[٣٦] ایک موحد اور ایک کافر و مشرک کی مثال :۔ ایک دن وہ اپنے باغ کے پاس کھڑا تھا کہ اس کے مفلس ہمسایہ کا ادھر سے گذر ہوا تو اس سے اپنی شیخی بگھارنے بیٹھ گیا اور اس سے کہنے لگا جیسی زندگی تم گزار رہے ہو میں بہرحال تم سے بہتر ہوں۔ مالدار بھی اور اولاد بھی کافی ہے یہی باتیں کہتے کہتے وہ اپنے ہمسایہ کو لیے ہوئے اپنے باغ میں داخل ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے اس باغ پر اتنی محنت کی ہے اور ایسے انتظامات مکمل کردیئے ہیں کہ کم از کم میری زندگی میں یہ باغ اجڑ نہیں سکتا اور جس قیامت کی تم باتیں کرتے رہتے ہو، اول تو مجھے اس کا یقین ہی نہیں اور اگر قائم ہوئی بھی جیسا کہ تم کہتے ہو تو جس خدا نے مجھ پر اس دنیا میں اتنی مہربانی اور اپنا فضل کیا ہے آخر وہ اس زندگی میں مجھ پر کیوں فضل نہ کرے گا ؟ اور قریشی سرداروں کا بھی یہی نظریہ تھا۔- اس آیت میں دراصل دنیا دار لوگوں کے اس غلط نظریہ کی تردید کی گئی ہے کہ اگر انھیں اس دنیا میں آسودہ حالی مہیا ہے تو یہ اللہ کی ان پر خوشنودی کی دلیل ہے حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے سخت آزمائش میں پڑے ہوتے ہیں کہ آیا وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں یا اس کے نافرمان بن کر رہتے ہیں لیکن وہ یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ جنت تو ہمیں مل ہی گئی ہے اب اور کون سی جنت ہے جسے حاصل کرنے کی فکر کریں۔
وَدَخَلَ جَنَّتَهٗ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ۔۔ : اپنی جان پر ظلم کرنے والا اس لیے کہ اس نے تین باتیں کہیں جو تینوں کفر ہیں، اگرچہ وہ رب تعالیٰ کے وجود کو مانتا تھا، جیسا کہ ” وَّلَىِٕنْ رُّدِدْتُّ اِلٰى رَبِّيْ “ سے ظاہر ہے۔ پہلی یہ کہ میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی برباد ہوگا، حالانکہ اللہ کے سوا کسی بھی چیز کو ہمیشہ سے یا ہمیشہ کے لیے باقی سمجھنا نری جہالت اور دہریت ہے اور اللہ تعالیٰ کے اختیار اور ارادے کا انکار ہے، وہ جب چاہے کسی بھی چیز کو ” کُنْ “ کہہ کر فنا کرسکتا ہے اور کرتا رہتا ہے۔ دوسری یہ کہ میں قیامت کو قائم ہونے والی نہیں سمجھتا، حالانکہ یہ اللہ کی قدرت کا انکار ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ جب پہلی دفعہ پیدا کرنے پر قادر ہے تو دوبارہ بھی قادر ہے۔ تیسری بات یہ کہ اگر بالفرض میں اپنے رب کی طرف دوبارہ لے جایا گیا تو مجھے یہاں سے بہتر جگہ ملے گی، کیونکہ یہ میرا حق ہے۔ دیکھیے حم السجدہ (٥٠) اور سورة مریم (٧٧) یہ اعمال کی جزا و سزا سے اور اللہ تعالیٰ کی حکمت و عدل سے انکار ہے اور مذکورہ تینوں باتیں کفر ہیں۔ (مہائمی)
وَدَخَلَ جَنَّتَہٗ وَہُوَظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ ٠ۚ قَالَ مَآ اَظُنُّ اَنْ تَبِيْدَ ہٰذِہٖٓ اَبَدًا ٣٥ۙ- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔ - بيد - قال عزّ وجل : ما أَظُنُّ أَنْ تَبِيدَ هذِهِ أَبَداً [ الكهف 35] ، يقال : بَادَ الشیءُ يَبِيدُ بَيَاداً : إذا تفرّق وتوزّع في البَيْدَاء، أي : المفازة، وجمع البیداء : بِيد، وأتان بَيْدَانَة : تسکن البادية البیداء .- ( ب ی د ) باد - ( ض) الشئی یبید بیادا کے اصل معنی بیداء یعنی بیابان میں کسی چیز کے متعلق اور پر اگنداہ ہونے کے ہیں اور اسی اعتبار سے کامل تباہی اور بربادی کے متعلق یہ لفظ استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے ۔ ما أَظُنُّ أَنْ تَبِيدَ هذِهِ أَبَداً [ الكهف 35] کہ میں نہیں خیال کرتا کہ یہ باغ کبھی تباہ ہو ۔ البیداء کے معنی لق و دق صحراء کے ہیں اس کی جمع بید ہے اور مادہ خروشی کو اتان بیدانۃ کہا جاتا ہے ۔- ابد - قال تعالی: خالِدِينَ فِيها أَبَداً [ النساء 122] . الأبد : عبارة عن مدّة الزمان الممتد الذي لا يتجزأ كما يتجرأ الزمان، وذلک أنه يقال : زمان کذا، ولا يقال : أبد کذا .- وكان حقه ألا يثنی ولا يجمع إذ لا يتصور حصول أبدٍ آخر يضم إليه فيثنّى به، لکن قيل :- آباد، وذلک علی حسب تخصیصه في بعض ما يتناوله، کتخصیص اسم الجنس في بعضه، ثم يثنّى ويجمع، علی أنه ذکر بعض الناس أنّ آباداً مولّد ولیس من کلام العرب العرباء .- وقیل : أبد آبد وأبيد أي : دائم «2» ، وذلک علی التأكيد .- وتأبّد الشیء : بقي أبداً ، ويعبّر به عما يبقی مدة طویلة . والآبدة : البقرة الوحشية، والأوابد :- الوحشیات، وتأبّد البعیر : توحّش، فصار کالأوابد، وتأبّد وجه فلان : توحّش، وأبد کذلک، وقد فسّر بغضب .- اب د ( الابد)- :۔ ایسے زمانہ دراز کے پھیلاؤ کو کہتے ہیں ۔ جس کے لفظ زمان کی طرح ٹکڑے نہ کئے جاسکیں ۔ یعنی جس طرح زمان کذا ( فلا زمانہ ) کہا جا سکتا ہے ابدکذا نہیں بولتے ، اس لحاظ سے اس کا تنبیہ اور جمع نہیں بننا چا ہیئے ۔ اس لئے کہ ابد تو ایک ہی مسلسل جاری رہنے والی مدت کا نام ہے جس کے متوازی اس کی جیسی کسی مدت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ کہ اسے ملاکر اس کا تثنیہ بنا یا جائے قرآن میں ہے خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا [ النساء : 57] وہ ابدالاباد ان میں رہیں گے ۔ لیکن بعض اوقات اسے ایک خاص مدت کے معنی میں لے کر آباد اس کی جمع بنا لیتے ہیں جیسا کہ اسم جنس کو بعض افراد کے لئے مختص کر کے اس کا تثنیہ اور جمع بنا لیتا جاتا ہے بعض علمائے لغت کا خیال ہے کہ اباد جمع مولّدہے ۔ خالص عرب کے کلام میں اس کا نشان نہیں ملتا اور ابدابد وابدابید ( ہمیشہ ) ہمیشہ کے لئے ) میں دوسرا لفظ محض تاکید کے لئے لایا جاتا ہے تابدالشئی کے اصل معنی تو کسی چیز کے ہمیشہ رہنے کے ہیں مگر کبھی عرصہ درازتک باقی رہنا مراد ہوتا ہے ۔ الابدۃ وحشی گائے ۔ والجمع اوابد وحشی جانور) وتأبّد البعیر) اونٹ بدک کر وحشی جانور کی طرح بھاگ گیا ۔ تأبّد وجه فلان وأبد ( اس کے چہرے پر گھبراہٹ اور پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے ) بعض کے نزدیک اس کے معنی غضب ناک ہونا بھی آتے ہیں ۔
(قَالَ مَآ اَظُنُّ اَنْ تَبِيْدَ هٰذِهٖٓ اَبَدًا)- یعنی میرا یہ باغ ہر لحاظ سے مثالی ہے۔ اسے میں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہر قسم کے خطرات سے محفوظ بنا رکھا ہے۔ انگوروں کی نازک بیلوں کے گردا گرد کھجوروں کے بلند وبالا درخت سنتریوں کی طرح کھڑے ہر قسم کے طوفان اور باد صرصر کے تھپیڑوں سے اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ آب پاشی کے لیے نہر کا وافر پانی ہر وقت موجود ہے۔ لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ اسے کبھی کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :37 یعنی جن باغوں کو وہ اپنی جنت سمجھ رہا تھا ۔ کم ظرف لوگ جنہیں دنیا میں کچھ شان و شوکت حاصل ہو جاتی ہے ، ہمیشہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انہیں دنیا ہی میں جنت نصیب ہو چکی ہے ، اب اور کونسی جنت ہے جسے حاصل کرنے کی وہ فکر کریں ۔