Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا طریقہ بتلاتے ہوئے کہا کہ باغ میں داخل ہوتے وقت سرکشی اور غرور کا مظاہرہ کرنے کی بجائے یہ کہا ہوتا، مَا شَاَءَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِلّا باللّٰہِ یعنی جو کچھ ہوتا ہے اللہ کی مشیت سے ہوتا ہے، وہ چاہے تو اسے باقی رکھے اور چاہے تو فنا کر دے۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ جس کو کسی کا مال، اولاد یا حال اچھا لگے تو اسے مَا شَاَءَ اللّٰہُ لَا قُوَّۃَ اِ لّا باللّٰہِ پڑھنا چاہیے (تفسیر ابن کثیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٣٩] نعمت کے حصول پر بطور شکرانہ ماشاء اللہ کہنا :۔ موحد ساتھی اپنے مشرک ساتھی کو سمجھانے لگا کہ تمہیں چاہیے تو یہ تھا کہ جب تم اپنے باغ میں داخل ہو رہے تھے تو شیخیاں بگھارنے اور اپنے آپ کو مجھ سے بہتر ثابت کرنے کی بجائے اللہ کا شکر ادا کرتے اور کہتے کہ یہ سب کچھ اللہ کی دین ہے مگر تم نے مجھ پر اپنی برتری ثابت کرنا شروع کردی کیا یہ ممکن نہیں کہ اگر میں تمہارے خیال کے مطابق تم سے مال و اولاد میں کم تر ہوں تو اللہ مجھے تیرے باغوں سے بہتر باغ عطا فرما دے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ تمہارے اس تکبر کی سزا کے طور پر اللہ تیرے اس باغ پر کوئی آسمانی آفت بھیج کر اسے خاکستر کر دے یا اس نہر کا پانی ہی خشک کردے تو تمہارا یہ ہرا بھرا باغ تھوڑے ہی عرصہ میں مرجھا کر ویران ہوجائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ ۔۔ : اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کو اپنی کوئی چیز اچھی لگے تو اسے یہ کلمات کہنے چاہییں : (مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا باللّٰهِ ) ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا : ( یَا أَبَا ھُرَیْرَۃَ أَفَلاَ أَدُلُّکَ عَلٰی کَنْزٍ مِنْ کَنْزِ الْجَنَّۃِ تَحْتَ الْعَرْشِ ، قَالَ قُلْتُ نَعَمْ فِدَاکَ أَبِيْ وَ أُمِّيْ ، قَالَ أَنْ تَقُوْلَ لَا قُوَّۃَ إِلاَّ باللّٰہِ ، قَالَ أَبُوْ بَلْجٍ وَأَصِبُ أَنَّہُ قَالَ : فَإِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ أَسْلَمَ عَبْدِيْ وَاسْتَسْلَمَ ، قَالَ فَقُلْتُ لِعَمْرٍو قَالَ أَبُوْبَلْجٍ قَالَ عَمْرٌو قُلْتُ لِأَبِيْ ھُرَیْرَۃَ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا باللّٰہِ فَقَالَ : لَا إِنَّھَا فِيْ سُوْرَۃِ الْکَھْفِ : (وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا باللّٰهِ ) [ مسند أحمد : ٢؍٣٣٥، ح : ٨٤٤٧ ] ” اے ابوہریرہ کیا میں تمہیں عرش کے نیچے جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ بتاؤں ؟ “ میں نے کہا : ” ہاں آپ پر میرے ماں باپ قربان “ فرمایا : ” تم کہو ” لَا قُوَّۃَ اِلَّا باللّٰہِ “ ابوبلج راوی کہتے ہیں، میرا گمان ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میرا بندہ مطیع ہوگیا اور اس نے اپنا آپ میرے سپرد کردیا۔ “ ابوہریرہ (رض) سے ان کے شاگرد نے پوچھا : ” لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا باللّٰہِ “ تو انھوں نے فرمایا : ” نہیں، یہ کلمہ سورة کہف میں ہے : (وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا باللّٰهِ ) شعیب ارنؤوط نے کہا کہ یہ روایت عرش کے لفظ کے بغیر صحیح ہے۔ صحیح بخاری میں انس (رض) نے ” لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا باللّٰہِ “ کی یہی فضیلت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کی ہے۔ [ بخاری، القدر، باب لا حول ولا قوۃ إلا باللہ : ٦٦١٠ ] باقی وہ روایات جن میں یہ کلمات پڑھنے سے نظر بد یا کسی بھی نقصان سے محفوظ رہنے کا ذکر ہے، وہ سب ضعیف ہیں۔ (البانی) مگر ان کی فضیلت کے لیے آیت ہی کافی ہے ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاۗءَ اللہُ۝ ٠ۙ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ۝ ٠ۚ اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّوَلَدًا۝ ٣٩ۚ- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- شاء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . وعند بعضهم : الشَّيْءُ عبارة عن الموجود «2» ، وأصله : مصدر شَاءَ ، وإذا وصف به تعالیٰ فمعناه : شَاءَ ، وإذا وصف به غيره فمعناه الْمَشِيءُ ، وعلی الثاني قوله تعالی: قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ- [ الرعد 16] ، فهذا علی العموم بلا مثنويّة إذ کان الشیء هاهنا مصدرا في معنی المفعول . وقوله : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام 19] ، فهو بمعنی الفاعل کقوله : فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون 14] . والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) «3» ، والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادة- الإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ- [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» ، وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترک ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ما سوی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجودات اور معدومات سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ شے صرف موجود چیز کو کہتے ہیں ۔ یہ اصل میں شاء کا مصدر ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق شے کا لفظ استعمال ہو تو یہ بمعنی شاء یعنی اسم فاعل کے ہوتا ہے ۔ اور غیر اللہ پر بولا جائے تو مشیء ( اسم مفعول ) کے معنی میں ہوتا ہے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد 16] خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ۔ میں لفظ شی چونکہ دوسرے معنی ( اسم مفعول ) میں استعمال ہوا ہے اس لئے یہ عموم پر محمول ہوگا اور اس سے کسی قسم کا استثناء نہیں کیا جائیگا کیونکہ شی مصدر بمعنی المفعول ہے مگر آیت کریمہ : ۔ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام 19] ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر ( قرین انصاف ) کس کی شہادت ہے میں شے بمعنی اسم فاعل ہے اور اللہ تعالیٰ کو اکبر شھادۃ کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری ایت ۔ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون 14] ( تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ) میں ذات باری تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ۔ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- قوی - القُوَّةُ تستعمل تارة في معنی القدرة نحو قوله تعالی: خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] - ( ق وو ) القوۃ - یہ کبھی قدرت کے معنی میں اسرعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ خُذُوا ما آتَيْناكُمْ بِقُوَّةٍ [ البقرة 63] اور حکم دیا کہ جو کتاب ہم نے تم کو دی اس کو زور سے پکڑے رہو ۔ - رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - ولد - الوَلَدُ : المَوْلُودُ. يقال للواحد والجمع والصّغير والکبير . قال اللہ تعالی: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] ،- ( و ل د ) الولد - ۔ جو جنا گیا ہو یہ لفظ واحد جمع مذکر مونث چھوٹے بڑے سب پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ [ النساء 11] اور اگر اولاد نہ ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

ماشاء اللہ کہنے کی تعلیم - قول باری ہے (ولا از دخلت جنتک قلت ماشاء اللہ لا قوۃ الا باللہ۔ اور جب تو اپنی جنت میں داخل ہو رہا تھا تو اس وقت تیری زبان سے یہ کیوں نہ نکلا کہ ماشاء اللہ ، لاقوۃ الا باللہ ) اس کی تفسیر میں دو اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ ” ماشاء اللہ کان (جو اللہ نے چاہا وہ ہوگیا) یہاں لفظ کان - حذف کردیا گیا جس طرح اس قول باری میں یہ محذوف ہے (فان استطعت ان تبتخی نفقاً فی الارض او سلماً فی السمآء ۔ اگر تمہارے بس میں ہو کر زمین میں جانے کے لئے کوئی سرگن یا آسمان تک پہنچنے کے لئے کوئی زینہ ڈھونڈ لو) تو ایسا کرلو) یہاں ” فافعل “ (تو ایسا کرلو) محذوف ہے۔ دوسرا قول ہے کہ ” ھو ما شاء اللہ ( یہ وہی ہے جو اللہ نے چاہا) آیت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جب ہم میں سے کوئی ماشاء اللہ کا فقرہ کہتا ہے تو یہ فقرہ نظر لگ جانے سے رکاوٹ بن جاتا ہے، نیز نعمت الٰہی کے تسلسل اور نفی تکبیر کے مفہوم کو متضمن ہوتا ہے اس لئے کہ آیت میں یہ بیان ہے کہ اگر باغ کا مالک یہ فقرہ اپنی زبان سے ادا کرلیتا تو اسے اپنے باغ کی تباہی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔- قول باری ہے (الا ابلیس کان من الجن مگر ابلیس نے، وہ جنوں میں سے تھا) اس میں یہ بیان ہے کہ ابلیس فرشتوں میں سے نہیں تھا بلکہ جنتا میں سے تھا۔ ارشاد باری ہے (والجان خلقتہ من قبل من نار السموم اور ہم اس سے پہلے جنوں کو گرم آگ سے پیدا کرچکے تھے) اس لئے ابلیس کی جنس فرشتوں کی جنس سے مختلف تھی جس طرح انسان کی جنسی جنات کی جنس سے مختلف ہے۔ ایک روایت کے مطابق فرشتوں کی اصل ہوا ہے جس طرح انسان کی اصل مٹی ہے اور جنات کی اصل آگ ہے ۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ (وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاۗءَ اللّٰهُ ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا باللّٰهِ )- تجھے جب باغ میں ہر طرف خوش کن مناظر دیکھنے کو ملے اور پورا باغ پھلوں سے لدا ہوا نظر آیا تو تیری زبان سے ” ما شاء اللہ “ کیوں نہ نکلا اور تو نے یہ کیوں نہ کہا کہ یہ میرا کمال نہیں بلکہ اللہ کی دین ہے جو اصل طاقت اور اختیار کا مالک ہے ‘ اس کی اجازت اور مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ یہ ” ماشاء اللہ “ وہ کلمہ ہے جس میں توحید کوٹ کوٹ کر بھری ہے ‘ کہ جو اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے کسی اور کے چاہنے سے یا اسباب و وسائل کے ہونے سے کچھ نہیں ہوتا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :40 یعنی جو کچھ اللہ چاہے وہی ہوگا ۔ میرا اور کسی کا زور نہیں ہے ۔ ہمارا اگر کچھ بس چل سکتا ہے تو اللہ ہی کی توفیق و تائید سے چل سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani