Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

فخر و غرور چونکہ اوپر مسکین مسلمانوں اور مالدار کافروں کا ذکر ہوا تھا یہاں ان کی ایک مثال بیان کی جاتی ہے کہ دو شخص تھے جن میں سے ایک مالدار تھا ، انگوروں کے باغ ، اردگرد کھجوروں کے درخت ، درمیان میں کھیتی ، درخت پھلدار ، بیلیں ہری ، کھیتی سرسبز ، پھل پھول بھر پور ، کسی قسم کا نقصان نہیں ادھر ادھر نہریں جاری تھیں ۔ اس کے پاس ہر وقت طرح طرح کی پیداوار موجود ، مالدار شخص ۔ اس کی دوسری قرأت ثمر بھی ہے یہ جمع ہے ثمرۃ کی جیسے خشبہ کی جمع خشب ۔ الغرض اس نے ایک دن اپنے ایک دوست سے فخر و غرور کرتے ہوئے کہ میں مال میں ، عزت و اولاد میں ، جاہ و حشم میں ، نوکر چاکر میں ، تجھ سے زیادہ حیثیت والا ہوں ایک فاجر شخص کی تمنا یہی ہوتی ہے کہ دنیا کی یہ چیزیں اس کے پاس بکثرت ہوں ۔ یہ اپنے باغ میں گیا اپنی جان پر ظلم کرتا ہوا یعنی تکبر اکڑ انکار قیامت اور کفر کرتا ہوا ۔ اس قدر مست تھا کہ اس کی زبان سے نکلا کہ ناممکن ہے میری یہ لہلہاتی کھیتیاں ، یہ پھلدار درخت ، یہ جاری نہریں ، یہ سرسبز بیلیں ، کبھی فنا ہو جائیں ۔ حقیقت میں یہ اس کی کم عقلی بے ایمانی اور دنیا کی خر مستی اور اللہ کے ساتھ کفر کی وجہ تھی ۔ اسی لئے کہہ رہا ہے کہ میرے خیال سے تو قیامت آنے والی نہیں ۔ اور اگر بالفرض آئی تھی تو ظاہر ہے کہ اللہ کا میں پیارا ہوں ورنہ وہ مجھے اس قدر مال و متاع کیسے دے دیتا ؟ تو وہاں بھی وہ مجھے اس سے بھی بہتر عطا فرمائے گا ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَّلَىِٕنْ رُّجِعْتُ اِلٰى رَبِّيْٓ اِنَّ لِيْ عِنْدَهٗ لَــلْحُسْنٰى 50؀ ) 41- فصلت:50 ) اگر میں لوٹایا گیا تو وہاں میرے لئے اور اچھائی ہو گئی ۔ اور آیت میں ارشاد ہے ( اَفَرَءَيْتَ الَّذِيْ كَفَرَ بِاٰيٰتِنَا وَقَالَ لَاُوْتَيَنَّ مَالًا وَّوَلَدًا 77؀ۭ ) 19-مريم:77 ) یعنی تو نے اسے بھی دیکھا جو تو کر رہا ہے ہماری آیتوں سے کفر اور باوجود اس کے اس کی تمنا یہ ہے کہ مجھے قیامت کے دن بہی بکثرت مال و اولاد ملے گی ، یہ اللہ کے سامنے دلیری کرتا ہے اور اللہ پر باتیں بناتا ہے اس آیت کا شان نزول عاص بن وائل ہے جیسے کہ اپنے موقعہ پر آئے گا انشاء اللہ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 مفسرین کا اس میں اختلاف ہے کہ یہ دو شخص کون تھے ؟ اللہ تعالیٰ نے تفہیم کے لئے بطور مثال ان کا تذکرہ کیا ہے یا واقعی دو شخص ایسے تھے ؟ اگر تھے تو یہ بنی اسرائیل میں گزرے ہیں یا اہل مکہ میں تھے، ان میں ایک مومن اور دوسرا کافر تھا۔ 33۔ 2 جس طرح چار دیواری کے ذریعے سے حفاظت کی جاتی ہے، اس طرح ان باغوں کے چاروں طرف کھجوروں کے درخت تھے، جو باڑ اور چار دیواری کا کام دیتے تھے۔ 32۔ 3 یعنی دونوں باغوں کے درمیان کھیتی تھی جن سے غلہ جات کی فصلیں حاصل کی جاتی تھیں۔ یوں دونوں باغ غلے اور میووں کے جامع تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٤] ایک مال دار کافر اور غریب مومن کے طرز عمل کا موازنہ :۔ یہ مثال دراصل ان قریشی سرداروں پر منطبق ہوتی ہے جنہوں نے رسول اللہ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر آپ کسی وقت ان مسکینوں کو اپنی مجالس سے اٹھا دیں تو ہم اطمینان سے آپ کی باتیں سنیں۔ اس مثال میں جن دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک کافر و مشرک تھا۔ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا تھا اور مالدار اور صاحب جائداد تھا جیسا کہ قریشی سردار تھے، دوسرا توحید پرست تھا، مومن تھا اللہ پر بھروسہ رکھنے والا تھا لیکن غریب اور مفلس تھا جیسا کہ صحابہ کرام (رض) تھے جن کے متعلق قریشی سرداروں نے آپ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ آپ انھیں اپنی مجلس سے ہٹا دیں۔ رہی یہ بات کہ اس مثال میں جو دو کردار بیان کیے گئے ہیں یہ محض سمجھانے کے لیے بطور تمثیل بیان کیے گئے ہیں یا فی الواقع ایسے شخص اس دنیا میں کسی وقت موجود تھے ؟ اور یہ واقعہ اس دنیا میں پیش آیا تھا ؟ اس بات پر مفسرین کا اختلاف ہے اور جن لوگوں نے انھیں واقعہ تسلیم کیا ہے انہوں نے تو ان کے نام بھی لکھ دیئے ہیں کہ وہ دو حقیقی بھائی تھے۔ باپ کی طرف سے ورثہ ملا تھا۔ ایک جو دنیا دار تھا اس نے اس ورثہ سے جائداد خریدی پھر خوب محنت کی تو دو باغوں کا مالک بن گیا۔ دوسرا درویش منش انسان تھا اور اسے مال و دولت سے کچھ دلچسپی نہ تھی اسے جو ورثہ ملا وہ بھی اس نے اللہ کے راستہ میں خرچ کردیا تھا اور بعض کے نزدیک یہ دو آدمی ہمسائے تھے جن کی پوری طرز زندگی ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھی۔ جو بھی صورت ہو اس تمثیل سے جو اصل فائدہ مقصود ہے وہ حاصل ہو ہی جاتا ہے۔- [٣٥] جو شخص کافر و مشرک اور دو باغوں کا مالک تھا اس آیت میں اس کے باغوں کی بہار کا منظر پیش کیا گیا ہے یعنی ان دونوں کے درمیانی حصہ میں کھیتی باڑی ہوتی تھی اور غلہ اگتا تھا۔ ارد گرد پھل دار درخت تھے پھر ان باغوں کی چار دیواری کھجوروں کے درختوں کی تھی جن پر انگور کی بیلیں چڑھائی گئی تھیں۔ ان دونوں باغوں کے درمیان ایک نہر جاری تھی جو انھیں سیراب کرتی اور آپس میں ملاتی تھی۔ زمین زرخیز و شاداب تھی لہذا پھل دار درخت بھی بھرپور پھل لاتے اور غلہ بھی وافر مقدار میں پیدا ہوتا تھا۔ گویا اس شخص کو بیٹھنے کے لیے ٹھنڈی چھاؤں، پینے کے لیے ٹھنڈا پانی، کھانے کو باافراط غلہ پھل اور دیکھنے کو خوش نما منظر سب کچھ موجود تھا جس پر وہ پھولا نہ سماتا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ ۔۔ : کفار کو مسلمان فقراء کے مقابلے میں اپنے اموال و انصار پر فخر تھا، اس بنا پر وہ مسلمانوں کو حقیر سمجھتے اور مجلس میں ان کے ساتھ بیٹھنا پسند نہ کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قصہ بیان فرما کر سمجھایا کہ یہ چیزیں فخر کے لائق نہیں ہیں، کیونکہ ایک لمحہ میں فقیر غنی ہوسکتا ہے اور غنی فقیر۔ دنیا میں اگر فخر کی کوئی چیز ہے تو وہ ہے اللہ کی اطاعت اور اس کی عبادت اور یہ ان فقراء کو حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کافر و مومن کی ایک مثال بیان فرمائی کہ دو آدمی تھے (ان کے نام یا زمانہ معلوم نہیں، نہ ہی اس میں کوئی فائدہ ہے) ان میں سے ایک کو، جو کافر تھا، اللہ تعالیٰ نے انگوروں کے دو باغ عطا فرمائے تھے، جو بہت ہی خوب صورت اور نفع آور تھے۔ انگوروں کے باغوں کو کھجوروں نے گھیر رکھا تھا، دونوں باغوں کے درمیان کھیتی تھی اور دونوں باغوں کے درمیان اللہ کے حکم سے نہر چل رہی تھی۔ باغوں اور کھیتوں کو پانی کی کوئی کمی نہ تھی، چناچہ دونوں باغوں نے پوری پیداوار دی اور کسی قسم کی کمی نہیں کی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :۔- اور آپ (دنیا کی بےثباتی اور آخرت کی پائیداری ظاہر کرنے کے لئے) دو شخصوں کا حال (جن میں باہم دوستی یا قرابت کا تعلق تھا) بیان کیجئے (تا کہ کفار کا خیال باطل ہوجائے اور مسلمانوں کو تسلی ہو) ان دو شخصوں میں سے ایک کو (جو کہ بد دین تھا) ہم نے دو باغ انگور کے دے رکھے تھے اور دونوں (باغوں) کا کھجور کے درختوں سے احاطہ بنا رکھا تھا اور ان دونوں (باغوں) کے درمیان میں کھیتی بھی لگا رکھی تھی (اور) دونوں باغ اپنا پورا پھل دیتے تھے، اور کسی کے پھل میں ذرا بھی کمی نہ رہتی تھی (بخلاف عام باغوں کے کہ کبھی کسی درخت میں اور کسی سال پورے باغ میں پھل کم آتا ہے) اور ان دونوں (باغوں) کے درمیان نہر چلا رکھی تھی اور اس شخص کے پاس اور بھی مال داری کا سامان تھا سو (ایک دن) اپنے اس (دوسرے) ساتھی سے ادھر ادھر کی باتیں کرتے کرتے کہنے لگا کہ میں تجھ سے مال میں بھی زیادہ ہوں اور مجمع بھی میرا زبردست ہے (مطلب یہ تھا کہ تو میرے طریقے کو باطل اور اللہ کے نزدیک ناپسند کہتا ہے تو اب تو دیکھ لے کہ کون اچھا ہے، اگر تیرا دعوی صحیح ہوتا تو معاملہ برعکس ہوتا، کیونکہ دشمن کو کوئی نوازا نہیں کرتا اور دوست کو کوئی نقصان نہیں پہونچاتا) اور وہ (اپنے اس ساتھی کو ساتھ لے کر) اپنے اوپر جرم (کفر) قائم کرتا ہوا اپنے باغ میں پہونچا، (اور) کہنے لگا کہ میرا تو خیال نہیں ہے کہ یہ باغ (میری زندگی میں) کبھی بھی برباد ہوگا (اس سے معلوم ہوا کہ وہ خدا کے وجود اور ہر چیز پر اس کی قدرت کا قائل نہ تھا، بس ظاہری سامان حفاظت کو دیکھ کر اس نے یہ گتفگو کی) اور (اسی طرح) میں قیامت کو نہیں خیال کرتا کہ آوے گی اور اگر (بفرض محال قیامت آ بھی گئی اور) میں اپنے رب کے پاس پہونچایا گیا (جیسا تیرا عقیدہ ہے) تو ضرور اس باغ سے بھی بہت زیادہ اچھی جگہ مجھ کو ملے گی ( کیونکہ جنت کی جگہوں کا دنیا سے اچھا اور بہتر ہونے کا تو تجھے بھی اقرار ہے، اور یہ بھی تجھے تسلیم ہے کہ جنت اللہ کے مقبول بندوں کو ملے گی، میری مقبولیت کے آثار و علامات تو تو دنیا ہی میں دیکھ رہا ہے اگر میں اللہ کے نزدیک مقبول نہ ہوتا تو باغات کیوں ملتے، اس لئے تمہارے اقرار و تسلیم کے مطابق بھی مجھے وہاں یہاں سے اچھے باغ ملیں گے) اس (کی یہ باتیں سن کر اس) سے اس کے ملاقاتی نے ( جو کہ دیندار مگر غریب آدمی تھا) جواب کے طور پر کہا کیا تو (توحید اور قیامت سے انکار کر کے) اس ذات (پاک) کے ساتھی کفر کرتا ہے جس نے تجھ کو (اول) مٹی سے (جو کہ تیرا مادہ بعیدہ ہے بواسطہ آدم (علیہ السلام) کے) پیدا کیا پھر (تجھ کو) نطفہ سے (جو کہ تیرا مادہ قریبہ ہے رحم مادر میں بنایا) پھر تجھ کو صحیح سالم آدمی بنایا (اس کے باوجود تو توحید اور قیامت سے انکار اور کفر کرتا ہے تو کیا کر) لیکن میں تو یہ عقیدہ رکھتا ہوں کہ وہ (یعنی) اللہ تعالیٰ میرا رب (حقیقی) ہے اور میں اس کے ساتھی کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا اور (جب اللہ تعالیٰ کی توحید اور قدرت مطلقہ ہر چیز پر ثابت ہے، اور اس کے نتیجہ میں یہ کچھ بعید نہیں کہ باغ کی ترقی اور حفاظت کے تیرے سارے اسباب و سامان کسی وقت بھی بیکار اور معطل ہوجائیں اور باغ برباد ہوجائے، اس لئے تجھے لازم تھا کہ مسبب الاسباب پر نظر کرتا) تو تو جس وقت اپنے باغ میں پہنچا تھا تو تو نے یوں کیوں نہ کہا کہ جو اللہ کو منظور ہوتا ہے وہی ہوتا ہے (اور) بدون خدا کی مدد کے (کسی میں) کوئی قوت نہیں (جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا یہ باغ قائم رہے گا اور جب چاہے گا ویران ہوجائے گا) اگر تو مجھ کو مال و اولاد میں کمتر دیکھتا ہے (اس سے تجھ کو اپنے مقبول ہونے کا شبہ پڑگیا ہے) تو مجھ کو وہ وقت نزدیک معلوم ہوتا ہے کہ میرا رب مجھ کو تیرے باغ سے اچھا باغ دیدے (خواہ دنیا ہی میں یا آخرت میں) اور اس (تیرے باغ) پر کوئی تقدیری آفت آسمان سے (یعنی بلا واسطہ اسباب طبیعہ کے) بھیج دے جس سے وہ باغ دفعۃ ایک صاف (چٹیل) میدان ہو کر رہ جائے یا اس سے اس کا پانی (جو نہر میں جاری ہے) بالکل اندر (زمین میں) اتر ( کر خشک ہو) جائے پھر تو اس (کے دوبارہ لانے اور نکالنے) کی کوشش بھی نہیں کرسکے (یہاں اس دیندار ساتھی نے اس بےدین کے باغ کا تو جواب دے دیا، مگر اولاد کے متعلق کچھ جواب نہیں دیا، شاید وجہ یہ ہے کہ اولاد کی کثرت جبھی بھلی معلوم ہوتی ہے جب اس کی پرورش کے لئے مال موجود ہو ورنہ وہ الٹا وبال جان بن جاتی ہے، حاصل اس کلام کا یہ ہوا کہ تیرے بدعقیدہ ہونے کا سبب یہ تھا کہ تجھے دنیا میں اللہ نے دولت دے دیاس کو تو نے اپنی مقبولیت کی علامت سمجھ لیا، اور میرے پاس دولت نہ ہونے سے مجھ کو غیر مقبول سمجھ لیا، تو دنیا کی دولت و ثروت کو مقبولیت عند اللہ کا مدار سمجھ لینا ہی بڑا دھوکا اور غلطی ہے، دنیا کی نعمتیں تو رب العالمین سانپوں، بچھو وں اور بھیڑوں اور بدکاروں سبھی کو دیتے ہیں، اصل مدار مقبولیت کا آخرت کی نعمتوں پر ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہیں اور دنیا کی نعمتیں سب زوال پذیر ہیں) اور (اس گفتگو کے بعد واقعہ یہ پیش آیا کہ) اس شخص کے سامان کو تو آفت نے آگھیرا، پس اس نے جو کچھ باغ پر خرچ کیا تھا اس پر ہاتھ ملتا رہ گیا اور وہ باغ اپنی ٹیٹوں پر گرا ہوا پڑا تھا، اور کہنے لگا کیا خوب ہوتا کہ میں اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ( اس سے معلوم ہوا کہ باغ پر آفت آنے سے وہ یہ سمجھ گیا کہ یہ وبال کفر شرک کے سبب سے آیا ہے، اگر کفر نہ کرتا تو اول تو یہ آفت ہی شاید نہ آتی، اور آ بھی جاتی تو اس کا بدلہ آخرت میں ملتا، اب دنیا و آخرت دونوں میں خسارہ ہی خسارہ ہے، مگر صرف اتنی حسرت و افسوس سے اس کا ایمان ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ یہ حسرت، ندامت تو دنیا کے نقصان کے وجہ سے ہوئی، آگے اللہ کی توحید اور قیامت کا اقرار جب تک ثابت نہ ہو اس کو مومن نہیں کہہ سکتے) اور اس کے پاس ایسا کوئی مجمع نہ ہوا جو خدا کے سوا اس کی مدد کرنا) اس کو اپنے مجمع اور اولاد پر ناز تھا وہ بھی ختم ہوا) اور نہ وہ خود (ہم سے) بدلہ لے سکا، ایسے موقع پر مدد کرنا تو اللہ برحق ہی کا کام ہے (اور آخرت میں بھی) اسی کا ثواب سب سے اچھا ہے اور (دنیا میں بھی) اسی کا نتیجہ سب سے اچھا ہے (یعنی مقبولین کا کوئی نقصان ہوجاتا ہے تو دونوں جہاں میں اس کا ثمرہ نیک ملتا ہے بخلاف کافر کے کہ بالکل خسارہ میں رہ گیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّحَفَفْنٰہُمَا بِنَخْلٍ وَّجَعَلْنَا بَيْنَہُمَا زَرْعًا۝ ٣٢ۭ- ضَرْبُ المَثلِ- هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ- [ الروم 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] ، - ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ - مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- رجل - الرَّجُلُ : مختصّ بالذّكر من الناس، ولذلک قال تعالی: وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا - [ الأنعام 9] - ( ر ج ل ) الرجل - کے معنی مرد کے ہیں اس بنا پر قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ جَعَلْناهُ مَلَكاً لَجَعَلْناهُ رَجُلًا[ الأنعام 9] اگر ہم رسول کا مدد گار ) کوئی فرشتہ بناتے تو اس کو بھی آدمی ہی بناتے ۔ - عنب - العِنَبُ يقال لثمرة الکرم، وللکرم نفسه، الواحدة : عِنَبَةٌ ، وجمعه : أَعْنَابٌ. قال تعالی:- وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل 67] ، وقال تعالی: جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ- [ الإسراء 91] ، وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد 4] ،- ( عن ن ب ) العنب - ( انگور ) یہ انگور کے پھل اور نفس کے لئے بھی بولا جات ا ہے اس کا واحد عنبۃ ہے اور جمع اعناب قرآن میں ہے : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنابِ [ النحل 67] اور کھجور اور انگور کے میووں سے بھی ۔ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَعِنَبٍ [ الإسراء 91] کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو ۔ وَجَنَّاتٍ مِنْ أَعْنابٍ [ الرعد 4] اور انگوروں کے باغ - حفَ- قال عزّ وجلّ : وَتَرَى الْمَلائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ [ الزمر 75] ، أي : مطیفین بِحَافَّتَيْهِ ، أي : جانبيه، ومنه قول النبيّ عليه الصلاة والسلام : «تَحُفُّه الملائكة بأجنحتها» «2» .- وقال الشاعر - له لحظات في حَفَافِي سریره - «3» وجمعه : أَحِفَّة، وقال عزّ وجل : وَحَفَفْناهُما بِنَخْلٍ [ الكهف 32] ، وفلان في حَفَفٍ من العیش، أي : في ضيق، كأنه حصل في حفف منه، أي : جانب، بخلاف من قيل فيه : هو في واسطة من العیش . ومنه قيل : من حَفَّنَا أو رفّنا فلیقتصد «4» ، أي :- من تفقد حفف عيشنا . وحَفِيفُ الشجر والجناح : صوتهما، فذلک حكاية صوتهما، والحَفُّ : آلة النساج، سمّي بذلک لما يسمع من حفّه، وهو صوت حرکته .- ( ح ف ف ) الحٖف - ( ن) کے معنی کسی چیز کو حافتیں یعنی دونوں جانب سے گھیر نے یا احاطہ کرلینے کے ہیں ) قرآن میں ہے ۔ وَحَفَفْناهُما بِنَخْلٍ [ الكهف 32] اور ان کے گردا گرد کھجوروں کے درخت لگا دیئے تھے ۔ وَتَرَى الْمَلائِكَةَ حَافِّينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ [ الزمر 75] اور تم فرشتوں کو دیکھو گے کہ عرش کے گرد گھیر ڈالے ہوئے ہیں ۔ یعنی اس کے دونوں جانب کو گھیر سے ہوئے ہیں ایک حدیث میں ہے ۔ (89) تحفۃ الملائکۃ باجنح تھا اسکو کہ فرشتے اس پر اپنے پروں کے ساتھ گھیر ڈال لیتے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) (113) لہ لحظات فی حفافی سریرہ اس کی نظریں اس کے تحت کے دونوں جانب لگی رہتی ہیں ۔ حفاف کی جمع احفۃ ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ فلان فی حفف من العیش یعنی تنگ حال ہے ۔ گویا وہ خوشحالی سے ایک جانب میں ہے ۔ اس کے برعکس خوشحالی کے لئے کہا جاتا ہے ۔ ھوفی واسطۃ من العیش اسی سے محاورہ ہے ( مثل) من حفنا اور فمنا فلیقتصد ۔ یعنی جو شخص ہماری تعریف کرے اسے چاہیے کہ درمیانہ روی سے کام لے ( نہا یہ ) حفیف الشجر والجناح درخت کے بلنے یا پرندے پروں کی سرسرا ہٹ یہ حکایت صوت ہے ۔ المحف شانہ بافندہ و تیغ آں ) کیونکہ اس سے حرکت کے وقت آواز آتی ہے ۔- نخل - النَّخْلُ معروف، وقد يُستعمَل في الواحد والجمع . قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ- [ القمر 20] وقال : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة 7] ، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ- [ الشعراء 148] ، وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] وجمعه : نَخِيلٌ ، قال : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل 67] والنَّخْلُ نَخْل الدّقيق بِالْمُنْخُل، وانْتَخَلْتُ الشیءَ : انتقیتُه فأخذْتُ خِيارَهُ.- ( ن خ ل ) النخل - ۔ کھجور کا درخت ۔ یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة 7] جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر 20] اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہوتے ہیں ۔ وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق 10] اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گا بھاتہ بہ تہ ہوتا ہے اس کی جمع نخیل آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل 67] اور کھجور کے میووں سے بھی ۔ النخل ( مصدر کے معنی چھلنی سے آٹا چھاننے کے ہیں اور انتخلت الشئی کے معنی عمدہ چیز منتخب کرلینے کے ؛- بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - زرع - الزَّرْعُ : الإنبات، وحقیقة ذلک تکون بالأمور الإلهيّة دون البشريّة . قال : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة 64] - ( ز ر ع ) الزرع - اس کے اصل معنی انبات یعنی اگانے کے ہیں اور یہ کھیتی اگانا در اصل قدرت کا کام ہے اور انسان کے کسب وہنر کو اس میں دخل نہیں اسی بنا پر آیت کریمہ : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة 64] بھلا بتاؤ کہ جو تم بولتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو یا اگانے والے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٣٢۔ ٤٣) آپ اہل مکہ کے سامنے دو شخصوں کا حال بیان کیجیے کہ بنی اسرائیل میں دو بھائی تھے ایک مومن جس کا نام یہودا اور دوسرا کافر جس کا نام ابو فطروس تھا۔- کافر کو دو باغ ہم نے انگوروں کے دے رکھے تھے اور ان دونوں باغوں کا کھجور کے درختوں سے احاطہ بنارکھا تھا اور ان دونوں باغوں کے درمیان میں کھیتی بھی لگا رکھی تھی۔- دونوں باغ ہر سال اپنا پورا پھل دیتے تھے اور کسی کے پھل میں ذرا بھی کمی نہ رہتی تھی اور ان دونوں باغوں کے درمیان میں نہر چلا رکھی تھی اور اس کے پاس باغ کا پھل تھا اور بھی تمول کا سامان تھا چناچہ ایک دن وہ اپنے مسلمان ساتھی سے اپنے مال پر فخر کرتا ہوا کہنے لگا کہ میرا مال بھی تجھ سے زیادہ ہے اور میرے خدم وحشم بھی بکثرت ہیں۔- اور پھر وہ اتفاق سے اپنے اوپر کفر کا جرم قائم کرتا ہوا اپنے باغ میں پہنچا اور کہنے لگا کہ میرا تو خیال نہیں ہے کہ یہ باغ کبھی بھی برباد ہو اور نہ میں سمجھتا ہوں کہ قیامت آئے گی اور اگر میں اپنے رب کے پاس پہنچایا گیا جیسا کہ تو کہا کرتا ہے تو اس باغ سے بہت زیادہ اچھی جگہ مجھے کو ملے گی۔ یہ سن کر اس کے مومن ساتھی نے اس کے کفر سے اعراض کرتے ہوئے کہا کیا تو اس ذات پاک کا انکار کرتا ہے جس نے تمہیں آدم کی اولاد سے پیدا کیا اور آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا پھر تجھے تیرے باپ کے نطفہ سے پیدا کیا پھر تجھے صحیح وسالم انسان بنایا لیکن میرا عقیدہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا رب حقیقی اور میرا خالق و رازق ہے اور میں ان بتوں میں سے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا اور جب وقت تو باغ میں داخل ہوا تھا تو نے یوں کیوں نہیں کہا، یہ سب اللہ تعالیٰ کا انعام ہے میری کیا حیثیت اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہے میری کیا طاقت ہے۔- اور اگر تو مجھ کو خدم وحشم میں کم تر سمجھتا ہے تو مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ مجھے آخرت میں تیرے اس دنیاوی باغ سے بہتر باغ دے دے اور تیرے اس باغ پر آگ بھیج دے کہ یہ اچانک چٹیل میدان ہو کر رہ جائے یا اسکا پانی بالکل اندر زمین میں اتر کر خشک ہوجائے اور پھر تو اس کے نکالنے کی کوئی کوشش بھی نہ کرسکے۔- نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے پھل اور سامان تمول کو آفت نے ہلاک کردیا پس اس نے جو کچھ اس باغ پر خرچ کیا تھا۔ اور جو اس کی آمدنی تھی اس پر حسرت و ندامت میں ہاتھ ملتا رہ گیا اور وہ باغ اپنی ٹٹیوں پر گرا ہوا پڑا تھا اور وہ قیامت کے دن بھی کہے گا کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں اپنے رب کے ساتھ ان بتوں کو شریک نہ ٹھہراتا۔- اور اس کے پاس کوئی ایسی طاقت نہ آئی کہ عذاب الہی سے اس کی حفاظت کرتی اور نہ وہ خود اپنے سے عذاب الہی کو ٹال سکا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

اس رکوع میں دو اشخاص کے باہمی مکالمے کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت اور بہت سی دوسری دنیوی نعمتوں سے نواز رکھا تھا۔ وہ شخص اپنی خوشحالی میں اس قدر مگن ہوا کہ اس کی نگاہ اللہ سے ہٹ کر مادی وسائل پر ہی جم کر رہ گئی اور انہی اسباب و وسائل کو وہ اپنے توکل اور بھروسے کا مرکز بنا بیٹھا۔ اس کے ساتھ ایک دوسرا شخص تھا جو دنیوی لحاظ سے خوشحال تو نہیں تھا مگر اسے اللہ کی معرفت حاصل تھی۔ اس نے اس دولت مند شخص کو نصیحت کی کہ اللہ نے تمہیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے مگر تم اسے بالکل ہی بھولے ہوئے ہو۔ تمہیں چاہیے کہ تم اللہ کا شکر ادا کرو۔ دولت مند شخص نے گھمنڈ میں آکر اس کی نصیحت کا بہت تلخ جواب دیا اور کہا کہ مجھے تو یہ ساری نعمتیں اس لیے ملی ہیں کہ میں اللہ کا چہیتا ہوں جبکہ میرے مقابلے میں تمہاری کوئی حیثیت نہیں۔ اللہ کے اس بندے نے اسے پھر سمجھایا کہ دیکھو اپنے دنیوی مال و اسباب پر مت اتراؤ ‘ کیونکہ اللہ اگر چاہے تو تمہارے یہ سارے ٹھاٹھ باٹھ پل بھر میں ختم کر کے رکھ دے۔ وہ چاہے تو تمہاری ساری دولت اور مال و اسباب کو ضائع کرسکتا ہے۔ اس نے جواباً کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے ؟ میں نے اپنے مال و اسباب کی حفاظت کا خوب بندوبست کر رکھا ہے۔ الغرض ان تمام نصیحتوں کا اس شخص پر کچھ بھی اثر نہ ہوا۔ دنیوی اسباب کے نشے نے اس کو اس قدر اندھا کر رکھا تھا کہ اسے حقیقی مسبب الاسباب کی قدرت کا کچھ اندازہ ہی نہ رہا۔ بالآخر اس کے اس رویے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا سب کچھ برباد کر کے رکھ دیا اور وہ اپنے رویے پر کف افسوس ملتا رہ گیا۔ اپنی بربادی کے بعد جب اس شخص کی آنکھیں کھلیں تو تب بہت دیرہو چکی تھی۔ - یہاں اس دولت مند شخص کا وہ فقرہ خاص طور پر قابل غور ہے جو اپنی بربادی کے بعد پچھتاتے ہوئے اس کی زبان سے نکلا تھا کہ ” کاش میں نے اپنے رب کے ساتھ شرک نہ کیا ہوتا “ دیکھا جائے تو اس سارے واقعے میں کسی ظاہری شرک کا ارتکاب نظر نہیں آتا۔ کسی دیوی یا دیوتا کی پوجا پاٹ کا بھی کوئی حوالہ یہاں نہیں آیا اللہ کے سوا کسی دوسرے معبود کا بھی ذکر نہیں ہوا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا اقدام تھا جس پر وہ شخص پچھتایا کہ کاش میں نے اپنے رب سے شرک نہ کیا ہوتا اس پہلو سے اگر اس سارے واقعے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ نکتہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہاں جس شرک کا ذکر ہوا ہے وہ ” مادہ پرستی “ کا شرک ہے۔ اس شخص نے اپنے مادی اسباب و وسائل کو ہی اپنا سب کچھ سمجھ لیا تھا۔ جو بھروسا اور توکل اسے حقیقی مسبب الاسباب پر کرنا چاہیے تھا وہ بھروسا اور توکل اس نے اپنے مادی وسائل پر کرلیا تھا اور اس طرح ان مادی وسائل کو معبود کا درجہ دے دیا تھا۔ یہی رویہ اور یہی سوچ مادہ پرستی ہے اور یہی موجودہ دور کا سب سے بڑا شرک ہے۔ - موجودہ دور ستارہ پرستی اور بت پرستی کا دور نہیں۔ آج کا انسان ستاروں کی اصل حقیقت جان لینے اور چاند پر قدم رکھ لینے کے بعد ان کی پوجا کیونکر کرے گا ؟ چناچہ آج کے دور میں اللہ کو چھوڑ کر انسان نے جو معبود بنائے ہیں ان میں مادہ پرستی اور وطن پرستی سب سے اہم ہیں۔ آج دولت کو معبود کا درجہ دے دیا گیا ہے اور مادی وسائل اور ذرائع کو مسبب الاسباب سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ موجودہ دور کا بہت خطرناک شرک ہے اور اس سے محفوظ رہنے کے لیے اسے بہت باریک بینی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ - (جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّحَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ )- انگوروں کی بیلوں کے گردا گرد کھجوروں کے درختوں کی باڑ تھی تاکہ نازک بیلیں آندھی ‘ طوفان وغیرہ سے محفوظ رہیں۔- (وَّجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا)- بنیادی طور پر وہ انگوروں کے باغات تھے۔ ان کے اطراف میں کھجوروں کے درخت تھے جن کی دوہری افادیت تھی۔ ان درختوں سے کھجوریں بھی حاصل ہوتی تھیں اور وہ حفاظتی باڑ کا کام بھی دیتے تھے۔ درمیان میں کچھ زمین کاشت کاری کے لیے بھی تھی جس سے اناج وغیرہ حاصل ہوتا تھا۔ گویا ہر لحاظ سے مثالی باغات تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :36 اس مثال کی مناسبت سمجھنے کے لیے پچھلے رکوع کی وہ آیت نگاہ میں رہنی چاہیے جس میں مکے کے متکبر سرداروں کی اس بات کا جواب دیا گیا تھا کہ ہم غریب مسلمانوں کے ساتھ آکر نہیں بیٹھ سکتے ، انہیں ہٹا دیا جائے تو ہم آکر سنیں گے کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو ۔ اس مقام پر وہ مثال بھی نگاہ میں رہے جو سورہ القلم ، آیات ۱۷ تا ۳۳ میں بیان فرمائی گئی ہے ۔ نیز سورہ مریم ، آیات ۷۳ ، ۷٤ ۔ سورہ المومنون ، آیات ۵۵ تا ٦۱ ۔ سورہ سبا ، آیات ۳٤ تا ۳٦ ، اور حٰمٰ سجدہ ، آیات ٤۹ ۔ ۵۰ پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

24: آیت نمبر 28 میں کافر سرداروں کے اس تکبر کی طرف اشارہ کیا گیا جس کی وجہ سے وہ غریب مسلمانوں کے ساتھ بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ ایک ایسا واقعہ بیان فرما رہے ہیں جس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مال و دولت کی زیادتی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر کوئی شخص اترائے۔ اگر اللہ تعالیٰ ساتھ رشتہ مضبوط نہ ہو تو بڑے بڑے مال دار لوگ انجام کار ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ صحیح ہو تو غریب لوگ ان سے کہیں آگے نکل جاتے ہیں۔ جن دو آدمیوں کا یہاں ذکر فرمایا گیا ہے ان کی کوئی تفصیل کسی مستند مرفوع روایت میں موجود نہیں ہے۔ البتہ بعض مفسرین نے کچھ روایتوں کی بنیاد پر یہ کہا ہے کہ یہ بنی اسرائیل میں سے تھے اور انہیں اپنے باپ سے وراثت میں بڑی دولت ہاتھ آئی تھی ان میں سے ایک نے کافر ہو کر اسی دولت سے دل لگا لیا۔ اور دوسرے نے اپنی دولت کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا، اور اس کی وجہ سے اس کی دولت پہلے شخص کے مقابلے میں گنتی میں کم رہ گئی۔ لیکن آخر کار کافر شخص کی دولت پر آفت آگئی، اور اسے حسرت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