26۔ 1 یہ اللہ کی صفت علم و خبر کی مذید وضاحت ہے
[٢٦] یعنی اللہ کو اصحاب کہف کی مدت قیام کا سب سے زیادہ صحیح علم اس لیے ہے کہ اس نے خود ہی تو انھیں سلایا تھا پھر خود ہی جگایا تھا ایسا تصرف و اختیار اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں کہ وہ کسی بات یا واقعہ کے متعلق صحیح صحیح خبریں بتاسکے۔
قُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا ۔۔ : یعنی اگر اہل کتاب آپ سے اس مدت میں اختلاف کریں تو آپ کہہ دیجیے کہ اللہ کا علم تم سے زیادہ ہے، لہٰذا جو مدت اس نے بتائی ہے وہی صحیح ہے، تمہاری بات کا اعتبار نہیں۔ ۚ لَهٗ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ ۔۔ : یہ اللہ کے ” اَعْلَمُ “ ہونے کی دلیل ہے کہ آسمانوں کا اور زمین کا غیب صرف اس کے پاس ہے۔ رہا دیکھنے اور سننے کے ذریعے سے علم تو وہ کس قدر دیکھنے والا اور کس قدر سننے والا ہے، اس پر تعجب تو ہوسکتا ہے، بیان میں نہیں آسکتا۔ تو پھر اس کی بات درست ہے یا ان کی جو ان صفات سے خالی ہیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ اس کے سوا ان کا کوئی مددگار نہیں اور اس کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے فیصلے میں کسی کو بھی شریک نہیں کرتا۔
تیسری آیت میں جو غار میں سونے کی مدت تین سو نو سال بتلائے ہیں، ظاہر نسق قرآن سے یہی ہے کہ یہ بیان مدت حق تعالیٰ کی طرف سے ہے ابن کثیر نے اسی کو جمہور مفسرین سلف، خلف کا قول قرار دیا ہے، ابوحیان اور قرطبی وغیرہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے، مگر حضرت قتادہ وغیرہ سے اس میں ایک دوسرا قول یہ بھی نقل کیا ہے کہ یہ تین سو نو سال کا قول بھی انہی اختلاف کرنے والوں میں سے بعض کا قول ہے، اور اللہ تعالیٰ کا قول صرف وہ ہے جو بعد میں فرمایا یعنی اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا کیونکہ پہلا قول تین سو نو کے متعین کرنے کا اگر اللہ کا کلام ہوتا تو اس کے بعد اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا کہنے کا موقع نہ تھا، مگر جمہور مفسرین نے فرمایا کہ یہ دونوں جملے حق تعالیٰ کا کلام ہیں پہلے میں حقیقت واقیہ کا بیان ہے اور دوسرے میں اس سے اختلاف کرنے والوں کو تنبیہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدت کا بیان آ گیا تو اب اس کو تسلیم کرنا لازم ہے، وہی جاننے والا ہے، محض تخمینوں اور رایوں سے اس کی مخالفت بےعقلی ہے۔- یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے بیان مدت میں پہلے تین سو سال بیان کئے اس کے بعد فرمایا کہ ان تین سو پر نو اور زیادہ ہوگئے، پہلے ہی تین سو نو نہیں فرمایا اس کا سبب حضرات مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ یہود و نصاری میں چونکہ شمسی سال کا رواج تھا اس کے حساب سے تین سو سال یہ ہونے ہیں، اور اسلام میں رواج قمری سال کا ہے اور قمری حساب میں ہر سو سال پر تین سال بڑھ جاتے ہیں، اس لئے تین سو سال شمسی پر قمری حساب سے نو سال مزید ہوگئے، ان دونوں سالوں کا امتیاز بتانے کے لئے عنوان تعبیر یہ اختیار کیا گیا۔
قُلِ اللہُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا ٠ۚ لَہٗ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ٠ۭ اَبْصِرْ بِہٖ وَاَسْمِعْ ٠ۭ مَا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّلِيٍّ ٠ۡوَلَا يُشْرِكُ فِيْ حُكْمِہٖٓ اَحَدًا ٢٦- غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ - سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- حكم - والحُكْم بالشیء : أن تقضي بأنّه كذا، أو ليس بکذا، سواء ألزمت ذلک غيره أو لم تلزمه، قال تعالی: وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58]- ( ح ک م ) حکم - الحکم کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کا نام حکم ہے یعنی وہ اس طرح ہے یا اس طرح نہیں ہے خواہ وہ فیصلہ دوسرے پر لازم کردیا جائے یا لازم نہ کیا جائے ۔ قرآں میں ہے :۔ وَإِذا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ [ النساء 58] اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو ۔
(٢٦) آپ ان سے فرمادیجیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے غار میں رہنے کی مدت کو تم سے زیادہ جانتا ہے کہ اس بیداری کے بعد سے پھر کتنا زمانہ ہوگیا تمام آسمانوں و زمین کی پوشیدہ باتوں کا علم اسی کو ہے وہ کیا کچھ دیکھنے والا ہے اور کیا کچھ سننے والا ہے اور ان کا اللہ کے علاوہ کوئی محافظ نہیں یا یہ کہ اہل مکہ کو اللہ کے علاوہ اور کوئی عذاب خداوندی سے چھڑانے والا مددگار اور رشتہ دار نہیں اور نہ اللہ تعالیٰ کسی کو اپنے حکم غیب میں شریک کیا کرتا ہے۔
آیت ٢٦ (قُلِ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثُوْا)- یعنی اس بحث میں بھی پڑنے کی ضرورت نہیں کہ وہ غار میں کتنا عرصہ سوئے رہے۔ اس کا جواب بھی آپ ان کو یہی دیں کہ اس مدت کے بارے میں بھی اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔- (مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّلِيٍّ ۡ وَّلَا يُشْرِكُ فِيْ حُكْمِهٖٓ اَحَدًا)- اس کے سوا ان کا کوئی ساتھی کارساز مددگار حمایتی اور پشت پناہ نہیں ہے۔ لفظ ” ولی “ ان سب معانی کا احاطہ کرتا ہے۔ - وہ اپنے اختیار اور اپنی حاکمیت کے حق میں کسی دوسرے کو شریک نہیں کرتا۔ یہ توحید حاکمیت ہے۔ اس بارے میں سورة یوسف (آیت ٤٠ و ٦٧) میں اس طرح ارشاد ہوا : (اِنِ الْحُکْمُ الاَّ لِلّٰہِ ) ” اختیار مطلق تو صرف اللہ ہی کا ہے “۔ جبکہ سورة بنی اسرائیل کی آخری آیت میں یوں فرمایا گیا : (وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْْمُلْکِ ) ” اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے بادشاہت میں۔ “
20: اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب کہف کے بارے میں یہ بتلادیا کہ وہ غار میں تین سو نو سال تک سوتے رہے، لیکن آگے پھر وہی بات ارشاد فرمائی کہ محض قیاسات کی بنیاد پر اس بحث میں بھی پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، اور اگر کوئی اس مدت سے اختلاف کرے تو یہ کہہ کر بحث کا دروازہ بند کردو کہ اللہ تعالیٰ ہی اس مدت کو خوب جانتا ہے، اس نے جو مدت بتادی ہے، وہی درست ہے۔