اصحاف کہف کی تعداد لوگ اصحاف کہف کی گنتی میں گچھ کا کچھ کہا کرتے تھے تین قسم کے لوگ تھے چوتھی گنتی بیان نہیں فرمائی ۔ دو پہلے کے اقوال کو تو ضعیف کر دیا کہ یہ اٹکل کے تکے ہیں ، بےنشانے کے پتھر ہیں ، کہ اگر کہیں لگ جائیں تو کمال نہیں نہ لگیں تو زوال نہیں ، ہاں تیسرا قول بیان فرما کر سکوت اختیار فرمایا تردید نہیں کی یعنی سات وہ آٹھواں ان کا کتا اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی بات صحیح اور واقع میں یونہی ہے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر بہتر یہی ہے کہ علم اللہ کی طرف اسے لوٹا دیا جائے ایسی باتوں میں کوئی صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے غور و خوض کرنا عبث ہے ، جس بات کا علم ہو جائے منہ سے نکالے ورنہ خاموش رہے ۔ اس گنتی کا صحیح علم بہت کم لوگوں کو ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں انہیں میں سے ہوں ، میں جانتا ہوں وہ سات تھے ۔ حضرت عطا خراسانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول بھی یہی ہے اور یہی ہم نے پہلے لکھا تھا ۔ ان میں سے بعض تو بہت ہی کم عمر تھے ۔ عنفوان شباب میں تھے یہ لوگ دن رات اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے تھے ، روتے رہتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کرتے رہتے تھے ۔ مروی ہے کہ یہ تو نو تھے ان میں سے جو سب سے بڑے تھے ان کا نام مکسلمین تھا اسی نے بادشاہ سے باتیں کی تھیں اور اسے اللہ واحد کی عبادت کی دعوت دی تھی ۔ باقی کے نام یہ ہیں فحستلمین ، تملیخ ، مطونس ، کشطونس ، بیرونس ، دنیموس ، بطونس اور قابوس ۔ ہاں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحیح روایت یہی ہے کہ یہ سات شخص تھے آیت کے ظاہری الفاظ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ۔ شعیب جبائی کہتے ہیں ان کے کتے کا نام حمران تھا لیکن ان ناموں کی صحت میں نظر ہے واللہ اعلم ۔ ان میں کی بہت سی چیزیں اہل کتاب سے لی ہوئی ہیں ۔ پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا کہ آپ ان کے بارے میں زیادہ بحث مباحثہ نہ کریں یہ ایک نہایت ہی ہلکا کام ہے جس میں کوئی بڑا فائدہ نہیں اور نہ ان کے بارے میں کسی سے دریافت کیجئے ، کیونکہ عموما وہ اپنے دل سے جوڑ کر کہتے ہیں کوئی صحیح اور سچی دلیل ان کے ہاتھوں میں نہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ نے ، جو کچھ آپ کے سامنے بیان فرمایا ہے ، یہ جھوٹ سے پاک ہے ، شک شبہ سے دور ہے ، قابل ایمان و یقین ہے ، بس یہی حق ہے اور سب سے مقدم ہے ۔
22۔ 1 یہ کہنے والے اور ان کی مختلف تعداد بتلانے والے عہد رسالت کے مؤمن اور کافر تھے، خصوصاً اہل کتاب جو کتب آسمانی سے آگاہی اور علم کا دعویٰ رکھتے تھے۔ 22۔ 2 یعنی علم ان میں سے کسی کے پاس نہیں، جس طرح بغیر دیکھے کوئی پتھر مارے، یہ بھی اس طرح اٹکل پچو باتیں کر رہے ہیں۔ 22۔ 3 اللہ تعالیٰ نے صرف تین قول بیان فرمائے، پہلے وہ دو قولوں کو رَجْمَا بالْغَیْبِ (ظن وتخمین) کہہ کر ان کو کمزور رائے قرار دیا اور اس تیسرے قول کا ذکر اس کے بعد کیا، جس سے اہل تفسیر نے استدلال کیا ہے کہ یہ انداز اس قول کی صحت کی دلیل ہے اور فی الواقع ان کی اتنی ہی تعداد تھی (ابن کثیر) 22۔ 4 بعض صحابہ سے مروی ہے کہ وہ کہتے تھے میں بھی ان کم لوگوں میں سے ہوں جو یہ جانتے ہیں کہ اصحاب کہف کی تعداد کتنی تھی ؟ وہ صرف سات تھے جیسا کہ تیسرے قول میں بتلایا گیا ہے (ابن کثیر) 22۔ 5 یعنی صرف ان ہی باتوں پر اکتفا کریں جن کی اطلاع آپ کو وحی کے ذریعے سے کردی گئی ہے۔ یا تعین عدد میں بحث و تکرار نہ کریں، صرف یہ کہہ دیں کہ اس تعین کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ 22۔ 6 یعنی بحث کرنے والوں سے ان کی بابت کچھ نہ پوچھیں، اس لئے کہ جس سے پوچھا جائے، اس کو پوچھنے والے سے زیادہ علم ہونا چاہئے، جب کہ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ آپ کے پاس تو پھر بھی یقینی علم کا ایک ذریعہ وحی، موجود ہے، جب کہ دوسروں کے پاس ذہنی تصور کے سوا کچھ بھی نہیں۔
[٢٢] اصحاب کہف کی تعداد اور بیکار بحثوں سے اجتناب کا حکم :۔ اصحاب کہف سے متعلق ایک بحث یہ بھی چھڑی ہوئی تھی کہ ان کی تعداد کتنی تھی۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ میں ان قلیل لوگوں میں سے ہوں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ اصحاب کہف کی صحیح تعداد جانتے ہیں اور وہ سات تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تین یا پانچ کہنے والوں کا ذکر کرنے کے بعد رجماً بالغیب کا لفظ فرمایا ہے مگر سات کہنے والوں کو اس سے مستثنیٰ رکھا، بعض علماء نے اور بھی کئی وجوہ سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ فی الواقع سات ہی تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو اس بحث میں دلچسپی لینے سے منع فرما دیا اور یہ بھی فرما دیا کہ یہ بات کسی اور سے بھی پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ بحث اس لحاظ سے بالکل بیکار ہے کہ اس پر کسی عمل کی بنیاد نہیں اٹھتی۔- اسی طرح کی بیکار بحثوں کی ایک مثال یہ ہے کہ جس درخت سے اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم کو منع کیا تھا وہ کون سا درخت تھا ؟ یا یہ کہ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کا نام کیا تھا ؟ یا یہ کہ نماز وسطی کون سی ہے ؟ اور اس بات پر بعض مفسرین نے صفحوں کے صفحے سیاہ کردیئے ہیں جن کا ماحصل یہ نکلتا ہے کہ پانچوں نمازیں ہی مختلف ترتیب سے نماز وسطی بن سکتی ہیں حالانکہ احادیث میں یہ صراحت موجود ہے کہ نماز وسطی سے مراد نماز عصر ہے یا یہ بحث کہ آیا کوا حلال ہے یا حرام ؟ حالانکہ اگر یہ حلال ثابت ہو بھی جائے تو کوئی اسے کھانا گوارا نہیں کرے گا۔ اسی طرح کی ایک بحث گوہ کے حلال یا حرام ہونے کی ہے جس پر بحث و تکرار اور مناظرے بھی ہوچکے ہیں حالانکہ عملی زندگی سے ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔- خمعتزلہ اور مسئلہ خلق قرآن :۔ اور جب ایسی باتیں صفات الٰہی کے بارے میں چھڑ جاتی ہیں تو فرقہ بازی تک نوبت جاپہنچتی ہے اور اپنے ایمان تک کو سلامت رکھنا غیر محفوظ ہوجاتا ہے جیسے کچھ مدت پیشتر یہ بحث چھڑ گئی کہ اللہ تعالیٰ تو ہر بات پر قادر ہے تو کیا وہ جھوٹ بھی بول سکتا ہے اور اسی مسئلہ پر دو متحارب فریق بن گئے۔ ایسی ہی ایک بحث یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ جو ہر چیز کا علم رکھتا ہے تو کیا وہ جادو کا علم بھی جانتا ہے ؟ اور اس کی سب سے واضح مثال مسئلہ خلق قرآن ہے جو معتزلہ نے پیدا کیا تھا اور وہ قرآن کو غیر مخلوق سمجھنے والوں کو مشرک قرار دیتے تھے۔ خلفائے بنو عباس بالخصوص مامون الرشید معتزلہ کے عقائد سے شدید متاثر تھا۔ اس نے بہت سے علماء کو محض اس بنا پر قتل کردیا تھا کہ وہ قرآن کو غیر مخلوق سمجھتے تھے اور امام احمدبن حنبل نے اسی مسئلہ کی خاطر مدتوں قید و بند اور مارپیٹ کی سختیاں جھیلی تھیں۔ بالآخر خلیفہ واثق باللہ کے عہد میں ایک سفید ریش بزرگ خلیفہ کے پاس آیا اور درباری معتزلی عالم ابن ابی دؤاد سے مناظرہ کی اجازت طلب کی۔ خلیفہ نے اجازت دے دی تو اس بزرگ نے ابن ابی دؤاد سے کہا : میں ایک سادہ سی بات کہتا ہوں جس بات کی طرف نہ اللہ کے رسول نے دعوت دی اور نہ خلفائے راشدین نے، تم اس کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہو اور اسے منوانے کے لیے زبردستی سے کام لیتے ہو تو اب دو ہی باتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ان جلیل القدر ہستیوں کو اس مسئلہ کا علم تھا لیکن انہوں نے سکوت اختیار فرمایا تو تمہیں بھی سکوت اختیار کرنا چاہیے۔ اور اگر تم کہتے ہو کہ ان کو علم نہ تھا تو اے گستاخ ابن گستاخ ذرا سوچ جس بات کا علم نہ اللہ کے رسول کو تھا اور نہ خلفائے راشدین کو ہوا تو تمہیں کیسے اس کا علم ہوگیا ؟ ابن ابی دؤاد سے اس کا کچھ جواب نہ بن پڑا۔ واثق باللہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا اور دوسرے کمرہ میں چلا گیا وہ زبان سے باربار یہ فقرہ دہراتا تھا کہ جس بات کا علم نہ اللہ کے رسول کو ہوا نہ خلفائے راشدین کو ہوا اس کا علم تجھے کیسے ہوگیا ؟ مجلس برخاست کردی گئی خلیفہ نے اس بزرگ کو عزت و احترام سے رخصت کیا اور اس کے بعد امام احمد بن حنبل پر سختیاں بند کردیں اور حالات کا پانسا پلٹ گیا اور آہستہ آہستہ مسئلہ خلق قرآن کا فتنہ جس نے بیشمار مسلمانوں کی ناحق جان لی تھی، ختم ہوگیا۔- غور فرمائیے کہ اس مسئلہ کا انسان کی عملی زندگی سے کچھ تعلق ہے ؟ بفرض محال اس کے مخلوق ثابت ہوجانے کے بعد اس کے احکام میں کوئی فرق پڑ سکتا ہے ؟ بس ایسی بیکار بحثوں میں پڑنے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے ایسی بحثوں میں پڑنے کا ہدایت سے کچھ تعلق نہیں ہوتا بلکہ شیطانی راہیں بیشمار کھل جاتی ہیں۔
سَيَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ ۔۔ : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کے وقت اہل کتاب میں اور ان کے ذریعے سے مشرکین عرب میں اصحاب کہف سے متعلق طرح طرح کی باتیں موجود تھیں، مگر مستند معلومات کسی کے پاس نہ تھیں۔ - 3 اصحاب کہف کے ناموں کے بارے میں کوئی صحیح مرفوع روایت نہیں ہے۔ ناموں کی صراحت غالباً اسرائیلی کتب تواریخ سے ماخوذ ہے اور ان اسماء کے تلفظ میں بھی بہت اختلاف ہے، کسی قول پر بھی اعتماد نہیں ہوسکتا۔ (فتح الباری) پھر بعض لوگ ان ناموں کے خواص اور فائدے بیان کرتے ہیں اور مختلف بیماریوں کے لیے ان کو لکھتے ہیں جو کسی صورت بھی صحیح نہیں، بلکہ اگر ” یا “ حرف ندا کے ساتھ لکھے جائیں، یا ان ناموں میں نفع پہنچانے یا نقصان سے بچانے کی تاثیر کا عقیدہ رکھا جائے تو صاف شرک ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس بارے میں بعض روایات بھی گھڑ لی گئی ہیں جو ابن عباس اور دیگر اصحاب (رض) کی طرف منسوب ہیں، مگر ان میں سے کوئی روایت بھی ابن عباس (رض) یا سلف صالحین سے ثابت نہیں۔ نواب صدیق حسن خاں (رح) نے اپنی تفسیر میں ان ناموں کے ساتھ علاج کی تردید کی ہے۔ - 3 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کے اہل کتاب یہ تو جانتے تھے کہ کسی زمانے میں یہ واقعہ ہوا ہے، مگر وہ اس کی حقیقت سے بیخبر تھے۔ اس لیے محض اٹکل سے اس کی تفصیلات بیان کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعداد کے متعلق ان کے دو قول ذکر فرما کر ان کی تردید فرمائی، البتہ تیسرے قول کا ذکر فرما کر کہ وہ سات تھے، اس کی تردید نہیں فرمائی، بلکہ فرمایا، کہہ دے میرا رب ان کی تعداد سے متعلق زیادہ جانتا ہے اور انھیں بہت تھوڑے لوگوں کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر اس بحث کے بےفائدہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان لوگوں سے سرسری بحث کے سوا کوئی بحث کریں، نہ ان کے متعلق ان میں سے کسی سے کچھ پوچھیں، کیونکہ ان کے پاس اس کا کچھ علم نہیں۔ اکثر اہل علم نے، جن میں ابن عباس (رض) بھی ہیں، آخری قول کو صحیح قرار دیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ (رض) نے فرمایا کہ جس بات میں مختلف اقوال ہوں اسے بیان کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تمام اقوال ذکر کیے جائیں اور صحیح قول کی طرف اشارہ کردیا جائے اور بحث کا فائدہ بھی بیان کیا جائے کہ اس سے کیا حاصل ہوا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے تینوں باتیں بیان فرما دیں۔ (قاسمی ملخصاً )
خلاصہ تفسیر :۔- (جس وقت اصحاب کہف کا قصہ بیان کریں گے تو) بعضے لوگ تو کہیں گے وہ تین ہیں چوتھا ان کا کتا ہے اور بعضے کہیں گے کہ وہ پانچ ہیں چھٹا ان کا کتا ہے (اور) یہ لوگ بےتحقیق بات کو ہانک رہے ہیں اور بعضے کہیں گے کہ وہ سات ہیں آٹھواں ان کا کتا ہے، آپ (ان اختلاف کرنے والوں سے) کہہ دیجئے کہ میرا رب ان کی تعداد خوب (صحیح صحیح) جانتا ہے ( کہ ان مختلف اقوال میں کوئی قول صحیح بھی ہے یا سب غلط ہیں) ان (کی تعداد) کو (صحیح صحیح) جانتا ہے ( کہ ان مختلف اقوال میں کوئی قول صحیح بھی ہے یا سب غلط ہیں) ان (کی تعداد) کو صحیح صحیح) بہت کم لوگ جاتنے ہیں (اور چونکہ تعداد متعین کرنے میں کوئی خاص فائدہ نہیں تھا، اس لئے آیت میں کوئی صریح فیصلہ نہیں فرمایا، لیکن روایات میں حضرت ابن عباس (رض) اور ابن مسعود (رض) سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا انا من القلیل کانوا سبعۃ یعنی میں بھی ان قلیل لوگوں میں داخل ہوں جن کے بارے میں قرآن نے فرمایا کہ کم لوگ جانتے ہیں وہ سات تھے، کذا فی الدرالمنثور عن ابی حاتم وغیرہ، اور آیت میں بھی اس قول کی صحت کا اشارہ پایا جاتا ہے، کیونکہ اس قول کو نقل کر کے اس کو رد نہیں فرمایا، بخلاف پہلے دونوں قول کے کہ ان کے تردید میں رجما بالغیب فرمایا گیا ہے، (واللہ اعلم) سو ( اس پر بھی اگر وہ لوگ اختلاف سے باز نہ آویں تو) آپ اس معاملہ میں بجز سرسری بحث کے زیادہ بحث نہ کیجئے (یعنی مختصر طور پر تو ان کے خیالات کا رد قرآن کی آیات میں آ ہی چکا ہے جو رجما بالغیب، قل ربی اعلم سے بیان کردیا گیا ہے، پس سرسری بحث یہی ہے کہ اس پر اکتفا کریں، ان کے اعتراض کے جواب میں اس سے زیادہ مشغول ہونا اور اپنے دعوے کے اثبات میں زیادہ کاوش کرنا مناسب نہیں کہ یہ بحث ہی کوئی خاص فائدہ نہیں رکھتی) اور آپ ان (اصحاب کہف) کے بارے میں ان لوگوں میں سے کسی سے بھی کچھ نہ پوچھئے (جس طرح آپ کو ان کے اعتراض و جواب میں زیادہ کاوش سے منع کیا گیا، اسی طرح اس کی بھی ممانعت فرما دی کہ اب اس معاملہ کے متعلق کسی سے سوال یا تحقیق کرنے، کیونکہ جتنی بات ضروری تھی وہ وحی میں آگئی غیر ضروری سوالات اور تحقیقات شان انبیاء کے خلاف ہے) ۔- معارف و مسائل :۔- اختلافی بحثوں میں گفتگو کے آداب :- سَيَقُوْلُوْنَ یعنی وہ لوگ کہیں گے، وہ کہنے والے کون لوگ ہیں، اس میں دو احتمال ہیں، ایک یہ کہ مراد ان سے وہی لوگ ہوں جن کا باہم اختلاف اصحاب کہف کے زمانے میں ان کے نام و نسب وغیرہ کے متعلق ہوا تھا جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں آیا ہے انہی لوگوں میں سے بعض نے عدد کے متعلق پہلا بعض نے دوسرا، بعض نے تیسرا قول اختیار کیا تھا۔ (ذکرہ فی البحر عن الماوردی)- اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ سَيَقُوْلُوْنَ کی ضمیر نصاری نجران کی طرف عائد ہو، جنہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی تعداد کے بارے میں مناظرہ کیا تھا، ان کے تین فرقے تھے ایک فرقہ ملکانیہ کے نام سے موسوم تھا، اس نے تعداد کے متعلق پہلا قول کہا، یعنی تین کا عدد بتلایا، دوسرا فرقہ یعقوبیہ تھا، اس نے دوسرا یعنی پانچ ہونا اختیار کیا، تیسرا فرقہ نسطوریہ تھا اس نے تیسرا قول کہا کہ سات تھے، اور بعض نے کہا کہ یہ تیسرا قول مسلمانوں کا تھا، اور بالاخر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خبر اور قرآن کے اشارے سے تیسرے قول کا صحیح ہونا معلوم ہوا (بحر محیط) یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ اس جگہ اصحاب کہف کی تعداد میں تین قول نقل کئے گئے ہیں، تین، پانچ، سات، اور ہر ایک کے بعد ان کے کتے کو شمار کیا گیا ہے، لیکن پہلے دو قول میں ان کی تعداد اور کتے کے شمار میں واؤ عاطفہ نہیں لایا گیا، ثَلٰثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ اور خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ بلا واو عاطفہ کے آیا، اور تیسرے قول میں سبعۃ کے بعد واو عاطفہ کے ساتھ وَّثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ فرمایا۔- اس کی وجہ حضرات مفسرین نے یہ لکھی ہے کہ عرب کے لوگوں میں عدد کی پہلی گرہ سات ہی ہوتی تھی، سات کے بعد جو عدد آئے وہ الگ سا شمار ہوتا تھا، جیسا کہ آجکل نو کا عدد اس کے قائم مقام ہے کہ نو تک اکائی ہے، دس سے دہائی شروع ہوتی ہے، ایک الگ سا عدد ہوتا ہے اسی لئے تین سے لے کر سات تک جو تعداد شمار کرتے تو اس میں واؤ عطف نہیں لاتے تھے سات کے بعد کوئی عدد بتلانا ہوتا تو واؤ عاطفہ کے ساتھ الگ کر کے بتلاتے تھے، اور اسی لئے اس واؤ کو واؤ ثمان کا لقب دیا جاتا تھا (مظہری وغیرہ)- اسماء اصحاب کہف :- اصل بات تو یہ ہے کہ کسی صحیح حدیث سے اصحاب کہف کے نام صحیح صحیح ثابت نہیں تفسیری اور تاریخی روایات میں نام مختلف بیان کئے گئے ہیں، ان میں اقرب وہ روایت ہے جس کو طبرانی نے معجم اوسط میں بسند صحیح حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ ان کے نام یہ تھے۔- مکسلمینا، تملیخا، مرطونس، سنونس، سارینونس، ذونواس، کعسططیونس - (آیت) فَلَا تُمَارِ فِيْهِمْ اِلَّا مِرَاۗءً ظَاهِرًا ۠ وَّلَا تَسْتَفْتِ فِيْهِمْ مِّنْهُمْ اَحَدًا یعنی آپ اصحاب کہف کی تعداد وغیرہ کے متعلق ان کے ساتھ بحث و مباحثہ میں کاوش نہ کریں، بلکہ سرسری بحث فرما دیں، اور ان لوگوں سے آپ خود بھی کوئی سوال اس کے متعلق نہ کریں۔- اختلافی معاملات میں طویل بحثوں سے اجتناب کیا جائے : ان دونوں جملوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو تعلیم دی گئی ہے وہ درحقیقت علماء امت کے لئے اہم رہنما اصول ہیں، کہ جب کسی مسئلہ میں اختلاف پیش آئے تو جس قدر ضروری بات ہے اس کو واضح کر کے بیان کردیا جائے اس کے بعد بھی لوگ غیر ضروری بحث میں الجھیں تو ان کے ساتھ سرسری گفتگو کر کے بحث ختم کردی جائے، اپنے دعوے کے اثبات میں کاوش اور ان کی بات کی تردید میں بہت زور لگانے سے گریز کیا جائے کہ اس کا کوئی خاص فائدہ تو ہے نہیں، مزید بحث و تکرار میں وقت کی اضاعت بھی ہے اور باہم تلخی پیدا ہونے کا خطرہ بھی۔- دوسری ہدایت دوسرے جملے میں یہ دی گئی ہے کہ وحی آلہی کے ذریعہ سے قصہ اصحاب کہف کی جتنی معلومات آپ کو دے دیگئی ہیں ان پر قناعت فرما دیں کہ وہ بالکل کافی ہیں، زائد کی تحقیقات اور لوگوں سے سوال وغیرہ میں نہ پڑیں، اور دوسروں سے سوالات کا ایک پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی جہالت یا ناواقفیت ظاہر کرنے اور ان کو رسوا کرنے کے لئے سوال کیا جائے یہ بھی اخلاق انبیاء کے خلاف ہے، اس لئے دوسرے لوگوں سے دونوں طرح کے سوال کرنا ممنوع کردیا گیا، یعنی تحقیق مزید کے لئے ہو یا مخاطب کی تجہیل و رسوائی کے لئے ہو۔
سَيَقُوْلُوْنَ ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمْ كَلْبُہُمْ ٠ۚ وَيَقُوْلُوْنَ خَمْسَۃٌ سَادِسُہُمْ كَلْبُہُمْ رَجْمًۢـــا بِالْغَيْبِ ٠ۚ وَيَقُوْلُوْنَ سَبْعَۃٌ وَّثَامِنُہُمْ كَلْبُہُمْ ٠ۭ قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ بِعِدَّتِہِمْ مَّا يَعْلَمُہُمْ اِلَّا قَلِيْلٌ ٠ۥۣ فَلَا تُمَارِ فِيْہِمْ اِلَّا مِرَاۗءً ظَاہِرًا ٠۠ وَّلَا تَسْتَفْتِ فِيْہِمْ مِّنْہُمْ اَحَدًا ٢٢ۧ- قول - القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ق و ل ) القول - القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔- كلب - الكَلْبُ : الحیوان النّبّاح، والأنثی كَلْبَةٌ ، والجمع : أَكْلُبٌ وكِلَابٌ ، وقد يقال للجمع كَلِيبٌ. قال تعالی: كَمَثَلِ الْكَلْبِ [ الأعراف 176] قال : وَكَلْبُهُمْ باسِطٌ ذِراعَيْهِ بِالْوَصِيدِ [ الكهف 18] وعنه اشتقّ الکلب للحرص، ومنه يقال : هو أحرص من کلب»- ، ورجل كِلبٌ: شدید الحرص، وكَلْبٌ كَلِبٌ.- أي : مجنون يَكْلَبُ بلحوم الناس فيأخذه شبه جنون، ومن عقره كُلِبَ. أي : يأخذه داء، فيقال : رجل كَلِبٌ ، وقوم كَلْبَى. قال الشاعر : دماؤهم من الکلب الشّفاء - «2» وقد يصيب الكَلِبُ البعیرَ : ويقال : أَكْلَبَ الرّجلُ : أصاب إبله ذلك، وكَلِبَ الشّتاءُ : اشتدّ برده وحدّته تشبيها بِالْكَلْبِ الْكَلِبِ ، ودهر كَلِبٌ ، ويقال : أرض كَلِبَةٌ: إذا لم ترو فتیبس تشبيها بالرّجل الکلب، لأنه لا يشرب فييبس . والکَلَّابُ وَالمُكَلِّبُ : الذي يعلّم الکلب . قال تعالی: وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَ [ المائدة 4] . وأرض مَكْلَبَةٌ: كثيرة الکلاب، والْكَلْبُ : المسمار في قائم السّيف، والْكَلْبَةُ :- سير يدخل تحت السّير الذي تشدّ به المزادة فيخرز به، وذلک لتصوّره بصورة الکلب في الاصطیاد به، وقد كَلَبْتُ الأديم : خرزته، بذلک، قال الشاعر : سير صناع في أديم تَكْلُبُهُ- «3» والْكَلْبُ : نجم في السّماء مشبّه بالکلب لکونه تابعا لنجم يقال له : الرّاعي، والْكَلْبَتَانِ : آلة مع الحدّادین سمّيا بذلک تشبيها بکلبین في اصطیادهما، وثنّي اللّفظ لکونهما اثنین، والکَلُّوبُ : شيء يمسک به، وكَلَالِيبُ البازي : مخالبه . اشتقّ من الکلب لإمساکه ما يعلق عليه إمساک الکلب .- ( ک ل ب ) الکلب - ( کتا ) بھونکنے والاجانور ۔ اس کی مونث کلبتہ اور جمع کلب وکلاب آتی ہے ۔ کبھی اس کی جمع کلیب بھی آجاتی ہے ۔ كَمَثَلِ الْكَلْبِ [ الأعراف 176] تو اس کی مثال کتے کی کسی ہے ۔ وَكَلْبُهُمْ باسِطٌ ذِراعَيْهِ بِالْوَصِيدِ [ الكهف 18] اور ان کا کتا چو کھٹ پر دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا ۔ اور اسی سے اکلب ( بفتح اللام ) مشتق جس کے معنی شدت حرص کے ہیں ۔ اسی سے کہا جاتا ہے : ھو احرص من کلب ۔ وہ کتے سے زیادہ حریص ہے اور رجل کلب کے معنی سخت حریص آدمی کے ہیں اور کلب کلب باء لا کتا جسے انسان کا گوشت کھانے کا چسکا لگ جاتا ہے ۔ اور جسے وہ کاٹ کھائے اسے بھی ہڑکائے کتے جیسا مرض لاحق ہوجاتا ہے مفرد کے لئے رجل کلب اور کے لئے قوم کلبٰی کہتے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 3 81 ) دماء ھم من الکلب الشفلا ان کے خون کلب کی مرض سے شفا بخشے ہیں ۔ اور کبھی یہ مرض اونٹ کو بھی لاحق ہوجاتا ہے چناچہ اکلب ا الرجل کے معنی باؤلے اونٹ کا مالک ہونے کے ہیں ۔ کلب الشتاء سردی سخت ہوگئی گویا وہ کتے کی طرح باؤلی ہوگئی ہے ۔ دھر کلب سخت زمانہ ۔ ارض کلبتہ ۔ اس زمین کو کہتے ہیں جو سیر لب نہ ہونے کی وجہ سے خشک ہوجائے جیسا کہ باؤلا ادمی پانی نہ پینے کی وجہ سے آخر کار سوکھ کر رہ جاتا ہے الکلاب والمکلب ۔ اس شخص کو کہتے ہیں جو کتوں کو شکار کے لئے سدھاتا اور انہیں تعلیم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَ [ المائدة 4] اور وہ شکار بھی حلال ہے جو تمہارے لئے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہے ۔ ارض مکلبتہ ۔ بہت کتول والی سر زمین ۔ الکلاب والکلب ۔ میخ جو تلوار کے قبضہ میں لگی ہوتی ہے ۔ الکبتہ ۔ توشہ دان باندھنے کے تسمیہ سے نیچے کا تسمیہ جس سے اسے سیا جاتا ہے ۔ اس کا یہ نام شکاری کتے کی مناسبت سے رکھا گیا ہے ۔ پس کلبت الادیم کے معنی چمڑے کو سینے کے ہیں کسی شاعر نے کہا ہے ( الرحز ) ( 382 ) سیر صیناع فی ادیم تکلبتہ کاریگر عورت کے تسمیہ کیطرح ملائم اور چمکدار ہے جس سے وہ مشکیزہ سیرہی ہو ۔ الکلب ۔ تاروں کے ایک جھمکے کا نام ہے جسے کتے کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے ۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے جھمکے کے تابع ہوتا ہے جسے الراعی ( چروہا ) کہا جاتا ہے ۔ الکلبتان ( سپناہ ) لوہار کے ایک اوزار کا نام ہے جس سے وہ گرم لوہا کو پکڑتا ہے کسی چیز کو پکڑنے کے لحاظ سے اسے شکار کتے کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں ۔ اور دوکنارے ہونے کی ۔ وجہ سے تنثیہ کا لفظ اختیار کیا گیا ہے ۔ الکلوب ۔ کنڈی ۔ کلالیب جمع کلالیب البازی ۔ باز کے نیچے یہ بھی کلکب سے مشتق ہے ۔ کیونکہ جو چیز اس کے پنجہ میں آجائے اسے کتے طرح پکڑ کر روک لیتا ہے ۔- رجم - الرِّجَامُ : الحجارة، والرَّجْمُ : الرّمي بالرِّجَامِ. يقال : رُجِمَ فهو مَرْجُومٌ ، قال تعالی: لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء 116] ، أي : المقتولین أقبح قتلة، وقال :- وَلَوْلا رَهْطُكَ لَرَجَمْناكَ [هود 91] ، إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] ، ويستعار الرّجم للرّمي بالظّنّ ، والتّوهّم، وللشّتم والطّرد، نحو قوله تعالی: رَجْماً بِالْغَيْبِ وما هو عنها بالحدیث المرجّم - «7» وقوله تعالی: لَأَرْجُمَنَّكَ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا - [ مریم 46] ، أي : لأقولنّ فيك ما تكره والشّيطان الرَّجِيمُ : المطرود عن الخیرات، وعن منازل الملإ الأعلی. قال تعالی: فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل 98] ، وقال تعالی: فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر 34] ، وقال في الشّهب : رُجُوماً لِلشَّياطِينِ- [ الملک 5] - ( ر ج م ) الرجام - ۔ پتھر اسی سے الرجیم ہے جس کے معنی سنگسار کرنا کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے رجمۃ ۔ اسے سنگسار کیا اور جسے سنگسار کیا گیا ہوا سے مرجوم کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يا نُوحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِينَ [ الشعراء 116] کہ تم ضرور سنگسار کردیئے جاؤ گے ۔ إِنَّهُمْ إِنْ يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ يَرْجُمُوكُمْ [ الكهف 20] کیونکہ تمہاری قوم کے لوگ تمہاری خبر پائیں گے تو تمہیں سنگسار کردیں گے ۔ پھر استعارہ کے طور پر رجم کا لفظ جھوٹے گمان تو ہم ، سب وشتم اور کسی کو دھتکار دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے رَجْماً بِالْغَيْب یہ سب غیب کی باتوں میں اٹکل کے تکے چلاتے ہیں ۔ (176) ، ، وماھو عنھا بالحدیث المرکم ، ، اور لڑائی کے متعلق یہ بات محض انداز سے نہیں ہے ۔ اور شیطان کو رجیم اس لئے کہاجاتا ہے کہ وہ خیرات اور ملائم اعلیٰ کے مراتب سے راندہ ہوا ہے قرآن میں ہے :۔ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطانِ الرَّجِيمِ [ النحل 98] تو شیطان مردود کے وسواس سے خدا کی پناہ مانگ لیاکرو ۔ فَاخْرُجْ مِنْها فَإِنَّكَ رَجِيمٌ [ الحجر 34] تو بہشت سے نکل جا کہ راندہ درگاہ ہے ۔ اور شھب ( ستاروں ) کو رجوم کہا گیا ہے قرآن میں ہے :۔ رُجُوماً لِلشَّياطِينِ [ الملک 5] ان کی شیاطین کے لئے ایک طرح کا زوبنایا ہے ۔ رجمۃ ورجمۃ ۔ قبر کا پتھر جو بطور نشان اس پر نصب کیا جاتا ہے ۔ - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - عد - العَدَدُ : آحاد مركّبة، وقیل : تركيب الآحاد، وهما واحد . قال تعالی: عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5]- ( ع د د ) العدد - ( گنتی ) آحا د مرکبہ کو کہتے ہیں اور بعض نے اس کے معنی ترکیب آحاد یعنی آجا د کو ترکیب دینا بھی کئے ہیں مگر ان دونوں معنی کا مرجع ایک ہی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ [يونس 5] بر سوں کا شمار اور ( کاموں ) کا حساب - قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - مری - المِرْيَةُ : التّردّد في الأمر، وهو أخصّ من الشّكّ. قال تعالی: وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] والامتراء والممَارَاة : المحاجّة فيما فيه مرية . قال تعالی: قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34]- ( م ر ی) المریۃ - کے معنی کسی معاملہ میں تردد ہوتا ہے ۔ کے ہیں اور یہ شک سے خاص - قرآن میں ہے : وَلا يَزالُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي مِرْيَةٍ مِنْهُ [ الحج 55] اور کافر لوگ ہمیشہ اس سے شک میں رہیں گے۔ الامتراء والمماراۃ کے معنی ایسے کام میں جھگڑا کرنا کے ہیں ۔ جس کے تسلیم کرنے میں تردد ہو ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ [ مریم 34] یہ سچی بات ہے جس میں لوگ شک کرتے ہیں ۔- استفتا - الجواب عمّا يشكل من الأحكام، ويقال : اسْتَفْتَيْتُهُ فَأَفْتَانِي بکذا . قال : وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء 127] ، فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات 11] ، - استفتا - اور کسی مشکل مسلہ کے جواب کو فتیا وفتوی کہا جاتا ہے ۔- استفتاہ - کے معنی فتوی طلب کرنے اور افتاہ ( افعال ) کے معنی فتی دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّساءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ [ النساء 127]( اے پیغمبر ) لوگ تم سے ( یتیم ) عورتوں کے بارے میں فتوی طلب کرتے ہیں کہدو کہ خدا تم کو ان کے ( ساتھ نکاح کرنے کے ) معاملے میں فتوی اجازت دیتا ہے فَاسْتَفْتِهِمْ [ الصافات 11] تو ان سے پوچھو۔
(٢٢) اور یہ لوگ انکی تعداد میں بھی ایک دوسرے سے اختلاف کرتے تھے، چناچہ نجران کے عیسائیوں میں سید اور اس کے ساتھی یعنی نسطوریہ کہہ رہے تھے کہ وہ تین ہیں اور چوتھا ان کا کتا ہے اور عاقب اور اس کے ساتھی یعنی مار یعقوبیہ کہہ رہے تھے کہ وہ پانچ تھے اور چھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ لوگ بےتحقیق باتیں کر رہے تھے اور اصحاب ملک یعنی ملکانیہ کہہ رہے تھے کہ یہ لوگ سات تھے آٹھواں ان کا قطمیر کتا تھا۔- اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان مخاطبین سے فرما دیجیے کہ میرا پروردگار ان کا شمار خوب صحیح جانتا ہے اور ان کے شمار کو صحیح طور پر بہت تھوڑے لوگ جانتے ہیں جو کہ ان میں مسلمان تھے۔- حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ میں بھی ان تھوڑے لوگوں میں سے ہوں وہ کتے سمیت آٹھ تھے لہذا آپ ان مخاطبین سے بھی اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں کوئی بحث نہ کیجیے، بس ان کو آیات قرآنیہ پڑھ کر سنا دیجیے اور ان کی تعداد کے بارے میں ان لوگوں میں سے کسی سے بھی کچھ نہ پوچھیے جو اللہ تعالیٰ نے آپ سے بیان فرما دیا وہ ہی آپ کے لیے کافی ہے۔
(قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَّا يَعْلَمُهُمْ اِلَّا قَلِيْلٌ)- قرآن مجید میں ان کی تعداد کے بارے میں صراحت تو نہیں کی گئی مگر اکثر مفسرین کے مطابق بین السطور میں آخری رائے کے درست ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ اس میں ایک نکتہ تو یہ ہے کہ پہلے فقرے (ثَلٰثَۃٌ رَّابِعُہُمْ کَلْبُہُمْ ) اور دوسرے فقرے ( خَمْسَۃٌ سَادِسُہُمْ کَلْبُہُمْ ) کے درمیان میں ” و “ نہیں ہے ‘ جبکہ تیسرے فقرے میں (سَبْعَۃٌ وَّثَامِنُہُمْ کَلْبُہُمْ ) کے درمیان میں ” و “ موجود ہے۔ چناچہ پہلے دونوں کلمات کے مقابلے میں تیسرے کلمہ کے بیان میں ” و “ کی وجہ سے زیادہ زور ہے ۔- اس ضمن میں دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جب وہ لوگ جاگے تھے تو ان میں سے ایک نے سوال کیا تھا : (کَمْ لَبِثْتُمْ ) کہ تم یہاں کتنی دیر سوئے رہے ہو ؟ اس سوال کا جواب قرآن حکیم میں بایں الفاظ نقل ہوا ہے : (قَالُوْا لَبِثْنَا یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ) انہوں نے کہا کہ ہم ایک دن یا ایک دن سے کچھ کم عرصہ تک سوئے رہے ہیں۔ یہاں پر قالُوْا چونکہ جمع کا صیغہ ہے اس لیے یہ جواب دینے والے کم از کم تین لوگ تھے جبکہ اس سوال کے جواب میں ان کے جن ساتھیوں نے دوسری رائے دی تھی وہ بھی کم از کم تین ہی تھے کیونکہ ان کے لیے بھی قالُوْا جمع کا صیغہ ہی استعمال ہوا ہے : (قَالُوْا رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ ) ۔ اس طرح ان کی تعداد سات ہی درست معلوم ہوتی ہے۔ یعنی ایک پوچھنے والا تین لوگ ایک رائے دینے والے اور ان کے جواب میں تین لوگ دوسری رائے کا اظہار کرنے والے۔ - اس کے علاوہ قدیم رومن لٹریچر میں بھی جہاں ان کا ذکر ملتا ہے وہاں ان کی تعداد سات ہی بتائی گئی ہے۔ قبل ازیں گبن کی کتاب کا حوالہ بھی دیا جا چکا ہے جس میں کا ذکر ہے۔ لیکن یہاں جس بات کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس معاملے میں بحث کرنے اور جھگڑنے کی ضرورت ہی نہیں ہے :- (فَلَا تُمَارِ فِيْهِمْ اِلَّا مِرَاۗءً ظَاهِرًا ۠ وَّلَا تَسْتَفْتِ فِيْهِمْ مِّنْهُمْ اَحَدًا)- یعنی جو بات دعوت دین اور اقامت دین کے حوالے سے اہم نہ ہو اس میں بےمقصد چھان بین کرنا اور بحث و نزاع میں پڑنا گویا وقت ضائع کرنے اور اپنی جدوجہد کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :22 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعے کے پونے تین سو سال بعد ، نزول قرآن کے زمانے میں اس کی تفصیلات کے متعلق مختلف افسانے عیسائیوں میں پھیلے ہوئے تھے اور عموماً مستند معلومات لوگوں کے پاس موجود نہ تھیں ۔ ظاہر ہے کہ وہ پریس کا زمانہ نہ تھا جن کتابوں میں اس کے متعلق نسبۃً زیادہ صحیح معلومات درج تھیں وہ عام طور پر شائع ہوتیں ۔ واقعات زیادہ تر زبانی روایات کے ذریعے سے پھیلتے تھے ، اور امتداد زمانہ کے ساتھ ان کی بہت سی تفصیلات افسانہ بنتی چلی جاتی تھیں ۔ تاہم چونکہ تیسرے قول کی تردید اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمائی ہے اس لیے یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ صحیح تعداد سات ہی تھی ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :23 مطلب یہ ہے اصل چیز ان کی تعداد نہیں ہے ، بلکہ اصل چیز وہ سبق ہیں جو اس قصے سے ملتے ہیں ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک سچے مومن کو کسی حال میں حق سے منہ موڑنے اور باطل کے آگے سر جھکانے کے لیے تیار نہ ہونا چاہیے ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مومن کا اعتماد اسباب دنیا پر نہیں بلکہ اللہ پر ہونا چاہیے ، اور حق پرستی کے لیے بظاہر ماحول میں کسی سازگاری کے آثار نظر نہ آتے ہوں تب بھی اللہ کے بھروسے پر راہ حق میں قدم اٹھا دینا چاہیے ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس عادت جاریہ کو لوگ قانون فطرت سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس قانون کے خلاف دنیا میں کچھ نہیں ہو سکتا ، اللہ تعالیٰ درحقیقت اس کا پابند نہیں ہے ، وہ جب اور جہاں چاہے اس عادت کو بدل کر غیر معمولی کام بھی کرنا چاہے ، کر سکتا ہے ۔ اس کے لیے یہ کوئی بڑا کام نہیں ہے کہ کسی کو دو سو برس تک سلا کر اس طرح اٹھا بٹھائے جیسے وہ چند گھنٹے سویا ہے ، اور اس کی عمر ، شکل ، صورت ، لباس ، تندرستی ، غرض کسی چیز پر بھی اس امتداد زمانہ کا کچھ اثر نہ ہو ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ نوع انسانی کی تمام اگلی پچھلی نسلوں کو بیک وقت زندہ کر کے اٹھا دینا ، جس کی خبر انبیاء اور کتب آسمانی نے دی ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے ۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جاہل انسان کس طرح ہر زمانے میں اللہ کی نشانیوں کو اپنے لیے سرمۂ چشم بصیرت بنانے کے بجائے الٹا مزید گمراہی کا سامان بناتے رہے ہیں ۔ اصحاب کہف کو جو معجزہ اللہ نے اس لیے دکھایا تھا کہ لوگ اس سے آخرت کا یقین حاصل کریں ، ٹھیک اسی نشان کو انہوں نے یہ سمجھا کہ اللہ نے انہیں اپنے کچھ اور ولی پوجنے کے لیے عطا کردیے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہیں وہ اصل سبق جو آدمی کو اس قصے سے لینے چاہییں اور اس میں توجہ کے قابل یہی امور ہیں ۔ ان سے توجہ ہٹا کر اس کھوج میں لگ جانا کہ اصحاب کہف کتنے تھے اور کتنے نہ تھے ، اور ان کے نام کیا کیا تھے ، اور ان کا کتا کس رنگ کا تھا ، یہ ان لوگوں کا کام ہے جو مغز کو چھوڑ کر صرف چھلکوں سے دلچسپی رکھتے ہیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اور آپ کے واسطے سے اہل ایمان کو یہ تعلیم دی کہ اگر دوسرے لوگ اس طرح کی غیر متعلق بحثیں چھیڑیں بھی تو تم ان میں نہ الجھو ، نہ ایسے سوالات کی تحقیق میں اپنا وقت ضائع کرو ، بلکہ اپنی توجہ صرف کام کی بات پر مرکوز رکھو ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان کی صحیح تعداد بیان نہیں فرمائی تاکہ شوق فضول رکھنے والوں کو غذا نہ ملے ۔
17: اس آیت نے یہ مستقل سبق دے دیا ہے کہ جس معاملے پر انسان کا کوئی عملی مسئلہ موقوف نہ ہو، اس کے بارے میں خواہ مخواہ بحثیں نہیں کرنی چاہئیں۔ اصحاب کہف کے واقعے میں اصل سبق لینے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے کس طرح ناموافق حالات میں حق پر ثابت قدم رہنے کا مظاہرہ کیا، اور پھر اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان کی مدد فرمائی۔ رہا یہ کہ ان کی صحیح تعداد کیا تھی؟ یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر بحث کا بازار گرم کیا جائے۔ لہذا اس میں الجھنے کے بجائے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر کوئی اس معاملے میں بحث کرنا بھی چاہے تو اسے سرسری گفتگو کر کے ٹال دو، اور اپنا وقت ضائع نہ کرو۔