Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اصحاب کہف کتنا سوئے ؟ اللہ تعالیٰ اپنے نبی علیہ السلام کو اس مدت کی خبر دیتا ہے ، جو اصحاب کہف نے اپنے سونے کے زمانے میں گزاری کہ وہ مدت سورج کے حساب سے تین سو سال کی تھی اور چاند کے حساب سے تین سو نو سال کی تھے ۔ فی الواقع شمسی اور قمری سال میں سو سال پر تین سال کر فرق پڑتا ہے ، اسی لئے تین سو الگ بیان کر کے پھر نو الگ بیان کئے ۔ پھر فرماتا ہے کہ جب تجھ سے ان کے سونے کی مدت دریافت کی جائے اور تیرے پاس اسکا کچھ علم نہ ہو اور نہ اللہ نے تجھے واقف کیا ہو تو تو آگے نہ بڑھ اور ایسے امور میں یہ جواب دیا کر کہ اللہ ہی کو صحیح علم ہے ، آسمان اور زمین کا غیب وہی جانتا ہے ، ہاں جسے وہ جو بات بتا دے وہ جان لیتا ہے ۔ قتاردہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ تین سو سال ٹھیرے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے اللہ ہی کو اس کا پورا علم ہے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی اسی معنی کی قرأت مروی ہے ۔ لیکن قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول تامل طلب ہے اس لئے کہ اہل کتاب کے ہاں شمسی سال کا رواج ہے اور وہ تین سو سال مانتے ہیں تین سو نو کا ان کا قول تامل نہیں ، اگر ان ہی کا قول نقل ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ یہ نہ فرماتا کہ اور نو سال زیادہ کئے ۔ بظاہر تو یہی ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ اس بات کی خبر دے رہا ہے نہ کہ کسی کا قول بیان فرماتا ہے ، یہی اختیار امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قرأت دونوں منقطع ہیں ۔ پھر شاذ بھی ہیں ، جمہور کی قرأت وہی ہے جو قرآنوں میں ہے پس وہ شاذ دلیل کے قابل نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب دیکھ رہا ہے اور ان کی آواز کو خوب سن رہا ہے ، ان الفاظ میں تعریف کا مبالغہ ہے ، ان دونوں لفظوں میں مدح کا مبالغہ ہے یعنی وہ خوب دیکھنے سننے والا ہے ۔ ہر موجود چیز کو دیکھ رہا ہے اور ہر آواز کو سن رہا ہے کوئی کام کوئی کلام اس سے مخفی نہیں ، کوئی اس سے زیادہ سننے دیکھنے والا نہیں ۔ سب کے علم دیکھ رہا ہے ، سب کی باتیں سن رہا ہے ، خلق کا خالق ، امر کا مالک ، وہی ہے ۔ کوئی اس کے فرمان کو رد نہیں کر سکتا ہے ۔ اس کا کوئی وزیر اور مددگار نہیں نہ کوئی شریک اور مشیر ہے وہ ان تمام کمیوں سے پاک ہے ، تمام نقائص سے دور ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

25۔ 1 جمہور مفسرین نے اسے اللہ کا قول قرار دیا ہے۔ شمسی حساب سے تین سو سال اور قمری حساب سے 309 سال بنتے ہیں۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ انھیں لوگوں کا قول ہے جو ان کی مختلف تعداد بتاتے ہیں، جس کی دلیل اللہ کا یہ قول ہے کہ اللہ ہی کو ان کے ٹھرے رہنے کا بخوبی علم ہے جس کا مطلب وہ مذکورہ مدت کی نفی لیتے ہیں۔ لیکن جمہور کی تفسیر کے مطابق اس کا مفہوم یہ ہے کہ اہل کتاب یا کوئی اور اس بتلائی ہوئی مدت سے اختلاف کرے تو آپ ان سے کہہ دیں کہ تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ ؟ جب اس نے تین سو نو سال مدت بتلائی ہے تو یہی صحیح ہے کیونکہ وہی جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت غار میں رہے ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٥] اصحاب کہف کے غار میں سونے کی مدت :۔ یہ مدت شمسی تقویم کا حساب رکھنے والوں کے مطابق تین سو سال تھی اور قمری تقویم کا حساب رکھنے والوں کے مطابق تین سو نو سال تھی۔- اس آیت میں مذکور مدت اس لحاظ سے تو ٹھیک ہے کہ اگر مہینوں اور دنوں کی کسور کو چھوڑ دیا جائے تو تین سو شمسی سالوں کے قمری سال تین سو نو ہی بنتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ آیا یہ مدت کی تعیین اللہ کا کلام ہے یا لوگوں کے اقوال ہیں جو یہاں اللہ تعالیٰ نے حکایتاً نقل فرمائے ہیں تو اس کا واضح جواب یہ ہے کہ یہ لوگوں کے اقوال ہیں اگر یہ اللہ کا قول ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس سے اگلی آیت میں یوں نہ فرماتے کہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی مدت وہ (غار میں) ٹھہرے رہے

