر ملتے ہیں ایک خفیہ عمل کا جو پہلے سے کر رہے تھے دوسرا اعلانیہ عمل کا جو اس آدمی کے آجانے کے بعد ہوگیا (یہ ریاء نہیں)- اور صحیح مسلم میں حضرت ابوذر غفاری (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ ایسے شخص کے بارے میں فرمائیے کہ جو کوئی نیک عمل کرتا ہے پھر لوگوں کو سنے کہ وہ اس عمل کی تعریف و مدح کر رہے ہیں ؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تلک عاجل بشری المؤ من یعنی یہ تو مومن کے لئے نقد بشارت ہے (کہ اس کا عمل اللہ کے نزدیک قبول ہوا اس نے اپنے بندوں کی زبانوں سے اس کی تعریف کرادی)- تفسیر مظہری میں ان دونوں قسم کی روایتوں میں جو بظاہر اختلاف نظر آتا ہے اس کی تطبیق اس طرح فرمائی ہے کہ پہلی روایات جن کے بارے میں آیت نازل ہوئی اس صورت میں ہیں جب کہ انسان اپنے عمل سے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے ساتھ مخلوق کی رضا جوئی یا اپنی شہرت ووجاہت کی نیت کو بھی شریک کرے یہاں تک کہ لوگوں کی تعریف کرنے پر اپنے اس عمل کو اور بڑھاوے یہ بلاشبہ ریاء اور شرک خفی ہے۔- اور بعد کی روایات ترمذی اور مسلم کی اس صورت سے متعلق ہیں جبکہ اس نے عمل خالص اللہ کے لئے کیا ہو لوگوں میں اس کی شہرت یا ان کی مدح وثناء کی طرف کوئی التفات نہ ہو پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو مشہور کردیں اور لوگوں کی زبانوں پر اس کی تعریف جاری فرمادیں تو اس کا ریا سے کوئی تعلق نہیں یہ مومن کے لئے نقد بشارت (قبول عمل کی) ہے۔- ر - یاء کاری کے نتائج بد اور اس پر حدیث کی وعید شدید :- حضرت محمود بن لیبد فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں تمہارے بارے میں جس چیز پر سب سے زیادہ خوف رکھتا ہوں وہ شرک اصغر ہے صحابہ کرام (رض) اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہ شرک اصغر کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ ریاء (رواہ احمد فی مسندہ)- اور بیہقی نے شعب الایمان میں اس حدیث کو نقل کرکے اس میں یہ زیادتی بھی نقل کی ہے کہ قیامت کے روز جب اللہ تعالیٰ بندوں کے اعمال کی جزاء عطا فرمائیں گے تو ریاکار لوگوں سے فرمادیں گے کہ تم اپنے عمل کی جزاء لینے کے لئے ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کو دکھانے کے لئے تم نے یہ عمل کیا تھا پھر دیکھو کہ ان کے پاس تمہارے لئے کوئی جزا ہے یا نہیں۔- اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں شرکاء میں شریک ہونے سے غنی اور بالا تر ہوں جو شخص کوئی عمل نیک کرتا ہے پھر اس میں میرے ساتھ کسی کو بھی شریک کردیتا ہے تو وہ سارا عمل اسی شریک کے لئے چھوڑ دیتا ہوں ایک روایت میں ہے کہ میں اس عمل سے بری ہوں اس کو تو خالص اسی شخص کا کردیتا ہوں جس کو میرے ساتھ شریک کیا تھا (رواہ مسلم)- اور حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اپنے نیک عمل کو لوگوں میں شہرت کے لئے کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ فرماتے ہیں کہ لوگوں میں وہ حقیر و ذلیل ہوجاتا ہے (رواہ احمد والبیہقی فی شعب الایمان از تفسیر مظہری) - تفسیر قرطبی میں ہے کہ حضرت حسن بصری سے اخلاص اور ریاء کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اخلاص کا تقاضا یہ ہے کہ تمہیں اپنے نیک اور اچھے اعمال کا پوشیدہ رہنا محبوب ہو اور برے اعمال کا پوشید رہنا محبوب نہ ہو پھر اگر اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال لوگوں پر ظاہر فرما دیں تو تم یہ کہو کہ یا اللہ یہ سب آپ کا فضل ہے احسان ہے میرے عمل اور کوشش کا اثر نہیں۔- اور حکیم ترمذی نے صدیق اکبر (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مرتبہ شرک کا ذکر فرمایا کہ ھو فیکم اخفی من دبیب النمل یعنی شرک تمہارے اندر ایسے مخفی انداز سے آجاتا ہے جیسے چیونٹی کی رفتار بےآواز اور فرمایا کہ میں تمہیں ایک ایسا کام بتلاتا ہوں کہ جب تم وہ کام کرلو تو شرک اکبر اور شرک اصغر (یعنی ریاء) سب سے محفوظ ہوجاؤ تم تین مرتبہ روزانہ یہ دعاء کیا کرو۔ اللہم انی اعوذبک ان اشرک بک وانا اعلم واستغفرک لما لا اعلم۔- سورة کہف کے بعض فضائل اور خواص :- حضرت ابو الدرداء (رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے سورة کہف کی پہلی دس آیتیں یاد رکھیں وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا (رواہ مسلم واحمد وابو داؤد والنسائی)- اور امام احمد مسلم اور نسائی نے حضرت ابوالدرداء (رض) سے ہی اس روایت میں یہ الفاظ نقل کئے ہیں کہ جس شخص نے سورة کہف کی آخری دس آیتیں یاد رکھیں وہ فتنہ دجال سے محفوظ رہے گا - حضرت انس (رض) کی روایت یہ ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے سورة کہف کی ابتدائی اور آخری آیتیں پڑھ لیں تو اس کے لئے ایک نور ہوجائے گا اس کے قدم سے لے کر سر تک اور جس نے یہ سورة پوری پڑھی اس کے لئے نور ہوگا زمین سے آسمان تک (اخرجہ ابن السنی واحمد فی مسندہ) - اور حضرت ابو سعید (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص نے جمعہ کے روز سورة کہف پوری پڑھ لی تو دوسری جمعہ تک اس کے لئے نور ہوجائے گا (رواہ الحاکم وصححہ والبیہقی فی الدعوات) ازمظہری - اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے ایک شخص نے کہا کہ میں دل میں ارادہ کرتا ہوں کہ آخرت رات میں بیدار ہو کر نماز پڑھوں مگر نیند غالب آجاتی ہے آپ نے فرمایا کہ جب تم سونے کے لئے بستر پر جاؤ تو سورة کہف کی آخری آیتیں قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا سے آخر سورت تک پڑھ لیا کرو تو جس وقت بیدار ہونے کی نیت کروگے اللہ تمہیں اسی وقت بیدار کردیں گے (رواہ الثعلبی) - اور مسند دارمی میں ہے کہ زربن حبیش نے حضرت عبدہ کو بتلایا کہ جو آدھی سورة کہف کی یہ آخری آیتیں پڑھ کر سوئے گا تو جس وقت بیدار ہونے کی نیت کرے گا اسی وقت بیدار ہوجائے گا عبدہ کہتے ہیں کہ ہم نے بارہا اس کا تجربہ کیا بالکل ایسا ہی ہوتا ہے۔- اہم نصیحت :- ابن عربی فرماتے ہیں کہ ہمارے شیخ طرطوشی فرمایا کرتے تھے کہ تمہاری عمر عزیز کے اوقات اپنے ہم عصروں سے مقابلے اور دوستوں سے میل جول ہی میں نہ گذرجائیں دیکھو اللہ تعالیٰ نے اپنے بیان کو اس آیت پر ختم فرمایا ہے (آیت) فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا یعنی جو شخص اپنے رب سے ملنے کی آرزو رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ عمل نیک کرے اور اللہ کی عبادت میں کسی کو حصہ دار نہ بنائے (قرطبی) - الحمد للہ حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ آج ٨ ذیقعدہ ١٣٩٠ ھ بروز جمعرات بوقت ضحی سورة کہف کی یہ تفسیر مکمل ہوئی اور اللہ کا فضل و انعام ہی ہے کہ اس وقت قرآن کریم کا نصف اول سے کچھ زائد پورا ہوگیا جبکہ عمر کا چہترواں سال چل رہا ہے اور ضعف طبعی کے ساتھ دو سال سے مختلف امراض نے بھی گھیرا ہوا ہے اور افکار کا ہجوم بھی غیر معمولی ہے کچھ عجب نہیں کہ حق تعالیٰ اپنے فضل سے باقی قرآن کی بھی تکمیل کرادیں وما ذلک علی اللہ بعزیز - چلد پیجنم تمام شد :

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوْحٰٓى اِلَيَّ اَنَّمَآ اِلٰـــہُكُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۝ ٠ۚ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّہٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا۝ ١١٠ۧ- بشر - وخصّ في القرآن کلّ موضع اعتبر من الإنسان جثته وظاهره بلفظ البشر، نحو : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] ،- ( ب ش ر ) البشر - اور قرآن میں جہاں کہیں انسان کی جسمانی بناوٹ اور ظاہری جسم کا لحاظ کیا ہے تو ایسے موقع پر خاص کر اسے بشر کہا گیا ہے جیسے فرمایا : وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْماءِ بَشَراً [ الفرقان 54] اور وہی تو ہے جس نے پانی سے آدمی پیدا کیا ۔ إِنِّي خالِقٌ بَشَراً مِنْ طِينٍ [ ص 71] کہ میں مٹی سے انسان بنانے والا ہوں ۔ - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔- رَّجَاءُ- ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد :- إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عوامل - ووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] ، وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] ، وأَرْجَتِ النّاقة : دنا نتاجها، وحقیقته : جعلت لصاحبها رجاء في نفسها بقرب نتاجها . والْأُرْجُوَانَ : لون أحمر يفرّح تفریح الرّجاء .- اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] اور کچھ اور لوگ ہیں کہ حکم خدا کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے ۔ ارجت الناقۃ اونٹنی کی ولادت کا وقت قریب آگیا ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اونٹنی نے اپنے مالک کو قرب ولادت کی امید دلائی ۔ الارجون ایک قسم کا سرخ رنگ جو رجاء کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے ۔- لقی - اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] - ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١٠) اور آپ ان سے فرما دیجیے کہ میں تم ہی جیسا آدمی ہوں میرے پاس بذریعہ جبریل امین (علیہ السلام) یہ وحی آئی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے جس کا کوئی شریک نہیں سو جس شخص کو مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کو منہ دکھانے کا ڈر ہو وہ خلوص کے ساتھ نیک اعمال کرے اور اپنے رب کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرے یہ آیت کریمہ جندب بن زہیر عامری کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ فمن کان یرجوا لقآء ربہ “۔ (الخ)- ابن ابی حاتم (رح) اور ابن ابی الدنیا (رح) نے ” کتاب الاخلاص “ میں طاؤس سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے اعمال کرتا ہوں اور مجھے اس بات کی تمنا ہے کہ میرا ٹھکانا دکھادیا جائے، آپ نے اس کو کوئی جواب نہیں یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی یعنی سو جو شخص اپنے رب سے ملنے کی آرزو رکھے، وہ نیک کام کرتا رہے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے یہ روایت مرسل ہے اور امام حاکم نے اسی روایت کو متدرک میں بواسطہ طاؤس حضرت ابن عباس (رض) سے موصولا شرط شیخین پر روایت کیا ہے اور ابن ابی حاتم (رح) نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں میں جہاد کرتا تھا اور اسے اس بات کی خواہش تھی کہ اس کا ٹھکانا دکھا دیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- اور ابو نعیم (رح) اور ابن عساکر (رح) نے اپنی تاریخ میں بواسطہ سدی صغیر (رح)، کلبی (رح)، ابو صالح (رح)، ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جندب بن زبیر نے کہا کہ جب آدمی نماز پڑھے یا روزہ رکھے یا کوئی صدقہ و خیرات کرے اور اس پر اس کی تعریف کی جائے اور پھر وہ لوگوں کی اس تعریف سے اپنی نیکیوں میں اضافہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی جو شخص اپنے رب سے ملنے کی آزور رکھے وہ نیک کام کرتا رہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(فَمَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَاۗءَ رَبِّهٖ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًا)- یعنی عبادت خالص اللہ کی ہو۔ یہ توحید عملی ہے۔ اس بارے میں سورة بنی اسرائیل آیت ٢٣ میں یوں فرمایا گیا ہے : (وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْٓا الآَّ اِیَّاہُ ) ” اور فیصلہ کردیا ہے آپ کے رب نے کہ تم لوگ نہیں عبادت کرو گے کسی کی سوائے اس کے “۔ سورة الکہف کی اس آخری آیت اور سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت کا بھی آپس میں معنوی ربط وتعلق ہے۔ موازنہ کے لیے سورة بنی اسرائیل کی آیت ملاحظہ کیجیے : (وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْْمُلْکِ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَکَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا) ” اور کہہ دیجیے کہ کل حمد اور کل شکر اللہ کے لیے ہے جس نے نہیں بنائی کوئی اولاد اور نہیں ہے اس کا کوئی شریک بادشاہی میں اور نہ ہی اس کا کوئی دوست ہے کمزوری کی وجہ سے اور اس کی تکبیر کرو جیسے کہ تکبیر کرنے کا حق ہے “۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کا بلند مقام اور اس کی شان بیان کر کے شرک کی نفی کی گئی ہے۔ در اصل اللہ کے ساتھ شرک کی دو صورتیں ہیں۔ یا تو اللہ کو مرتبہ الوہیت سے نیچے اتار کر مخلوقات کے ساتھ کھڑا کردیا جاتا ہے یا پھر مخلوقات کی صف میں سے کسی کو اٹھا کر اللہ کے برابر بٹھا دیا جاتا ہے۔ چناچہ سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت میں اللہ کی کبریائی کا اعلان کرنے کا حکم دے کر شرک کی پہلی صورت کا ابطال کیا گیا ہے جبکہ سورة الکہف کی آخری آیت میں شرک کی دوسری صورت یعنی مخلوقات میں سے کسی کو اللہ کے برابر کرنے کی نفی کی گئی ہے۔ - دیکھا جائے تو اللہ کی مخلوق میں سے اس کے شریک بنانے کی روایت ہر زمانے میں رہی ہے۔ عیسائیوں نے حضرت مسیح کو خدا کا درجہ دے دیا اور اہل عرب نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دے دیا۔ ہمارے ہاں بھی بعض لوگوں نے حضور کو (نعوذ باللہ) خدا بنا دیا : - وہی جو مستوئ عرش تھا خدا ہو کر - اُتر پڑا وہ مدینے میں مصطفیٰ ہو کر - اور کسی نے حضرت علی کو خدا کی ذات سے ملا دیا :- ہر چند علی کی ذات نہیں ہے خدا کی ذات - لیکن نہیں ہے ذات خدا سے جدا علی - اور مرزا غالب تو اس سلسلے میں یہاں تک کہہ گئے :- غالب ندیم دوست سے آتی ہے بوئے دوست - مشغولِ حق ہوں بندگی بو تراب میں - یعنی جب میں ابو تراب (حضرت علی) کی بندگی کرتا ہوں تو درحقیقت اللہ ہی کی بندگی کر رہا ہوتا ہوں۔ اسی طرح آغا خانیوں کے ہاں حضرت علی کو ” دشم اوتار “ قرار دیا گیا۔ ہندوؤں کے ہاں نو (٩) اوتار تسلیم کیے جاتے تھے ‘ انہوں نے حضرت علی کو ” دسواں اوتار “ مان لیا۔ اعاذنا اللّٰہ من ذٰلک - بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذِّکر الحکیم

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani