Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

24۔ 1 مفسرین کہتے ہیں کہ یہودیوں نے نبی سے تین باتیں پوچھی تھیں، روح کی حقیقت کیا ہے اور اصحاب کہف اور ذوالقرنین کون تھے ؟ کہتے ہیں کہ یہی سوال اس سورت کے نزول کا سبب بنا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمہیں کل جواب دونگا، لیکن اس کے بعد 15 دن تک جبرائیل وحی لے کر نہیں آئے۔ پھر جب آئے تو اللہ تعالیٰ نے انشاء اللہ کہنے کا یہ حکم دیا۔ آیت میں (غد) سے مراد مستقبل ہے یعنی جب بھی مستقبل قریب یا بعید میں کوئی کام کرنے کا عزم کرو تو انشاء اللہ ضرور کہا کرو۔ کیونکہ انسان کو تو پتہ نہیں کہ جس بات کا عزم کر رہا ہے، اس کی توفیق بھی اسے اللہ کی مشیت سے ملتی ہے یا نہیں۔ 24۔ 2 یعنی اگر کلام یا وعدہ کرتے وقت انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ، تو جس وقت یاد آجائے انشاء اللہ کہہ لیا کرو، یا پھر رب کو یاد کرنے کا مطلب، اس کی تسبیح وتحمید اور اس سے استفغار ہے۔ 24۔ 3 یعنی میں جس کا عزم ظاہر کر رہا ہوں، ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ بہتر اور مفید کام کی طرف میری رہنمائی فرما دے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٣] وعدہ کے وقت انشاء اللہ کہنے کی ہدایت :۔ ہوا یہ تھا کہ جب کفار مکہ نے آپ سے اصحاب کہف وغیرہ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے انھیں جواب دیا کہ میں کل ان کا جواب دوں گا۔ آپ کا خیال یہ تھا کہ دریں اثناء شاید جبرئیل آئے تو ان سے پوچھ کر بتادوں گا یا اللہ تعالیٰ از خود کل تک بذریعہ وحی مطلع کر دے مگر کل تک ان دونوں میں کوئی بات بھی نہ ہوئی پھر چند دن بعد جبرئیل وحی لے کر اس سورة کی آیات لے کر آئے اور ساتھ ہی آپ کے لیے یہ ہدایت بھی نازل ہوئی کہ کسی سے ایسا حتمی وعدہ نہ کیا کریں کہ میں کل تک یہ کام کردوں گا اور اگر وعدہ کرنا ہی ہو تو ساتھ الا ماشاء اللہ ضرور کہا کریں (یعنی اگر اللہ کو منظور ہوا تو فلاں وقت تک فلاں کام کروں گا) اور اگر کبھی آپ یہ بات کہنا بھول جائیں تو جس وقت یاد آئے اسی وقت کہہ لیا کریں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر کام اللہ کی مشیئت کے تحت ہی ہوتا ہے لہذا اس بات کو ہر وقت ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ یہ ہدایت اس لیے دی گئی تھی کہ کسی کو یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ کل تک یا فلاں وقت تک فلاں کام کرسکے گا یا نہیں یا کسی کو غیب کا علم حاصل ہے اور نہ کوئی اپنے افعال میں خود مختار ہے کہ جو چاہے کرسکے لہذا کوئی شخص خواہ پورے صدق دل اور سچی نیت سے بھی کوئی وعدہ یا مستقبل کے متعلق بات کرے تو اسے انشاء اللہ ضرور کہہ لینا چاہیئے۔- ان شاء اللہ کو بطور ڈھال استعمال کرنا :۔ مگر افسوس ہے کہ بعض بدنیت قسم کے لوگوں نے اس کلمہ استثناء کو اپنی بدنیتی پر پردہ ڈالنے کے لیے ڈھال بنا رکھا ہے مثلاً ایک شخص اپنے سابقہ قرضہ کی ادائیگی یا نئے قرض کے لیے قرض خواہ سے ایک ماہ کا وعدہ کرتا ہے اور ساتھ انشاء اللہ بھی کہہ دیتا ہے مگر اس کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ اپنا کام تو چلائیں پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا اور جب مدت مقررہ کے بعد قرض خواہ اپنے قرض کا مطالبہ کرتا ہے تو کہہ دیتا کہ اللہ کو منظور ہی نہ ہوا کہ میرے پاس اتنی رقم آئے کہ میں آپ کو ادا کرسکوں وغیرہ وغیرہ عذرپیش کردیتا ہے اور بدنیت لوگوں نے اس کلمہ استثناء کو اس قدر بدنام کردیا ہے کہ جب کوئی اپنے وعدہ کے ساتھ انشاء اللہ کہتا ہے تو سننے والا فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس کی نیت بخیر نہیں ہے یہ اللہ کی آیات سے بدترین قسم کا مذاق ہے جس کا ایک ایمان دار آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا۔