تلاوت و تبلیغ اللہ کریم اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کلام کی تلاوت اور اس کی تبلیغ کی ہدایت کرتا ہے ، اس کے کلمات کو نہ کوئی بدل سکے نہ ٹال سکے ، نہ ادھر ادھر کر سکے ، سمجھ لے کہ اس کے سوائے جائے پناہ نہیں ، اگر تلاوت و تبلیغ چھوڑ دی تو پھر بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے کہ اے رسول جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اترا ہے اس کی تبلیغ کرتا رہ اگر نہ کی تو تو نے حق رسالت ادا نہیں کیا لوگوں کے شر سے اللہ تجھے بچائے رکھے گا ۔ اور آیت میں ہے ( اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَاۗدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ ۭ قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ مَنْ جَاۗءَ بِالْهُدٰى وَمَنْ هُوَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ 85 ) 28- القصص:85 ) یعنی اللہ تعالیٰ تیرے منصب کی بابت قیامت کے دن ضرور سوال کرے گا ۔ اور آیت میں ہے ( وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ 52 ) 6- الانعام:52 ) یعنی صبح شام یاد الہٰی کرنے والوں کو اپنی مجلس سے نہ ہٹا ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ہم چھ غریب غرباء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے سعد بن ابی وقاص ، ابن مسعود ، قبیلہ ہذیل کا ایک شخص ، بلال اور دو آدمی اور اتنے میں معزز مشرکین آئے اور کہنے لگے انہیں اپنی مجلس میں اس جرات کے ساتھ نہ بیٹھنے دو ۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جی میں کیا آیا ؟ جو اس وقت آیت ( وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ 52 ) 6- الانعام:52 ) اتری ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک واعظ قصہ گوئی کر رہا تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے وہ خاموش ہو گئے تو آپ نے فرمایا تم بیان کئے چلے جاؤ ۔ میں تو صبح کی نماز سے لے کر آفتاب کے نکلنے تک اسی مجلس میں بیٹھا جاؤں ، یہ مجھے چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ محبوب ہے ۔ ابو داؤد طیالسی میں ہے کہ ذکر اللہ کرنے والوں کے ساتھ صبح کی نماز سے سورج نکلنے تک بیٹھ جانا مجھے تو تمام دنیا سے زیادہ پیارا ہے ، اور نماز عصر کے بعد سے سورج کے غروب ہونے تک اللہ کا ذکر کرنا مجھے آٹھ غلاموں کے آزاد کرنے سے زیادہ پیارا ہے گو وہ غلام اولاد اسماعیل سے گراں قدر اور قیمتی کیوں نہ ہوں ، گو ان میں سے ایک ایک کی دیت بارہ بارہ ہزار کی ہو تو مجموعی قیمت چھیانوے ہزار کی ہوئی ۔ بعض لوگ چار غلام بتاتے ہیں لیکن حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں واللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ غلام فرمائے ہیں ۔ بزار میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آئے ایک صاحب سورہ کہف کی قرأت کر رہے تھے آپ کو دیکھ کر خاموش ہو گئے تو آپ نے فرمایا یہی ان لوگوں کی مجلس ہے ، جہاں اپنے نفس کو روک کر رکھنے کا مجھے حکم الہٰی ہوا ہے اور روایت میں ہے کہ یا تو سورہ حج کی وہ تلاوت کر رہے تھے یا سورہ کہف کی ۔ مسند احمد میں ہے فرماتے ہیں ذکر اللہ کے لئے جو مجلس جمع ہو نیت بھی ان کی بخیر ہو تو آسمان سے منادی ندا کرتا ہے کہ اٹھو اللہ نے تمہیں بخش دیا تمہاری برائیاں بھلائیوں سے بدل گئیں ۔ طبرانی میں ہے کہ جب یہ آیت اتری آپ اپنے کسی گھر میں تھے ، اسی وقت ایسے لوگوں کی تلاش میں نکلے ۔ کچھ لوگوں کو ذکر اللہ میں پایا ، جنکے بال بکھرے ہوئے تھے ، کھالیں خشک تھیں ، بمشکل ایک ایک کپڑا انہیں حاصل تھا ، فورا ان کی مجلس میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسے لوگ رکھے ہیں ، جن کے ساتھ بیٹھنے کا مجھے حکم ہوا ہے ۔ پھر فرماتا ہے ان سے تیری آنکھیں تجاوز نہ کریں ، ان یاد اللہ کرنے والوں کو چھوڑ کر مالداروں کی تلاش میں نہ لگ جانا جو دین سے برگشتہ ہیں ، جو عبادت سے دور ہیں ، جن کی برائیاں بڑھ گئی ہیں ، جن کے اعمال حماقت کے ہیں تو ان کی پیروی نہ کرنا ان کے طریقے کو پسند نہ کرنا ان پر رشک بھری نگاہیں نہ ڈالنا ، ان کی نعمیتں للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ 88 ) 15- الحجر:88 ) ، ہم نے انہیں جو دنیوی عیش و عشرت دے رکھی ہے یہ صرف ان کی آزمائش کے لئے ہے ۔ تو للچائی ہوئی نگاہوں سے انہیں نہ دیکھنا ، دراصل تیرے رب کے پاس کی روزی بہتر اور بہت باقی ہے ۔
27۔ 1 ویسے تو یہ حکم عام ہے کہ جس چیز کی بھی وحی آپ کی طرف کی جائے، اس کی تلاوت فرمائیں اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیں۔ لیکن اصحاب کہف کے قصے کے خاتمے پر اس حکم سے مراد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اصحاب کہف کے بارے میں لوگ جو چاہیں، کہتے پھریں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں اپنی کتاب میں جو کچھ اور جتنا کچھ بیان فرما دیا ہے، وہی صحیح ہے، وہی لوگوں کو پڑھ کر سنا دیجئے، اس سے زیادہ دیگر باتوں کی طرف دھیان نہ دیجئے۔ 27۔ 2 یعنی اگر اسے بیان کرنے سے گریز و انحراف کیا، یا اس کے کلمات میں تغیر و تبدیلی کی کوشش کی، تو اللہ سے آپ کو بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ خطاب اگرچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے، لیکن اصل مخاطب امت ہے۔
[٢٧] کافروں کا سمجھوتہ کی بات کرنا :۔ اصحاب کہف کا قصہ ختم ہونے کے بعد اب خطاب اگرچہ رسول اللہ کو ہے تاہم یہ ارشاد ان سرداران قریش کو سنایا جارہا ہے جو آپ سے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر سمجھوتہ کرنا چاہتے تھے وہ یہ کہتے تھے کہ ہم آپ کی بہت سی باتیں مان لیتے ہیں تم ہماری یہ بات مان لو کہ جن آیات میں ہمارے معبودوں کا ذکر ہے وہ نہ پڑھا کرو اس طرح ہم سب برادری میں پھوٹ پڑنے سے بچ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس مطالبہ پر جواب دیا کہ اس کے احکام اور ارشادات میں کسی قسم کے ردو بدل یا ترمیم و تنسیخ کا کسی کو کچھ بھی اختیار نہیں اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ اللہ کی گرفت سے بچ نہ سکے گا۔ اگرچہ یہ موقع خاص تھا تاہم الفاظ میں عمومیت ہے یعنی جس دور میں بھی اور جو شخص بھی ایسی حرکت کرے گا اس کے لیے یہی حکم ہے حق اور باطل میں سمجھوتہ کی کوئی گنجائش نہیں جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے کہ :- باطل دوئی پرست ہے حق لا شریک ہے۔۔ شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول
وَاتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ : یعنی اصحاب کہف کے بارے میں جو بات آپ کو اس کتاب میں بتائی جا رہی ہے وہ بالکل کافی اور جامع مانع ہے۔ آپ اسی کو جوں کا توں پڑھ کر سناتے رہیے، یا یہ کہ قرآن اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب ہے، یہی ان کو پڑھ کر سنائیں اور ان کی مخالفت کی پروا نہ کریں۔ - لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ڟ وَلَنْ تَجِدَ ۔۔ : ’ مُلْتَحَدًا “ کا معنی التحاد کی جگہ ہے، جو ” لَحْدٌ“ سے باب افتعال ہے، جس کا معنی مائل ہونا ہے۔ قبر کو بھی اسی لیے لحد کہتے ہیں کہ وہ ایک طرف ہٹی ہوتی ہے۔ چناچہ ” مُلْتَحَدًا “ سے مراد ایسی جگہ ہے جہاں آدمی ایک طرف جا کر پناہ لے لے۔ یعنی اگر آپ کسی کی خاطر داری سے اس کتاب کی تبلیغ میں کوتاہی کریں گے، یا اس میں کوئی رد و بدل کریں گے تو آپ کو اس کے سوا کہیں پناہ نہ ملے گی۔ اس مفہوم کی آیات کے لیے دیکھیے سورة مائدہ (٦٧) اور یونس (١٥) یہ خطاب بظاہر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے مگر مقصود اہل کتاب اور کفار مکہ سب کو متنبہ کرنا ہے کہ تمہاری خاطر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے مالک کی کتاب میں کوئی رد و بدل کرنے والے نہیں۔ - 3 اس آیت پر اور بعض علمائے تفسیر کے قول کے مطابق اوپر کی آیت پر اصحاب کہف کا قصہ ختم ہوگیا۔ اس کے بعد دوسرا مضمون شروع ہو رہا ہے جس میں ان حالات پر تبصرہ ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کو ان دنوں مکہ میں درپیش تھے۔
خلاصہ تفسیر :- اور (آپ کا کام صرف اس قدر ہے کہ) آپ کے پاس جو آپ کے رب کی کتاب وحی کے ذریعہ آئی ہے وہ (لوگوں کے سامنے) پڑھ دیا کیجئے (اس سے زیادہ اس کی فکر میں نہ پڑیں کہ دنیا کے بڑے لوگ اگر اسلام کی مخالفت کرتے رہے تو دین کو ترقی کس طرح ہوگی، کیونکہ اس کا اللہ تعالیٰ نے خود وعدہ فرما لیا ہے اور) اس کی باتوں کو (یعنی وعدوں کو) کوئی نہیں بدل سکتا (یعنی ساری دنیا کے مخالف بھی مل کر اللہ کو وعدہ پورا کرنے سے نہیں روک سکتے اور اللہ تعالیٰ خود اگرچہ تبدیلی پر قدرت رکھتے ہیں مگر وہ تبدیل نہیں کریں گے) اور (اگر آپ نے ان بڑے لوگوں کی دل جوئی اس طرح کی جس سے احکام الہی ترک ہوجاویں تو پھر) آپ خدا کے سوا کوئی پناہ نہ پاویں گے (اگرچہ احکام آلہیہ کا ترک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بدلائل شرعیہ محال ہے، یہاں مبالغہ اور تاکید کے لئے بفرض محال یہ کہا گیا ہے) اور (جیسا کہ کفار کے امیروں اور رئیسوں سے آپ کو مستغنی رہنے کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح فقراء مسلمین کے حال پر مزید توجہ کا آپ کو حکم ہے پس) آپ اپنے کو ان لوگوں کے ساتھ (بیٹھنے میں) مقید رکھا کیجئے جو صبح و شام (یعنی علی الدوام) اپنے رب کی عبادت محض اس کی رضا جوئی کے لئے کرتے ہیں (کوئی غرض دنیوی نہیں) اور دنیوی زندگی کی رونق کے خیال سے آپ کی آنکھیں (یعنی توجہات) ان سے ہٹنے پاویں (رونق دنیا کے خیال سے مراد یہ ہے کہ رئیس لوگ مسلمان ہوجاویں تو اسلام کی رونق بڑھے گی، اس آیت میں بتلا دیا گیا کہ اسلام کی رونق مال و متاع سے نہیں بلکہ اخلاص و اطاعت سے ہے وہ غریب فقیر لوگوں میں ہو تو بھی رونق اسلام کی بڑھے گی) اور ایسے شخص کا کہنا ( غریبوں کو مجلس سے ہٹا دینے کے متعلق) نہ مانئے جس کے قلب کو ہم نے ( اس کے عناد کی سزا میں) اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے اور وہ اپنی نفسانی خواہش پر چلتا ہے، اور اس کا یہ حال ( یعنی اتباع ہوی) حد سے گزر گیا ہے اور آپ ( ان رؤ سا کفار سے صاف) کہہ دیجئے کہ ( یہ دین) حق تمہارے رب کی طرف سے (آیا) ہے، سو جس کا جی چاہے ایمان لاوے اور جس کا جی چاہے کافر رہے (ہمارا کوئی نفع نقصان نہیں، بلکہ نفع نقصان خود اس کا ہے جس کا بیان یہ ہے کہ) بیشک ہم نے ایسے ظالموں کے لئے (دوزخ کی) آگ تیار کر رکھی ہے کہ اس آگ کی قناتیں ان کو