Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 زمانہ نزول قرآن اور اس سے ما قبل رواج تھا کہ بادشاہ، رؤسا سردران قبائل اپنے ہاتھوں میں سونے کے کڑے پہنتے تھے، جس سے ان کی امتیازی حیثیت نمایاں ہوتی تھی۔ اہل جنت کو بھی سونے کے کڑے پہنائے جائیں گے۔ 31۔ 2 سندس، باریک ریشم اور استبرق موٹا ریشم۔ دنیا میں مردوں کے لئے سونا اور ریشمی لباس ممنوع ہیں، جو لوگ اس حکم پر عمل کرتے ہوئے دنیا میں ان محرمات سے اجتناب کریں گے، انھیں جنت میں یہ ساری چیزیں میسر ہونگی۔ وہاں کوئی چیز ممنوع نہیں ہوگی بلکہ اہل جنت جس چیز کی خواہش کریں گے، وہ موجود ہوگی۔ ولکم فیہا ما تشتھی انفسکم ولکم فیھا ماتدعون۔ جس چیز کو تمہارا جی چاہے اور جو کچھ تم مانگو سب جنت میں موجود ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٣] سونے کے کنگنوں کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ قدیم زمانہ میں یہ دستور رہا ہے کہ بادشاہ سونے کے کنگن پہنا کرتے تھے گویا اہل جنت وہاں شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ سے رہیں گے۔ پہننے کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ ریشمی کپڑے ہوں گے اور بیٹھنے کے لیے اونچی اونچی مسندیں۔ واضح رہے کہ اس دنیا میں سونے اور ریشمی کپڑوں کا استعمال مردوں کے لیے جائز نہیں لیکن جنت میں جائز ہوگا بلکہ ایسے ہی جیسے اس دنیا میں شراب سب مردوں عورتوں پر حرام ہے مگر جنت کی شراب خالص اہل جنت کے لیے بیش بہا نعمت ہوگی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ ان کا یہ مشورہ تو قابل عمل تھا کہ ان کے لئے ایک مجلس علیحدہ کردی جاتی، تاکہ ان کو اسلام کی دعوت پہونچانے میں اور ان لوگوں کو قبول کرنے میں سہولت ہوتی، مگر اس طرح کی تقسیم میں سرکش مالداروں کا ایک خاص اعزاز تھا، جس سے غریب مسلمانوں کی دل شکنی یا حوصلہ شکنی ہو سکتی تھی، اللہ تعالیٰ نے اس کو گوارا نہ فرمایا، اور اصول دعوت و تبلیغ یہی قرار دے دیا کہ اس میں کسی کا کوئی امتیاز نہ ہونا چاہیے، واللہ اعلم - اہل جنت کے لئے زیور :- يُحَلَّوْنَ فِيْهَا اس آیت میں اہل جنت مردوں کو بھی سونے کے کنگن پہنانے کا ذکر ہے، اس پر یہ سوال ہوسکتا ہے کہ زیور پہننا تو مردوں کے لئے نازیبا ہے، نہ کوئی جمال اور زینت، جنت میں اگر ان کو کنگن پہنائے گئے تو وہ ان کو بدہیئت کردیں گے۔- جواب یہ ہے کہ زینت و جمال عرف و رواج کے تابع ہے، ایک ملک اور خطے میں جو چیز زینت و جمال سمجھی جاتی ہے دوسرے ملکوں اور خطوں میں بسا اوقات وہ قابل نفرت قرار دی جاتی ہے، اور ایسا ہی اس کے برعکس بھی ہے، اسی طرح ایک زمانہ میں ایک خاص چیز زینت ہوتی ہے دوسرے زمانے میں وہ عیب ہوجاتا ہے، جنت میں مردوں کے لئے بھی زیور اور ریشمی کپڑے زینت و جمال قرار دئے جائیں گے تو وہاں اس سے کسی کو اجنبیت کا احساس نہ ہوگا، یہ صرف دنیا کا قانون ہے، کہ یہاں مردوں کو سونے کا کوئی زیور یہاں تک کہ انگوٹھی اور گھڑی کی چین بھی سونے کی استعمال کرنا جائز نہیں، اسی طرح ریشمی کپڑے مردوں کے لئے جائز نہیں، جنت کا یہ قانون نہ ہوگا وہ اس سارے جہان سے الگ ایک عالم ہے اس کو اس بنا پر کسی چیز میں بھی قیاس نہیں کیا جاسکتا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ لَہُمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہِمُ الْاَنْہٰرُ يُحَلَّوْنَ فِيْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّيَلْبَسُوْنَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ وَّاِسْتَبْرَقٍ مُّتَّكِــِٕـيْنَ فِيْہَا عَلَي الْاَرَاۗىِٕكِ۝ ٠ۭ نِعْمَ الثَّوَابُ۝ ٠ۭ وَحَسُنَتْ مُرْتَفَقًا۝ ٣١ۧ- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- عدن - قال تعالی: جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل 31] ، أي : استقرار وثبات، وعَدَنَ بمکان کذا : استقرّ ، ومنه المَعْدِنُ : لمستقرّ الجواهر، وقال عليه الصلاة والسلام : «المَعْدِنُ جُبَارٌ» «2» .- ( ع د ن ) عدن - ( ن ض ) کے معنی کسی جگہ قرار پکڑنے اور ٹہر نے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ عدن بمکان کذا یعنی اس نے فلاں جگہ قیام کیا قرآن میں ہے : ۔ جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل 31] یعنی ہمیشہ رہنے کے باغات ۔ اسی سے المعدن ( کان ) ہے کیونکہ کا ن بھی جواہرات کے ٹھہر نے اور پائے جانے کی جگہ ہوتی ہے حدیث میں ہے ۔ المعدن جبار کہ اگر کوئی شخص کان میں گر کر مرجائیں تو کان کن پر اس کی دیت نہیں ہے ۔- جری - الجَرْي : المرّ السریع، وأصله كمرّ الماء، ولما يجري بجريه . يقال : جَرَى يَجْرِي جِرْيَة وجَرَيَاناً. قال عزّ وجل : وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51]- ( ج ر ی ) جریٰ ( ض)- جریۃ وجریا وجریا نا کے معنی تیزی سے چلنے کے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ پانی اور پانی کی طرح چلنے والی چیزوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَهذِهِ الْأَنْهارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [ الزخرف 51] اور یہ نہریں جو میرے ( محلوں کے ) نیچے بہ رہی ہیں ۔ میری نہیں ہیں ۔- نهر - النَّهْرُ : مَجْرَى الماءِ الفَائِضِ ، وجمْعُه : أَنْهَارٌ ، قال تعالی: وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] ، - ( ن ھ ر ) النھر - ۔ بافراط پانی بہنے کے مجری کو کہتے ہیں ۔ کی جمع انھار آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَفَجَّرْنا خِلالَهُما نَهَراً [ الكهف 33] اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی ۔- سور - السَّوْرُ : وثوب مع علوّ ، ويستعمل في الغضب، وفي الشراب، يقال : سَوْرَةُ الغضب، وسَوْرَةُ الشراب، وسِرْتُ إليك، وسَاوَرَنِي فلان، وفلان سَوَّارٌ: وثّاب . والْإِسْوَارُ من أساورة الفرس أكثر ما يستعمل في الرّماة، ويقال : هو فارسيّ معرّب . وسِوَارُ المرأة معرّب، وأصله دستوار «3» ، وكيفما کان فقد استعملته العرب، واشتقّ منه : سَوَّرْتُ الجارية، وجارية مُسَوَّرَةٌ ومخلخلة، قال : فَلَوْلا أُلْقِيَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ [ الزخرف 53] ، وَحُلُّوا أَساوِرَ مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان 21] ، واستعمال الْأَسْوِرَةِ في الذهب، وتخصیصها بقوله : «ألقي» ، واستعمال أَسَاوِرَ في الفضّة وتخصیصه بقوله : حُلُّوا «4» فائدة ذلک تختصّ بغیر هذا الکتاب . والسُّورَةُ : المنزلة الرفیعة، قال الشاعر : ألم تر أنّ اللہ أعطاک سُورَةً ... تری كلّ ملک دونها يتذبذب«1» وسُورُ المدینة : حائطها المشتمل عليها، وسُورَةُ القرآن تشبيها بها لکونه محاطا بها إحاطة السّور بالمدینة، أو لکونها منزلة کمنازل القمر، ومن قال : سؤرة «2» فمن أسأرت، أي : أبقیت منها بقيّة، كأنها قطعة مفردة من جملة القرآن وقوله : سُورَةٌ أَنْزَلْناها - [ النور 1] ، أي : جملة من الأحكام والحکم، وقیل : أسأرت في القدح، أي : أبقیت فيه سؤرا، أي : بقيّة، قال الشاعر : لا بالحصور ولا فيها بِسَآرٍ- «3» ويروی ( بِسَوَّارٍ ) ، من السَّوْرَةِ ، أي : الغضب .- ( س و ر ) السور - اس کے اصل معنی بلندی پر کودنے کے ہیں اور غصہ یا شراب کی شدت پر بھی سورة کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ کہا جاتا ہے ۔ سورة الغضب اور سورة الشراب ( شراب کی تیزی سورت الیک کے معنی ہیں میں تیری طرف چلا اور س اور نی فلان کے معنی ایک دوسرے پر حملہ کرنے کے ہیں ۔ اور سورة بمعنی وثاب یعنی عربدہ گر کے ہیں اور الاسوات اسا ورۃ الفرس کا مفرد ہے جس کے معنی تیرا انداذ کے ہیں گیا ہے کہ یہ فارسی سے معرب ہے ۔ سوراۃ المرءۃ ( عورت کا بازو بند ) یہ بھی معرب ہے اور اصل میں دستور ہے ۔ بہر حال اس کی اصل جو بھی ہو اہل عرب اسے استعمال کرتے ہیں اور اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سورات المرءۃ میں نے عورت کو کنگن پہنائے اور جاریۃ مسورۃ ومخلقۃ اس لڑکی کو کہتے ہیں جس نے بازو بند اور پازیب پہن رکھی ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَسْوِرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ [ الزخرف 53] سونے کے کنگن ۔۔۔۔۔ چاندی کے کنگن ۔۔۔۔۔ اور قرآن میں سونے کے ساتھ اسورۃ جمع لاکر پھر خاص کر القی کا صیغہ استعمال کرنا اور فضۃ سے قبل اساور کا لفظ لاکر اس کے متعلق حلوا کا صیغہ استعمال کرنے میں ایک خاص نکتہ ملحوظ ہے کس جس کی تفصیل دوسری کتاب میں بیان ہوگی ۔ السورۃ کے معنی بلند مرتبہ کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( الطویل ) ( 244 ) الم تر ان اللہ اعطا ک سورة تریٰ کل ملک دونھا یتذ بذب بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایسا مرتبہ بخشا ہے جس کے ورے ہر بادشاہ متذبذب نظر آتا ہے ۔ اور سورة المدینۃ کے معنی شہر پناہ کے ہیں اور سورة القرآن ( قرآن کی سورت ) یا تو سور المدینۃ سے ماخوذ ہے کیونکہ سورة بھی شہر پناہ کی طرح قرآن کا احاطہ کئے ہوئے ہیں اس لئے انہیں سورة القرآن کہا جاتا ہے اور یا سورة بمعنی مرتبہ سے مشتق ہے ، اور سورة بھی مناز ل قمر کی طرح ایک منزلۃ ہے اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور یہ دونوں اشتقاق اس وقت ہوسکتے ہیں جب اس میں واؤ کو اص - لی مانا جائے لیکن اگر اسے اصل میں سورة مہموز مانا جائے تو یہ اسارت سے مشتق ہوگا جس کے معنی کچھ باقی چھوڑ دینے کے ہیں اور سورة بھی چونکہ قرآن ن کا ایک ٹکڑا اور حصہ ہوتی ہے ۔ اس لئے اسے سورة کہا جاتا ہے اور آیت : ۔ سُورَةٌ أَنْزَلْناها[ النور 1] یہ ایک ) سورة ہے جسے ہم نے نازل کیا میں سورة سے مراد احکام وحکم ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ یہ اسارت فی القدح سے مشتق ہے جس کے معنی پیالہ میں کچھ باقی چھوڑ نے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( البسیط ) ( 245 ) لا بالحصور ولا فیھا بسآ ر نہ تنگ دل اور بخیل ہے اور نہ عربدہ گر ۔ ایک روایت میں ولا بوار ہے ۔ جو شورۃ بمعنی شدت غضب سے مشتق ہے ۔- لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔- ثوب - أصل الثَّوْب : رجوع الشیء إلى حالته الأولی التي کان عليها، أو إلى الحالة المقدّرة المقصودة بالفکرة، وهي الحالة المشار إليها بقولهم : أوّل الفکرة آخر العمل «2» . فمن الرجوع إلى الحالة الأولی قولهم : ثَابَ فلان إلى داره، وثَابَتْ إِلَيَّ نفسي، وسمّي مکان المستسقي علی فم البئر مَثَابَة، ومن الرجوع إلى الحالة المقدرة المقصود بالفکرة الثوب، سمّي بذلک لرجوع الغزل إلى الحالة التي قدّرت له، وکذا ثواب العمل، وجمع الثوب أَثْوَاب وثِيَاب، وقوله تعالی: وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر 4]- ( ث و ب ) ثوب - کا اصل معنی کسی چیز کے اپنی اصلی جو حالت مقدمہ اور مقصود ہوتی ہے اس تک پہنچ جانا کے ہیں ۔ چناچہ حکماء کے اس قول اول الفکرۃ اٰخرالعمل میں اسی حالت کی طرف اشارہ ہے یعنی آغاز فکر ہی انجام عمل بنتا ہے ۔ چناچہ اول معنی کے لحاظ سے کہا جاتا ہے ۔ شاب فلان الی درہ ۔ فلاں اپنے گھر کو لوٹ آیا ثابت الی نفسی میری سانس میری طرف ہوئی ۔ اور کنوئیں کے منہ پر جو پانی پلانے کی جگہ بنائی جاتی ہے اسے مثابۃ کہا جاتا ہے اور غور و فکر سے حالت مقدرہ مقصود تک پہنچ جانے کے اعتبار سے کپڑے کو ثوب کہاجاتا ہے کیونکہ سوت کاتنے سے عرض کپڑا بننا ہوتا ہے لہذا کپڑا بن جانے پر گویا سوت اپنی حالت مقصود ہ کی طرف لوٹ آتا ہے یہی معنی ثواب العمل کا ہے ۔ اور ثوب کی جمع اثواب وثیاب آتی ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَثِيابَكَ فَطَهِّرْ [ المدثر 4] اپنے کپڑوں کو پاک رکھو ۔- خضر - قال تعالی: فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج 63] ، وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ- [ الكهف 31] ، فَخُضْرٌ جمع أخضر، والخُضْرَة : أحد الألوان بين البیاض والسّواد، وهو إلى السّواد أقرب، ولهذا سمّي الأسود أخضر، والأخضر أسود قال الشاعر :- قد أعسف النازح المجهول معسفه ... في ظلّ أخضر يدعو هامه البوم«2» وقیل : سواد العراق للموضع الذي يكثر فيه الخضرة، وسمّيت الخضرة بالدّهمة في قوله سبحانه : مُدْهامَّتانِ [ الرحمن 64] ، أي : خضراوان، وقوله عليه السلام : «إيّاكم وخَضْرَاء الدّمن» «3» فقد فسّره عليه السلام حيث قال :«المرأة الحسناء في منبت السّوء» ، والمخاضرة :- المبایعة علی الخَضْرِ والثمار قبل بلوغها، والخضیرة : نخلة ينتثر بسرها أخضر .- ( خ ض ر )- قرآن میں ہے : فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج 63] تو زمین سر سبز ہوجاتی ہے۔ وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ [ الكهف 31] سبز رنگ کے کپڑے ۔ خضرا کا واحد اخضر ہے اور الخضرۃ ایک قسم کا دنگ ہوتا ہے جو سفیدی اور سیاہی کے بین بین ہوتا ہے مگر سیاہی غالب ہوتی ہے یہی وجہ ہے ک اسور ( سیاہ ) اور اخضر ( سبز) کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط) (136) قد اعسف النازح المجھود مسفۃ فی ظل اخضر یدعوھا مہ الیوم میں تاریک اور بھیانک راتوں میں دور دراز راستوں میں سفر کرتا ہوں جو بےنشان ہوتے ہیں ۔ اور سبزی اور شادابی کی وجہ سے عراق کے ایک حصہ کو سواد العراق کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ مُدْهامَّتانِ [ الرحمن 64] کے معنی سر سبز کے ہیں اور خضرۃ کی جگہ دھمۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی سیاہی کے ہیں ۔ حدیث میں ہے :۔ (114) ایاکم وخضواء الدمن تم کوڑی کی سر سبزی سے بچو۔ اور خضراء الدمن کی تفسیر بیان کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا المرآۃ الحسنۃ فی منبت السوء یعنی خوبصورت عورت جو بدطنت ہو ۔ المخاضرۃ سبزیوں اور کچے پھلوں کی بیع کرنا ۔ الخضیرۃ کھجور کا درخت جس کی سبزا در نیم پختہ کھجوریں جھڑجائیں - برق - البَرْقُ : لمعان السحاب، قال تعالی: فِيهِ ظُلُماتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ [ البقرة 19] - ( ب رق ) البرق - کے معنی بادل کی چمک کے ہیں قرآن میں ہے : فِيهِ ظُلُماتٌ وَرَعْدٌ وَبَرْقٌ [ البقرة 19] اس میں اندھیرے پر اندھیرا چھارہا ) ہو اور بادل ) گرج ( رہا ) ہو اور بجلی کوند رہی ہو ۔- - أريك - الأريكة : حجلة علی سریر، جمعها : أرائك، وتسمیتها بذلک إمّا لکونها في الأرض متّخذة من أراكٍ ، وهو شجرة، أو لکونها مکانا للإقامة من قولهم : أَرَكَ بالمکان أُرُوكاً «9» .- وأصل الأروك : الإقامة علی رعي الأراك، ثم تجوّز به في غيره من الإقامات .- ( ارک ) الاریکۃ - ( مسہری ) حجلہ ( چھرکھٹ) جو سر پر یعنی تخت کے اوپر رکھا ہوا اس کی جمع ادائک ہے اور اسے اریکۃ کہنے کی وجہ یا تو یہ ہے کہ وہ ارض یعنی دنیا میں اراک دپیلو کی لکڑی ) سے بنایا جاتا ہے جو ایک قسم کا درخت ہے اور یا محل اقامت ہونے کی وجہ سے ہے اور یہ ادک بالمکان اروکا سے مشتق ہے جس کے اصل معنی کسی جگہ پر اراک ( یعنی پیلو ) کے پتے چرنے کے لئے ٹہرنا کے ہیں پھر مطلق ٹھہرنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ ( اس لئے جنت کے چھپر کھٹوں کو جو اہل جنت کی اقامت گاہ ہوں گے ۔ ارائک (18 ۔ 21) کہا گیا ہے )- نعم ( مدح)- و «نِعْمَ» كلمةٌ تُسْتَعْمَلُ في المَدْحِ بإِزَاءِ بِئْسَ في الذَّمّ ، قال تعالی: نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 44] ، فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر 74] ، نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40]- ( ن ع م ) النعمۃ - نعم کلمہ مدح ہے جو بئس فعل ذم کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ [ ص 44] بہت خوب بندے تھے اور ( خدا کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے ۔ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعامِلِينَ [ الزمر 74] اور اچھے کام کرنے والوں کا بدلہ بہت اچھا ہے ۔ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ [ الأنفال 40] وہ خوب حمایتی اور خوب مدد گار ہے - حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله،- فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف انواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّيَلْبَسُوْنَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ وَّاِسْتَبْرَقٍ )- یعنی ان کا اوپر کا لباس باریک ریشم کا ہوگا جبکہ نیچے کا لباس موٹے ریشم کا ہوگا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :34 قدیم زمانے میں بادشاہ سونے کے کنگن پہنتے تھے ۔ اہل جنت کے لباس میں اس چیز کا ذکر کرنے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ وہاں بادشاہوں کی سی شان و شوکت سے رہے گا ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :35 ارائک جمع ہے اریکہ کی ۔ اریکہ عربی زبان میں ایسے تخت کو کہتے ہیں جس پر چتر لگا ہوا ہو ۔ اس سے بھی یہی تصور دلانا مقصود ہے کہ وہاں ہر جنتی تخت شاہی پر متمکن ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani