Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

موت کے بعد زندگی ارشاد ہوتا ہے کہ جیسے ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے انہیں سلا دیا تھا ، اسی طرح اپنی قدت سے انہیں جگا دیا ۔ تین سو نو سال تک سوتے رہے لیکن جب جاگے بالکل ویسے ہی تھے ۔ جیسے سوتے وقت تھے ، بدن بال کھال سب اصلی حالت میں تھے ۔ بس جیسے سوتے وقت تھے ویسے ہی اب بھی تھے ۔ کسی قسم کا کوئی تغیر نہ تھا آپس میں کہنے لگے کہ کیوں جی ہم کتنی مدت سوتے رہے ؟ تو جواب ملا کہ ایک دن بلکہ اس سے بھی کم کیونکہ صبح کے وقت یہ سو گئے تھے اور اس وقت شام کا وقت تھا اس لئے انہیں یہی خیال ہوا ۔ لیکن پھر خود انہیں خیال ہوا کہ ایسا تو نہیں اس لئے انہوں نے ذہن لڑانا چھوڑ دیا اور فیصلہ کن بات کہہ دی کہ اس کا صحیح علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے ۔ اب چونکہ بھوک پیاس معلوم ہو رہی تھی اس لئے انہوں نے بازار سے سودا منگوانے کی تجویز کی ۔ دام ان کے پاس تھے ۔ جن میں سے کچھ راہ اللہ خرچ کئے تھے ۔ کچھ موجود تھے ۔ کہنے لگے کہ اسی شہر میں کسی کو دام دے کر بھیج دو ، وہ وہاں سے کوئی پاکیزہ چیز کھانے پینے کی لائے یعنی عمدہ اور بہتر چیز جیسے آیت ( وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ مَا زَكٰي مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا ۙ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ 21؀ ) 24- النور:21 ) یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی پاک نہ ہوتا اور آیت میں ہے ( قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى 14۝ۙ ) 87- الأعلى:14 ) وہ فلاح پا گیا جس نے پاکیزگی کی ۔ زکوٰۃ کو بھی زکوٰۃ اسی لئے کا جاتا ہے کہ وہ مال کو طیب و طاہر کر دیتی ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مراد بہت سارا کھانا لانے سے ہے جیسے کھیتی کے بڑھ جانے کے وقت عرب کہتے ہیں زکا الزرع اور جیسے شاعر کا قول ہے قبائلنا سبع وانتم ثلاثۃ واسبع ازکی من ثلاث والطیب پس یہاں بھی یہ لفظ زیادتی اور کثرت کے معنی میں ہے لیکن پہلا قول ہی صحیح ہے اس لئے کہ اصحاب کہف کا مقصد اس قول سے حلال چیز کا لانا تھا ۔ خواہ وہ زیادہ ہو یا کم ۔ کہتے ہیں کہ جانے والے کو بہت احتیاط برتنی چاہئے ، آنے جانے اور سودا خریدنے میں ہوشیاری سے کام لے جہاں تک ہو سکے لوگوں کی نگاہوں میں نہ چڑھے دیکھو ایسا نہ ہو کوئی معلوم کر لے ۔ اگر انہیں علم ہو گیا تو پھر خیر نہیں ۔ دقیانوس کے آدمی اگر تمہاری جگہ کی خبر پا گئے تو وہ طرح طرح کی سخت سزائیں تمہیں دیں گے یا تو تم ان سے گھبرا کر دین حق چھوڑ کر پھر سے کافر بن جاؤ یا یہ کہ وہ انہی سزاؤں میں تمہارا کام ہی ختم کر دیں ۔ اگر تم ان کے دین میں جا ملے تو سمجھ لو کہ تم نجات سے دست بردار ہو گئے پھر تو اللہ کے ہاں کا چھٹکارا تمہارے لئے محال ہو جائے گا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

19۔ 1 یعنی جس طرح ہم نے انھیں اپنی قدرت سے سلا دیا تھا، اسی طرح تین سو نو سال کے بعد ہم نے انھیں اٹھا دیا اور اس حال میں اٹھایا کہ ان کے جسم اسی طرح صحیح تھے، جس طرح تین سو سال قبل سوتے وقت تھے، اسی لئے آپس میں ایک دوسرے سے انہوں نے سوال کیا۔ 19۔ 2 گویا جس وقت وہ غار میں داخل ہوئے، صبح کا پہلا پہر تھا اور جب بیدار ہوئے تو دن کا آخری پہر تھا، یوں وہ سمجھے کہ شاید ہم ایک دن یا اس سے بھی کم، دن کا کچھ حصہ سوئے رہے۔ 19۔ 3 تاہم کثرت نوم کی وجہ سے وہ سخت تردد میں رہے اور بالآخر معاملہ اللہ کے سپرد کردیا کہ وہی صحیح مدت جانتا ہے۔ 19۔ 4 بیدار ہونے کے بعد، خوراک جو انسان کی سب سے اہم ضرورت ہے، اس کا سر و سامان کرنے کی فکر لاحق ہوئی۔ 19۔ 5 احتیاط اور نرمی کی تاکید اسی اندیشے کے پیش نظر کی، جس کی وجہ سے وہ شہر سے نکل کر ایک ویرانے میں آئے تھے۔ اسے تاکید کی کہ کہیں اس کے روپے سے شہر والوں کو ہمارا علم نہ ہوجائے اور کوئی نئی افتاد ہم پر نہ آپڑے، جیسا کہ اگلی آیت میں ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨] طویل نیند کے بعد بیداری کھانے کی فکر اور ایک آدمی کو شہر بھیجنا :۔ جس طرح ہم نے مشکل وقت میں ان پر ایک طویل عرصہ کے لیے نیند طاری کی تھی۔ اسی طرح جب حالات ان کے حق میں ساز گار ہوئے تو انھیں جگا بھی دیا جاگنے پر سب سے پہلا سوال جو ان کے ذہن میں آیا یہ تھا کہ ہم کتنا عرصہ سوئے رہے انہوں نے اس عرصہ کو عام حالات پر قیاس کیا کہ انسان خواہ کتنا ہی تھکا ماندہ ہو ایک دن سے زیادہ سو نہیں سکتا اور عام حالات میں یہی کوئی آٹھ نو گھنٹے سو لیتا ہے۔ لہذا کسی نے کہا کہ ہم دن بھر سوئے رہے ہیں اور کسی نے کہا اتنا کب سوئے ہیں بس کوئی چند گھنٹے ہی سوئے ہوں گے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آخر اس بحث کا کوئی فائدہ بھی ہے ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے کہ ہم اس مدت کی صحیح تعیین کرسکیں یہ بات اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور اب جو کرنے کا کام ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں بھوک ستا رہی ہے لہذا کھانا لانے کے لیے کسی کو شہربھیجو جو کسی صفائی اور پاکیزگی کا خیال رکھنے والے دکاندار سے کھانا لائے اور جو شخص بھی شہر جائے وہ بھیس بدل کر جائے اور اس سکہ کے بدلے جو کچھ بھی مل سکے وہ لے آئے۔ دکاندار سے کچھ جھگڑا نہ کرے نہ کسی دوسرے آدمی سے کوئی بات یا جھگڑا کرے اور اگر اس نے ایسا نرم رویہ اختیار نہ کیا تو ممکن ہے کہ لوگوں کو ہمارا پتہ چل جائے تو وہ ہمارے لیے کوئی نئی مصیبت کھڑی کردیں گے اور پہلے کی طرح ہمیں بت پرستی پر مجبور کردیں گے یا ہماری جان کے لاگو بن جائیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَكَذٰلِكَ بَعَثْنٰهُمْ ۔۔ : یعنی جیسے ہم نے انھیں ایک حیرت انگیز طریقے سے غار کے اندر سلایا تھا اسی طرح انھیں اٹھا دیا کہ ان کے جسم صحیح سالم تھے، ان میں کوئی تبدیلی نہ آئی تھی، تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے سوال کریں اور جب انھیں پتا چلے کہ وہ اتنی لمبی مدت سونے کے بعد بیدار ہوئے ہیں تو انھیں ہماری قدرت کا اور مردوں کو زندہ کرنے کا اپنی ذات میں عملی مشاہدہ ہوجائے، ان کا ایمان و یقین مزید مضبوط ہوجائے اور وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت پر اس کا شکر ادا کریں۔ - قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۔۔ : حافظ ابن کثیر (رض) نے فرمایا : ” معلوم ہوتا ہے کہ وہ غار میں دن کے پہلے پہر داخل ہوئے تھے اور دن کے آخری حصے میں بیدار ہوئے۔ اس لیے اس سوال کے جواب میں کہ تم کتنی مدت یہاں ٹھہرے، کسی نے ایک دن اور کسی نے دن کا کچھ حصہ کہا، مگر جب غار کے اردگرد کا عالم بالکل ہی بدلا ہوا نظر آیا تو کہنے لگے، تمہارا رب زیادہ جانتا ہے کہ تم کتنی مدت ٹھہرے ہو۔ “- 3 اس آیت سے معلوم ہوا کہ نہ پہلے سوال کرنے والے ولی کو وہاں ٹھہرنے کی مدت کا علم تھا، نہ دوسرے ولیوں کو، جب کہ کئی لوگ اپنے ائمہ اور اولیاء کو ” مَا کَانَ وَمَا یَکُوْنُ “ (جو ہوچکا اور جو ہوگا) کا جاننے والا سمجھتے ہیں۔ - 3 یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کے نیک بندے بھی بعض اوقات اندازے اور گمان سے کوئی بات کہہ دیتے ہیں، مگر ایسی بات میں وہ اصل علم اللہ کے حوالے کرنے سے غفلت نہیں کرتے۔ ۭ فَابْعَثُوْٓا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هٰذِهٖٓ ۔۔ : غار میں ٹھہرنے کی مدت پر بحث کے بعد جب وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو انھوں نے اصل مدت کے اندازے کے لیے اپنے کسی ایک ساتھی کو چاندی (کا سکہ) دے کر شہر بھیجنے کا فیصلہ کیا اور اسے چند باتوں کا خیال رکھنے کی تاکید کی۔ ایک یہ کہ کھانا لاتے وقت یہ دیکھ لے کہ شہر میں سب سے ستھرا کھانا کس کا ہے، اس سے تمہارے لیے کچھ کھانا لے آئے۔ ” اَزْکٰی “ کا معنی سب سے پاکیزہ، سب سے ستھرا ہے، اس میں کھانے کا حلال و طیب ہونا بھی شامل ہے اور سب سے صاف ستھرا ہونا بھی۔ معلوم ہوا کہ یہ نوجوان شہزادے تھے، یا امراء و وزراء کے چشم و چراغ تھے، جو شہر کے سب سے ستھرے ہوٹل سے کم پر راضی نہ تھے۔ دوسری بات یہ کہ نرمی اور باریک بینی کی کوشش کرے، کیونکہ سختی سے کام بگڑ جاتے ہیں اور باریک بینی اختیار نہ کرنے سے راز کھل جاتے ہیں اور مطلوبہ معلومات بھی حاصل نہیں ہوتیں۔ کوشش کا مفہوم ” وَلْيَتَلَطَّفْ “ (باب تفعل) سے ظاہر ہو رہا ہے اور ” لطف “ کے مفہوم میں نرمی اور باریک بینی دونوں شامل ہیں۔ تیسری تاکید یہ کی کہ تمہارے بارے میں کسی کو ہرگز معلوم نہ ہونے دے۔ کیونکہ اگر مشرکین کو تمہارا پتا چل گیا تو وہ تمہیں سنگ سار کردیں گے، یا جبراً تمہیں دوبارہ اپنے مشرکانہ دین میں واپس لے آئیں گے۔ ایسی صورت میں تم کبھی فلاح نہ پا سکو گے، کیونکہ مشرکوں پر اللہ نے جنت حرام کردی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور (جس طرح ہم نے اپنی قدرت کاملہ سے ان کو اتنے زمانہ دراز تک سلایا) اسی طرح (اس طویل نیند کے بعد) ہم نے ان کو جگا دیا تاکہ وہ آپس میں پوچھ پاچھ کریں (تا کہ باہمی سوال و جواب کے بعد ان کو حق تعالیٰ کی قدرت اور حکمت منکشف ہو چنانچہ) ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ ( اس نیند کی حالت میں) تم کس قدر رہے ہو گے (جواب میں) بعض نے کہا کہ (غالبا) ایک دن یا ایک دن سے بھی کچھ کم رہے ہوں گے، دوسرے بعض نے کہا کہ (اس کی تفتیش کی کیا ضرورت ہے) یہ تو (ٹھیک ٹھیک ( تمہارے رب ہی کو خبر ہے کہ تم کس قدر (سوتے) رہے اب ( اس فضول بحث کو چھوڑ کر ضروری کام کرنا چاہئے وہ یہ کہ) اپنے میں سے کسی کو یہ روپیہ (جو کہنے والے کے پاس ہوگا، کیونکہ یہ لوگ کچھ خرچ کے لئے رقم بھی لے کر چلے تھے، غرض کہ کسی کو یہ روپیہ) دے کر شہر کی طرف بھیجو پھر ( وہ وہاں پہنچ کر) تحقیق کرے کہ کونسا کھانا حلال ہے ( اس جگہ لفظ ازکی کی تفسیر بروایت ابن جریر حضرت سعید بن جبیر (رض) سے یہی منقول ہے کہ مراد اس سے حلال کھانا ہے، اور اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ان کی قوم بت پرست بکثرت اپنے بتوں کے نام ذبح کیا کرتی تھی اور بازار میں بکثرت یہی حرام گوشت بکتا تھا) تو وہ اس میں سے تمہارے پاس کچھ کھانا لے آوئے اور کام خوش تدبیری سے کرے (کہ ایسی وضع ہیئت سے جاوے کہ کوئی اس کو پہچانے نہیں اور کھانے کی تحقیق کرنے میں بھی یہ ظاہر نہ ہونے دے کہ بت کے نام کے ذبیحہ کو حرام سمجھتا ہے اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے (کیونکہ) اگر وہ لوگ (یعنی اہل شہر جن کو اپنے خیال میں اپنے زمانے کے مشرکین سمجھے ہوئے تھے) کہیں تمہاری خبر پاجائیں گے تو تم کو یا پتھراؤ کر کے مار ڈالیں گے یا (جبرا) تم کو اپنے مذہب میں پھر داخل کرلیں گے اور ایسا ہوا تو تم کو کبھی فلاح نہ ہوگئی۔- معارف و مسائل :- كَذٰلِكَ یہ لفظ تشبیہ، تمثیل کے لئے ہے، مراد اس جگہ دو واقعوں کی باہم تشبیہ بیان کرنا ہے ایک واقعہ اصحاب کہف کی نوم طویل اور زمانہ دراز تک سونے رہنے کا ہے، جس کا ذکر شروع قصے میں آیا ہے (آیت) فَضَرَبْنَا عَلٰٓي اٰذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِيْنَ عَدَدًا۔ دوسرا واقعہ اس زمانہ دراز کی نیند کے بعد صحیح سالم اور باوجود غذا نہ پہنچنے کے قوی اور تندرست اٹھنے اور بیدار ہونے کا ہے، یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی آیات قدرت ہونے میں متماثل ہیں، اسی لئے اس آیت میں جو ان کے بیدار کرنے کا ذکر فرمایا تو لفظ كَذٰلِكَ اشارہ کردیا کہ جس طرح ان کی نیند عام انسانوں کی عادی نیند کی طرح نہیں تھی، اسی طرح ان کی بیداری بھی عام عادت طبعی سے ممتاز تھی، اور اس کے بعد جو لِيَتَسَاۗءَلُوْا فرمایا جس کے معنی ہیں تاکہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں کہ نیند کتنے زمانے رہی یہ ان کے بیدار کرنے کی علت نہیں، بلکہ عادی طور پر پیش آنے والے ایک واقعہ کا ذکر ہے، اسی لئے اس کے لام کو حضرات مفسرین نے لام عاقبت یا لام صیرورت کا نام دیا ہے (ابوحیان، قرطبی)- خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح ان کی نوم طویل ایک نشانی قدرت کی تھی، اسی طرح سینکڑوں سال کے بعد بغیر کسی غذا کے قوی، تندرست بیدار ہو کر بیٹھ جانا بھی قدرت کاملہ کی نشانی تھی، اور چونکہ قدرت کو یہ بھی منظور تھا کہ خود ان لوگوں پر بھی یہ حقیقت منکشف ہوجائے کہ سینکڑوں برس سوتے رہے تو اس کی ابتداء باہمی سوالات سے ہوئی، اور انتہا اس واقعہ سے ہوئی جس کا ذکر اگلی آیت میں وَكَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا میں آیا ہے کہ شہر کے لوگوں پر ان کا راز کھل گیا، اور تعیین مدت میں اختلاف کے باوجود زمانہ دراز تک غار میں سوتے رہنے کا سب کو یقین ہوگیا۔- قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْهُمْ شروع قصہ میں جو بات اجمالا کہی گئی تھی کہ غار میں رہنے کی مدت کے متعلق باہم اختلاف رائے ہوا ان میں سے ایک جماعت کا قول صحیح تھا یہ اس کی تفصیل ہے کہ اصحاب کہف میں سے ایک شخص نے سوال اٹھایا کہ تم کتنا سوئے ہو، تو بعض نے جواب دیا کہ ایک دن یا دن کا ایک حصہ، کیونکہ یہ لوگ صبح کے وقت غار میں داخل ہوئے تھے، اور بیدار ہونے کا وقت شام کا وقت تھا، اس لئے خیال یہ ہوا کہ یہ وہی دن ہے جس میں ہم غار میں داخل ہوئے تھے، اور سونے کی مدت تقریبا ایک دن ہے، مگر انہی میں سے دوسرے لوگوں کو کچھ احساس ہوا کہ شاید یہ وہ دن نہیں جس میں داخل ہوئے تھے، پھر معلوم نہیں کتنے دن ہوگئے، اس لئے اس کے علم کو حوالہ بخدا کیا، قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ اور اس بحث کو غیر ضروری سمجھ کر اصل کام کی طرف توجہ دلائی کہ شہر سے کچھ لانے کے لئے ایک آدمی کو بھیج دیا جائے۔- اِلَى الْمَدِيْنَةِ اس لفظ سے اتنا تو ثابت ہوا کہ قریب بڑا شہر تھا، جہاں یہ لوگ رہتے تھے اس شہر کے نام کے متعلق ابوحیان نے تفسیر بحر محیط میں فرمایا کہ جس زمانے میں اصحاب کہف یہاں سے نکلے تھے، اس وقت اس شہر کا نام افسوس تھا، اور اب اس کا نام طرسوس ہے، قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ بت پرستوں کے اس شہر پر غلبہ اور جاہلیت کے زمانے میں اس کا نام افسوس تھا، جب اس زمانے کے مسلمان یعنی مسیحی اس پر غالب آئے تو اس کا نام طرسوس رکھ دیا۔- بِوَرِقِكُمْ سے معلوم ہوا کہ یہ حضرات غار میں آنے کے وقت اپنے ساتھ کچھ رقم روپیہ پیسہ بھی ساتھ لائے تھے، اس سے معلوم ہوا کہ ضروری نفقہ کا اہتمام کرنا زہد و توکل کے خلاف نہیں (بحر محیط)- اَيُّهَآ اَزْكٰى طَعَامًا لفظ ازکی کے لفظی معنی پاک صاف کے ہیں، مراد اس سے حسب تفسیر ابن جبیر حلال کھانا ہے، اور اس کی ضرورت اس لئے محسوس کی کہ جس زمانے میں یہ لوگ شہر سے نکلے تھے وہاں بتوں کے نام کا ذبیحہ ہوتا، اور وہی بازاروں میں فروخت ہوتا تھا، اس لئے جانے والے کو یہ تاکید کی کہ اس کی تحقیق کر کے کھانا لائے کہ یہ کھانا حلال بھی ہے یا نہیں۔- مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ جس شہر یا جس بازار، ہوٹل میں اکثریت حرام کھانے کی ہو وہاں کا کھانا بغیر تحقیق کے کھانا جائز نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ بَعَثْنٰہُمْ لِيَتَسَاۗءَلُوْا بَيْنَہُمْ۝ ٠ۭ قَالَ قَاۗىِٕلٌ مِّنْہُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ۝ ٠ۭ قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ۝ ٠ۭ قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ۝ ٠ۭ فَابْعَثُوْٓا اَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ ہٰذِہٖٓ اِلَى الْمَدِيْنَۃِ فَلْيَنْظُرْ اَيُّہَآ اَزْكٰى طَعَامًا فَلْيَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْہُ وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ اَحَدًا۝ ١٩- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] ،- فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] ، أي : توجههم ومضيّهم .- ( ب ع ث ) البعث - ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے - پس بعث دو قم) پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا - دوم بعث الہی - یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔- يوم - اليَوْمُ يعبّر به عن وقت طلوع الشمس إلى غروبها . وقد يعبّر به عن مدّة من الزمان أيّ مدّة کانت، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] ، - ( ی و م ) الیوم - ( ن ) ی طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کی مدت اور وقت پر بولا جاتا ہے اور عربی زبان میں مطلقا وقت اور زمانہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ خواہ وہ زمانہ ( ایک دن کا ہو یا ایک سال اور صدی کا یا ہزار سال کا ہو ) کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْا مِنْكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 155] جو لوگ تم سے ( احد کے دن ) جب کہہ دوجماعتیں ایک دوسرے سے گتھ ہوگئیں ( جنگ سے بھاگ گئے ۔ - ورق - وَرَقُ الشّجرِ. جمعه : أَوْرَاقٌ ، الواحدة : وَرَقَةٌ. قال تعالی: وَما تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُها [ الأنعام 59] ، ووَرَّقْتُ الشّجرةَ : أخذت وَرَقَهَا، والوَارِقَةُ : الشّجرةُ الخضراءُ الوَرَقِ الحسنةُ ، وعامٌ أَوْرَقُ : لا مطر له، وأَوْرَقَ فلانٌ:إذا أخفق ولم ينل الحاجة، كأنه صار ذا وَرَقٍ بلا ثمر، ألا تری أنه عبّر عن المال بالثّمر في قوله : وَكانَ لَهُ ثَمَرٌ [ الكهف 34] قال ابن عباس - رضي اللہ عنه : هو المال «1» . وباعتبار لونه في حال نضارته قيل : بَعِيرٌ أَوْرَقُ : إذا صار علی لونه، وبعیرٌ أَوْرَقُ : لونه لون الرّماد، وحمامةٌ وَرْقَاءُ. وعبّر به عن المال الکثير تشبيها في الکثرة بالوَرَقِ ، كما عبّر عنه بالثّرى، وکما شبّه بالتّراب وبالسّيل كما يقال : له مال کالتّراب والسّيل والثری، قال الشاعر : واغفر خطایاي وثمّر وَرَقِي«2» والوَرِقُ بالکسر : الدّراهم . قال تعالی: فَابْعَثُوا أَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هذِهِ [ الكهف 19] وقرئ : بِوَرِقِكُمْ «3» و ( بِوِرْقِكُمْ ) «4» ، ويقال : وَرْقٌ ووَرِقٌ ووِرْقٌ ، نحو كَبْد وكَبِد، وكِبْد .- ( و ر ق ) الورق ۔- درخت کے پتے اس کی جمع اوراق اور واحد ورقتہ آتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَما تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُها [ الأنعام 59] اور کوئی پتہ نہیں جھڑ تا مگر وہ اس کو جانتا ہے ۔ اور ورقت الشجرۃ کے معنی درخت کا پتے دار ہونا کے ہیں اور سر سبز خوبصورت پتے دار درخت کو وارقتہ کہا جاتا ہے ۔ عام اورق کے معنی قحط سالی کے ہیں ۔ اور اورق فلان کے معنی ناکام ہونے کے ہیں گویا وہ پتے دار درخت ہے جو بدوں ثمر کے ہے اور اس کے بالمقابل آیت : ۔ وَكانَ لَهُ ثَمَرٌ [ الكهف 34] اور اس کو پیدا وار ( ملتی رہتی) تھی ۔ میں مال کو ثمر کہا ہے جیسا کہ ابن عباس سے مروی ہے اور رنگ کی ترو تازگی کے لحاظ سے خاکستری رنگ کے اونٹ کو بعیر اورق کہا جاتا ہے ۔ اسی طرح حمامتہ ورقاء کا محاورہ ہے جس کے معنی خاکی رنگ کی کبوتری یا فاختہ کے ہیں ۔ اورق ( ایضا ) مال دار ہونا گویا کثرت کے لحاظ گئی ہے جیسا کہ مال کو ثٰری تراب یاسیل کے ساتھ تشبیہ دے کر اس معنی میں کہا جاتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ لہ مال کالتراب اوالسیل اوالترٰی : یعنی وہ بہت زیادہ مالدار ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( الرجز ) ( 447 ) واغفر خطایای وثمرورنی میری خطائیں معاف فرما اور میرا مال بڑھا دے اور الورق ( بکسر الراء ) خصوصیت کے ساتھ دراہم کو کہتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَابْعَثُوا أَحَدَكُمْ بِوَرِقِكُمْ هذِهِ [ الكهف 19] تو اپنے میں سے کسی کو یہ سکہ دے کر شہر بھیجو ۔ ایک قرات میں بورقکم وبورقکم ہے اور یہ ورق وورق دونوں طرح بولاجاتا ہے ۔ جیسے کبد وکبد ۔ - نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا .- والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- زكا - أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة .- يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] ، أي :- مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله :«للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد . - وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان :- أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] .- والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه .- ( زک و ) الزکاۃ - : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔- زكا - أصل الزَّكَاةِ : النّموّ الحاصل عن بركة اللہ تعالی، ويعتبر ذلک بالأمور الدّنيويّة والأخرويّة .- يقال : زَكَا الزّرع يَزْكُو : إذا حصل منه نموّ وبرکة . وقوله : أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] ، إشارة إلى ما يكون حلالا لا يستوخم عقباه، ومنه الزَّكاةُ : لما يخرج الإنسان من حقّ اللہ تعالیٰ إلى الفقراء، وتسمیته بذلک لما يكون فيها من رجاء البرکة، أو لتزکية النّفس، أي : تنمیتها بالخیرات والبرکات، أو لهما جمیعا، فإنّ الخیرین موجودان فيها . وقرن اللہ تعالیٰ الزَّكَاةَ بالصّلاة في القرآن بقوله : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] ، وبِزَكَاءِ النّفس وطهارتها يصير الإنسان بحیث يستحقّ في الدّنيا الأوصاف المحمودة، وفي الآخرة الأجر والمثوبة . وهو أن يتحرّى الإنسان ما فيه تطهيره، وذلک ينسب تارة إلى العبد لکونه مکتسبا لذلک، نحو : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها[ الشمس 9] ، وتارة ينسب إلى اللہ تعالی، لکونه فاعلا لذلک في الحقیقة نحو : بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] ، وتارة إلى النّبيّ لکونه واسطة في وصول ذلک إليهم، نحو : تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] ، يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] ، وتارة إلى العبادة التي هي آلة في ذلك، نحو : وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] ، لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا[ مریم 19] ، أي :- مُزَكًّى بالخلقة، وذلک علی طریق ما ذکرنا من الاجتباء، وهو أن يجعل بعض عباده عالما وطاهر الخلق لا بالتّعلّم والممارسة بل بتوفیق إلهيّ ، كما يكون لجلّ الأنبیاء والرّسل . ويجوز أن يكون تسمیته بالمزکّى لما يكون عليه في الاستقبال لا في الحال، والمعنی: سَيَتَزَكَّى، وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] ، أي : يفعلون ما يفعلون من العبادة ليزكّيهم الله، أو لِيُزَكُّوا أنفسهم، والمعنیان واحد . ولیس قوله :«للزّكاة» مفعولا لقوله : «فاعلون» ، بل اللام فيه للعلة والقصد . - وتَزْكِيَةُ الإنسان نفسه ضربان :- أحدهما : بالفعل، وهو محمود وإليه قصد بقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] ، وقوله : قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى[ الأعلی 14] .- والثاني : بالقول، كتزكية العدل غيره، وذلک مذموم أن يفعل الإنسان بنفسه، وقد نهى اللہ تعالیٰ عنه فقال : فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] ، ونهيه عن ذلک تأديب لقبح مدح الإنسان نفسه عقلا وشرعا، ولهذا قيل لحكيم : ما الذي لا يحسن وإن کان حقّا ؟ فقال : مدح الرّجل نفسه .- ( زک و ) الزکاۃ - : اس کے اصل معنی اس نمو ( افزونی ) کے ہیں جو برکت الہیہ سے حاصل ہو اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی چناچہ کہا جاتا ہے زکا الزرع یزکو کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا اور آیت : ۔ أَيُّها أَزْكى طَعاماً [ الكهف 19] کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے ۔ میں ازکیٰ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو اور اسی سے زکوۃ کا لفظ مشتق ہے یعنی وہ حصہ جو مال سے حق الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے اور اسے زکوۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں نمو ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو ۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نما ز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا : وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ [ البقرة 43] نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو ۔ اور تزکیہ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصاف حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا اور تزکیہ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارت نفس حاصل ہوتی ہے اور فعل تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے جیسے فرمایا : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] کہ جس نے اپنی روح کو پاک کیا ( وہ ضرور اپنی ) مراد کو پہنچا ۔ اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ [ النساء 49] بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے ۔ اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها[ التوبة 103] کہ اس سے تم ان کو ( ظاہر میں بھی ) پاک اور ( باطن میں بھی ) پاکیزہ کرتے ہو ۔ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ [ البقرة 151] وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں بذریعہ تعلیم ( اخلاق رذیلہ ) سے پاک کرتا ہے : ۔ اور کبھی اس کی نسبت عبادت کی طرف ہوتی ہے کیونکہ عبادت تزکیہ کے حاصل کرنے میں بمنزلہ آلہ کے ہے چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً [ مریم 13] اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی ۔ لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا [ مریم 19] تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں یعنی وہ فطرتا پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔ بطریق اجتباء حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنا دیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں بلکہ محض توفیق الہی سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے ۔ اور آیت کے یہ معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا زکیا کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ [ المؤمنون 4] اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں ۔ یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں پاک کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں والما ل واحد ۔ لہذا للزکوۃ میں لام تعلیل کے لیے ہے جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو ۔ انسان کے تزکیہ نفس کی دو صورتیں ہیں ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا یہ طریق محمود ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها [ الشمس 9] اور آیت : ۔ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى [ الأعلی 14] میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں ۔ دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ شخص دوسرے کے اچھے ہونیکی شہادت دیتا ہے ۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے ۔ فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ [ النجم 32] اپنے آپ کو پاک نہ ٹھہراؤ ۔ اور یہ نہی تادیبی ہے کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلا ہی درست ہے اور نہ ہی شرعا ۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا مدح الانسان نفسہ کہ خود ستائی کرنا ۔- طمع - الطَّمَعُ : نزوعُ النّفسِ إلى الشیء شهوةً له، طَمِعْتُ أَطْمَعُ طَمَعاً وطُمَاعِيَةً ، فهو طَمِعٌ وطَامِعٌ.- قال تعالی: إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء 51] ، أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة 75] ، خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف 56] ،- ( ط م ع ) الطمع - کے معنی ہیں نفس انسانی کا کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ میلان ۔ طمع ( س ) طمعا وطماعیۃ کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ مائل ہونا طمع وطامع اس طرح مائل ہونے والا قرآن میں ہے : ۔ - إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء 51] ہمین امید ہے کہ ہمارا خدا ہمارے گناہ بخش دیگا ۔- أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة 75]( مومنوں ) کیا تم آرزو رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے دین کے قائل ہوجائیں گے ۔ خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف 56] وڑانے اور امید دلانے کیلئے - رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - لطف - اللَّطِيفُ إذا وصف به الجسم فضدّ الجثل، وهو الثّقيل، يقال : شعر جثل «1» ، أي : كثير، ويعبّر باللَّطَافَةِ واللُّطْفِ عن الحرکة الخفیفة، وعن تعاطي الأمور الدّقيقة، وقد يعبّر باللَّطَائِفِ عمّا لا تدرکه الحاسة، ويصحّ أن يكون وصف اللہ تعالیٰ به علی هذا الوجه، وأن يكون لمعرفته بدقائق الأمور، وأن يكون لرفقه بالعباد في هدایتهم . قال تعالی: اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ- [ الشوری 19] ، إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف 100] أي : يحسن الاستخراج . تنبيها علی ما أوصل إليه يوسف حيث ألقاه إخوته في الجبّ ، - ( ل ط ف ) اللطیف - ۔ جب یہ کسی جسم کی صفت واقع ہو تو یہ جبل کی ضد ہوتا ہے جس کے معنی بھاری اور ثقیل کے ہیں کہتے ہیں شعر جبل ) یعنی زیادہ اور بھاری بال اور کبھی لطافۃ یا لطف سے خرکت حفیفہ اور دقیق امور کا سر انجام دینا مراد ہوتا ہے اور لطائف سے وہ باتیں مراد لی جاتی ہیں جن کا ادراک انسای حواس نہ کرسکتے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے لطیف ہونے کے معنی یا تو یہ ہیں کہ وہ انسانی حواس کے اور اک سے مافوق اور بالا تر ہے اور یا سے اس لئے لطیف کہا جا تا ہے کہ وہ دقیق امور تک سے واقف ہے اور یا یہ کہ وہ انسانوں کو ہدایت دینے میں نہایت نرم انداز اختیار کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ - اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبادِهِ [ الشوری 19] خدا اپنے بندوں پر مہر بان ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ - إِنَّ رَبِّي لَطِيفٌ لِما يَشاءُ [يوسف 100] بیشک میرا پروردگار جو کچھ چاہتا ہے حسن تدبیر سے کرتا ہے میں لطیف سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کام کو حسن تدبیر سے سر انجام دینا ہے ۔ چناچہ دیکھے کہ یوسف (علیہ السلام) کو ان کے بھائیوں نے کنویں میں ڈال دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف اکرم سے انہیں اس مرتبہ تک پہنچا دیا - شعور - الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا .- شعور - حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

غار میں ان کی مدت قیام - قول باری ہے (قالوا لبثنا یوماً او بعض یوم۔ دوسروں نے کہا شاید دن بھر یا اس سے کچھ کم رہے ہوں گے) جب اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ بات نقل کرتے ہوئے اس کی تردید نہیں کی تو اس سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ انہوں نے ٹھیک ہی کہا تھا اس لئے کہ ان کے اس قول کی بنیاد ان کے اپنے خیال کے مطابق وہ مدت تھی جس میں وہ نماز میں قیام پذیر رہے۔ انہوں نے یہ بات قیام کی حقیقی مدت کے متعلق نہیں کہی تھی کیونکہ یہ مدت تو ان کی نظروں سے اوجھل تھی۔ یہی مفہوم اس قول باری کا ہے (فاما تہ اللہ مائۃ عام ثم بعثہ قال کم لبثت قال لبثت یوماً او بعض یوم۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سو سال تک موت کی حالت میں رکھا پھر اسے زندہ کیا اور پوچھا کتنے عرصے رہے ہو۔ اس نے جواب دیا شاید دن بھر یا اس سے کچھ کم رہا ہوں گا) اللہ تعالیٰ نے اس کے اس قومل کی تردید نہیں کی، اس لئے کہ اس شخص نے اپنے خیال اور اعتقاد کے مطابق بات بیان کی تھی، اس بات کا اظہار نہیں کیا تھا جو اس کی نظروں سے پوشیدہ تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قول بھی اسی مفہوم پر محمول ہے جو آپ نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے کہا تھا (اقتلت نفساً زکیۃ بغیر نفس لقد جبئت شیئاً نکراً ) آپ نے ایک بےگناہ کی جان لے لی حالانکہ اس نے کسی کا خون نہیں کیا تھا یہ کام تو آپ نے بہت ہی برا کیا) نیز فرمایا (لقد حیث شیئاً امراً ۔ یہ تو آپ نے ایک سخت حرکت کر ڈالی) یعنی میرے خیال کے مطابق اسی طرح جب حضرت ذوالیدین نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ آیا نماز مختصر ہوگئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں تو آپ نے جواب میں فرمایا (کل ذلک لم یکن ) ان میں سے کوئی بات نہیں ہوئی)- بنا بریں مناہدئہ سفر جائز ہے - قول باری ہے (فابعثوا بورقکم ھذہ الی المدینۃ فلینظر ایھا ازکی طعاماً فلیاتکم برزق منہ۔ چلو ، اب اپنے میں سے کسی کو چاندی کا یہ سکر دے کہ شہر بھیجیں اور وہ دیکھے کہ سب سے اچھا کھانا کہاں ملتا ہے وہاں سے وہ کچھ کھانے کے لئے لائے) یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کسی جگہ لوگوں کی کوئی جماعت اپنے پیسے یکجا کرلے اور اس سے کھانا وغیرہ منگا کر سب اکٹھے ہو کر وہ کھانا کھالیں تو اس کا جواز ہے خواہ کھاتے وقت ان میں کچھ لوگ دوسروں کے مقابلہ میں کچھ زیادہ کیوں نہ کھا لیں۔ لوگ اس طریقے کو مناہدہ کے نام سے پکارتے ہیں اور عام طور پر اکٹھے سفر کے دوران یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ جواز کی وجہ یہ ہے کہ اصحاب کہف نے کہا کہ ا ن میں سے ایک آدمی کو چاندی کا سکہ دے کر شہر کھانا لانے کے لئے بھیج دیا جائے۔ یہاں سکے کی نسبت پوری جماعت کی طرف کی گئی ہے۔ اسی طرح یہ قول باری ہے (وان تخالطوا ھم فاخرانکم۔ اگر تم انہیں اپنے ساتھ شامل کرلو گے تو وہ تمہارے بھائی ہیں) اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے یتیم کے طعام کو اپنے طعام کے ساتھ ملا لینے کو مباح کردیا اور یہ جائز کردیا کہ یتیم بھی ان کے ساتھ مل کر کھائے جبکہ یہاں یہ بات ممکن تھی کہ کھانے والوں میں بعض افراد دوسروں کی بہ نسبت زیادہ کھالیتے۔- خریداری میں وکیل بنانا جائز ہے - آیت میں خریداری کے لئے وکیل بنانے کے جواز پر بھی دلالت موجود ہے اس لئے کہ اصحاب کہف نے اپنے میں سے جس شخص کو شہر بھیجا تھا وہ ان کا وکیل اور کار پرداز بن کر گیا تھا۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩) اور اسی طرح تین سو نوسال گزر جانے کے بعد ہم نے ان کو جگایا تاکہ آپس میں بات کریں چناچہ مکسلیمنا نامی نے جو ان کا سردار اور ان سب سے بڑا تھا کہا کہ تم حالت نیند میں اس غار کے اندر کس قدر رہے ہو گے بعض بولے غالبا ایک دن رہے ہوں گے مگر جب غار سے باہر نکل کر سورج دیکھا کہ وہ ابھی غروب ہونے کے قریب ہے تو بولے ایک دن سے بھی کچھ کم رہے ہوں گے مکسلیمنا سردار کہنے لگا یہ تو صحیح خبر تمہارے اللہ ہی کو ہے کہ تم کس قدر آب تملیخا کو افسوس شہر کی طرف یہ روپیہ دے کر بھیجو وہ تحقیق کرے کہ کون سا کھانا زیادہ آئے گا اور کون سا کھانا پاکیزہ اور حلال ہے تاکہ وہ اس میں سے تمہارے لیے کچھ کھانا لے آئے اور سب کام خوش اسلوبی سے کرے تاکہ کسی کو ان مجوسیوں میں سے تمہاری خبر نہ ہونے دے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(قَالُوْا لَبِثْنَا يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۭ قَالُوْا رَبُّكُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ )- جب کچھ ساتھیوں نے اپنی رائے کا اظہار کیا کہ انہوں نے ایک دن یا اس سے کچھ کم وقت نیند میں گزارا ہے تو ان کے جواب پر کچھ دوسرے ساتھی بول پڑے کہ اس بحث کو چھوڑ دو اللہ کو سب پتا ہے کہ تم لوگ یہاں کتنا عرصہ تک سوئے رہے ہو۔- (فَلْيَنْظُرْ اَيُّهَآ اَزْكٰى طَعَامًا فَلْيَاْتِكُمْ بِرِزْقٍ مِّنْهُ )- ظاہر ہے کہ اپنے اعتقاد اور نظریے کے مطابق انہیں پاکیزہ کھانا ہی چاہیے تھا۔- (وَلْيَتَلَطَّفْ )- یعنی جو ساتھی کھانا لینے کے لیے جائے وہ لوگوں سے بات چیت اور لین دین کرتے ہوئے خصوصی طور پر اپنا رویہ نرم رکھے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ کسی سے جھگڑ پڑے اور اس طرح ہم سب کے لیے کوئی مسئلہ کھڑا ہوجائے۔ - یہاں پر نوٹ کر لیجیے کہ قرآن کے حروف کی گنتی کے اعتبار سے لفظ وَلْیَتَلَطَّفْ کی ” ت “ پر قرآن کا نصف اوّل پورا ہوگیا ہے اور اس کے بعد لفظ ” ل “ سے نصف ثانی شروع ہو رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :16 یعنی جیسے عجیب طریقے سے وہ سلائے گئے تھے اور دنیا کو ان کے حال سے بے خبر رکھا گیا تھا ، ویسا ہی عجیب کرشمہ قدرت ان کا ایک طویل مدت کے بعد جاگنا بھی تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

12: پاکیزہ کھانے سے مراد بظاہر حلال کھانا ہے ان حضرات کو فکر یہ تھی کہ بت پرستوں کے شہر میں حلال کھانا ملنا آسان نہیں۔ اس لیے جانے والے کو یہ تاکید کی کہ وہ ایسی جگہ سے کھانا لائے جہاں حلال کھانا میسر ہو۔ نیز چونکہ ان کے خیال میں ابھی تک اسی بت پرست بادشاہ کی حکومت تھی، اس لیے انہیں دوسری فکر یہ تھی کہ کہیں کسی کو ان کے غار میں چھپنے کا پتہ نہ لگ جائے۔ اس لیے جانے والے کو دوسری تاکید یہ کی کہ ہوشیاری سے جا کر کھانا لائے۔