Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 یعنی ہجرت کرنے کی وجہ سے اپنے خویش و اقارب کی جدائی اور عیش و راحت کی زندگی سے محرومی کا جو صدمہ انھیں اٹھانا پڑا، ہم نے ان کے دل کو مضبوط کردیا تاکہ وہ صدمات کو برداشت کرلیں۔ نیز حق گوئی کا فریضہ بھی جرأت اور حوصلے سے ادا کرسکیں۔ 14۔ 2 اس قیام سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک وہ طلبی ہے، جو بادشاہ کے دربار میں ان کی ہوئی اور بادشاہ کے سامنے کھڑے ہو کر انہوں نے توحید کا وعظ بیان کیا، بعض کہتے ہیں کہ شہر سے باہر آپس میں ہی کھڑے، ایک دوسرے کو توحید کی بات سنائی، جو فرداً فرداً اللہ کی طرف سے ان کے دلوں میں ڈالی گئی اور یوں اہل توحید باہم اکٹھے ہوگئے۔ 14۔ 3 شططا کے معنی جھوٹ کے یا حد سے تجاوز کرنے کے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَّرَبَطْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْ : ” رَبْطٌ“ کا معنی باندھنا ہے، یعنی بادشاہ اور قوم کے ڈر سے جس گھبراہٹ اور پریشانی کا خطرہ تھا اس سے بچانے کے لیے ہم نے ان کے دلوں پر بند باندھ دیا، جس سے وہ مضبوط ہوگئے، جس طرح بکھری ہوئی چیزیں گٹھڑی میں ڈال کر ان کو گرہ لگا کر مضبوطی سے باندھ دیا جائے تو وہ بکھرنے سے بچ جاتی ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ان کے دلوں پر بند باندھ دینے سے وہ حق گوئی کے وقت ہر قسم کے خوف سے محفوظ ہوگئے۔ - اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔۔ : یعنی جب وہ بادشاہ کے سامنے اس کے بھرے دربار میں کھڑے ہوئے اور انھوں نے صاف اعلان کردیا کہ ہم نہ بادشاہ کو اپنا رب مانتے ہیں نہ تمہارے بتوں کو، بلکہ ان سے ہزاروں لاکھوں سال پہلے موجود آسمانوں اور زمین کے رب کو اپنا رب مانتے ہیں۔ یہ توحید ربوبیت کا اعلان تھا کہ رب صرف ایک ہے۔ ” اور ہم اس کے سوا کسی معبود کو ہرگز نہ پکاریں گے “ یہ توحید الوہیت کا اعلان ہے کہ ہم عبادت بھی صرف اسی کی کریں گے، اسی سے دعا، اسی سے امید اور اسی سے خوف رکھیں گے۔ اگر ہم بادشاہ کو یا اس کے بتوں کو رب یا معبود مانیں تو اس وقت ہم بہت بڑی زیادتی کی بات کہیں گے۔ ” شَطَطًا “ پر تنوین تعظیم کی ہے، کیونکہ شرک سے بڑھ کر نہ کوئی ظلم ہے نہ زیادتی۔ گویا یہ آیت اور سورة لقمان (١٣) میں لقمان (علیہ السلام) کا قول : (ڼ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ ) ہم معنی ہیں۔ ” اِذْ قَامُوْا “ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ جب انھوں نے اپنی قوم کے باطل عقائد و اعمال چھوڑنے کا پختہ عزم کرلیا اور توحید کی دعوت لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور وہ تقریر کی جو آگے مذکور ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

وَرَبَطْنَا عَلٰي قُلُوْبِهِمْ ابن کثیر کے حوالے سے جو واقعہ کی صورت اوپر بیان کی گئی ہے اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کی طرف سے ان کے دلوں کو مضبوط کردینے کا واقعہ اس وقت ہوا جب کہ بت پرست ظالم بادشاہ نے ان نوجوانوں کو اپنے دربار میں حاضر کر کے سوالات کئے اس موت وحیات کی کش مکش اور قتل کے خوف کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اپنی محبت اور ہیبت و عظمت ایسی مسلط کردی کہ اس کے مقابلے میں قتل و موت اور ہر مصیبت کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو کر اپنے عقیدے کا صاف صاف اظہار کردیا، کہ وہ اللہ کے سوا کسی معبود کی عبادت نہیں کرتے اور آئندہ بھی نہ کریں گیں، جو لوگ اللہ کے لئے کسی کام کا عزم پختہ کرلیتے ہیں تو حق تعالیٰ کی طرف سے ان کی ایسی ہی امداد ہوا کرتی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَّرَبَطْنَا عَلٰي قُلُوْبِہِمْ اِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَا۟ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰـہًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا۝ ١٤- ربط - رَبْطُ الفرس : شدّه بالمکان للحفظ، ومنه : رِبَاطُ الخیل «3» ، وسمّي المکان الذي يخصّ بإقامة حفظة فيه : رباطا، والرِّبَاط مصدر رَبَطْتُ ورَابَطْتُ ، والمُرَابَطَة کالمحافظة، قال اللہ تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ [ الأنفال 60] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصابِرُوا وَرابِطُوا[ آل عمران 200] ، فالمرابطة ضربان : مرابطة في ثغور المسلمین، وهي کمرابطة النّفس البدن، فإنها كمن أقيم في ثغر وفوّض إليه مراعاته، فيحتاج أن يراعيه غير مخلّ به، وذلک کالمجاهدة وقد قال عليه السلام : «من الرِّبَاطِ انتظار الصّلاة بعد الصّلاة» «1» ، وفلان رَابِطُ الجأش : إذا قوي قلبه، وقوله تعالی: وَرَبَطْنا عَلى قُلُوبِهِمْ- [ الكهف 14] ، وقوله : لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص 10] ، وَلِيَرْبِطَ عَلى قُلُوبِكُمْ- [ الأنفال 11] ، فذلک إشارة إلى نحو قوله : هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 4] ، وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ [ المجادلة 22] ، فإنّه لم تکن أفئدتهم كما قال : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] ، وبنحو هذا النّظر قيل : فلان رابط الجأش .- ( ر ب ط )- ربط الفرس کے معنی گھوڑے کو کسی جگہ پر حفاظت کے لئے باندھ دینے کے ہیں اور اسی سے رباط الجیش ہے یعنی فوج کا کسی جگہ پر متعین کرنا اور وہ مقام جہاں حفاظتی دستے متعین رہتے ہوں اسے رباط کہا جاتا ہے ۔ اور ربطت ورابطت کا مصدر بھی رباط آتا ہے اور مرابطۃ کے معنی حفاظت کے ہیں ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ [ الأنفال 60] اور گھوڑوں کے سرحدوں پر باندھے رکھنے سے جس سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو مرعوب کرو ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصابِرُوا وَرابِطُوا[ آلعمران 200] ان تکلیفوں کو جو راہ خدا میں تم کو پیش آئیں ) برداشت کرو اور ایک دوسرے کو صبر کی ترغیب دو اور دشمن کے مقابلے کے لئے تیار رہو ۔ پس معلوم ہوا کہ مرابطۃ کی دو قسمیں ہیں ایک یہ کہ اسلامی سرحدوں پر دفاع کے لئے پہرہ دینا اور دوسرے نفس کو ناجائز خواہشات سے روکنا اور اس میں کوتاہی نہ کرنا جیسے مجاہدہ نفس کی صورت میں ہوتا ہے اور اس مجاہدہ نفس کا ثواب بھی جہاد فی سبیل اللہ کے برا بر ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے «من الرِّبَاطِ انتظار الصّلاة بعد الصّلاة» کہ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا بھی رباط ہے ۔ فلان رَابِطُ الجأش ۔ فلاں مضبوط دل ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص 10] اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کئے رہتے ( تو عجب نہ تھا کہ وہ ہمارا معاملہ ظاہر کردیں ) ۔ وَلِيَرْبِطَ عَلى قُلُوبِكُمْ [ الأنفال 11] تاکہ تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھائے ۔ اور اسی معنی کی طرف دوسرے مقام پر اشارہ فرمایا ہے ۔ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 4] وہ خدا ہی تو تھا جس نے مسلمانوں کے دلوں میں تحمل ڈالا اور اپنے فیضان غیبی سے ان کی تائید کی ۔ اور اپنے فیضان غیبی سے ان کی تائید کی ۔ کیونکہ ان کے دل ایسے نہیں تھے جیسے فرمایا : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل ( ہیں کہ ) ہوا ہوئے چلے جارہے ہیں ۔ اور اسی سے فلان رابط الجأش کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی مضبوط دل شخص کے ہیں ۔- قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- شطط - الشَّطَطُ : الإفراط في البعد . يقال : شَطَّتِ الدّارُ ، وأَشَطَّ ، يقال في المکان، وفي الحکم، وفي السّوم، قال : شطّ المزار بجدوی وانتهى الأمل«1» وعبّر بِالشَّطَطِ عن الجور . قال تعالی: لَقَدْ قُلْنا إِذاً شَطَطاً [ الكهف 14] ، أي : قولا بعیدا عن الحقّ. وشَطُّ النّهر حيث يبعد عن الماء من حافته .- ( ش ط ط ) الشطط ۔- کے معنی حد سے بہت زیادہ تجاوز کرنے کے ہیں جیسے شطت الدار واشط ( گھر کا دور ہونا ) اور یہ کسی مقام یا حکم یا نرخ میں حد مقررہ سے تجاوز کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے : ( البسیط ) یعنی حذوی ( محبوبہ ) کی زیارت مشکل ہوگئی اور ہر قسم کی امیدیں منقطع ہوگئیں ۔ اور کبھی شطط بمعنی جور بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ لَقَدْ قُلْنا إِذاً شَطَطاً [ الكهف 14] تو ہم نے بعید از عقل بات کہی ۔ شط النھر ۔ دریا کا کنارا جہاں سے پانی دور ہو

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٤) اور ہم نے ان کے دلوں کو ایمان کے ساتھ مضبوط کردیا تھا یا یہ کہ ہم نے ان کو صبر وثابت قدمی کی توفیق عطا فرمائی تھی وہ دقیانوس کافر بادشاہ کے پاس سے کھڑے ہوتے ہوئے کہنے لگے کہ ہم تو اللہ کو چھوڑ کر کسی معبود کی عبادت نہیں کریں گے ایسی صورت میں ہم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والوں میں سے ہوجائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَا۟ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِلٰـهًا لَّقَدْ قُلْنَآ اِذًا شَطَطًا)- جس طرح حضرت ابراہیم نے نمرود کے دربار میں ڈٹ کر حق بات کہی تھی ویسے ہی ان نوجوانوں نے بھی علی الاعلان کہا کہ ہم رب کائنات کو چھوڑ کر کسی دیوی یا دیوتا کو اپنا رب ماننے کو تیار نہیں ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: ابن کثیر کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بادشاہ کو ان کے عقیدے کا پتہ لگا تو اس نے انہیں اپنے دربار میں طلب کرلیا، اور ان سے ان کے عقیدے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بڑی بے باکی سے توحید کا عقیدہ بیان کیا جس کا آگے ذکر آرہا ہے دل کی اسی مضبوطی کا حوالہ اس آیت میں دیا گیا ہے۔