- [٢٤] اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں مثلاً ایک یہ کہ آئندہ کوئی موقع ہی ایسا نہ آئے کہ میں انشاء اللہ یا ماشاء اللہ کہنا بھول جاؤں دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ اصحاب کہف سے بھی زیادہ حیران کن طریقہ سے میری مدد فرمائے جیسا کہ غار ثور کے قصہ میں ہوا۔ تیسرا یہ کہ جس کام کے کرنے کو آپ کہہ رہے ہیں آپ کو یہ علم نہیں کہ یہی کام بہتر ہے یا کوئی دوسرا کام اس سے بہتر ہے لہذا اللہ پر توکل کرتے ہوئے یوں کہا کرو کہ میرا رب اس معاملہ میں صحیح بات یا صحیح طرز عمل کی طرف میری رہنمائی فرما دے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آئندہ کام کرنے پر انشاء اللہ کہنا :- لباب میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے پہلی دو آیتوں کے شان نزول کے متعلق یہ نقل کیا ہے کہ جب اہل مکہ نے یہود کی تعلیم کے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قصہ اصحاب کہف وغیرہ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے ان سے کل جواب دینے کا وعدہ بغیر انشاء اللہ کہے ہوئے کرلیا تھا، مقربین بارگاہ کی ادنی سی کوتاہی پر تنبیہ ہوا کرتی ہے، اس لئے پندرہ روز تک وحی نہ آئی، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بڑا غم ہوا، اور مشرکین مکہ کو ہنسنے اور مذاق اڑانے کا موقع ملا، پندرہ روز کے اس وقفہ کے بعد جب اس سورة میں سوالات کا جواب نازل ہوا تو اس کے ساتھ ہی یہ دو آیتیں ہدایت دینے کے لئے نازل ہوئیں کہ آئندہ کسی کام کے کرنے کو کہنا ہو تو انشاء اللہ کہہ کر اس کا اقرار کرلیا کریں کہ ہر کام اللہ تعالیٰ کے ارادے اور مشیت پر موقوت ہے، ان دونوں آیتوں کو قصہ اصحاب کہف کے ختم پر لایا گیا ہے۔- مسئلہ : اس آیت سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ ایسی صورت میں انشاء اللہ کہنا مستحب ہے، دوسرے یہ معلوم ہوا کہ اگر بھولے سے یہ کلمہ کہنے سے رہ جائے تو جب یاد آئے اسی وقت کہہ لے یہ حکم اس مخصوس معاملہ کے لئے ہے جس کے متعلق یہ آیات نازل ہوئی ہیں، یعنی محض تبرک اور اقرار عبدیت کے لئے یہ کلمہ کہنا مقصود ہوتا ہے، کوئی تعلیق اور شرط لگانا مقصود نہیں ہوتا اس لئے اس سے لازم نہیں آتا کہ معاملات بیع و شرا اور معاہدات میں جہاں شرطیں لگائی جاتی ہیں، اور شرط لگانا طرفین کے لئے معاہدہ کا مدار ہوتا ہے وہاں بھی اگر معاہدہ کے وقت کوئی شرط لگانا بھول جائے تو پھر کبھی جب یاد آجائے جو چاہے شرط لگا لے، اس مسئلے میں بعض فقہا کا اختلاف بھی ہے، جس کی تفصیل کتب فقہ میں ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللہُ ۝ ٠ۡوَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ وَقُلْ عَسٰٓي اَنْ يَّہْدِيَنِ رَبِّيْ لِاَقْرَبَ مِنْ ہٰذَا رَشَدًا۝ ٢٤- ذكر - الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل :- الذّكر ذکران :- ذكر بالقلب .- وذکر باللّسان .- وكلّ واحد منهما ضربان :- ذكر عن نسیان .- وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ، - ( ذک ر ) الذکر - ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔- نسی - النِّسْيَانُ : تَرْكُ الإنسانِ ضبطَ ما استودِعَ ، إمَّا لضَعْفِ قلبِهِ ، وإمَّا عن غفْلةٍ ، وإمَّا عن قصْدٍ حتی يَنْحَذِفَ عن القلبِ ذِكْرُهُ ، يقال : نَسِيتُهُ نِسْيَاناً. قال تعالی: وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ، فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] ، لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] ، فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] ، ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] ، سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] إِخبارٌ وضَمَانٌ من اللهِ تعالیٰ أنه يجعله بحیث لا يَنْسَى ما يسمعه من الحقّ ، وكلّ نسْيانٍ من الإنسان ذَمَّه اللهُ تعالیٰ به فهو ما کان أصلُه عن تعمُّدٍ. وما عُذِرَ فيه نحو ما رُوِيَ عن النبيِّ صلَّى اللَّه عليه وسلم : «رُفِعَ عَنْ أُمَّتِي الْخَطَأُ وَالنِّسْيَانُ» فهو ما لم يكنْ سَبَبُهُ منه . وقوله تعالی: فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] هو ما کان سببُهُ عن تَعَمُّدٍ منهم، وترْكُهُ علی طریقِ الإِهَانةِ ، وإذا نُسِبَ ذلك إلى اللہ فهو تَرْكُهُ إيّاهم استِهَانَةً بهم، ومُجازاة لِما ترکوه . قال تعالی: فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] ، نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] وقوله : وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] فتنبيه أن الإنسان بمعرفته بنفسه يعرف اللَّهَ ، فنسیانُهُ لله هو من نسیانه نَفْسَهُ. وقوله تعالی: وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] . قال ابن عباس : إذا قلتَ شيئا ولم تقل إن شاء اللَّه فَقُلْهُ إذا تذكَّرْتَه «2» ، وبهذا أجاز الاستثناءَ بعد مُدَّة، قال عکرمة «3» : معنی «نَسِيتَ» : ارْتَكَبْتَ ذَنْباً ، ومعناه، اذْكُرِ اللهَ إذا أردتَ وقصدتَ ارتکابَ ذَنْبٍ يكنْ ذلک دافعاً لك، فالنِّسْيُ أصله ما يُنْسَى کالنِّقْضِ لما يُنْقَض، - ( ن س ی ) النسیان - یہ سنیتہ نسیانا کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو ضبط میں نہ رکھنے کے ہیں خواہ یہ ترک ضبط ضعف قلب کی وجہ سے ہو یا ازارہ غفلت ہو یا قصدا کسی چیز کی یاد بھلا دی جائے حتیٰ کہ وہ دل سے محو ہوجائے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ عَهِدْنا إِلى آدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْماً [ طه 115] ہم نے پہلے آدم (علیہ السلام) سے عہد لیا تھا مگر وہ اسے بھول گئے اور ہم نے ان میں صبر وثبات نہ دیکھا ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَما أَنْسانِيهُ إِلَّا الشَّيْطانُ [ الكهف 63] تو میں مچھلی وہیں بھول گیا ۔ اور مجھے آپ سے اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا ۔ لا تُؤاخِذْنِي بِما نَسِيتُ [ الكهف 73] کہ جو بھول مجھ سے ہوئی اس پر مواخذاہ نہ کیجئے فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ [ المائدة 14] مگر انہوں نے بھی اس نصیحت کا جوان کو کی گئی تھی ایک حصہ فراموش کردیا ۔ ثُمَّ إِذا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِنْهُ نَسِيَ ما کانَ يَدْعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ [ الزمر 8] پھر جب وہ اس کو اپنی طرف سے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس کام کے لئے پہلے اس کو پکارتا ہے اسے بھول جاتا ہے اور آیت سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسى[ الأعلی 6] ہم تمہیں پڑھائیں گے کہ تم فراموش نہ کرو گے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ایسا بنادے