ان شاء اللہ کہنے کا حکم اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ختم المرسلین نبی کو ارشاد فرماتا ہے کہ جس کام کو کل کرنا چاہو تو یوں نہ کہہ دیا کرو کہ کل کروں گا بلکہ اس کے ساتھ ہی انشاء اللہ کہہ لیا کرو کیونکہ کل کیا ہو گا ؟ اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے ۔ علام الغیوب اور تمام چیزوں پر قادر صرف وہی ہے ۔ اس کی مدد طلب کر لیا کرو ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کی نوے بیویاں تھیں ۔ ایک روایت میں ہے سو تھیں ۔ ایک میں ہے بہتر ( ٧٢ ) تھیں تو آپ نے ایک بار کہا کہ آج رات میں ان سب کے پاس جاؤں گا ہر عورت کو بچہ ہو گا تو سب اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے ، اس وقت فرشتے نے کہا انشاء اللہ کہہ ۔ مگر حضرت سلیمان علیہ السلام نے نہ کہا ، اپنے ارادے کے مطابق وہ سب بیویوں کے پاس گئے ، مگر سوائے ایک بیوی کے کسی کے ہاں بچہ نہ ہوا اور جس ایک کے ہاں ہوا بھی وہ بھی آدھے جسم کا تھا ۔ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر وہ انشاء اللہ کہہ لیتے تو یہ ارادہ ان کا پورا ہوتا اور ان کی حاجت روائی ہو جاتی ۔ اور یہ سب بچے جوان ہو کر راہ حق کے مجاہد بنتے ۔ اسی سورت کی تفسیر کے شروع میں اس آیت کا شان نزول بیان ہو چکا ہے کہ جب آپ سے اصحاب کہف کا قصہ دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں کل تمہیں جواب دوں گا ۔ انشاء اللہ نہ کہا اس بنا پر پندرہ دن تک وحی نازل نہ ہوئی ۔ اس حدیث کو پوری طرح ہم نے اس سورت کی تفسیر کے شروع میں بیان کر دیا ہے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی حاجت نہیں ۔ پھر بیان فرماتا ہے کہ جب بھول جائے تب اپنے رب کو یاد کر یعنی انشاء اللہ کہنا اگر موقعہ پر یاد نہ آیا تو جب یاد آئے کہہ لیا کر ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شخص کے بارے میں فرماتے ہیں جو حلف کھائے کہ اسے پھر بھی انشاء اللہ کہنے کا حق ہے گو سال بھر گزر چکا ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے کلام میں یا قسم میں انشاء اللہ کہنا بھول گیا تو جب بھی یاد آئے کہہ لے گو کتنی مدت گزر چکی ہو اور گو اس کا خلاف بھی ہو چکا ہو ۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ اب اس پر قسم کا کفارہ نہیں رہے گا اور اسے قسم توڑنے کا اختیار رہے ۔ یہی مطلب اس قول کا امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے اور یہی بالکل ٹھیک ہے اسی پر حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کلام محمول کیا جا سکتا ہے ان سے اور حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ مراد انشاء اللہ کہنا بھول جانا ہے ۔ اور روایت میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے ، دوسرا کوئی تو اپنی قسم کے ساتھ ہی متصل طور پر انشاء اللہ کہے تو معتبر ہے ۔ یہ بھی ایک مطلب ہے کہ جب کوئی بات بھول جاؤ تو اللہ کا ذکر کرو کیونکہ بھول شیطانی حرکت ہے اور ذکر الہٰی یاد کا ذریعہ ہے ۔ پھر فرمایا کہ تجھ سے کسی ایسی بات کا سوال کیا جائے کہ تجھے اس کا علم نہ ہو تو تو اللہ تعالیٰ سے دریافت کر لیا کر اور اس کی طرف توجہ کر تاکہ وہ تجھے ٹھیک بات اور ہدایت والی راہ بتا اور دکھا دے ۔ اور بھی اقوال اس بارے میں مروی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔
ۧوَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ ۔۔ : یہاں شان نزول میں ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اصحاب کہف، روح اور ذو القرنین سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا : ” میں تمہیں کل جواب دوں گا “ اور ” ان شاء اللہ “ نہ کہا، تو پندرہ (١٥) دن وحی رکی رہی، پھر یہ آیت اتری : (ۧوَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا 23ۙاِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ ) رازی (رض) نے فرمایا کہ قاضی نے اسے کئی وجہوں سے بےکار قرار دیا ہے۔ قاسمی نے فرمایا کہ ان کی بات حق ہے، کیونکہ محمد بن اسحاق نے یہ روایت ایک مجہول شیخ سے بیان کی ہے، جیسا کہ ابن کثیر (اور طبری) میں اس کی سندیں موجود ہیں۔ (محاسن التاویل)- 3 اس آیت کا ایک معنی تو مشہور ہے کہ کسی کام کے متعلق یہ مت کہو کہ میں کل یہ کام کرنے والا ہوں، مگر اس کے ساتھ ” ان شاء اللہ “ ضرور کہو، کیونکہ اللہ نے چاہا تو کام ہوگا، ورنہ نہیں۔ اس کی مثال سلیمان (علیہ السلام) کا واقعہ ہے کہ انھوں نے کہا : ( لَأَطُوْفَنَّ اللَّیْلَۃَ عَلٰی ماءَۃِ امْرَأَۃٍ أَوْ تِسْعٍ وَّتِسْعِیْنَ ، کُلُّھُنَّ یَأْتِيْ بِفَارِسٍ یُجَاھِدُ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَقَالَ لَہُ صَاحِبُہُ قَُلْ إِنْ شَاء اللّٰہُ ، فَلَمْ یَقُلْ إِنْ شَاء اللّٰہُ ، فَلَمْ تَحْمِلْ مِنْھُنَّ إِلَّا امْرَأَۃٌ وَاحِدَۃٌ جَاءَ تْ بِشِقِّ رَجُلٍ ، وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَوْ قَالَ إِنْ شَاء اللّٰہُ ، لَجَاھَدُوْا فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فُرْسَانًا أَجْمَعُوْنَ ) [ بخاري، الجہاد والسیر، باب من طلب الولد للجہاد : ٢٨١٩ ]” آج رات میں اپنی سو (١٠٠) یا فرمایا ننانوے (٩٩) عورتوں کے پاس جاؤں گا اور ہر عورت ایک بیٹا جنے گی، جو جہاد فی سبیل اللہ کا شہ سوار ہوگا۔ “ ان کے ایک ساتھی نے کہا : ” ان شاء اللہ کہیے۔ “ مگر سلیمان (علیہ السلام) نے (مشغولیت وغیرہ کی وجہ سے) ان شاء اللہ نہ کہا، تو ان عورتوں میں سے صرف ایک عورت کو حمل ہوا اور وہ بھی ادھورا بیٹا ہوا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اگر وہ ان شاء اللہ کہتے تو سب عورتوں کے بیٹے ہوتے جو شہ سوار ہوتے اور سب اللہ کے راستے میں جہاد کرتے۔ “- دوسرا معنی یہ ہے کہ اے نبی کسی کام کے بارے میں (اپنی مرضی سے) یہ مت کہیے کہ کل میں یہ کام کرنے والا ہوں، مگر یہ کہ اللہ چاہے، یعنی اللہ چاہے گا کہ آپ وہ کام کریں تو وہ آپ کو اجازت دے گا، پھر آپ اس کے اذن سے یہ کہہ سکتے ہیں۔ (قاسمی) یہ معنی ”ۙاِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ “ الفاظ کے زیادہ قریب ہے اور سورة نجم کی آیات (٣، ٤) : (وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى ۭاِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى ) میں بھی یہی مفہوم ہے۔ - وَاذْكُرْ رَّبَّكَ اِذَا نَسِيْتَ : یعنی جب بھول جائیں تو یاد آنے پر ” ان شاء اللہ “ کہہ لیں۔ یاد رہے کہ قسم کے ساتھ ” ان شاء اللہ “ کہہ لے تو قسم پوری نہ کرنے پر کوئی کفارہ نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر قسم سے متصل ” ان شاء اللہ “ نہ کہے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا، مگر یہ آیت دلیل ہے کہ اگر اس کا ارادہ ” ان شاء اللہ “ کہنے کا تھا مگر بھول کر نہیں کہہ سکا اور یاد آتے ہی اس نے کہہ لیا تو اس کا اعتبار ہوگا۔ مستدرک حاکم (٤؍٣٠٣، ح : ٧٨٣٣) میں صحیح سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کا قول مروی ہے کہ جب آدمی کسی بات پر قسم کھالے تو وہ ایک سال تک ” ان شاء اللہ “ کہہ سکتا ہے۔ “ ابن قیم (رض) نے مدارج السالکین میں فرمایا : ” یہ نسیان کی صورت میں ہے۔ “ (محاسن التاویل ملخصاً )- وَقُلْ عَسٰٓي اَنْ يَّهْدِيَنِ رَبِّيْ ۔۔ : اور کہہ دیجیے کہ مجھے اپنے رب سے امید ہے کہ وہ مجھے اصحاب کہف کی خبر سے بھی قریب تر لوگوں کی ہدایت کا باعث بننے والی خبریں بتائے گا جن سے میری رسالت ثابت ہوگی، چناچہ اللہ تعالیٰ نے غیب کی بہت سی خبریں آپ کو بتائیں جن کی کسی کو کچھ خبر نہ تھی۔
خلاصہ تفسیر :۔- (اور اگر لوگ آپ سے کوئی بات قابل جواب دریافت کریں اور آپ جواب کا وعدہ کریں تو اس کے ساتھ انشاء اللہ تعالیٰ یا اس کے ہم معنی کوئی لفظ ضرور ملا لیا کریں، بلکہ وعدہ کی بھی تخصیص نہیں، ہر ہر کام میں اس کا لحاظ رکھیں کہ) آپ کسی کام کی نسبت یوں نہ کہا کیجئے کہ میں اس کو (مثلا) کل کر دوں گا مگر خدا کے چاہنے کو (اس کے ساتھ) ملا دیا کیجئے (یعنی انشاء اللہ وغیرہ بھی ساتھ کہہ دیا کیجئے، اور آئندہ ایسا نہ ہو جیسا اس واقعہ میں پیش آیا کہ آپ سے لوگوں نے روح اور اصحاب کہف اور ذو القرنین کے متعلق سوالات کئے، آپ نے بغیر انشاء اللہ کہے ان سے کل جواب دینے کا وعدہ کرلیا، پھر پندرہ روز تک وحی نازل نہ ہوئی اور آپ کو بڑا غم ہوا، اس ہدایت کے ساتھ ان لوگوں کے سوال کا جواب بھی نازل ہوا (کذا فی اللباب عن ابن عباس) اور جب آپ (اتفاقا انشاء اللہ کہنا) بھول جاویں (اور پھر کبھی یاد آوے) تو (اسی وقت انشاء اللہ کہہ کر) اپنے رب کا ذکر کرلیا کیجئے اور (ان لوگوں سے یہ بھی) کہہ دیجئے کہ مجھ کو امید ہے کہ میرا رب مجھ کو (نبوت کی دلیل بننے کے اعتبار سے) اس (قصہ) سے بھی نزدیک تر بات بتلاوے (مطلب یہ ہے کہ تم نے میری نبوت کا امتحان لینے کے لئے اصحاب کہف وغیرہ کے قصے دریافت کئے، جو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی مجھے بتلا کر تمہارا اطمینان کردیا، مگر اصل بات یہ ہے کہ ان قصوں کے سوال و جواب اثبات نبوت کے لئے کوئی بہت بڑی دلیل نہیں ہو سکتی، یہ کام تو کوئی غیر نبی بھی جو تاریخ عالم سے زیادہ واقف ہو وہ بھی کرسکتا ہے، مگر مجھے تو اللہ تعالیٰ نے میری نبوت کے اثبات کے لئے اس بھی بڑے قطعی دلائل اور معجزات عطا فرمائے ہیں، جن میں سب سے بڑی دلیل تو خود قرآن ہے، جس کی ایک آیت کی بھی ساری دنیا مل کر نقل نہیں اتار سکی۔- اس کے علاوہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر قیامت تک کے وہ واقعات بذریعہ وحی مجھے بتلا دئیے گئے ہیں جو زمانے کے اعتبار سے بھی بہ نسبت واقعہ اصحاب کہف و ذو القرنین کے زیادہ بعید ہیں، اور ان کا علم بھی کسی کے لئے بجز وحی کے ممکن نہیں ہو سکتا، خلاصہ یہ ہے کہ تم نے تو اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے واقعات کو سب سے زیادہ عجیب سمجھ کر اسی کو امتحان نبوت کے سوال میں پیش کیا، مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے بھی زیادہ عجیب عجیب چیزوں کے علوم عطا فرمائے ہیں) اور (جیسا اختلاف ان لوگوں کا اصحاب کہف کے عدد میں ہے ایسا ہی ان کے سوتے رہنے کی مدت میں بھی بہت اختلاف ہے، ہم اس میں صحیح بات بتلاتے ہیں کہ) وہ لوگ اپنے غار میں (نیند کی حالت میں) تین سو برس تک رہے اور نو برس اوپر اور رہے (اور اگر اس صحیح بات کو سن کر بھی وہ اختلاف کرتے رہے تو) آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے (سوتے) رہنے کی مدت کو (تو تم سے) زیادہ جانتا ہے (اس لئے جو اس نے بتلا دیا وہی صحیح ہے اور اس واقعہ کی کیا تخصیص ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ) تمام آسمانوں اور زمین کا علم غیب اسی کو ہے وہ کیسا کچھ دیکھنے والا کیسا کچھ سننے والا ہے، ان کا خدا کے سوا کوئی بھی مددگار نہیں اور نہ اللہ کسی کو اپنے حکم میں شریک (کیا) کرتا ہے (خلاصہ یہ ہے کہ نہ اس کا کوئی مزاحم ہے نہ شریک، ایسی ذات عظیم کی مخالفت سے بہت ڈرنا چاہئے) ۔- معارف و مسائل :۔- مذکور الصدر چار آیتوں پر قصہ اصحاب کہف ختم ہو رہا ہے، ان میں سے پہلی دو آیتوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ آئندہ زمانے میں کسی کام کے کرنے کا وعدہ یا اقرار کرنا ہو تو اس کے ساتھ انشاء اللہ تعالیٰ کا کلمہ ملا لیا کرو، کیونکہ آئندہ کا حال کس کو معلوم ہے کہ زندہ بھی رہے گا یا نہیں، اور زندہ بھی رہا تو یہ کام کرسکے گا یا نہیں، اس لئے مومن کو چاہئے کہ اللہ پر بھروسہ دل میں بھی کرے اور زبان سے اس کا اقرار کرے کہ اگلے دن میں کسی کام کے کرنے کو کہے تو یوں کہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو میں یہ کام کل کروں گا، یہی معنی ہیں کلمہ انشاء اللہ کے۔- تیسری آیت میں اس اختلافی بحث کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں زمانہ اصحاب کہف کے لوگوں کی رائیں بھی مختلف تھیں، اور موجودہ زمانے کے یہود و نصاری کے اقوال بھی مختلف تھے یعنی غار میں سوتے رہنے کی مدت، اس آیت میں بتلا دیا گیا کہ وہ تین سو نو سال تھے، گویا یہ اس اجمال کا بیان ہے جو شروع قصہ میں بیان ہوا تھا، (آیت) فَضَرَبْنَا عَلٰٓي اٰذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِيْنَ عَدَدًا۔- اس کے بعد چوتھی آیت میں پھر اس سے اختلاف کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ حقیقت حال کی تم کو خبر نہیں، اس کا جاننے والا وہی اللہ تعالیٰ ہے جو آسمانوں اور زمین کے سب غائبات کو جاننے والا سمیع وبصیر ہے، اس نے جو مدت تین سو نو سال کی بتلا دی اس پر مطمئن ہوجانا چاہئے۔
وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا ٢٣ۙ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔
قسم میں استناء کا بیان - قول باری ہے (ولا تقولن لشای انی فاعل ذلک غداً الا ان یشآء اللہ اور کسی چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام کروں گا (تم کچھ نہیں کرسکتے) الا یہ کہ اللہ چاہے ) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اس قسم کا استثناء کلام کے حکم کو رفع کرنے کے لئے کلام میں داخل ہوتا ہے اور پھر کلام کے حکم کا وجود اور عدم دونوں یکساں ہوجاتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی مشیت کے ساتھ استثناء کرنے کی تلقین فرمائی تاکہ آپ اپنی قسم میں کاذب نہ قرار دیئے جائیں یہ چیز ہماری اس بات پر دلالت کرتی ہے جو ہم نے ایسے کلام کے حکم کے متعلق ابھی بیان کی ہے۔ اس پر وہ قول باری بھی دلالت کرتا ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قول کو نقل کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے (ستجدنی ان شاء اللہ صابراً اگر اللہ چاہے تو آپ مجھے صابر پائیں گے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے صبر نہیں کیا بلکہ حضرت خضر (علیہ السلام) کے ہر فعل پر انہیں ٹوکا لیکن اس کے باوجود آپ کو جھوٹا قرار نہیں دیا گیا کیونکہ آپ کے کلام میں استثناء موجود تھا۔ یہ چیز ہماری درج بالا سطور میں بیان کردہ بات پر دلالت کرتی ہے کہ استثناء کا دخول کلام کے حکم کو رفع کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ اس کے حکم میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے خواہ یہ قسم پر داخل ہوا ہو یا عتاق پر یا ایقاع طلاق پر - ایوب نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (من حلف علی یمین فقال ان شاء اللہ فلاح حنث علیہ جس شخص نے اپنی قسم کے ساتھ ان شاء اللہ کہہ دیا نہ وہ حانث نہیں ہوگا) روایت کے بعض طرق میں ہے (فقد استثنیٰ اس نے استثناء کردیا) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس ارشاد میں یمین یعنی قسم کی مختلف صورتوں میں کوئی فرق نہیں کیا اس لئے اسے ان تمام صورتوں پر محمول کیا جائے گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے اس سلسلے میں اسی قسم کا قول منقول ہے ۔ عطاء ، طائوس، مجاہد اور ابراہیم نخعی کا قول ہے ہر چیز میں استثناء ہوسکتا ہے۔- ” انشاء اللہ تجھے طلاق “ والی روایت ضعیف ہے - اسماعیل بن عیاش نے حمید بن مالک اللخمی سے، انہوں نے مکحول سے اور انہوں نے حضرت معاذ بن جبل سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (اذا قال الرجل لعبدہ انت حران شاء اللہ فھو حر و اذقال لامرأتہ انت طالق ان شاء اللہ فلیست بمطابق ۔ جب کوئی شخص اپنے غلام سے کہے کہ تو آزاد ہے اور ساتھ ہی انشاء اللہ بھی کہہ دے تو غلام آزاد ہوجائے گا اور اگر اپنی بیوی سے کہے کہ انشاء اللہ تجھے طلاق ہے تو اس پر طلاق واقع نہیں ہوگی) ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ ایک شاذ و روایت ہے اس کی سند بھی انتہائی ضعیف اور اہل علم کے نزدیک یہ معمول بہ بھی نہیں ہے۔- استثناء کی صحت پر اہل علم کا اتفاق ہے لیکن اس وقت کے بارے میں اختلاف ہے جس میں استثناء درست ہوتا ہے اس کے متعلق اہل علم کے تین اقوال ہیں۔ حضرت ابن عباس، مجاہد ، سعید بن جبیر اور ابوالعالیہ کا قول ہے کہ اگر ایک شخص ایک سال کے بعد استثناء کرتا ہے تو اس کا استثناء درست ہوگا۔ حسن بصری اور طائوس کا قول ہے کہ جب تک اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے فقرہ کہا ہو اس وقت تک اس فقرے میں استثناء کرنا درست ہوگا۔ ابراہیم نخعی، عطاء بن ابی رباح اور شعبی کا قول ہے کہ صرف وہی استثناء درست ہوتا ہے جو کلام کے ساتھ متصل ہو۔ ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ ایک شخص قسم کھا کر کوئی بات کہتا ہے اور اپنے دل میں اس کے اندر استثناء کر لیت ا ہے تو اس کا یہ استثناء درست نہ ہ وگا جب تک وہ اونچی آواز میں اسے نہیں کہے گا جس طرح اس نے اونچی آواز میں قسمیہ فقرہ کہا تھا۔ ہمارے نزدیک ابراہیم نخعی کا یہ قول اس معنی پر محمول ہے کہ اگر یہ شخص یہ دعویٰ کرے گا کہ اس نے استثناء کرلیا تھا تو عدلات اس کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کرے گی جب کہ اس کی قسم کو لوگوں نے سنا تھا اور استثناء کسی نے نہیں سنا۔ ہمارے اصحاب اور دوسرے تمام فقہاء کا قول ہے کہ استثناء اسی وقت درست ہوگا جبکہ یہ کلام کے ساتھ متصل ہوگا اس لئے کہ استثناء کی حیثیت شرط جیسی ہوتی ہے اور شرط صرف ایسی صورت میں درست ہوتی اور اس کا حکم اسی وقت ثابت ہوتا ہے جب یہ کسی فصل کے بغیر کلام کے ساتھ ملحق کردی جائے۔- طلاق کہنے کے انداز - مثلاً کوئی شخص اپنی بیوی کو کہے ” انت طالق ان دخلت السداد “ (اگر تو گھر میں داخل ہوئی تو تجھے طلاق لیکن اگر اس نے پہلے ” انت طالق “ کہا پھر خاموش ہوگیا اور اس کے بعد ” ان دخلت الداد کیا تو اب طلاق کا تعلق گھر میں داخل ہونے کے ساتھ نہیں ہوگا۔ اگر یہ بات جائز ہوتی تو پھر اپنی بیوی سے یہ کہنا بھی جائز ہوتا ” ان طالق ثلاثاً (تمہیں تین طلاق) پھر ایک سال کے بعد کہتا ” انشاء اللہ “ اس صورت میں طلاق باطل ہوجاتی اور پہلے شوہر کے ساتھ نکاح کی اباحت کے لئے اسے کسی اور مرد سے نکاح کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے تین طلاقوں کی وجہ سے شوہر پر اس کی مطلقہ بیوی کو حرام کردیا اور تحلیل کی صورت یہ رکھی کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح کرے اور اس سے طلاق حاصل کرنے کے بعد پھر پہلے شوہر کے عقد میں آئے، اس حکم میں سکوت کے بعد استثناء کے بطلان پر دلالت موجود ہے۔ بیوی کو طلاق دینے کی صورت میں جب یہ بات درست ہوگئی کہ اس میں استثناء صرف اس شکل میں درست ہوتا ہے جب یہ کلام کے ساتھ متصل ہو تو قسم کی صورت میں بھی اس کا یہی حکم ہوگا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کے بارے میں یہ ذکر فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کے متعلق یہ قسم کھائی تھی کہ اگر بیماری سے صحت حاصل ہوجائے گی تو اس کی پٹائی کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ گھسا کا ایک مٹھا ہاتھ میں لے کر بیوی کو ماریں اور اپنی قسم نہ توڑیں ۔ اگر قسم کھانے کے بعد وقفہ ڈال کر استثناء کرنا درست ہوتا تو اللہ تعالیٰ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو استثناء کرنے کا حکم دے دیتا اور انہیں اپنی بیوی کو گھاس کے میٹھے وغیرہ کے ذریعے مارنے کی ضرورت باقی نہ رہتی۔- قسم توڑنے کا بیان - اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے (من حلف علی یمین فرأی غیرھا خیراً منھا قلیات الذی ھو خیرولیکفرعن یمینہ جو شخص کسی چیز کے متعلق قسم کھا بیٹھے اور پھر اسے دوسری صورت بہتر نظر آئے تو اسے چائے کہ دوسری صورت اختیار کرے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے ) اگر قسم کھانے کے بعد وقفہ ڈال کر استثناء کرنا درست ہوتا تو آپ اسے استثناء کرلینے کا حکم دیتے اور پھر اسے کفارہ ادا کرنے کی ضرورت نہ رہتی۔ آپ نے یہ فرمایا ہے (انی ان شاء اللہ لا احلف علی یمین فاری غیرھا خیراً منھا الا اتیت الذی ھو خیرو کفرت عن یمینی، میں انشاء اللہ کسی چیز کے متعلق قسم کھانے کے بعد اگر دوسری صورت کو اسے بہتر دیکھتا ہوں تو یہ صورت اختیار کر کے اپنی قسم کا کفارہ ادا کردیتا ہوں) آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ” دوسری صورت کو بہتر دیکھ کر انشاء اللہ کہہ کے اسے اختیار کرلیتا ہوں۔ “- اگر یہ کہا جائے کہ قیس نے سماک سے اور انہوں نے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دفعہ فرمایا :” بخدا میں قریش کے خلاف جنگ کروں گا، بخدا میں قریش کے خلاف جنگ کروں گا۔ “ اس کے بعد آپ خاموش ہوگئے اور ایک گھڑی خاموش رہنے کے بعد فرمایا۔” انشاء اللہ “ آپ نے سکوت فرمانے کے بعد استثناء کیا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا ، شریک نے یہی روایت سماک سے کی ہے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ نے تین دفعہ فرمایا :” بخدا میں قریش کے خلاف جنگ کروں گا تیسری دفعہ یہ فرماتے ہوئے آپ نے انشاء اللہ کہا۔ سماک نے یہ بتایا کہ آپ نے ان فقروں کے آخر میں استثناء کیا اور یہ چیز انشاء اللہ کو قسم کے ساتھ متصل ذکر کرنے کی مقتضی ہے۔ یہ روایت اس وجہ کی بن اپر جس کا ہم نے اپور ذکر کیا ہے اولیٰ ہے۔ اس روایت میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ اگر کوئی شخص بہت سی قسمیں کھائے اور آخری قسم کے ساتھ استثناء کا ذکر کر دے تو یہ استثناء تمام قسموں کی طرف راجع ہوگا۔- حضرت ابن عباس اور آپ کے ہم مسلک حضرات نے قسم کھانے کے بعد وقفہ ڈال کر استثناء کرنے کے جواز پر قول باری صولا تقولن لشای انی فاعل ذلک غداً الا ان یشآء اللہ واذکر ربک اذا نسیت) سے استدلال کیا ہے۔ ان حضرات نے قول باری (واذکر ربک اذا نسیت ) کو استثناء پر محمول کیا ہے لیکن یہ تاویل غیر ضروری ہے اس لئے کہ قول باری (واذکر ربک اذا نسیت) کے متعلق یہ کہنا درست ہے کہ اس کے ذریعے ایک نئے مضمون کی ابتداء کی گئی ہے اور یہ فقرہ ایک نئے کلام کی حیثیت رکھتا ہے اور ماقبل کے ساتھ اس کی تنظمین کے بغیر یہ مستقل بالذات ہے جس کلام کی یہ حیثیت ہو کسی اور کلام کے ساتھ اس کی تظمین جائز نہیں ہے۔ ثابت نے عکرمہ سے اس فقرے کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ ” جب تمہیں غصہ آ جائے “ اس تفسیر سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے اس فقرے کے ذریعے یاد الٰہی کے حکم کا ارادہ کیا ہے نیز یہ کہ سہو اور غفلت کی صورت میں یاد الٰہی کے اندر پناہ حاصل کی جائے۔ تفسیر میں یہ بھی مروی ہے کہ قول باری صولا تقولن لشایء انی فاعل ذلک غداً الا ان یشاء اللہ ) کا نزول اس سلسلے میں ہوا تھا کہ قریش نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق سوال کیا تھا اور آپ نے جواب میں فرمایا تھا کہ ” میں ت م لوگوں کو جلد اس بارے میں بتادوں گا۔ “ پھر یہ ہوا کہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کئی دنوں تک آپ کے پاس وحی سے کر نہیں آئے، کئی دن گزر جانے کے بعد حضرت جبرئیل (علیہ السلام) قریش کے سوال کا جواب بصورت وحی لے کر آئے۔ اس کے بعد اللہ ت عالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا کہ آپ مستقبل کے کسی کام کے متعلق علی الاطلاق کوئی بات نہ کہیں۔ اگر کہیں تو اسے اللہ کی مشیت کے ساتھ مشروط و مقرون کر کے ہمیں اسی سلسلے کی ایک اور روایت ہے جسے ہشام بن حسا ن نے ابن سیرین سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے نقل کی ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سلیمان بن دائود (علیہما السلام) نے ایک دفعہ کہا۔ آج رتا میں سو بیویوں کے ساتھ ہمبستری کروں گا، ہر بیوی کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو بڑا ہو کر اللہ کی راہ میں شمشیر زنی کے جوہر دکھائے گا۔ “ انہوں نے اس کے ساتھ انشاء اللہ نہیں کہا جس کے نتیجے میں صرف ایکبیوی کے سوا کسی بیوی سے کوئی بچہ پیدا نہیں ہو اور جس بیوی کے ہاں ب چہ پیدا ہو وہ بھی آدھا انسان تھا۔ “ یعنی تام الخلقت نہیں تھا۔
(٢٣۔ ٢٤) آپ کسی کام کے متعلق یوں نہ کہا کیجیے کہ مثلا میں کل کروں گا یا کل ایسا کہوں گا مگر مشیت خداوندی کو اس کے ساتھ ملا دیا کیجیے اور جب آپ اتفاقا انشاء اللہ کہنا بھول جائیں تو بعد میں یاد آنے پر کہہ لیا کیجیے اور ان لوگوں سے یہ بھی کہہ دیجیے کہ مجھے امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے اس سے بھی زیادہ صحیح اور یقینی بات بتا دے گا۔- یہ آیت کریمہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں نازل ہوئی جب کہ آپ سے مشرکین مکہ نے روح اور اصحاب کہف کے بارے میں دریافت کیا تھا، آپ نے فرمایا کل بتا دوں گا اور آپ انشاء اللہ کہنا بھول گئے۔- شان نزول : ( آیت ) ”۔ الا ان یشآء اللہ “۔ (الخ)- اور ابن جریر (رح) نے ضحاک (رح) اور ابن مردویہ (رح) نے حضرت ابن عباس (رض) ہی سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بارے میں قسم کھائی پھر پر چالیس راتیں گزر گئیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اور آپ کسی کام کے متعلق یوں نہ کہا کیجیے کہ میں اس کو کل کروں گا مگر اللہ کے چاہنے کو ملا دیا کیجیے۔
آیت ٢٣ (وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَايْءٍ اِنِّىْ فَاعِلٌ ذٰلِكَ غَدًا)- اس آیت میں ایک بہت اہم واقعہ کا حوالہ ہے۔ جب اہل مکہ نے رسول اللہ سے سوالات کیے تو آپ نے فرمایا کہ میں آپ لوگوں کو ان سوالات کے جوابات کل دے دوں گا۔ اس موقع پر آپ نے سہواً ” ان شاء اللّٰہ “ نہیں فرمایا۔ اس کے بعد کئی روز تک وحی نہ آئی۔ یہ صورت حال آپ کے لیے انتہائی پریشان کن تھی۔ مخالفین خوشی میں تالیاں پیٹ رہے ہوں گے آپ کو ناکامی کے طعنے دے رہے ہوں گے اور آپ کو یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑ رہا ہوگا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو کیسی کیسی سخت آزمائشوں سے دوچار کرتا ہے : - جن کے رتبے ہیں سوا ان کی سوا مشکل ہے “- عام لوگ اپنی روز مرہ کی گفتگو میں کیسی کیسی لایعنی باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن اللہ کے ہاں ان کی پکڑ نہیں ہوتی اس لیے کہ وہ اللہ کے ہاں اہم نہیں ہوتے مگر یہاں ایک انتہائی مقرب ہستی سے سہواً ایک کلمہ ادا ہونے سے رہ گیا تو باوجود اس کے کہ معاملہ بیحد حساس تھا وحی روک لی گئی۔ بالآخر کئی روز کے بعد جب اللہ کو منظور ہوا تو حضرت جبرائیل سوالات کے جوابات بھی لے کر آئے اور ساتھ یہ ہدایت بھی کہ کبھی کسی چیز کے بارے میں یوں نہ کہیں کہ میں کل یہ کروں گا :