Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

دوبارہ جینے کی حجت ارشاد ہے کہ اسی طرح ہم نے اپنی قدرت سے لوگوں کو ان کے حال پر اگاہ کر دیا تاکہ اللہ کے وعدے اور قیامت کے آنے کی سچائی کا انہیں علم ہو جائے ۔ کہتے ہیں کہ اس زمانے کے وہاں موجود لوگوں کو قیامت کے آنے میں کچھ شکوک پیدا ہو چلے تھے ۔ ایک جماعت تو کہتی تھی کہ فقط روحیں دوبارہ جی اٹھیں گی ، جسم کا اعادہ نہ ہو گا پس اللہ تعالیٰ نے صدیوں بعد اصحاب کہف کو جگا کر قیامت کے ہونے اور جسموں کے دوبارہ جینے کی حجت واضح کر دی ہے اور عینی دلیل دے دی ۔ مذکور ہے کہ جب ان میں سے ایک صاحب دام لے کر سودا خریدنے کو غار سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ان کی دیکھی ہوئی ایک چیز نہیں سارا نقشہ بدلا ہوا ہے اس شہر کا نام افسوس تھا زمانے گزر چکے تھے ، بستیاں بدل چکی تھیں ، صدیاں بیت گئی تھیں اور یہ تو اپنے نزدیک یہی سمجھے ہوئے تھے کہ ہمیں یہاں پہنچے ایک آدھ دن گزار ہے یہاں انقلاب زمانہ اور کا اور ہو چکا ہے جیسے کسی نے کہا ہے ۔ اما الدیار فانہا کدیارہم واری رجال الحی غیر رجالہ گھر گو انہیں جیسے ہیں لیکن قبیلے کے لوگ اور ہی ہیں اس نے دیکھا کہ نہ تو شہر کوئی چیز اپنے حال پر ہے ، نہ شہر کا کوئی بھی رہنے والا جان پہچان کا ہے نہ یہ کسی کو جانیں نہ انہیں اور کوئی پہچانے ۔ تمام عام خاص اور ہی ہیں ۔ یہ اپنے دل میں حیران تھا ۔ دماغ چکرا رہا تھا کہ کل شام ہم اس شہر کو چھوڑ کر گئے ہیں ۔ یہ دفعتا ہو کیا گیا ؟ ہر چند سوچتا تھا کوئی بات سمجھ میں نہ آتی تھی ۔ آخر خیال کرنے لگا کہ شاید میں مجنوں ہو گیا ہوں یا میرے حواس ٹھکانے نہیں رہے یا مجھے کوئی مرض لگ گیا ہے یا میں خواب میں ہوں ۔ لیکن فورا ہی یہ خیالات ہٹ گئے مگر کسی بات پر تسلی نہ ہو سکی اس لئے ارادہ کر لیا کہ مجھے سودا لے کر اس شہر کو جلد چھوڑ دینا چاہئے ۔ ایک دکان پر جا کر اسے دام دئیے اور سودا کھانے پینے کا طلب کیا ۔ اس نے اس سکے کو دیکھ کر سخت تر تعجب کا اظہار کیا اپنے پڑوسی کو دیا کہ دیکھنا یہ سکہ کیا ہے کب کا ہے ؟ کسی زمانے کا ہے ؟ اس نے دوسرے کو دیا اس سے کسی اور نے دیکھنے کو مانگ لیا الغرض وہ تو ایک تماشہ بن گیا ہر زبان سے یہی نکلنے لگا کہ اس نے کسی پرانے زمانے کا خزانہ پایا ہے ، اس میں سے یہ لایا ہے اس سے پوچھو یہ کہاں کا ہے ؟ کون ہے ؟ یہ سکہ کہاں سے پایا ؟ چنانچہ لوگوں نے اسے گھیر لیا مجمع لگا کر کھڑے ہو گئے اور اوپر تلے ٹیڑھے ترچھے سوالات شروع کر دئے ۔ اس نے کہا میں تو اسی شہر کا رہنے والا ہوں ، کل شام کو میں یہاں سے گیا ہوں ، یہاں کا بادشاہ دقیانوس ہے ۔ اب تو سب نے قہقہہ لگا کر کہا بھئی یہ تو کوئی پاگل آدمی ہے ۔ آخر اسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا اس سے سوالات ہوئے اس نے تمام حال کہہ سنایا اب ایک طرف بادشاہ اور دوسرے سب لوگ متحیر ایک طرف سے خود ششدر و حیران ۔ آخر سب لوگ ان کے ساتھ ہوئے ۔ اچھا ہمیں اپنے اور ساتھی دکھاؤ اور اپنا غار بھی دکھا دو ۔ یہ انہیں لے کر چلے غار کے پاس پہنچ کر کہا تم ذرا ٹھیرو میں پہلے انہیں جا کر خبر کر دوں ۔ ان کے الگ ہٹتے ہی اللہ تعالیٰ نے ان پر بےخبری کے پردے ڈال دئے ۔ انہیں نہ معلو ہو سکا کہ وہ کہاں گیا ؟ اللہ نے پھر اس راز کو مخفی کر لیا ۔ ایک روایت یہ بھی آئی ہے کہ یہ لوگ مع بادشاہ کے گئے ، ان سے ملے ، سلام علیک ہوئی ، بغلگیر ہوئے ، یہ بادشاہ خود مسلمان تھا ۔ اس کا نام تندوسیس تھا ، اصحاب کہف ان سے مل کر بہت خوش ہوئے اور محبت و انسیت سے ملے جلے ، باتیں کیں ، پھر واپس جا کر اپنی اپنی جگہ لیٹے ، پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں فوت کر لیا ، رحمہم اللہ اجمعین واللہ اعلم ۔ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ حبیب بن مسلمہ کے ساتھ ایک غزوے میں تھے ، وہاں انہوں نے روم کے شہروں میں ایک غار دیکھا ، جس میں ہڈیاں تھیں ، لوگوں نے کہا یہ ہڈیاں اصحاب کہف کی ہیں ، آپ نے فرمایا تین سو سال گزر چکے کہ ان کی ہڈیاں کھوکھلی ہو کر مٹی ہو گئیں ( ابن جریر ) پس فرماتا ہے کہ جیسے ہم نے انہیں انوکھی طرز پر سلایا اور بالکل انوکھے طور پر جگایا ، اسی طرح بالکل نرالے طرز پر اہل شہر کو ان کے حالات سے مطلع فرمایا تاکہ انہیں اللہ کے وعدوں کی حقانیت کا علم ہو جائے اور قیامت کے ہونے میں اور اس کے برحق ہونے میں انہیں کوئی شک نہ رہے ۔ اس وقت وہ آپس میں سخت مختلف تھے ، لڑ جھگڑ رہے تھے ، بعض قیامت کے قائل تھے ، بعض منکر تھے ، پس اصحاب کہف کا ظہور منکروں پر حجت اور ماننے والوں کے لئے دلیل بن گیا ۔ اب اس بستی والوں کا ارادہ ہوا کہ ان کے غار کا منہ بند کر دیا جائے اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے ۔ جنہیں سرداری حاصل تھی انہوں نے ارادہ کیا کہ ہم تو ان کے اردگرد مسجد بنا لیں گے امام ابن جریر ان لوگوں کے بارے میں دو قول نقل کرتے ہیں ایک یہ کہ ان میں سے مسلمانوں نے یہ کہا تھا دوسرے یہ کہ یہ قول کفار کا تھا ۔ واللہ اعلم ۔ لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اسکے قائل کلمہ گو تھے ، ہاں یہ اور بات ہے کہ ان کا یہ کہنا اچھا تھا یا برا ؟ تو اس بارے میں صاف حدیث موجود ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ یہود و نصاری پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیاء اور اولیا کی قبروں کو مسجدیں بنا لیں جو انہوں نے کیا اس سے آپ اپنی امت کو بچانا چاہتے تھے ۔ اسی لئے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں جب حضرت دانیال کی قبر عراق میں پائی تو حکم فرمایا کہ اسے پوشیدہ کر دیا جائے اور جو رقعہ ملا ہے جس میں بعض لڑائیوں وغیرہ کا ذکر ہے اسے دفن کر دیا جائے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

21۔ 1 یعنی جس طرح ہم نے سلایا اور جگایا، اسی طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حال سے آگاہ کردیا۔ بعض روایات کے مطابق یہ آگاہی اس طرح ہوئی جب اصحاب کہف کا ایک ساتھی چاندی کا سکہ لے کر شہر گیا، جو تین سو سال قبل کے بادشاہ دقیانوس کے زمانے کا تھا اور وہ سکہ اس نے ایک دکاندار کو دیا، تو وہ حیران ہوا، اس نے ساتھ والی دکان والے کو دکھایا، وہ دیکھ کر حیران ہوا، جب کہ اصحاب کہف کا ساتھی یہ کہتا رہا کہ میں اس شہر کا باشندہ ہوں اور کل ہی یہاں سے گیا ہوں، لیکن اس کل کو تین صدیاں گزر چکی تھیں، لوگ کس طرح اس کی بات مان لیتے ؟ لوگوں کو شبہ گزرا کہ کہیں اس شخص کو مدفون خزانہ ملا ہو۔ یہ بات بادشاہ یا حاکم مجاز تک پہنچی اور اس ساتھی کی مدد سے وہ غار تک پہنچا اور اصحاب کہف سے ملاقات کی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انھیں پھر وفات دے دی (ابن کثیر) 21۔ 2 یعنی اصحاب کہف کے اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے وقوع اور بعث بعد الموت کا وعدہ الٰہی سچا ہے، منکرین کے لئے اس واقعہ میں اللہ کی قدرت کا ایک نمونہ موجود ہے۔ 21۔ 3 اذ یا تو ظرف ہے اعثرنا کا، یعنی ہم نے انھیں اس وقت ان کے حال سے آگاہ کیا، جب وہ بعث بعد الموت یا واقعہ قیامت کے بارے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ 21۔ 4 یہ کہنے والے کون تھے، بعض کہتے ہیں کہ اس وقت کے اہل ایمان تھے، بعض کہتے ہیں بادشاہ اور اس کے ساتھی تھے، جب جاکر انہوں نے ملاقات کی اور اس کے بعد اللہ نے انھیں پھر سلا دیا، تو بادشاہ اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ ان کی حفاظت کے لئے ایک عمارت بنادی جائے۔ 21۔ 5 جھگڑا کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی بابت صحیح علم صرف اللہ کو ہی ہے۔ 21۔ 6 یہ غلبہ حاصل کرنے والے اہل ایمان تھے یا اہل کفر و شرک ؟ شوکانی نے پہلی رائے کو ترجیح دی ہے اور ابن کثیر نے دوسری رائے کو۔ کیونکہ صالحین کی قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنا اللہ کو پسند نہیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ لعن اللہ الیھود والنصٓاری اتخذوا قبور انبیائھم وصٓالحیھم مساجد۔ البخاری۔ مسلم۔ اللہ تعالیٰ بہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے جنہوں نے اپنے پیغمبروں اور صالحین کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا، حضرت عمر کی خلافت میں عراق میں حضرت دانیال (علیہ السلام) کی قبر دریافت ہوئی تو آپ نے حکم دیا کہ اسے چھپا کر عام قبروں جیسا کردیا جا‏ئے تاکہ لوگوں کے علم میں نہ آئے کہ فلاں قبر فلاں پیغمبر کی ہے۔ تفسیر ابن کثیر۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩] سلطنت کی تبدیلی اور حالات کی سازگاری :۔ جب کھانا لانے والا شہر پہنچا تو وہاں دنیا ہی بدل چکی تھی۔ لوگوں کے تہذیب و تمدن لباس اور وضع قطع میں نمایاں فرق واقع ہوچکا تھا۔ زبان میں خاصا فرق پڑگیا تھا اور جب لوگوں نے اس نوجوان کو دیکھا تو سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے لیکن وہ ان سے گریز کرتا رہا پھر جب اس نے کھانا خریدنے کے وقت کئی صدیاں پہلے کا سکہ پیش کیا تو دکاندار اور آس پاس والے سب آدمی اس نوجوان کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے انھیں یہ شبہ ہوا کہ شاید اس شخص کو پرانے زمانے کا کوئی دفینہ مل گیا ہے چناچہ اسی شک و شبہ کی بنا پر لوگوں نے اسے پکڑ کر حکام بالا کے سامنے پیش کردیا اور جب اس نوجوان نے بھی اپنا بیان دیا تو یہ معاملہ کھلا کہ یہ تو وہی پیروان مسیح ہیں جو کئی صدیاں پیشتر یکدم روپوش ہوگئے تھے اور جن کا ریکارڈ اب تک سرکاری دفتروں میں منتقل ہوتا چلا آرہا تھا۔ یہ خبر آناً فاناً ساری عیسائی آبادی میں پھیل گئی جس بات سے وہ لوگ بچنا چاہتے تھے اللہ نے سب لوگوں کو ان کے حال سے باخبر کردیا۔ فرق یہ تھا کہ جب وہ مفرور اور روپوش ہوئے تھے اس وقت وہ معاشرہ اور حکومت کے مجرم تھے لیکن اس وقت وہ سب کی نظروں میں اپنے ایمان پر ثابت قدم رہنے والے اور محترم تھے۔- [٢٠] بعث بعد الموت کے جھگڑے کی نوعیت روحانی ہوگا یا جسمانی ؟ ان دنوں اگرچہ سرکاری مذہب عیسائیت تھا اور عیسائی قیامت اور روز آخرت کے قائل ہوتے ہیں۔ تاہم روز قیامت کے متعلق عجیب عجیب قسم کی اور فلسفیانہ قسم کی بحثیں چھڑی ہوئی تھیں کچھ بےدین قسم کے لوگ تو سرے سے بعث بعد الموت کے منکر تھے جیسا کہ ہر مذہب میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں خواہ یہ انکار عملاً ہو یا قولاً بھی ہو۔ باقی بعث بعد الموت پر ایمان رکھنے والوں میں یہ اختلاف تھا کہ آیا یہ روحانی قسم کا ہوگا یا جسمانی قسم کا ؟ اور اس پر مناظرے بھی ہوتے تھے لیکن کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہونے پا رہا تھا۔ بادشاہ خود چاہتا تھا کہ اس اختلاف کا کوئی حتمی فیصلہ ہوجائے۔ انھیں ایام میں ان نوجوانوں کی دریافت والا مسئلہ سب کے سامنے آگیا جس نے جسمانی طور پر بعث بعد الموت کے عقدے کا ناقابل انکار ثبوت فراہم کردیا۔- [٢١] مسجد کی تعمیر بطور یادگار :۔ اب یہ اصحاب کہف سب لوگوں کی نظروں میں محترم تھے اور اولیاء اللہ سمجھے جانے لگے تھے لوگوں نے ان سے غار میں جاکر ملاقات کی یا نہیں کی یا ان لوگوں نے غار سے نکل کر لوگوں کو علیک سلیک کی یا نہیں کی، یہ تفصیل کہیں بھی مذکور نہیں البتہ راجح قول یہی معلوم ہوتا ہے کہ کھانا لانے والا بھی واپس غار میں چلا گیا وہ پھر پہلے کی طرح لیٹ گئے اور وہیں ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی لوگوں نے یہ خیال کیا کہ یہ سب مقدس ہستیاں تھیں لہذا اس غار پر کوئی یادگار عمارت تعمیر کردینا چاہیئے۔ اس بات پر پھر اختلاف ہوا کہ یہ یادگار تعمیر کس قسم کی ہو اور جو لوگ بااثر اور صاحب رسوخ تھے ان کی رائے ہی غالب آئی اور وہ رائے یہ تھی کہ اس غار کے پاس ایک مسجد یا عبادت خانہ یادگار کے طور پر بنادیا جائے جسے ان بااثر لوگوں نے خود بنانے کا ذمہ لیا۔- اس طرح اصحاب کہف کو اولیاء اللہ کی اور ان کی غار کو آستانے یا ان کے مقبرے کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ آستانوں یا خانقاہوں اور مزاروں وغیرہ کے قریب یا ان پر مسجد بنانا یا کسی مسجد میں کسی کو ولی اللہ سمجھ کر اس کی قبر بنادینا ایسے کام ہیں جن سے رسول اللہ نے بڑی سختی سے منع فرمایا ہے وجہ یہ ہے کہ ایسے کاموں سے شرک کی بہت سی راہیں کھلتی ہیں جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔- ١۔ قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنا پرانی شرکیہ رسم ہے :۔ سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ بعض ازواج مطہرات نے رسول اللہ سے ذکر کیا کہ انہوں نے حبشہ میں ماریہ نامی ایک کنے سہ (یہودیوں کی عبادت گاہ) دیکھا ہے جس میں مجسمے تھے تو آپ نے فرمایا : جب ان لوگوں میں سے کوئی صالح مرد مرجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے ایسے لوگ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں (مسلم، کتاب الصلوٰۃ) اور اسی حدیث کو امام بخاری نے یوں ذکر کیا ہے :- سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ ام حبیبہ (رض) اور ام سلمہ (رض) نے آپ سے ایک گرجے کا ذکر کیا جسے انہوں نے ملک حبش میں دیکھا تھا اور اس میں مورتیاں تھیں۔ آپ نے فرمایا ان لوگوں کا قاعدہ یہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی صالح آدمی مرجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنالیتے اور اس میں مورتیاں رکھ لیتے۔ قیامت کے دن اللہ کے ہاں یہ لوگ سب مخلوق سے بدتر ہوں گے۔ (بخاری، کتاب الصلوۃ، باب ھلے نبش قبور مشرکی اھل الجاھلیہ۔ نیز باب الصلوۃ فی البیعۃ)- ٢۔ قبور سے تعلق رکھنے والی احادیث :۔ سیدہ عائشہ صدیقہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے اپنی اس مرض میں جس سے تندرست ہو کر نہیں اٹھے فرمایا : یہود پر اللہ لعنت کرے انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں یا سجدہ گاہیں بنا لیا - سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ لوگ آپ کی قبر کو سجدہ گاہ بنالیں گے تو آپ کی قبر مرجع خاص و عام بنادی جاتی (بخاری، کتاب المغازی۔ باب مرض النبی )- اس کی وضاحت یہ ہے کہ رسول اللہ کی قبر مبارک سیدہ عائشہ (رض) کے گھر میں تھی۔ اس کی صورت یہ تھی کہ پیچھے قبر، اس سے آگے سیدہ عائشہ (رض) کی رہائش اور اس سے آگے بیرونی دروازہ تھا اور قبر تک سوائے سیدہ عائشہ (رض) یا رشتہ داروں کے علاوہ دوسرے لوگ جا ہی نہ سکتے تھے کیونکہ قبر کے پیچھے پھر دیوار تھی۔ اسی بنا پر سیدہ عائشہ (رض) فرما رہی ہیں کہ اگر آپ کی قبر کے متعلق یہ خطرہ نہ ہوتا کہ کچھ عرصہ گزرنے پر لوگ آپ کی قبر کو سجدہ کرنے لگیں گے تو بغرض زیارت پچھلی دیوار کھول دی جاتی۔- ٣۔ درج ذیل حدیث میں قبر پرست یہود کے علاوہ عیسائیوں کا بھی ذکر ہے : سیدہ عائشہ (رض) اور سیدنا ابن عباس (رض) دونوں سے روایت ہے کہ جب آپ پر بیماری آن پڑی اور وفات کی علامات ظاہر ہوئیں تو آپ اپنی چادر سے اپنا منہ ڈھانپ لیتے اور جب بیزاری بڑھتی تو اسے چہرے سے ہٹا دیتے اور یوں فرماتے : اللہ تعالیٰ یہود اور نصاریٰ پر لعنت کرے انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مساجد یا سجدہ گاہیں بنا لیا۔ اس قول سے آپ ہمیں اس برے کام سے ڈراتے تھے جو یہود و نصاریٰ نے کیا تھا۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً )- ٤۔ اور صحیح مسلم، کتاب الصلوٰۃ میں سیدنا جندب کی جو روایت ہے اس میں نبیوں کے ساتھ ولیوں کی قبروں کا بھی ذکر ہے، الفاظ یہ ہیں :- سن لو تم سے پہلے لوگوں نے اپنے نبیوں اور بزرگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا، خبردار تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا۔ میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں - ٥۔ سیدنا ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : تمام روئے زمین نماز کے قابل ہے سوائے قبرستان اور حمام کے (ترمذی، ابو داؤد، دارمی، بحوالہ مشکوۃ، کتاب الصلٰوۃ باب المساجد و مواضع الصلوٰۃ فصل ثانی)- ٦۔ رسول اللہ نے اپنے متعلق ارشاد فرمایا کہ میری قبر کو عید (عرس یا میلہ) نہ بنانا اور جہاں کہیں تم ہو وہیں سے درود پڑھ لیا کرو۔ تمہارا درود مجھے پہنچا دیا جاتا ہے (نسائی بحوالہ مشکوٰۃ۔ باب الصلوٰۃ علی النبی و فضلہا۔ فصل ثانی)- ٧۔ نیز آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی فرمائی کہ : یا اللہ میری قبر کو وثن (آستانہ) نہ بنادینا کہ لوگ آکر پوجا کرنے لگیں (مالک، بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب الصلوٰۃ، باب المساجد و مواضع الصلوٰۃ، تیسری فصل)- ان سب احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے قبر، مقبرہ، مزار، روضہ، آستانہ پر لوگوں کے اس کو مقدس سمجھ کر جمع ہونے، ان پر عرس یا میلہ لگانے حتیٰ کہ وہاں نماز ادا کرنے سے بھی منع فرما دیا ہے۔ کسی قبر یا مزار یا آستانہ پر مسجد بنانا حرام ہے کیونکہ یہ کام محض صاحب قبر کی تعظیم کی وجہ سے کیا جاتا ہے اور قبرستان میں نماز نہیں ہوتی جبکہ ہمارے ہاں دستور یہ ہے کہ ہر مزار پر مسجد ہوتی ہے یا مسجد میں ہی کسی بزرگ کو دفن کردیا جاتا ہے۔ ایسی سب صورتیں ممنوع ہیں، مزاروں پر جو لوگ اکٹھے ہوتے ہیں وہ ان بزرگوں کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر ہی وہاں جاتے ہیں۔ نیز ایسے آداب یا عبادات بجالاتے ہیں جو صرف اللہ کے لیے سزاوار ہیں یا بیت اللہ کے لیے مثلاً وہاں نذریں، نیازیں یعنی مالی قربانی بھی دیتے ہیں۔ قبروں کی صفائی، انھیں مزیں کرنا، ان پر چراغاں کرنا سب شرعاً حرام ہیں جو وہاں بجا لاتے ہیں اور بعض بدبخت تو قبروں کا بیت اللہ کی طرح طواف کرتے، غلاف چڑھاتے حتیٰ کہ سجدہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور غالباً یہی وجوہ ہیں جن کی بنا پر قبرستان میں نماز کو ممنوع اور مزارات اور آستانوں کی تعمیر کو حرام قرار دیا گیا ہے اور آج کل تو بعض مزارات پر عرس کے بجائے حج کے پورے مناسک بھی ادا کیے جاتے ہیں اور اسے حج ہی کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَكَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ ۔۔ : یعنی جس طرح ہم نے انھیں ثابت قدم رکھا اور حیرت انگیز طریقے سے سلائے رکھا اسی طرح ہم نے شہر والوں کو ان کی حقیقت حال اور جگہ سے مطلع کردیا۔ بہت سے مفسرین کا بیان ہے اور واقعہ کی صورت خود بخود بھی یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب وہ شخص کھانا خریدنے کے لیے روانہ ہوا تو اس نے دیکھا کہ شہر کے راستے، لوگوں کی تہذیب، رہن سہن، زبان اور لباس ہر چیز بدل چکی ہے، اس نے خیال کیا کہ شاید میں پاگل ہوگیا ہوں یا خواب دیکھ رہا ہوں۔ بالآخر وہ شہر پہنچا اور ایک دکاندار سے کھانا خریدنے لگا اور اس نے سکہ نکالا تو دکاندار ششدر رہ گیا اور اس نے ایک دوسرے دکاندار کو بلایا، بالآخر کچھ لوگ جمع ہوگئے اور انھیں شک گزرا کہ شاید اس شخص کو کہیں سے پرانا خزانہ ہاتھ لگا ہے۔ مگر جب اس نے بتایا کہ میں اسی شہر کا رہنے والا ہوں اور کل ہی یہاں فلاں بادشاہ کو چھوڑ کر گیا ہوں تو لوگوں کی حیرت اور بڑھ گئی اور وہ اسے پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے آئے۔ وہاں جب پوچھ گچھ ہوئی تو سب معاملہ کھل گیا، اس لیے اصحاب کہف کو دیکھنے اور انھیں سلام کرنے کے لیے بادشاہ اور اس کے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم غار پر پہنچ گیا۔ شہر جانے والا ساتھی اندر داخل ہوگیا اور سارے ساتھی دوبارہ لیٹ گئے، اسی حال میں اللہ تعالیٰ نے ان کی روح قبض کرلی۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا وہاں تین سو نو (٣٠٩) سال ٹھہرنا بیان فرمایا ہے، اگر وہ اس کے بعد بھی زندہ ہوتے تو ان پر عمارت بنانے یا مسجد بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، بلکہ ان کی کرامت دیکھنے والے خوش عقیدہ لوگ انھیں شہر لے جاتے اور ہر طرح ان کی خدمت بجا لاتے۔ - 3 اس آیت سے کئی ساتھیوں کا مال برابر جمع کرکے کھانے وغیرہ کے لیے اکٹھا خرچ کرنا ثابت ہوتا ہے، خواہ کوئی کم کھاتا ہو یا زیادہ اور یہ آیت اس بات کی بھی دلیل ہے کہ کسی کو اپنا نائب یا وکیل بنایا جاسکتا ہے۔ - لِيَعْلَمُوْٓا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ ۔۔ : یعنی ان پر مطلع ہونے والے شہر کے لوگوں کو یقین آجائے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں۔- اِذْ يَتَنَازَعُوْنَ بَيْنَهُمْ ۔۔ : یعنی ہم نے شہر والوں کو ان پر اس وقت مطلع کیا جب وہ آپس میں اپنے معاملے میں جھگڑ رہے تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ مر کر جی اٹھنا برحق ہے، کوئی اس کا انکار کرتا تھا، کوئی کہتا کہ حشر صرف روح کا ہوگا بدن کا نہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انھیں اصحاب کہف کا حال آنکھوں سے دکھا کر یقین دلا دیا کہ قیامت آئے گی اور حشر بدن اور روح دونوں کا ہوگا۔ ” اِذْ يَتَنَازَعُوْنَ بَيْنَهُمْ “ کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب شہر والے اصحاب کہف کے بارے میں جھگڑ رہے تھے کہ یہ کون لوگ تھے ؟ غار میں کب آئے ؟ کتنی دیر سوئے رہے ؟ اب ان کے مرنے پر ان کے ساتھ کیا کیا جائے ؟ بعض نے کہا، ان پر دیوار بنا کر غار کا منہ بند کردیں۔ بعض نے کہا، ان پر ایک عمارت ان کی یادگار کے طور پر بنادیں۔ - رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْ : یعنی اصحاب کہف اور شہر والوں کے احوال ان کا رب بہتر جانتا ہے۔ - قَالَ الَّذِيْنَ غَلَبُوْا عَلٰٓي اَمْرِهِمْ ۔۔ : جن لوگوں کے پاس غلبہ و اقتدار تھا وہ کہنے لگے کہ ہم تو ضرور ان پر ایک مسجد بنائیں گے اور اس طرح ان کی یاد گار کو باقی رکھیں گے۔ گزشتہ قوموں میں اسی راستے سے شرک داخل ہوتا رہا اور اب بھی شرک کے سب سے بڑے مراکز انھی قبروں پر تعمیر شدہ عمارتیں مثلاً خانقاہیں وغیرہ یا مسجدیں ہی ہیں۔ عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی اس بیماری میں فرمایا جس میں آپ فوت ہوئے : ( لَعَنَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارَی اتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِیَاءِھِمْ مَسَاجِدَ ) [ بخاری، الجنائز، باب ما یکرہ من اتخاذ المساجد۔۔ : ١٣٣٠۔ مسلم : ٥٢٩ ] ” اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے، انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔ “ جندب (رض) نے فرمایا کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کے فوت ہونے سے پانچ دن پہلے سنا، آپ نے فرمایا : ( أَلَا وَإِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ کَانُوْا یَتَّخِذُوْنَ قُبُوْرَ أَنْبِیَاءِھِمْ وَصَالِحِیْھِمْ مَسَاجِدَ ، أَلَا فَلاَ تَتَّخِذُوا الْقُبُوْرَ مَسَاجِدَ ، إِنِّيْ أَنْھَاکُمْ عَنْ ذٰلِکَ ) [ مسلم، المساجد، باب النہي عن بناء المساجد علی القبور۔۔ : ٥٣٢ ] ” جان لو جو لوگ تم سے پہلے تھے وہ اپنے نبیوں اور صالحین کی قبروں کو مسجدیں بنا لیتے تھے، سن لو کہ تم قبروں کو مسجدیں نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔ “ - ایک حدیث میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا کرنے والوں کو اللہ کے ہاں سب سے بدتر مخلوق قرار دیا، فرمایا : ( فَأُولٰءِکَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ) [ بخاري، الصلاۃ، باب ھل تنبش قبور مشرکي الجاھلیۃ ۔۔ : ٤٢٧۔ مسلم : ٥٢٨، عن عائشۃ ]- ان احادیث میں قبروں پر مسجدیں بنانے سے مراد ان کے پاس مسجدیں بنانا ہے، کیونکہ یہود و نصاریٰ کے عبادت خانے ان کے انبیاء و اولیاء کی قبروں کے پاس ہوا کرتے تھے۔ افسوس کہ بعض مسلمانوں نے یہ تکلف بھی ختم کرکے اپنے بزرگوں کی قبریں عین مسجدوں کے اندر بنانا شروع کردیں۔ ان لوگوں کی کوئی مسجد کم ہی کسی نہ کسی قبر سے خالی نظر آئے گی، ان کے مولویوں نے اس بدترین فعل کے جواز کے لیے زیر تفسیر آیت کو دلیل بنا لیا، حالانکہ اس میں صرف یہ ذکر ہے کہ ان کے غالب اور بااثر لوگوں نے یہ کہا۔ رہی یہ بات کہ انھوں نے درست کہا یا غلط، اس کی وضاحت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرما دی، چناچہ جابر (رض) بیان کرتے ہیں : ( نَھٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ یُّجَصَّصَ الْقَبْرُ ، وَأَنْ یُّقْعَدَ عَلَیْہِ ، وَأَنْ یُّبْنٰی عَلَیْہِ ) [ مسلم، الجنائز، باب النھي عن تجصیص القبر۔۔ : ٩٧٠ ]” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا کہ قبر چونا گچ (سیمنٹڈ) بنائی جائے اور اس سے کہ اس پر بیٹھا جائے اور اس سے کہ اس پر عمارت بنائی جائے۔ “ بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی قبروں کو برابر کرنے کا حکم دیا۔ چناچہ ابو الہیاج الاسدی، علی (رض) کے داماد فرماتے ہیں کہ علی بن ابی طالب (رض) نے مجھ سے فرمایا : ( أَلاَ أَبْعَثُکَ عَلٰی مَا بَعَثَنِيْ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ؟ أَنْ لاَّ تَدَعَ تِمْثَالاً إِلَّا طَمَسْتَہُ وَلاَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّیْتَہُ ) [ مسلم، الجنائز، باب الأمر بتسویۃ القبر : ٩٦٩ ] ” کیا میں تمہیں اس کام پر مقرر نہ کروں جس پر مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقرر فرمایا ؟ وہ یہ ہے کہ کوئی مورتی نہ چھوڑ جسے تو مٹا نہ دے اور نہ کوئی اونچی قبر جسے تو برابر نہ کر دے۔ “ اللہ کی حکمت دیکھیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبریں برابر کرنے پر اس شخص کو مقرر فرمایا جس کے نام لیواؤں نے سب سے زیادہ قبروں کو پختہ اور اونچا بنانا تھا، تاکہ کسی کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- اور (ہم نے جس طرح اپنی قدرت سے ان کو سلایا اور جگایا) اسی طرح ہم نے (اپنی قدرت و حکمت سے اس زمانے کے) لوگوں کو ان ( کے حال) پر مطلع کردیا تاکہ (منجملہ اور فوائد کے ایک فائدہ یہ بھی ہو کہ) وہ لوگ (اس واقعہ سے استدلال کر کے) اس بات کا یقین (یا زیادہ یقین) کرلیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا ہے، اور وہ یہ کہ قیامت میں کوئی شک نہیں ( یہ لوگ اگر پہلے سے قیامت میں زندہ ہونے پر ایمان رکھتے تھے تو زیادہ یقین اس واقعہ سے ہوگیا، اور اگر قیامت کے منکر تھے تو اب یقین حاصل ہوگیا یہ واقعہ تو اصحاب کہف کی زندگی میں پیش آیا، پھر ان صاحبوں نے وہیں غار میں وفات پائی، تو ان کے متعلق اہل عصر میں اختلاف ہوا جس کو آگے بیان فرمایا ہے کہ) وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اس زمانے کے لوگ ان کے معاملے میں باہم جھگڑ رہے تھے، (اور وہ معاملہ اس غار کا منہ بند کرنا تھا، تاکہ ان کی لاشیں محفوظ رہیں، یا ان کی یادگار قائم کرنا مقصود تھا) سو ان لوگوں نے کہا کہ ان کے (غار کے) پاس کوئی عمارت بنوا دو (پھر اختلاف ہوا کہ وہ عمارت کیا ہو، اس میں رائیں مختلف ہوئیں، تو اختلاف کے وقت) ان کا رب ان (کے احوال مختلفہ) کو خوب جانتا تھا (بالآخر) جو لوگ اپنے کام پر غالب تھے (یعنی اہل حکومت جو اس وقت دین حق پر قائم تھے) انہوں نے کہا کہ ہم تو ان کے پاس ایک مسجد بنادیں گے ( تاکہ مسجد اس بات کی بھی علامت رہے کہ یہ لوگ خود عابد تھے معبود نہ تھے اور دوسری عمارتوں میں یہ احتمال تھا کہ آگے آنے والے انہی کو معبود بنالیں)- معارف و مسائل :- وَكَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ اس آیت میں اصحاب کہف کے راز کا اہل شہر پر منکشف ہوجانا اور اس کی حکمت عقیدہ آخرت و قیامت کہ سب مردے دوبارہ زندہ ہوں گے اس پر ایمان و یقین حاصل ہونا بیان فرمایا ہے، تفسیر قرطبی میں اس کا مختصر قصہ اس طرح مذکور ہے کہ :۔- اصحاب کہف کا حال اہل شہر پر کھل جانا :- اصحاب کہف کے نکلنے کے وقت جو ظالم اور مشرک بادشاہ دقیانوس اس شہر پر مسلط تھا وہ مر گیا، اور اس پر صدیاں گذر گئیں، یہاں تک اس مملکت پر قبضہ اہل حق کا ہوگیا جو توحید پر یقین رکھتے تھے ان کا بادشاہ ایک نیک صالح آدمی تھا (جس کا نام تفسیر مظہری میں تاریخی روایات سے بیدوسیس لکھا ہے) اس کے زمانے میں اتفاقا قیامت اور اس میں سب مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے مسئلے میں کچھ اختلافات پھیل گئے، ایک فرقہ اس کا منکر ہوگیا کہ یہ بدن گلنے سڑنے، پھر ریزہ ریزہ ہو کر ساری دنیا میں پھیل جانے کے بعد پھر زندہ ہوجائیں گے، بادشاہ وقت بیدوسیس کو اس کی فکر ہوئی کہ کس طرح ان کے شکوک و شبہات دور کئے جائیں، جب کوئی تدبیر نہ بنی تو اس نے ٹاٹ کے کپڑے پہنے اور راکھ کے ڈھیر پر بیٹھ کر اللہ سے دعا کی اور الحاح وزاری شروع کی، کہ یا اللہ آپ ہی کوئی ایسی صورت پیدا فرما دیں کہ ان لوگوں کا عقیدہ صحیح ہوجائے اور یہ راہ پر آجائیں، اس طرف یہ بادشاہ گریہ وزاری اور دعا میں مصروف تھا، دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا کی قبولیت کا یہ سامان کردیا کہ اصحاب کہف بیدار ہوئے اور انہوں نے اپنے ایک آدمی کو (جس کا نام تملیخا بتلایا جاتا ہے ان کے بازار میں بھیج دیا وہ کھانا خریدنے کے لئے دکان پر پہنچا اور تین سو برس پہلے بادشاہ دقیانوس کے زمانے کا سکہ کھانے کی قیمت میں پیش کیا تو دکاندار حیران رہ گیا، کہ یہ سکہ کہاں سے آیا، کس زمانے کا ہے، بازار کے دوسرے دکان داروں کو دکھلایا، سب نے یہ کہا کہ اس شخص کو کہیں پرانا خزانہ ہاتھ آگیا ہے اس میں سے یہ سکہ نکال کر لایا ہے، اس نے انکار کیا کہ نہ مجھے کوئی خزانہ ملا، نہ کہیں سے لایا یہ میرا اپنا روپیہ ہے۔- بازار والوں نے اس کو گرفتار کر کے بادشاہ کے سامنے پیش کردیا، یہ بادشاہ جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے، ایک نیک صالح اللہ والا تھا، اور اس نے سلطنت کے پرانے خزانے کے آثار قدیمہ میں کہیں وہ تختی بھی دیکھی تھی جس میں اصحاب کہف کے نام اور ان کے فرار ہوجانے کا واقعہ بھی لکھا ہوا تھا، بعض کے نزدیک خود ظالم بادشاہ دقیانوس نے یہ تختی لکھوائی تھی، کہ یہ اشتہاری مجرم ہیں، ان کے نام اور پتے محفوظ رہیں، جب کہیں ملیں گرفتار کر لئے جائیں، اور بعض روایات میں ہے کہ شاہی دفتر میں بعض ایسے مومن بھی تھے جو دل سے بت پرستی کو برا سمجھتے اور اصحاب کہف کو حق پر سمجھتے تھے، مگر ظاہر کرنے کی ہمت نہیں تھی، انہوں نے یہ تختی بطور یادگار کے لکھ لی تھی، اس تختی کا نام رقیم ہے جس کی وجہ سے اصحاب کہف کو اصحاب رقیم بھی کہا گیا۔- الغرض اس بادشاہ کو اس واقعہ کا کچھ علم تھا، اور اس وقت وہ اس دعا میں مشغول تھا کہ کسی طرح لوگوں کو اس بات کا یقین آجائے کہ مردہ اجسام کو دوبارہ زندہ کردینا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے سامنے کچھ بعید نہیں۔- اس لئے تملیخا سے اس کے حالات کی تحقیق کی تو اس کو اطمینان ہوگیا کہ یہ انہی لوگوں میں سے ہے اور اس نے کہا کہ میں تو اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرتا تھا کہ مجھے ان لوگوں سے ملا دے جو دقیانوس کے زمانے میں اپنا ایمان بچا کر بھاگے تھے ؟ بادشاہ اس پر مسرور ہوا اور کہا کہ شاید اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرمائی، اس میں لوگوں کے لئے شاید کوئی ایسی حجت ہو جس سے ان کو حشر اجساد کا یقین آجائے، یہ کہہ کر اس شخص سے کہا کہ مجھے اس غار پر لے چلو جہاں سے تم آئے ہو۔ - بادشاہ بہت سے اہل شہر کے مجمع کے ساتھ غار پہنچا، جب غار قریب آیا تو تملیخا نے کہا کہ آپ ذرا ٹھہریں میں جا کر اپنے ساتھیوں کو حقیقت معاملہ سے باخبر کر دوں کہ اب بادشاہ مسلمان موحد ہے اور قوم بھی مسلمان ہے، وہ ملنے کے لئے آئے ہیں، ایسا نہ ہو کہ اطلاع سے پہلے آپ پہونچیں، تو وہ سمجھیں کہ ہمارا دشمن بادشاہ چڑھ آیا ہے، اس کے مطابق تملیخا نے پہلے جا کر ساتھیوں کو تمام حالات سنائے تو وہ لوگ اس سے بہت خوش ہوئے، بادشاہ کا استقبال تعظیم کے ساتھ کیا، پھر وہ اپنے غار کی طرف لوٹ گئے، اور اکثر روایات میں یہ ہے کہ جس وقت تملیخا نے ساتھیوں کو یہ سارا قصہ سنایا، اسی وقت سب کی وفات ہوگئی، بادشاہ سے ملاقات نہیں ہوسکی، بحر محیط میں ابو حیان نے اس جگہ یہ روایت نقل کی ہے کہ ملاقات کے بعد اہل غار نے بادشاہ اور اہل شہر سے کہا کہ اب ہم آپ سے رخصت چاہتے ہیں اور غار کے اندر چلے گئے، اسی وقت اللہ تعالیٰ نے ان سب کو وفات دیدی، واللہ اعلم بحقیقۃ الحال۔- بہر حال اب اہل شہر کے سامنے یہ واقعہ عجیبہ قدرت آلہیہ کا واشگاف ہو کر آ گیا تو سب کو یقین - ہوگیا کہ جس ذات کی قدرت میں یہ داخل ہے کہ تین سو برس تک زندہ انسانوں کو بغیر کسی غذا اور - سامان زندگی کے زندہ رکھے اور اس طویل عرصہ تک ان کو نیند میں رکھنے کے بعد پھر صحیح سالم، - قوی، تندرست اٹھاوے اس کے لئے یہ کیا مشکل ہے کہ مرنے کے بعد بھی پھر ان اجسام کو زندہ - کر دے، اس واقعہ سے ان کے انکار کا سبب دور ہوگیا کہ حشر اجساد کو مستبعد اور خارج از قدرت سمجھتے تھے، اب معلوم ہوا کہ مالک الملکوت کی قدرت کو انسانی قدرت پر قیاس کرنا خود جہالت ہے۔- اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا (آیت) لِيَعْلَمُوْٓا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيْهَا یعنی ہم نے اصحاب کہف کو زمانہ دراز تک سلانے کے بعد جگا کر بٹھا دیا تاکہ لوگ سمجھ لیں کہ اللہ کا وعدہ یعنی قیامت میں سب مردوں کے اجسام کو زندہ کرنے کا وعدہ سچا ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں۔- اصحاب کہف کی وفات کے بعد لوگوں میں اختلاف رائے :۔- اصحاب کہف کی بزرگی اور تقدس کے تو سب ہی قائل ہوچکے تھے، ان کی وفات کے بعد سب کا خیال ہوا کہ غار کے پاس کوئی عمارت بطور یادگار کے بنائی جائے، عمارت کے بارے میں اختلاف رائے ہوا، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل شہر میں اب بھی کچھ بت پرست لوگ موجود تھے وہ بھی اصحاب کہف کی زیارت کو آتے تھے ان لوگوں نے عمارت بنانے میں یہ رائے دی کہ کوئی رفاہ عام کی عمارت بنادی جائے مگر ارباب حکومت اور بادشاہ مسلمان تھے، اور انہی کا غلبہ تھا، ان کی رائے یہ ہوئی کہ یہاں مسجد بنادی جائے جو یادگار بھی رہے اور آئندہ بت پرستی سے بچانے کا سبب بھی بنے یہاں اختلاف رائے کا ذکر کرتے ہوئے درمیان میں قرآن کا یہ جملہ ہے رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْ ، یعنی ان کا رب ان کے حالات کو پوری طرح جانتا ہے۔- تفسیر بحر محیط میں اس جملے کے معنی میں دو احتمال ذکر کئے ہیں ایک یہ کہ یہ قول انہی حاضرین اہل شہر کا ہو، کیونکہ ان کی وفات کے بعد جب ان کی یادگار بنانے کی رائے ہوئی جو جیسا عموما یادگاری تعمیرات میں ان لوگوں کے نام اور خاص حالات کا کتبہ لگایا جاتا ہے جن کی یادگار میں تعمیر کی گئی ہے تو ان کے نسب اور حالات کے بارے میں مختلف گفتگو ہونے لگیں، جب کسی حقیقت پر نہ پہنچنے تو خود انہوں نے ہی آخر میں عاجز ہو کر کہہ دیا رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْ اور یہ کہہ کر اصل کام یعنی یادگار بنانے کی طرف متوجہ ہوگئے، جو لوگ غالب تھے ان کی رائے مسجد بنانے کی ہوگئ۔- دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ یہ کلام حق تعالیٰ کی طرف سے ہے، جس میں اس زمانے کے باہم جھگڑا اور اختلاف کرنے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جب تمہیں حقیقت کا علم نہیں، اور اس کے علم کے ذرائع بھی تمہارے پاس نہیں تو کیوں اس بحث میں وقت ضائع کرتے ہو، اور ممکن ہے کے زمانہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں یہود وغیرہ جو اس واقعہ میں اسی طرح کی بےاصل باتیں اور بحثیں کیا کرتے تھے، ان کو تنبیہ مقصود ہو، واللہ سبحانہ وتعالی اعلم - مسئلہ : اس واقعہ سے اتنا معلوم ہوا کہ اولیاء صلحاء کی قبور کے پاس نماز کے لئے مسجد بنادینا کوئی گناہ نہیں، اور جس حدیث میں قبور انبیاء کو مسجد بنانے والوں پر لعنت کے الفاظ آئے ہیں، اس سے مراد خود قبور کو سجدہ گاہ بنادینا ہے، جو باتفاق شرک و حرام ہے (مظہری)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَيْہِمْ لِيَعْلَمُوْٓا اَنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعَۃَ لَا رَيْبَ فِيْہَا۝ ٠ۚۤ اِذْ يَتَنَازَعُوْنَ بَيْنَہُمْ اَمْرَہُمْ فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَيْہِمْ بُنْيَانًا۝ ٠ۭ رَبُّہُمْ اَعْلَمُ بِہِمْ۝ ٠ۭ قَالَ الَّذِيْنَ غَلَبُوْا عَلٰٓي اَمْرِہِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْہِمْ مَّسْجِدًا۝ ٢١- عثر - عَثَرَ الرّجلُ يَعْثُرُ عِثَاراً وعُثُوراً : إذا سقط، ويتجوّز به فيمن يطّلع علی أمر من غير طلبه . قال تعالی: فَإِنْ عُثِرَ عَلى أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْماً [ المائدة 107] ، يقال : عَثَرْتُ علی كذا . قال :- وَكَذلِكَ أَعْثَرْنا عَلَيْهِمْ [ الكهف 21] ، أي : وقّفناهم عليهم من غير أن طلبوا .- ( ع ث ر ) عثر - یعثر عثار وعثورا کے معنی پھسل جانے اور گر پڑنے کے ہیں مجازا عثر علٰی کٰذا کے معنی کسی بات پر بغیر قصد کے مطلع ہوجانا بھی آتے ہیں ۔ قرآن میں ہے فَإِنْ عُثِرَ عَلى أَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْماً [ المائدة 107] پھر اگر معلوم ہوجائے کہ انہوں نے جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔ ( اعثرہ علٰی کذا اس نے فلاں کو اس چیز سے باخبر کردیا چناچہ قرآن میں ہے : وَكَذلِكَ أَعْثَرْنا عَلَيْهِمْ [ الكهف 21] اور اس طرح ہم نے لوگوں کو ان کے حال سے باخبر کردیا یعنی لوگوں کے قصد کے بغیر ہی ہم نے ان کے حال پر مطلع کردیا ۔- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- ريب - فَالرَّيْبُ : أن تتوهّم بالشیء أمرا مّا، فينكشف عمّا تتوهّمه، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ [ الحج 5] ،- ( ر ی ب )- اور ریب کی حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز کے متعلق کسی طرح کا وہم ہو مگر بعد میں اس تو ہم کا ازالہ ہوجائے ۔ قرآن میں ہے :- وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنا عَلى عَبْدِنا [ البقرة 23] اگر تم کو ( قیامت کے دن ) پھر جی اٹھنے میں کسی طرح کا شک ہوا ۔ - نزع - نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی:- وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] - ( ن زع ) نزع - الشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کام ن کو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ - بنی - يقال : بَنَيْتُ أَبْنِي بِنَاءً وبِنْيَةً وبِنًى. قال عزّ وجلّ : وَبَنَيْنا فَوْقَكُمْ سَبْعاً شِداداً [ النبأ 12] . والبِنَاء : اسم لما يبنی بناء، قال تعالی: لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ، والبَنِيَّة يعبر بها عن بيت اللہ تعالیٰ «2» . قال تعالی: وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، وَالسَّماءِ وَما بَناها [ الشمس 5] ، والبُنيان واحد لا جمع، لقوله تعالی: لا يَزالُ بُنْيانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ [ التوبة 110] ، وقال : كَأَنَّهُمْ بُنْيانٌ مَرْصُوصٌ [ الصف 4] ، قالُوا : ابْنُوا لَهُ بُنْياناً [ الصافات 97] ، وقال بعضهم : بُنْيَان جمع بُنْيَانَة، فهو مثل : شعیر وشعیرة، وتمر وتمرة، ونخل ونخلة، وهذا النحو من الجمع يصح تذكيره وتأنيثه .- و - ( ب ن ی )- بنیت ابنی بناء وبنیتہ وبنیا کے معنی تعمیر کرنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا ( سورة النبأ 12) اور تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بنائے وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ ( سورة الذاریات 47) اور آسمانوں کو ہم ہی نے ہاتھوں سے بنایا ۔ وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا ( سورة الشمس 5) اور آسمان اور اس ذات کی ( قسم ) جس نے اسے بنایا ۔ البنیان یہ واحد ہے جمع نہیں ہے جیسا کہ آیات ۔ لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ ( سورة التوبة 110) یہ عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں ( موجب ) خلجان رہے گی ۔ كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ ( سورة الصف 4) کہ گویا سیساپلائی ہوئی دیوار ہیں : قَالُوا ابْنُوا لَهُ بُنْيَانًا فَأَلْقُوهُ فِي الْجَحِيمِ ( سورة الصافات 97) وہ کہنے لگے کہ اس کے لئے ایک عمارت بناؤ ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ بنیانۃ کی جمع ہے اور یہ : شعیر شعیر وتمر وتمر ونخل ونخلتہ کی طرح ہے یعنی جمع اور مفرد میں تا کے ساتھ فرق کرتے ہیں اور جمع کی اس قسم میں تذکر وتانیث دونوں جائز ہوتے ہیں لَهُمْ غُرَفٌ مِنْ فَوْقِها غُرَفٌ مَبْنِيَّةٌ [ الزمر 20] ان کے لئے اونچے اونچے محل ہیں جن کے اوپر بالا خانے بنے ہوئے ہیں ۔ بناء ( مصدر بمعنی مفعول ) عمارت جمع ابنیتہ البنیتہ سے بیت اللہ مراد لیا جاتا ہے - غلب - الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3]- ( غ ل ب ) الغلبتہ - کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- سجد - السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات،- وذلک ضربان : سجود باختیار،- ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] ، أي : تذللوا له، - وسجود تسخیر،- وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15] - ( س ج د ) السجود - ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ )- سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری - جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا :- ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔- سجود تسخیر ی - جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد 15]- اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢١) اور اسی طرح ہم نے اپنی قدرت و حکمت سے افسوس شہر کے مسلمانوں اور کافروں کو ان کی حالت سے مطلع کردیا اور اس وقت ان شہر والوں کا بادشاہ یستفاد نامی مسلمان شخص تھا اور دقیانوس مجوسی بادشاہ اس سے قبل مرچکا تھا مگر اس کے بعث بعد الموت میں تسلی نہیں ہوئی تھی تاکہ اب اس شہر کے مسلمان اور کافر بھی اس بات کا یقین کرلیں کہ مرنے کے بعد پھر دوبارہ زندہ ہونا یقینی ہے اور یہ کہ قیامت کے قائم ہونے میں کوئی شک نہیں۔- اور وہ وقت بھی قابل ذکر جب کہ اس زمانہ کے لوگ ان کے معاملہ میں باہم جھگڑا رہے تھے کافر کہنے لگے کہ ان کے پاس کوئی گرجا یا عمارت بنا دو کیوں کہ یہ ہمارے دین پر تھے بالآخر جو لوگ اپنے کام پر غالب تھے یعنی کہ مسلمان (اھل حکومت) انہوں نے کہا کہ ہم تو ان کے پاس ایک مسجد بنائیں گے کیوں کہ یہ ہمارے دین پر تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢١ (وَكَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ )- چنانچہ اصحاب کہف کا ایک ساتھی جب کھانا لینے کے لیے شہر گیا تو اپنے لباس حلیے اور کرنسی وغیرہ کے باعث فوری طور پر اسے پہچان لیا گیا کہ وہ موجودہ زمانے کا انسان نہیں ہے۔ پھر جب اس سے تفتیش کی گئی تو سارا راز کھل گیا۔ اس وقت اگرچہ اس واقعہ کو تین سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا تھا مگر اس کے باوجود یہ بات ابھی تک لوگوں کے علم میں تھی کہ فلاں بادشاہ کے ڈر سے اس شہر سے سات آدمی کہیں روپوش ہوگئے تھے اور پوری مملکت میں تلاش بسیار کے باوجود کہیں ان کا سراغ نہ مل سکا تھا۔ اسی طرح یہ بات بھی لوگوں کے علم میں تھی کہ اس پورے واقعے کو ایک تختی پر لکھ کر ریکارڈ کے طور پر شاہی خزانے میں محفوظ کرلیا گیا تھا۔ لہٰذا اصحاب کہف کے ساتھی سے ملنے والی معلومات کی تصدیق کے لیے جب مذکورہ تختی ریکارڈ سے نکلوائی گئی تو اس پر اس واقعہ کی تمام تفصیلات لکھی ہوئی مل گئیں اور یوں یہ واقعہ پوری وضاحت کے ساتھ لوگوں کے سامنے آگیا۔- (لِيَعْلَمُوْٓا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيْهَا)- یہ واقعہ گویا بعث بعد الموت کے بارے میں ایک واضح دلیل تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے تین سو سال تک ان لوگوں کو سلائے رکھا اور پھر اٹھا کھڑا کیا تو اس کے لیے مردوں کا دوبارہ زندہ کرنا کیونکر ممکن نہیں ہوگا ؟- (اِذْ يَتَنَازَعُوْنَ بَيْنَهُمْ اَمْرَهُمْ )- اس کے بعد اصحاب کہف تو اپنی غار میں پہلے کی طرح سوگئے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر حقیقی موت وارد کردی لیکن لوگوں کے درمیان اس بارے میں اختلاف پیدا ہوگیا کہ ان کے بارے میں حتمی طور پر کیا معاملہ کیا جائے۔- (فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَيْهِمْ بُنْيَانًا ۭ رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْ )- کچھ لوگوں نے رائے دی کہ اس معاملہ کی اہمیت کے پیش نظر یہاں ایک شاندار یادگار تعمیر کی جانی چاہیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :17 یعنی جب وہ شخص کھانا خریدنے کے لیے شہر گیا تو دنیا بدل چکی تھی ۔ بت پرست روم کو عیسائی ہوئے ایک مدت گزر چکی تھی ۔ زبان تہذیب ، تمدن ، لباس ہر چیز میں نمایاں فرق آگیا تھا ۔ دو سو برس پہلے کا یہ آدمی اپنی سج دھج ، لباس ، زبان ہر چیز کے اعتبار سے فوراً ایک تماشا بن گیا ۔ اور جب اس نے قیصر ڈیسیس کے وقت کا سکہ کھانا خریدنے کے لیے پیش کیا تو دکاندار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ سریانی روایت کی رو سے دکاندار کو اس پر شبہ یہ ہوا کہ شاید یہ کسی پرانے زمانے کا دفینہ نکال لایا ہے ۔ چنانچہ اس نے آس پاس کے لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا اور آخرکار اس شخص کو حکام کے سامنے پیش کیا گیا ۔ وہاں جا کر یہ معاملہ کھلا کہ یہ شخص تو ان پیروان مسیح میں سے ہے جو دو سو برس پہلے اپنا ایمان بچانے کے لیے بھاگ نکلے تھے ۔ یہ خبر آناً فاناً شہر کی عیسائی آبادی میں پھیل گئی اور حکام کے ساتھ لوگوں کا ایک ہجوم غار پہنچ گیا ۔ اب جو اصحاب کہف خبردار ہوئے کہ وہ دو سو برس بعد سو کر اٹھے ہیں تو وہ اپنے عیسائی بھائیوں کو سلام کر کے لیٹ گئے اور ان کی روح پرواز کر گئی ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :18 سریانی روایت کے مطابق اس زمانے میں وہاں قیامت اور عالم آخرت کے مسئلے پر زور شور کی بحث چھڑی ہوئی تھی ۔ اگر چہ رومی سلطنت کے اثر سے عام لوگ مسیحیت قبول کر چکے تھے ، جس کے بنیادی عقائد میں آخرت کا عقیدہ بھی شامل تھا ، لیکن ابھی تک رومی شرک و بت پرستی اور یونانی فلسفے کے اثرات کافی طاقت ور تھے جن کی بدولت بہت سے لوگ آخرت سے انکار ، یا کم از کم اس کے ہونے میں شک کرتے تھے ۔ پھر اس شک و انکار کو سب سے زیادہ جو چیز تقویت پہنچا رہی تھی وہ یہ تھی کہ افسس میں یہودیوں کی بڑی آبادی تھی اور ان میں سے ایک فرقہ ( جسے صَدوقی کہا جاتا تھا ) آخرت کا کھلم کھلا منکر تھا ۔ یہ گروہ کتاب اللہ ( یعنی توراۃ ) سے آخرت کے انکار پر دلیل لاتا تھا اور مسیحی علماء کے پاس اس کے مقابلے میں مضبوط دلائل موجود نہ تھے ۔ متی ، مرقس ، لوقا ، تینوں انجیلوں میں صدوقیوں اور مسیح علیہ السلام کے اس مناظرے کا ذکر ہمیں ملتا ہے جو آخرت کے مسئلے پر ہوا تھا ، مگر تینوں نے مسیح علیہ السلام کی طرف سے ایسا کمزور جواب نقل کیا ہے جس کی کمزوری کو خود علمائے مسیحیت بھی تسلیم کرتے ہیں ( ملاحظہ ہو مری باب ۲۲ ۔ آیت ۲۳ ۔ مرقس باب ۱۲ ۔ آیت ۱۸ ۔ ۲۷ ۔ لوقاباب ۲۰ ۔ آیت ۲۷ ۔ ٤۰ ) اسی وجہ سے منکرین آخرت کا پلا بھاری ہو رہا تھا اور مومنین آخرت بھی شک و تذبذب میں مبتلا ہوتے جا رہے تھے ۔ عین اس وقت اصحاب کہف کے بعث کا یہ واقعہ پیش آیا اور اس نے بعث بعد الموت کا ایک ناقابل انکار ثبوت بہم پہنچا دیا ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :19 فحوائے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ صالحین نصاریٰ کا قول تھا ۔ ان کی رائے یہ تھی کہ اصحاب کہف جس طرح غار میں لیٹے ہوئے ہیں اسی طرح انہیں لیٹا رہنے دو اور غار کے دہانے کو تیغا لگا دو ، ان کا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں ، کس مرتبے کے ہیں اور کس جزا کے مستحق ہیں ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :20 اس سے مراد رومی سلطنت کے ارباب اقتدار اور مسیحی کلیسا کے مذہبی پیشوا ہیں جن کے مقابلے میں صالح العقیدہ عیسائیوں کی بات نہ چلتی تھی ۔ پانچویں صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے عام عیسائیوں میں اور خصوصاً رومن کیتھولک کلیسا میں شرک اور اولیاء پرستی اور قبر پرستی کا پورا زور ہو چکا تھا ، بزرگوں کے آستانے پوجے جا رہے تھے ، اور مسیح ، مریم اور حواریوں کے مجسمے گرجوں میں رکھے جا رہے تھے ۔ اصحاب کہف کے بعث سے چند ہی سال پہلے ٤۳۱ میں پوری عیسائی دنیا کے مذہبی پیشواؤں کی ایک کونسل اسی افسس کے مقام پر منعقد ہو چکی تھی جس میں مسیح علیہ السلام کی الوہیت اور حضرت مریم علیہا السلام کے مادر خدا ہونے کا عقیدہ چرچ کا سرکاری عقیدہ قرار پایا تھا ۔ اس تاریخ کو نگاہ میں رکھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ غَلَبُوْ اعَلٰٓی اَمْرِھِمْ سے مراد وہ لوگ ہیں جو سچے پیروان مسیح کے مقابلے میں اس وقت عیسائی عوام کے رہنما اور سربراہ کار بنے ہوئے تھے اور مذہبی و سیاسی امور کی باگیں جن کے ہاتھوں میں تھیں ۔ یہی لوگ دراصل شرک کے علم بردار تھے اور انہوں نے ہی فیصلہ کیا کہ اصحاب کہف کا مقبرہ بنا کر اس کو عبادت گاہ بنایا جائے ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :21 مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے قرآن مجید کی اس آیت کا بالکل الٹا مفہوم لیا ہے ۔ وہ اسے دلیل ٹھہرا کر مقبِر صلحاء پر عمارتیں اور مسجدیں بنانے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ یہاں قرآن ان کی اس گمراہی کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو نشانی ان ظالموں کو بعث بعد الموت اور امکان آخرت کا یقین دلانے لیے دکھائی گئی تھی اسے انہوں نے ارتکاب شرک کے لیے ایک خداداد موقع سمجھا اور خیال کیا کہ چلو ، کچھ اور ولی پوجا پاٹ کے لیے ہاتھ آ گئے ۔ پھر آخر اس آیت سے قبور صالحین پر مسجدیں بنانے کے لیے کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ ارشادات اس کی نہی میں موجود ہیں : لعن اللہ تعالیٰ زائرات القبور و المتخذین علیھا المساجد والسرج ۔ ( احمد ، ترمذی ، ابو داؤد نسائی ۔ ابن ماجہ ) ۔ اللہ نے لعنت فرمائی ہے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر ، اور قبروں پر مسجدیں بنانے اور چراغ روشن کرنے والوں پر ۔ الاوان من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور انبیاءھم مَساجد فانی اَنھٰکم عن ذٰلک ( مسلم ) خبردار رہو ، تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا دیتے تھے ، میں تمہیں اس حرکت سے منع کرتا ہوں ۔ لعن اللہ تعالیٰ الیھود و النصاریٰ اتخذوا قبور انبیآءھم مساجد ( احمد ، بخاری ، مسلم ، نَسائی ) اللہ نے لعنت فرمائی یہود اور نصاریٰ پر ، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا ۔ اِنَّ اولٰٓئک اذا کان فیھم الرجل الصالح فمات بنوا علیٰ قبرہ مسٰجد او صوروا فیہ تلک الصور اولٰٓئک شرار الخلق یوم القیٰمۃ ( احمد ، بخاری ، مسلم ، نسائی ) ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ اگر ان میں کوئی مرد صالح ہوتا تو اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر مسجدیں بناتے اور اس کی تصویریں تیار کرتے تھے ۔ یہ قیامت کے روز بد ترین مخلوقات ہوں گے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ان تصریحات کی موجودگی میں کون خدا ترس آدمی یہ جرأت کر سکتا ہے کہ قرآن مجید میں عیسائی پادریوں اور رومی حکمرانوں کے جس گمراہانہ نعل کا حکایۃً ذکر کیا گیا ہے اس کو ٹھیک وہی فعل کرنے کے لیے دلیل و حجت ٹھیرائے ؟ اس موقع پر یہ ذکر کر دینا بھی خالی از فائدہ نہیں کہ ۱۸۳٤ء میں ریورنڈٹی ارنڈیل ( ) نے ایشیائے کوچک کے اکتشافات ( ) کے نام سے اپنے جو مشاہدات شائع کیے تھے ان میں وہ بتاتا ہے کہ قدیم شہر افسس کے کھنڈرات سے متصل ایک پہاڑی پر اس نے حضرت مریم اور سات لڑکوں ( یعنی اصحاب کہف ) کے مقبروں کے آثار پائے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

13: جب وہ صاحب، جن کا نام بعض روایتوں میں ’’تملیخا‘‘ بتایا گیا ہے کھانا لینے کے لئے شہر پہنچے، اور دکان دار کو وہ سکہ پیش کیا جو تین سو سال پُرانا تھا، اور اُس پر پُرانے بادشاہ کی علامتیں تھیں تو دُکان دار بڑا حیران ہوا، اور اِن کو لے کر اس وقت کے بادشاہ کے پاس پہنچا۔ یہ بادشاہ بہت نیک تھا، اور اس نے یہ قصہ سن رکھا تھا کہ کچھ نوجوان دقیانوس کے ظلم سے تنگ آ کر کہیں غائب ہوگئے تھے۔ اِس نے معاملے کی مزید تحقیق کی تو پتہ چل گیا کہ یہ وہی نوجوان ہیں، اس پر بادشاہ نے ان کا خوب اکرام کیا، لیکن یہ حضرات دوبارہ اسی غار میں چلے گئے اور وہیں پر اﷲ تعالیٰ نے اُنہیں وفات دے دی۔ 14: اِن اصحابِ کہف کا اتنی لمبی مدت تک سوتے رہنا اور پھر زندہ جاگ اٹھنا اﷲ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی واضح دلیل تھی، اور اس واقعے کو دیکھ کر ہر شخص بآسانی اس نتیجے تک پہنچ سکتا تھا کہ جو ذات اتنے عرصے تک سونے کے بعد ان نوجوانوں کو زندہ اٹھا سکتی ہے، یقینا وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ تمام اِنسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کردے۔ بعض روایات میں ہے کہ اُس وقت کا بادشاہ تو قیامت اور آخرت پر ایمان رکھتا تھا، لیکن کچھ لوگ آخرت کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے تھے، اور بادشاہ نے یہ دُعا کی تھی کہ اﷲ تعالیٰ ان کو کوئی ایسا واقعہ دکھا دے جس سے آخرت پر ان کا ایمان مضبوط ہوجائے۔ اﷲ تعالیٰ نے اسی وقت ان نوجوانوں کو جگا کر اپنی قدرت کا یہ کرشمہ دکھا دیا۔ 15: جیسا کہ پیچھے عرض کیا گیا، یہ حضرات جاگنے کے بعد جلد ہی اُسی غار میں وفات پاگئے تھے۔ اب اﷲ تعالیٰ کی قدرت کا یہ کرشمہ سامنے آیا کہ جن نوجوانوں کو کبھی اِس شہر میں اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے، اب اُسی شہر میں ان کی ایسی عزت ہوئی کہ لوگ اُن کی یاد گار میں کوئی عمارت بنانے کی فکر میں پڑگئے۔ اور آخر کار جن لوگوں کو اقتدار حاصل تھا، اُنہوں نے یہ طے کیا کہ جس غار میں ان کی وفات ہوئی ہے، اُس پر ایک مسجد بنا دیں۔ واضح رہے کہ عمان کے پاس جو غار دریافت ہوا ہے، اُس میں کھدائی کرنے سے غار کے اوپر بنی ہوئی ایک مسجد بھی بر آمد ہوئی ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہئے کہ اُن کی وفات کی جگہ پر مسجد بنانے کی یہ تجویز اُس زمانے کے اصحاب اقتدار نے دی تھی، قرآنِ کریم نے اس تجویز کی تائید نہیں فرمائی۔ لہٰذا اس آیت سے مقبرے بنانے یا قبروں کو عبادت گاہ میں تبدیل کرنے کا کوئی جواز نہیں نکلتا۔ بلکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کئی احادیث میں اِس عمل سے منع فرمایا ہے۔ 16: روایات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب ان حضرات کی یادگار تعمیر کرنے کی تجویز آئی تو لوگوں نے یہ بھی سوچا کہ ان کے صحیح صحیح نام اور اِن کا نسب اور مذہب وغیرہ بھی اس یادگار پر لکھا جائے، لیکن چونکہ کسی کو ان کے پورے حالات معلوم نہیں تھے، اس لئے پھر لوگوں نے کہا کہ اِن کے ٹھیک ٹھیک حالات تو اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن ہم ان کے نسب وغیرہ کی تحقیق میں پڑے بغیر ہی ان کی یاد گار بنا دیتے ہیں۔