گا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے سنو گے اسے بھولنے نہیں پاؤ گے پھر ہر وہ نسیان جو انسان کے قصد اور ارداہ سے ہو وہ مذموم ہے اور جو بغیر قصد اور ارادہ کے ہو اس میں انسان معزور ہے اور حدیث میں جو مروی ہے رفع عن امتی الخطاء والنیان کہ میری امت کو خطا اور نسیان معاف ہے تو اس سے یہی دوسری قسم کا نسیان مراد ہے یعنیوی جس میں انسان کے ارادہ کو دخل نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ فَذُوقُوا بِما نَسِيتُمْ لِقاءَ يَوْمِكُمْ هذا إِنَّا نَسِيناكُمْ [ السجدة 14] سو اب آگ کے مزے چکھو اس لئے کہ تم نے اس دن کے آنے کو بھلا رکھا تھا ۔ میں نسیان بمعنی اول ہے یعنی وہ جس میں انسان کے قصد اور ارادہ کو دخل ہو اور کسی چیز کو حقیر سمجھ کرا سے چھوڑ دیا جائے ۔ پھر جب نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس سے ازراہ اہانث انسان کو چھوڑ ینے اور احکام الہیٰ کے ترک کرنے کی وجہ سے اسے سزا دینے کے معنی مراد ہوتے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَالْيَوْمَ نَنْساهُمْ كَما نَسُوا لِقاءَ يَوْمِهِمْ هذا[ الأعراف 51] تو جس طرح یہ لوگ اس دن کے آنے کو بھولے ہوئے تھے اس طرح آج ہم بھی انہیں بھلا دیں گے ۔ نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ [ التوبة 67] انہوں نے خدا کو بھلا یا تو خدا نے بھی ان کو بھلا دیا ۔ وَلا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ [ الحشر 19] اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے ۔ میں متنبہ کیا ہے کہ انسان اپنے نفس کی معرفت حاصل کرنے سے ہی معرفت الہیٰ حاصل کرسکتا ہے لہذا انسان کا اللہ تعالیٰ کو بھلا دینا خود اپنے آپکو بھال دینے کے مترادف ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذا نَسِيتَ [ الكهف 24] اور جب خدا کا نام لینا بھال جاؤ تو یاد آنے پر لے لو ۔ کے ابن عباس نے یہ معنی کئے ہیں کہ جب تم کوئی بات کہو اور اس کے ساتھ انشاء اللہ کہنا بھول جاؤ تو یاد آنے پر انشاء اللہ کہہ لیا کرو ۔ اسی لئے ابن عباس کے نزدیک حلف میں کچھ مدت کے بعد بھی انشاء اللہ کہنا جائز ہے اور عکرمہ نے کہا ہے کہ نسیت بمعنی ارتکبت ذنبا کے ہے ۔ اور آیت کے معنی یہ ہیں ۔ کہ جب تمہیں کسی گناہ کے ارتکاب کا خیال آئے تو اس وسوسہ کو دفع کرنے کے لئے خدا کے ذکر میں مشغول ہوجایا کرو تاکہ وہ وسوسہ دفع ہوجائے ۔ النسی کے اصل معنی ماینسیٰ یعنی فراموش شدہ چیز کے ہیں جیسے نقض بمعنی ماینقض آتا ہے ۔ مگر عرف میں نسی اس معمولی چیز کو کہتے ہیں جو در خود اعتناء نہ سمجھی جائے - عسی - عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] ، أي : کونوا راجین في ذلك . فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ- [ المائدة 52] ، عَسى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ [ التحریم 5] ، وَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ [ البقرة 216] ، فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ [ محمد 22] ، هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتالُ [ البقرة 246] ، فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْراً كَثِيراً [ النساء 19] . والمُعْسِيَاتُ «1» من الإبل : ما انقطع لبنه فيرجی أن يعود لبنها، فيقال : عَسِيَ الشّيءُ يَعْسُو : إذا صَلُبَ ، وعَسِيَ اللّيلُ يَعْسَى. أي : أَظْلَمَ. «2» .- ( ع س ی )- عسیٰ کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے اسی طرح فرمایا : ۔ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] سو قریب ہے کہ خدا فتح بھیجے عَسى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ [ التحریم 5] اگر پیغمبر تم کو طلاق دے دیں تو عجب نہیں کہ انکار پروردگار وَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ [ البقرة 216] مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بری لگے اور وہ تمہارے حق میں بھلی ہو ۔ فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ [ محمد 22] تم سے عجب نہیں کہ اگر تم حاکم ہوجاؤ ۔ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتالُ [ البقرة 246] کہ اگر تم کو جہاد کا حکم دیا جائے تو عجب نہیں فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً وَيَجْعَلَ اللَّهُ فِيهِ خَيْراً كَثِيراً [ النساء 19] اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور خدا اس میں بہت سی بھلائی پیدا کر دے ۔ المعسیانشتر مادہ جس کا دودھ منقطع ہوگیا ہو اور اس کے لوٹ آنے کی امید ہو ۔ عسی الیل یعسو رات کا تاریک ہوجانا ۔- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ «3» ، وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة .- نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] - ( ق ر ب ) القرب - والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ قرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے - رشد - الرَّشَدُ والرُّشْدُ : خلاف الغيّ ، يستعمل استعمال الهداية، يقال : رَشَدَ يَرْشُدُ ، ورَشِدَ «5» يَرْشَدُ قال : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة 186] - ( ر ش د ) الرشد - والرشد یہ غیٌ کی ضد ہے اور ہدایت کے معنی استعمال ہوتا ہے اور یہ باب نصرعلم دونوں سے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ [ البقرة 186] تاکہ وہ سیدھے رستے پر لگ جائیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ )- یعنی مستقبل کے بارے میں جب بھی کوئی بات کریں تو ” ان شاء اللّٰہ “ ضرور کہیں کہ اگر اللہ نے چاہا تو میں یوں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر یہ خصوصی فضل ہے کہ انہیں اپنی معاشرتی زندگی میں روز مرہ کے معمولات کے لیے ایسے کلمات سکھائے گئے جن میں توحید کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ آپ نے کوئی خوبصورت چیز دیکھی جس سے آپ کا دل خوش ہوا آپ نے کہا : سبحان اللّٰہ گویا آپ نے اقرار کیا کہ یہ اس چیز کا کمال نہیں اور نہ ہی یہ چیز بذات خود لائق تعریف ہے بلکہ تعریف تو اللہ کی ہے جس نے یہ خوبصورت چیز بنائی۔ آپ کی کوئی تکلیف دور ہوئی تو منہ سے نکلا : الحَمد للّٰہ یعنی جو بھی مشکل آسان ہوئی اللہ کی مدد اس کی مہربانی اور اس کے حکم سے ہوئی لہٰذا شکر بھی اسی کا ادا کیا جائے گا۔ آپ اپنے گھر میں داخل ہوئے اہل و عیال کو خوش و خرم پایا آپ نے کہا : مَاشَاء اللّٰہ کہ اس میں میرا یا کسی اور کا کوئی کمال نہیں یہ سب اللہ کی مرضی اور مشیت سے ہے۔ اسی طرح مستقبل میں کسی کام کے کرنے کے بارے میں اظہار کیا تو ساتھ ان شاء اللّٰہ کہا۔ یعنی میرا ارادہ تو یوں ہے مگر صرف میرے ارادے سے کیا ہوتا ہے حقیقت میں یہ کام تبھی ہوگا اور میں اسے تبھی کر پاؤں گا جب اللہ کو منظور ہوگا کیونکہ اللہ کی مشیت اور مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ گویا ان کلمات کے ذریعے قدم قدم پر اور بات بات میں ہمیں توحید کا سبق یاد دلایا جاتا ہے۔ اللہ کے علم اس کے حکم اس کے اختیار و اقتدار اس کی قدرت اس کی مشیت کے مطلق اور فائق ہونے کے اقرار کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کلمات (اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ‘ اِنْ شَاء اللّٰہ ‘ مَاشَاء اللّٰہ) اس سورت میں موجود ہیں۔- (وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ )- اگر کسی وقت بھول جائیں تو یاد آنے پر دوبارہ اللہ کی طرف اپنا دھیان لگا لیجئے۔ - (وَقُلْ عَسٰٓي اَنْ يَّهْدِيَنِ رَبِّيْ لِاَقْرَبَ مِنْ هٰذَا رَشَدًا)- یعنی کسی بھی کام کے لیے کوشش کرتے ہوئے انسان کو ” تفویض الامر الی اللہ “ کی کیفیت میں رہنا چاہیے کہ اگر اللہ کو منظور ہوا تو میں اس کوشش میں کامیاب ہوجاؤں گا ورنہ ہوسکتا ہے میرا رب میرے لیے اس سے بھی بہتر کسی کام کے لیے اسباب پیدا فرما دے۔ گویا انسان اپنے تمام معاملات ہر وقت اللہ تعالیٰ کے سپرد کیے رکھے :- سپردم بتو مایۂ خویش را تو دانی حساب کم وبیش را

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :24 یہ ایک جملہ معترضہ ہے جو پچھلی آیت کے مضمون کی مناسبت سے سلسلۂ کلام کے بیچ میں ارشاد فرمایا گیا ہے ۔ پچھلی آیت میں ہدایت کی گئی تھی کہ اصحاب کہف کی تعداد کا صحیح علم اللہ کو ہے اور اس کی تحقیق کرنا ایک غیر ضروری کام ہے ، لہٰذا خواہ مخواہ ایک غیر ضروری بات کی کھوج میں لگنے سے پرہیز کرو ۔ اور اس پر کسی سے بحث بھی نہ کرو ۔ اس سلسلہ میں آگے کی بات ارشاد فرمانے سے پہلے جملۂ معترضہ کے طور پر ایک اور ہدایت بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور اہل ایمان کو دی گئی اور وہ یہ کہ تم کبھی دعوے سے یہ نہ کہہ دینا کہ میں کل فلاں کام کردوں گا ۔ تم کو کیا خبر کہ تم وہ کام کر سکو گے یا نہیں ۔ نہ تمہیں غیب کا علم ، اور نہ تم اپنے افعال میں ایسے خود مختار کہ جو کچھ چاہو کر سکو ۔ اس لیے اگر کبھی بے خیالی میں ایسی بات زبان سے نکل بھی جائے تو فوراً متنبہ ہو کر اللہ کو یاد کرو اور ان شاء اللہ کہہ دیا کرو ۔ مزید برآں تم یہ بھی نہیں جانتے کہ جس کام کے کرنے کو تم کہہ رہے ہو ، آیا اس میں خیر ہے یا کوئی دوسرا کام اس سے بہتر ہے ۔ لہٰذا اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے یوں کہا کرو کہ امید ہے میرا رب اس معاملے میں صحیح بات ، یا صحیح طرز عمل کی طرف میری رہنمائی فرما دے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

18: جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے اصحاب کہف اور ذُولقرنین کے بارے میں سوال کیا گیا تھا، اُس وقت آپ نے سوال کرنے والوں سے ایک طرح کا وعدہ کرلیا تھا کہ میں اِس سوال کا جواب کل دوں گا، اُس وقت آپ ان شا اللہ کہنا بھول گئے تھے اور آپ کو یہ امید تھی کہ کل تک وحی کے ذریعے آپ کو ان واقعات سے باخبر کردیا جائے گا، اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے یہ مستقل ہدایت عطا فرمائی کہ کسی بھی مسلمان کو آئندہ کے بارے میں کوئی بات ’’ان شا اللہ‘‘ کہے بغیر نہیں کہنی چاہئے، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس معاملے میں چونکہ آپ نے ’’اِن شا اللہ‘‘ نہیں فرمایا تھا، اس لئے اگلے روز وہی نہیں آئی، بلکہ کئی روز کے بعد وحی آئی اور اُس میں یہ ہدایت بھی دی گئی۔ 19:: اَصحابِ کہف کا واقعہ سوال کرنے والوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوّت کی دلیل کے طور پر پوچھا تھا۔ اس آیت میں فرمایا جارہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو نبوّت کے اور بھی دلائل عطا فرمائے ہیں جو اصحاب کہف کا واقعہ سنانے سے بھی زیادہ واضح ہیں۔