گھیرے ہوں گی (یعنی وہ قناتیں بھی آگ ہی کی ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ یہ لوگ اس گھیرے سے نہ نکل سکیں گے) اور اگر (پیاس سے) فریاد کریں گے تو ایسے پانی سے ان کی فریاد رسی کی جاوے گی جو (مکروہ صورت ہونے میں تو) تیل کی تلچھٹ کی طرح ہوگا (اور تیز گرم ایسا ہوگا کہ پاس لاتے ہی) مونہوں کو بھون ڈالے گا (یہاں تک کہ چہرے کی کھال اتر کر گر پڑے گی جیسا کہ حدیث میں ہے) کیا یہی برا پانی ہوگا اور وہ دوزخ بھی کیا ہی بری جگہ ہوگی (یہ تو ایمان نہ لانے کا ضرر ہوا، اور ایمان لانے کا نفع یہ ہے کہ) بیشک جو اچھی طرح کام کو کرے، ایسے لوگوں کے لئے ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں ان کے (مساکن کے نیچے) نہریں بہتی ہوں گی ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور سبز رنگ کے کپڑے باریک اور دبیز ریشم کے پہنیں گے (اور) وہاں مسہریوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے، کیا ہی اچھا صلہ ہے اور (جنت) کیا ہی اچھی جگہ ہے۔
وَاتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ ٠ۭۚ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِہٖ ٠ۣۚ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًا ٢٧- تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- بدل - الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» .- وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] - والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع :- البَئَادِل «2» ، قال الشاعر :- 41-- ولا رهل لبّاته وبآدله - ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال - کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- لحد - اللَّحْدُ : حفرة مائلة عن الوسط، وقد لَحَدَ القبرَ : حفره، کذلک وأَلْحَدَهُ ، وقد لَحَدْتُ الميّت وأَلْحَدْتُهُ : جعلته في اللّحد، ويسمّى اللَّحْدُ مُلْحَداً ، وذلک اسم موضع من : ألحدته، ولَحَدَ بلسانه إلى كذا : مال . قال تعالی: لِسانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ [ النحل 103] من : لحد، وقرئ : يلحدون من : ألحد، وأَلْحَدَ فلان : مال عن الحقّ ، والْإِلْحَادُ ضربان : إلحاد إلى الشّرک بالله، وإلحاد إلى الشّرک بالأسباب .- فالأوّل ينافي الإيمان ويبطله .- والثاني : يوهن عراه ولا يبطله . ومن هذا النحو قوله : وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الحج 25] ، وقوله : وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمائِهِ [ الأعراف 180] - والْإِلْحَادُ في أسمائه علی وجهين :- أحدهما أن يوصف بما لا يصحّ وصفه به . والثاني : أن يتأوّل أوصافه علی ما لا يليق به، والْتَحدَ إلى كذا : مال إليه . قال تعالی: وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَداً [ الكهف 27] أي : التجاء، أو موضع التجاء . وأَلْحَدَ السّهم الهدف : مال في أحد جانبيه .- ( ل ح د ) اللحد ۔- اس گڑھے یا شگاف کو کہتے ہیں جو قبر کی ایک جانب میں بنانا کے ہیں ۔ لحد المیت والحدہ میت کو لحد میں دفن کرنا اور لحد کو ملحد بھی کہا جاتا ہے جو کہ الحد تہ ( افعال ) اسے اسم ظرف ہے ۔ لحد بلسانہ الیٰ کذا زبان سے کسی کی طرف جھکنے یعنی غلط بات کہنا کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لِسانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ [ النحل 103] مگر جس کی طرف تعلیم کی نسبت کرتے ہیں ۔ میں یلحدون لحد سے ہے اور ایک قرات میں یلحدون ( الحد سے ) ہے ۔ کہا جاتا ہے الحد فلان ۔ فلاں حق سے پھر گیا ۔ الحاد دو قسم پر ہے ۔ ایک شرک باللہ کی طرف مائل ہونا دوم شرک بالا سباب کی طرف مائل ہونا ۔ اول قسم کا الحا و ایمان کے منافی ہے اور انسان کے ایمان و عقیدہ کو باطل کردیتا ہے ۔ اور دوسری قسم کا الحاد ایمان کو تو باطل نہیں کرتا لیکن اس کے عروۃ ( حلقہ ) کو کمزور ضرور کردیتا ہے چناچہ آیات : ۔ وَمَنْ يُرِدْ فِيهِ بِإِلْحادٍ بِظُلْمٍ نُذِقْهُ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الحج 25] اور جو اس میں شرارت سے کجروی وکفر کرنا چاہے اس کو ہم درد دینے والے عذاب کا مزہ چکھائیں گے ۔ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمائِهِ [ الأعراف 180] ، جو لوگ اس کے ناموں کے وصف میں کجروی اختیار کرتے ہیں ۔ میں یہی دوسری قسم کا الحاد مراد ہے اور الحاد فی اسمآ ئہ یعنی صفات خدا وندی میں الحاد کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ باری تعالیٰ کو ان اوٖاف کے ساتھ متصف ماننا جو شان الو ہیت کے منافی ہوں دوم یہ کہ صفات الہیٰ کی ایسی تاویل کرنا جو اس کی شان کے ذیبا نہ ہو ۔ التحد فلان الٰی کذا ۔ وہ راستہ سے ہٹ کر ایک جانب مائل ہوگیا اور آیت کریمہ : وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَداً [ الكهف 27] اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے میں ملتحد ا مصدر میمی بمعنی التحاد بھی ہوسکتا ہے اور اسم ظرف بھی اور اس کے معنی پناہ گاہ کے ہیں التحد السھم عن الھدف تیر نشانے سے ایک جانب مائل ہوگیا یعنی ہٹ گیا ۔
(٢٧) اور آپ کا کام صرف اتنا ہے کہ آپ ان کو قرآن کریم پڑھ کر سنادیا کیجیے اور اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ کیا کیجیے اور اس کی باتوں کو کوئی بدل نہیں سکتا اور آپ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی پناہ بھی نہ پائیں گے۔
آیت ٢٧ (وَاتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ )- یعنی اس وقت آپ بہت مشکل صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس کیفیت میں آپ کو صبر و استقامت کی سخت ضرورت ہے : (وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ الاَّ باللّٰہِ ) ( النحل : ١٢٧) ” اور (اے نبی ) آپ صبر کیجیے اور آپ کا صبر تو اللہ کے سہارے پر ہی ہے “۔ یہ سہارا آپ کو اللہ کے ساتھ اپنا قلبی تعلق اور ذہنی رشتہ استوار کرنے سے میسر ہوگا اور یہ تعلق مضبوط کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ قرآن مجید کی تلاوت ہے۔ّ تمسک بالقرآن کا یہ مضمون سورة العنکبوت میں (اکیسویں پارے کے آغاز میں ) دوبارہ آئے گا۔ حق و باطل کی کشمکش میں جب بھی کوئی مشکل وقت آیا تو رسول اللہ کو خصوصی طور پر تمسک بالقرآن کی ہدایت کی گئی ‘ اور آپ کی وساطت سے تمام مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ قرآن کی تلاوت کو اپنا معمول بنائیں قرآن کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ وقت اس کے ساتھ صرف کریں۔ اسی طرح وہ مشکلات و شدائد کو برداشت کرنے اور اپنے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔- (لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ڟ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا)- یقیناً یہ راستہ بہت کٹھن ہے اور اس راستہ کے مسافروں نے سختیوں کو بہر حال برداشت کرنا ہے۔ یہ اللہ کا قانون ہے جو کسی کے لیے تبدیل نہیں کیا جاتا۔ اس مہم میں واحد سہارا اللہ کی مدد اور نصرت ہے۔ چناچہ اگر آپ کو کہیں پناہ ملے گی تو اللہ ہی کے دامن میں ملے گی اس در کے علاوہ کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے اسی مضمون کی ترجمانی اپنے اس شعر میں کی ہے : - نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی - میرے جرم خانہ خراب کو ‘ تیرے عفو بندہ نواز میں
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :26 اصحاب کہف کا قصہ ختم کرنے کے بعد اب یہاں سے دوسرا مضمون شروع ہو رہا ہے اور اس میں ان حالات پر تبصرہ ہے جو اس وقت مکہ میں مسلمانوں کو در پیش تھے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :27 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذاللہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کفار مکہ کی خاطر قرآن میں کچھ رد و بدل کر دینے اور سرداران قریش سے کچھ کم و بیش پر مصالحت کر لینے کی سوچ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے منع فرما رہا تھا ۔ بلکہ دراصل اس میں روئے سخن کفار مکہ کی طرف ہے اگرچہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے ۔ مقصود کفار کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم خدا کے کلام میں اپنی طرف سے کوئی کمی یا بیشی کرنے کے مجاز نہیں ہیں ۔ ان کا کام بس یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اسے بےکم و کاست پہنچا دیں ۔ تمہیں ماننا ہے تو اس پورے دین کو جوں کا توں مانو جو خداوند عالم کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے ۔ اور نہیں ماننا تو شوق سے نہ مانو ۔ مگر یہ امید کسی حال میں نہ رکھو کہ تمہیں راضی کرنے کے لیے اس دین میں تمہاری خواہشات کے مطابق کوئی ترمیم کی جائے گی ، خواہ وہ کیسی ہی جزوی سی ترمیم ہو ۔ یہ جواب ہے اس مطالبے کا جو کفار کی طرف سے بار بار کیا جاتا تھا کہ ایسی بھی کیا ضد ہے کہ ہم تمہاری پوری بات مان لیں ۔ آخر کچھ تو ہمارے آبائی دین کے عقائد اور رسم و رواج کی رعایت ملحوظ رکھو ۔ کچھ تم ہماری مان لو ، کچھ ہم تمہاری مان لیں ۔ اس پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے اور برادری پھوٹ سے بچ سکتی ہے ۔ قرآن میں ان کے اس مطالبے کا متعدد مواقع پر ذکر کیا گیا ہے اور اس کا یہ جواب دیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر سورہ یونس کی آیت ۱۵ ملاحظہ ہو : وَاِذَا تُتْلیٰ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لا یَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَاائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہ ۔ جب ہماری آیات صاف صاف ان کو سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو کبھی ہمارے سامنے حاضر ہونے کی توقع نہیں رکھتے ، کہتے ہیں کہ اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو ۔
21: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ خطاب در حقیقت ان کافروں کو سنانے کے لئے ہے جو آپ سے یہ مطالبہ کیا کرتے تھے کہ آپ اس قرآن میں ہماری خواہش اور عقیدے کے مطابق تبدیلیاں کرلیں تو ہم آپ کو ماننے کے لئے تیار ہیں، ان کا یہ مطالبہ پیچھے سورۂ یونس (١٠۔ ١٥) میں گزرچکا ہے، یہاں فرمایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں تبدیلی کرنے کا کسی کو اختیار نہیں، اور اگر کوئی ایسا کرے تو اسے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کے لئے کوئی پناہ گاہ میسر نہیں آسکتی۔