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَبِثُوْا فِيْ كَهْفِهِمْ ۔۔ : بعض مفسرین نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے نو سالوں کا ذکر الگ اس لیے فرمایا کہ اگر شمسی سال ہوں تو تین سو سال اور قمری ہوں تو ان کے ٹھہرنے کی مدت تین سو نو سال تھی۔ ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ اگر یہ بات نہ ہوتی تو ” ثَلاَثَمِاءَۃٍ وَ تِسْعَ سِنِیْنَ “ (یعنی تین سو نو سال) کہنا کافی بھی تھا اور مختصر بھی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ شمسی اور قمری کے اس فرق کی کوئی دلیل نہیں۔ نو سالوں کو الگ ذکر کرنے کی وجہ آیات کے فواصل (آخری الفاظ) ہیں، جن سے کلام میں حسن پیدا ہوتا ہے اور بلاغت کے لحاظ سے قرآن کے الفاظ ” ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا “ کے درمیان اور ” ثَلاَثَمِاءَۃٍ وَ تِسْعَ سِنِیْنَ “ کے درمیان فرق زمین و آسمان کا ہے۔ بلاغت کا قاعدہ ہے کہ کبھی اختصار میں حسن ہوتا ہے اور کبھی تطویل میں۔ اس لیے ان کے ٹھہرنے کی مدت تین سو نو سال ہی تھی، قمری سال تھے تو سب قمری اور شمسی تھے تو سب شمسی۔ تین سو شمسی اور تین سو نو قمری کی تفریق ایک ذہنی اپج کے سوا کچھ نہیں۔ (محاسن التاویل)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصحاب کہف کے معاملے میں خود ان کے زمانے میں، پھر عہد نبوی کے اندر یہود و نصاری میں دو باتیں زیر اختلاف تھیں ایک اصحاب کہف کی تعداد دوسری غار میں ان کے سوتے رہنے کی مدت، قرآن نے ان دونوں کو بیان تو کردیا، مگر اس فرق کے ساتھ ان کی تعداد کا بیان صریح الفاظ میں نہیں آیا، اشارے کے طور پر آیا، کہ جو قول صحیح تھا اس کی تردید نہیں کی اور مدت کی تعیین کو صاف وصریح الفاظ میں بتلایا وَلَبِثُوْا فِيْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا وجہ یہ ہے کہ قرآن نے اپنے اس اسلوب سے اس طرف اشارہ فرمایا کہ تعداد کی بحث تو بالکل ہی فضول ہے، اس سے کسی دینوی دینی مسئلہ کا تعلق نہیں البتہ مدت دراز تک خلاف عادت انسانی سوتے رہنا اور بغیر غذا کے صحیح تندرست رہنا پھر اتنے عرصہ کے بعد صحت مند اور قوی اٹھ کر بیٹھ جانا ایک نظیر حشر ونشر کی ہے اس سے مسئلہ قیامت و آخرت پر استدلال ہوسکتا ہے، اس لئے اس کو بصراحت بیان کردیا۔- جو لوگ معجزات اور خوارق عادات کے منکر ہیں یا کم از کم آج کل کے مستشرقین یہود و نصاری کے اعتراضات سے مرعوب ہو کر ان میں تاویلیں کرنے کے خوگر ہوگئے ہیں انہوں نے اس آیت میں بھی حضرت قتادہ کی تفسیر کا سہارا لے کر تین سے نو سال کی مدت انہی لوگوں کا قول قرار دے کر رد کرنا چاہا ہے، مگر اس پر غور نہیں کیا کہ قرآن کے ابتدائی جملے میں جو لفظ سِنِيْنَ عَدَدًا کا آیا ہے اس کو تو سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کا قول نہیں کہا جاسکتا، خرق عادت اور کرامت کے ثبوت کے لئے اتنا بھی کافی ہے کہ سالہا سال کوئی سوتا رہے اور پھر صحیح، تندرست زندہ اٹھ کر بیٹھ جائے۔ واللہ اعلم

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَبِثُوْا فِيْ كَہْفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا۝ ٢٥- لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔- كهف - الْكَهْفُ : الغار في الجبل، وجمعه كُهُوفٌ. قال تعالی: أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ الآية [ الكهف 9] .- ( ک ہ ف )- الکھف کے معنی پہاڑ میں غار کے ہیں اس کو جمع کھوف آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : أَنَّ أَصْحابَ الْكَهْفِ الآية [ الكهف 9] کہ غار اور لوح والے ۔- مئة- المِائَة : الثالثةُ من أصول الأَعداد، وذلک أنّ أصول الأعداد أربعةٌ: آحادٌ ، وعَشَرَاتٌ ، ومِئَاتٌ ، وأُلُوفٌ. قال تعالی: فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال 66] ، وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 65] ومائة آخِرُها محذوفٌ ، يقال :- أَمْأَيْتُ الدَّراهِمَ فَأَمَّأَتْ هي، أي : صارتْ ذاتَ مِائَةٍ.- م ی ء ) المائۃ - ( سو ) یہ اصول میں تیسری اکائی کا نام ہے کیونکہ اصول اعداد چار ہیں آحا د عشرت مئات اور الوف ۔۔۔ قرآن پاک میں ہے :۔ فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ [ الأنفال 66] پس اگر تم میں ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب رہیں گے ۔ وَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفاً مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 65] اور اگر سو ( ایسے ) ہوں گے تو ہزاروں پر غالب رہیں گے ۔ اور مائۃ کا آخر ی حرف یعنی لام کلمہ مخذوف ہے ۔ اما یت الدرھم فا ماتھی یعنی میں نے دراہم کو سو کیا تو وہ سو ہوگئے ۔ - زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

غار میں اصحاب کہف کی مدت قیام - قول باری ہے (ولبثوا فی کھفھم ثلثمائۃ سنین وازدادواتسعاً ) اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور (کچھ لوگ مدت کے شمار میں) نو سال اور بڑھ گئے ہیں) قتادہ سے مروی ہے یہ یہود کے قول کی حکایت ہے اس لئے کہ اللہ نے فرمایا (قل اللہ اعلم بما لبثوا تم کہو اللہ ان کے قایم کی مدت زیادہ جانتا ہے ) مجاہد، ضحاک اور عبید بن عمیر کا قول ہے کہ آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی ہے کہ غار میں ان کے قیام کی مدت اتنی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا کہ اگر اہل کتاب اس معاملے میں تم سے بحث کرنے پر اتر آئیں تو ان سے کہہ دو ۔ اللہ ان کے قیام کی مدت کو زیادہ جانتا ہے۔ قتادہ کا قول واضح نہیں ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جانے والی خبر کو کسی دلیل کے بغیر کسی اور کے قول کی حکایت قرار دینا درست نہیں ہے۔ نیز یہ قول اس امر کو بھی واج بکر رہا ہے کہ اصحاب کہف کے قیام کی مدت کا قرآن میں ذکر نہیں ہے جبکہ ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مدت کے بیان کے ذریعے یہ چاہا ہے کہ ہم عبرت حاصل کریں اور اس کی قدرت کی رنگا رنگی اور اس کی مشیت کے نفاذ پر اس سے دستدلال کریں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٥) اور وہ غار میں بیدار ہونے سے پہلے تین سو نو سال تک رہے ہیں۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ والبثوا فی کہفہم “۔ (الخ)- ابن مردویہ (رح) نے ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی ( آیت) ” ولبثوا فی کہفھم ثلث مائۃ “۔ تو آپ سے عرض کیا گیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے تین سو سال مراد ہیں یا تین سو مہینے پھر اس پر یہ جملہ نازل ہوا۔ ( آیت ) ” سنین وازدادواتسعا “۔ یعنی تین سو برس تک رہے اور نو برس اوپر اور ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٥ (وَلَبِثُوْا فِيْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِيْنَ وَازْدَادُوْا تِسْعًا)- یعنی غار میں ان کے سونے کی مدت شمسی کیلنڈر میں تین سو سال جبکہ قمری کیلنڈر کے مطابق تین سو نو سال بنتی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :25 اس فقرے کا تعلق ہمارے نزدیک جملۂ معترضہ سے پہلے کے فقرے کے ساتھ ہے ۔ یعنی سلسلۂ عبارت یوں ہے کہ کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور چوتھا ان کا کتا تھا ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور بعض لوگ اس مدت کے شمار میں نو سال اور بڑھ گئے ہیں ۔ اس عبارت میں ۳ سو اور نو سال کی تعداد جو بیان کی گئی ہے ہمارے خیال میں یہ دراصل لوگوں کے قول کی حکایت ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا اپنی قول ۔ اور اس پر دلیل یہ ہے کہ بعد کے فقرے میں اللہ تعالیٰ خود فرما رہا ہے کہ تم کہو ، اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنی مدت رہے ۔ اگر ۳۰۹ کی تعداد اللہ نے خود بیان فرمائی ہوتی ، تو اس کے بعد یہ فقرہ ارشاد فرمانے کے کوئی معنی نہ تھے ۔ اسی دلیل کی بنا پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی یہی تاویل اختیار فرمائی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا قول نہیں ہے بلکہ لوگوں کے قول کی حکایت ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani