Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حیات و موت کا نقشہ دنیا اپنے زوال ، فنا ، خاتمے اور بردباری کے لحاظ سے مثل آسمانی بارش کے ہے جو زمین کے دانوں وغیرہ سے ملتا ہے اور ہزارہا پودے لہلہانے لگتے ہیں ، تروتازگی اور زندگی کے آثار ہر چیز سے ظاہر ہونے لگتے ہیں لیکن کچھ دنوں کے گزرتے ہی وہ سوکھ ساکھ کر چورا چورا ہو جاتے ہیں ، اور ہوائیں انہیں دائیں بائیں اڑائے پھرتی ہیں ۔ اس حالت پر اللہ قادر تھا وہ اس حالت پر بھی قادر ہے ۔ عموما دنیا کی مثال بارش سے بیان فرمائی جاتی ہے جیسے سورہ حدید کی آیت ( اِنَّمَا مَثَلُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ مِمَّا يَاْكُلُ النَّاسُ وَالْاَنْعَامُ 24؀ ) 10- یونس:24 ) میں اور جیسے سورہ زمر کی آیت ( اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً ۚ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ ثَمَرٰتٍ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهَا ۭوَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢ بِيْضٌ وَّحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهَا وَغَرَابِيْبُ سُوْدٌ 27؀ ) 35- فاطر:27 ) میں ۔ جیسے سورہ حدید کی آیت ( اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ وَّزِيْنَةٌ وَّتَفَاخُرٌۢ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ ۭ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ يَهِيْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُوْنُ حُطَامًا ۭوَفِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۙ وَّمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانٌ ۭ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ 20؀ ) 57- الحديد:20 ) میں صحیح حدیث میں بھی ہے ۔ دنیا سبز رنگ میٹھی ہے الخ پھر فرماتا ہے کہ مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں جیسے فرمایا ہے آیت ( زین للناس حب الشھوات ) الخ انسان کے لئے خواہشوں کی محبت مثلا عورتیں بیٹے خزانے وغیرہ مزین کر دی گئی ہیں ۔ اور آیت میں ہے ( اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ ۭوَاللّٰهُ عِنْدَهٗٓ اَجْرٌ عَظِيْمٌ 15؀ ) 64- التغابن:15 ) تمہارے مال تمہاری اولادیں فتنہ ہیں اور اللہ کے پاس اجر عظیم ہے ۔ یعنی اس کی طرف جھکنا اس کی عبادت میں مشغول رہنا دنیا طلبی سے بہتر ہے اسی لئے یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے کہ باقیات صالحات ہر لحاظ سے عمدہ چیز ہے ۔ مثلا پانچوں وقت کی نمازیں اور دعا ( سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ۔ اور لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ اور الحمد اللہ اور اللہ اکبر اور لا حول ولا قوتہ الا باللہ العلی عظیم ) ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں میں بیٹھے ہوئے تھے جو موذن پہنچا آپ نے پانی منگوایا ایک برتن میں قریب تین پاؤ کے پانی آیا ، آپ نے وضو کر کے فرمایا حضور علیہ السلام نے اسی طرح وضو کر کے فرمایا جو میرے اس وضو جیسا وضو کر کے ظہر کی نماز ادا کرے تو صبح سے لے کر ظہر تک کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ پھر عصر میں بھی اسی طرح نماز پڑھ لی تو ظہر سے عصر تک کے تمام گناہ معاف ، پھر مغرب کی نماز پڑھی تو عصر سے مغرب تک کے گناہ معاف ۔ پھر عشاء کی نماز پڑھی تو مغرب سے عشا تک کے گناہ معاف پھر رات کو وہ سو رہا صبح اٹھ کر نماز فجر ادا کی تو عشا سے لے کے صبح تک کے گناہ معاف ۔ یہی وہ نیکیاں ہیں جو برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔ لوگوں نے پوچھا یہ تو ہوئیں نیکیاں اب اے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ بتلائیے کہ باقیات صالحات کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا دعا ( سبحان اللہ والحمد اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم ) ۔ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں باقیات صالحات یہ ہیں دعا ( سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ) ۔ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگرد عمارہ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ بتاؤ باقیات صالحات کیا ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نماز اور روزہ ۔ آپ نے فرمایا تم نے صحیح جواب نہیں دیا انہوں نے کہا زکوٰۃ اور حج فرمایا ابھی جواب ٹھیک نہیں ہوا سنو وہ پانچ کلمے ہیں دعا ( لا الہ الا اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ والحمد للہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ) ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوا تو آپ نے بجز الحمد للہ کے اور چار کلمات بتلائے ۔ حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ بجز لا حول کے اور چاروں کلمات بتلاتے ہیں ۔ حسن رحمۃ اللہ علیہ اور قتادۃ رحمۃ اللہ علیہ بھی ان ہی چاروں کلمات کو باقیات صالحات بتلاتے ہیں ۔ ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دعا ( سبحان اللہ والحمد للہ والا لاہ الا اللہ واللہ اکبر ) یہ ہیں باقیات صالحات ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم باقیات صالحات کی کثرت کرو پوچھا گیا وہ کیا ہیں ؟ فرمایا ملت ، پوچھا گیا وہ کیا ہے یا رسول اللہ ؟ آپ نے فرمایا تکبیر تہلیل تسبیح اور الحمد للہ اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ ( احمد ) سالم بن عبداللہ کے مولی عبداللہ بن عبد الرحمن کہتے ہیں کہ مجھے حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ نے محمد بن کعب قریظی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کسی کام کے لئے بھیجا تو انہوں نے کہا سالم سے کہہ دینا کہ فلان قبر کے پاس کے کونے میں مجھ سے ملاقات کریں ۔ مجھے ان سے کچھ کام ہے چنانچہ دونوں کی وہاں ملاقات ہوئی سلام علیک ہوا تو سالم نے پوچھا کچھ کے نزدیک باقیات صالحات کیا ہیں ؟ انہوں نے فرمایا دعا ( لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اور سبحان اللہ اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ ) ۔ سالم نے کہا یہ آخری کلمہ آپ نے اس میں کب سے بڑھایا ؟ قرظی نے کہا میں تو ہمیشہ سے اس کلمے کو شمار کرتا ہوں دو تین بار یہی سوال جواب ہوا تو حضرت محمد بن کعب نے فرمایا کیا تمہیں اس کلمے سے انکار ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں انکار ہے ۔ کہا سنو میں نے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ہے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے جب مجھے معراج کرائی گئی میں نے آسمان پر حضرت ابراہیم کو دیکھا ، آپ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ آپ کے ساتھ کون ہیں ؟ جبرائیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں انہوں نے مجھے مرحبا اور خوش آمدید کہا اور فرمایا آپ آپ اپنی امت سے فرما دیجئے کہ وہ جنت میں اپنے لئے کچھ باغات لگا لیں اس کی مٹی پاک ہے ، اس کی زمین کشادہ ہے ۔ میں نے پوچھا وہاں باغات لگانے کی کیا صورت ہے ؟ فرمایا لاحول ولا قوۃالا باللہ بکثرت پڑھیں ۔ مسند احمد میں نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات عشا کی نماز کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے آسمان کی طرف دیکھ کر نظریں نیچی کرلیں ہمیں خیال ہوا کہ شاید آسمان میں کوئی نئی بات ہوئی ہے پھر آپ نے فرمایا میرے بعد جھوٹ بولنے اور ظلم کرنے والے بادشاہ ہوں گے جو ان کے جھوٹ کو تسلیم کرے اور ان کے ظلم میں ان کی طرفداری نہ کرے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں ۔ لوگو سن رکھو سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر یہ باقیات صالحات یعنی باقی رہنے والی نیکیاں ہیں ۔ مسند میں ہے آپ نے فرمایا واہ واہ پانچ کلمات ہیں اور نیکی کی ترازو میں بیحد وزنی ہیں لا الہ اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ والحمد للہ اور وہ بچہ جس کے انتقال پر اس کا باپ طلب اجر کے لئے صبر کرے ۔ واہ واہ پانچ چیزیں ہیں جو ان کا یقین رکھتا ہو اللہ سے ملاقات کرے وہ قطعا جنتی ہے ۔ اللہ پر ، قیامت کے دن پر ، جنت دوزخ پر ، مرنے کے بعد کے جی اٹھنے پر اور حساب پر ایمان رکھے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک سفر میں تھے کسی جگہ اترے اور اپنے غلام سے فرمایا کہ چھری لاؤ کھیلیں ۔ حسان بن عطیہ کہتے ہیں میں نے اس وقت کہا کہ یہ آپ نے کیا کیا ؟ آپ نے فرمایا واقعی میں نے غلطی کی سنو اسلام لانے کے بعد سے لے کر آج تک میں نے کوئی کلمہ اپنی زبان سے ایسا نہیں نکالا جو میرے لئے لگام بن جائے ، بجز اس ایک کلمے کے پس تم لوگ اسے یاد سے بھلا دو اور اب جو میں کہہ رہا ہوں اسے یاد رکھو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جب لوگ سونے چاندی کے جمع کرنے میں لگ جائیں تم اس وقت ان کلمات کو بکثرت پڑھا کرو ۔ دعا ( اللہم انی اسالک الثبات فی الامر والعزیمتہ علی الرشد واسالک شکر نعمتک واسالک حسن عبادتک واسالک قلبا سلیما واسالک لساناصادقا واسالک من خیر ما تعلم واعوذ بک من شر ما تعلم واستغفرک لما تعلم انک انت علام الغیوب ) یعنی اے اللہ میں تجھ سے اپنے کام کی ثابت قدمی اور نیکی کے کام کا پورا قصد اور تیری نعمتوں کی شکر گزاری کی توفیق طلب کرتا ہوں اور تجھ سے دعا ہے کہ تو مجھے سلامتی والا دل اور سچی زبان عطا فرما تیرے علم میں جو بھلائی ہے میں اس کا خواستگار ہوں اور تیرے علم میں جو برائی ہے ، میں اس سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ پروردگار ہر اس برائی سے میری توبہ ہے جو تیرے علم میں ہو بیشک غیب داں صرف تو ہی ہے ۔ حضرت سعید بن جنادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل طائف میں سے سب سے پہلے میں نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں اپنے گھر سے صبح ہی صبح چل کھڑا ہوا اور عصر کے وقت منی میں پہنچ گیا ، پہاڑ پر چڑھا ، پھر اترا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا ، اسلام قبول کیا ، آپ نے مجھے سورہ قل ھو اللہ احد اور سورہ اذا زلزلت سکھائی اور یہ کلمات تعلیم فرمائے ۔ دعا ( سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ) ۔ فرمایا یہ ہیں باقی رہنے والی نیکیاں ۔ اس سند سے مروی ہے کہ جو شخص رات کو اٹھے وضو کرے کلی کرے پھر سو سو بار سبحان اللہ الحمد للہ اللہ اکبر لا الہ الا اللہ پڑھے اس کے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں بجز قتل و خون کے کہ وہ معاف نہیں ہوتا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں باقیات صالحات ذکر اللہ ہے اور لا الہ الا اللہ واللہ اکبر سبحان اللہ والحمد للہ تبارک اللہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ واستغفر اللہ وصلی اللہ علی رسول اللہ ہے اور روزہ نماز حج صدقہ غلاموں کی آزادی جہاد صلہ رحمی اور کل نیکیاں یہ سب باقیات صالحات ہیں جن کا ثواب جنت والوں کو جب تک آسمان و زمین ہیں ملتا رہتا ہے ۔ فرماتے ہیں پاکیزہ کلام بھی اسی میں داخل ہے حضرت عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کل اعمال صالحہ اسی میں داخل ہیں ۔ امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ بھی اسے مختار بتلاتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 اس آیت میں دنیا کی بےثباتی اور ناپائداری کو کھیتی کی مثال کے ذریعے واضح کیا گیا ہے کہ کھیتی میں لگے پودوں اور درختوں پر جب آسمان سے بارش برستی ہے تو پانی سے ملکر کھیتی لہلہا اٹھتی ہے، پودے اور درخت حیات نو سے شاداب ہوجاتے ہیں۔ لیکن پھر ایک وقت آتا ہے کہ کھیتی سوکھ جاتی ہے۔ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے یا فصل پک جانے کے سبب تو پھر ہوائیں اس کو اڑائے پھرتی ہیں۔ ہوا کا ایک جھونکا کبھی اسے دائیں اور کبھی بائیں جانب جھکا دیتا ہے۔ دنیا کی زندگی بھی ہوا کے ایک جھونکے یا اس پانی کے بلبلے یا کھیتی ہی کی طرح ہے، جو اپنی چند روزہ بہار دکھا کر فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے۔ اور یہ سارے تصرفات اس ہستی کے ہاتھ میں ہیں جو ایک ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی مثال قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان فرمائی ہے۔ (مثلًا (وَاللّٰهُ يَدْعُوْٓا اِلٰى دَار السَّلٰمِ ۭ وَيَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَــقِيْمٍ ) 10 ۔ یونس :25) ، (اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَسَلَكَهٗ يَنَابِيْعَ فِي الْاَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُهٗ ثُمَّ يَهِيْجُ فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهٗ حُطَامًا ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِاُولِي الْاَلْبَابِ ) 39 ۔ الزمر :21) وغیرہا من الآیات)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤١] زندگی کے مراحل دنیا کی زندگی کی مثال نباتات سے :۔ دنیا کی زندگی کی مثال نباتات سے اس لیے دی گئی ہے کہ اس کی سب کو فوراً سمجھ آجاتی ہے ورنہ اس دنیا کی ہر جاندار اور بےجان چیز جس میں نباتات بھی شامل ہے انھیں مراحل سے گزرتی ہے۔ زمین پر بارش برسنے سے نباتات اگ آتی ہے پھر وہ بڑی ہوتی اور لہلہاتی ہے جو بن پر آتی ہے تو ہر ایک کو بہت بھلی معلوم ہوتی ہے پھر عروج کے بعد اس میں زوال آنا شروع ہوجاتا ہے اور وہ زرد ہونا شروع ہوجاتی ہے اب اگر اس زرد فصل کو پہلے کی طرح پانی سے سیراب کیا بھی جائے تو دوبارہ اس میں کبھی بہار یا ہریاول نہیں آئے گی اس لیے کہ اس کے انحطاط یا زوال کا دور شروع ہوچکا ہے پھر وہ فصل کاٹ دی جاتی ہے اور اس کا آخری انجام یہ ہوتا ہے کہ ہوا اس کے ریزوں اور ذروں کو اڑائے پھرتی ہے۔ انسان کا اپنا بھی یہی حال ہے پیدا ہوتا ہے پھر آہستہ آہستہ اس پر جوانی آتی ہے، قوت آتی ہے۔ اس وقت وہ سب کو خوبصورت لگتا ہے اور سب چیزیں اسے حسین لگتی ہیں ہیں لیکن ایک مقررہ حد پر جاکر اس کا قد و قامت اور اس کی قوت سب کچھ رک جاتا ہے پھر بڑھاپے کا یعنی زوال و انحطاط کا وقت آتا ہے تو اب عمدہ سے عمدہ غذائیں کھائے لیکن اس میں نہ افزائش ہوگی اور نہ وہ اپنے زوال کو روک سکے گا کیونکہ ہر چیز کے طے شدہ اندازے اللہ تعالیٰ نے مقرر کر رکھے ہیں ان سے کوئی چیز تجاوز نہیں کرسکتی۔ غرض یہ کہ اس دنیا کی ہر چیز زوال پذیر ہے جو چیز پیدا ہوئی ہے وہ فنا بھی ضرور ہوگی لہذا دنیا کے مال و دولت یا اس دنیا کی زندگی پر کبھی گھمنڈ نہ کرنا چاہیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا۔۔ : ” هَشِيْمًا “ یہ ” فَعِیْلٌ“ بمعنی ” مَفْعُوْلٌ“ ہے، یعنی چورا چورا کیا ہوا۔ ” تَذْرُوْهُ “ ” ذَرَا یَذْرُوْ “ (ن) ہواؤں کا اڑانا۔ ” مُّقْتَدِرًا “ ” قَدَرَ یَقْدِرُ “ سے باب افتعال کا اسم فاعل ہے، حروف زیادہ ہونے سے معنی زیادہ ہوگیا، یعنی پوری قدرت رکھنے والا۔ یہ دنیا کی بےثباتی کی ایک اور مثال ہے، یعنی دنیا کی مثال اس پانی کی سی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اتارا، اس کے ساتھ زمین سے پودے اگے، پھر اتنے گھنے ہوگئے کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نہایت خوب صورت منظر پیش کرنے لگے، جسے دیکھ کر کاشت کار خوش ہوگئے، پھر وہ کھیتی پک کر زرد ہوگئی، پھر ایسی خشک ہوئی کہ ٹوٹ پھوٹ کر چورا ہوگئی۔ اسی طرح آسمان سے روح اتری، زمین سے بننے والے بدن سے مل کر انسان بڑھنا شروع ہوگیا، بچپن کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے جوانی آگئی، ماں باپ جوان اولاد کو دیکھ کر کھل اٹھے، پھر تھوڑی ہی مدت بعد بڑھاپا آگیا۔ اب اس نے فنا ہونا ہی ہونا ہے، جس طرح پکی ہوئی فصل کو پانی دیا جائے یا کھاد، اسے ریزہ ریزہ ہونا ہی ہے، اسی طرح بوڑھے کو مقوی غذا دی جائے یا کشتے، اس نے قبر میں جا کر مٹی کے ذرات میں بدلنا ہی ہے۔ پھر کئی پودے اگتے ہی اکھاڑ لیے جاتے ہیں، کئی سرسبز پودے جوبن پر کاٹ لیے جاتے ہیں، پھر اگر کوئی حادثہ پیش نہ آئے تو پکنے پر کاٹ لیے جاتے ہیں، یا خود ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح انسان کوئی بچپن میں، کوئی جوانی یا ادھیڑ عمر میں فوت ہوجاتے ہیں، اگر یہ مدت خیریت سے گزر جائے تو بڑھاپے کے بعد یہاں رہنے کا معاملہ ہر حال میں ختم ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زندگی کے تمام مرحلوں کے درمیان ” فاء تعقیب “ رکھی، یعنی ” فَاخْتَلَطَ “ اور ” فَاَصْبَحَ “ یعنی یہ مرحلے ایک دوسرے کے پیچھے جلد از جلد آتے چلے جاتے ہیں۔ اس مفہوم کی آیات کے لیے دیکھیے یونس (٢٤) ، زمر (٢١) اور حدید (٢٠) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- (اس سے پہلے دنیوی زندگی اور اس کے سامان کی ناپائیداری ایک شخص اور جزوی مثال سے بیان فرمائی تھی، اب یہی مضمون عام اور کلی مثال سے واضح کیا جاتا ہے) اور آپ ان لوگوں سے دنیوی زندگی کی حالت بیان فرمائیے کہ وہ ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا ہو پھر اس (پانی سے) زمین کی نباتات خوب گنجان ہوگئی ہوں پھر وہ (بعد اس کے کہ سرسبز و تروتازہ تھی خشک ہو کر) ریزہ ریزہ ہوجائے کہ اس کو ہوا اڑائے لئے پھرتی ہو (یہی حال دنیا کا ہے کہ آج ہری بھری نظر آتی ہے کل اس کا نام و نشان بھی نہ رہے گا) اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتے ہیں (جب چاہیں ایجاد کریں ترقی دیں اور جب چاہیں فنا کردیں اور جب اس حیات دنیا کا یہ حال ہے اور) مال و اولاد حیات دنیا کی ایک رونق (اور اس کے توابع میں سے) ہے (تو خود مال و اولاد تو اور بھی زیادہ سریع الزوال ہے) اور جو اعمال صالحہ (ہمیشہ ہمیشہ کو) باقی رہنے والے ہیں وہ آپ کے رب کے نزدیک (یعنی آخرت میں اس دنیا سے) ثواب کے اعتبار سے بھی ( ہزار درجہ) بہتر ہے اور امید کے اعتبار سے بھی (ہزار درجہ) بہتر ہے (یعنی اعمال صالحہ سے جو امیدیں وابستہ ہوتی ہیں وہ آخرت میں ضرور پوری ہوں گی، اور اس کی امید سے بھی زیادہ ثواب ملے گا، بخلاف متاع دنیا کے کہ اس سے دنیا میں بھی انسانی امیدیں پوری نہیں ہوتیں، اور آخرت میں تو کوئی احتمال ہی نہیں) اور اس دن کو یاد کرنا چاہیے جس دن ہم پہاڑوں کو ( ان کی جگہ سے) ہٹا دیں گے (یہ ابتدا میں ہوگا پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے) اور آپ زمین کو دیکھیں گے کہ ایک کھلا میدان پڑا ہے (کیونکہ پہاڑ درخت، مکان کچھ باقی نہ رہے گا) اور ہم ان سب کو (قبروں سے اٹھا کر میدان حساب میں) جمع کردیں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے ( کہ وہاں نہ لایا جائے، اور سب کے سب آپ کے رب کے روبرو (یعنی موقف حساب میں) برابر کھڑے کر کے پیش کئے جائیں گے (یہ احتمال نہ رہے گا کہ کوئی کسی کی آڑ میں چھپ جائے اور ان میں جو قیامت کا انکار کرتے تھے ان سے کہا جائے گا کہ) دیکھو آخر تم ہمارے پاس (دوبارہ پیدا ہو کر) آئے بھی جیسا ہم نے تم کو پہلی بار (یعنی دنیا میں) پیدا کیا تھا (مگر تم پہلی پیدائش کا مشاہدہ کرلینے کے باوجود اس دوسری پیدائش کے قائل نہ ہوئے) بلکہ تم یہی سمجھتے رہے کہ ہم تمہارے (دوبارہ پیدا کرنے کے) لئے کوئی وقت موعود نہ لائیں گے اور نامہ عمل (خواہ داہنے ہاتھ میں یا بائیں ہاتھ میں دے کر اس کے سامنے کھلا ہوا) رکھ دیا جائے گا (جیسا کہ دوسری آیت میں (آیت) وَنُخْرِجُ لَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ كِتٰبًا يَّلْقٰىهُ مَنْشُوْرًا تو آپ مجرموں کو دیکھیں گے کہ اس میں جو کچھ (لکھا) ہوگا (اس کو دیکھ کر) اس سے (یعنی اس کی سزا سے) ڈرتے ہوں گے اور کہتے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی اس نامہ اعمال کی عجیب حالت ہے کہ بےقلمبند کئے ہوئے نہ کوئی چھوٹا گناہ چھوڑا نہ بڑا اور جو کچھ انہوں نے (دنیا میں) کیا تھا وہ سب (لکھا ہوا) موجود پائیں گے اور آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا ( کہ نہ کیا ہوا گناہ لکھ لے یا کی ہوئی نیکی جو شرائط کے ساتھی کی جائے اس کو نہ لکھے) ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاضْرِبْ لَہُمْ مَّثَلَ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا كَمَاۗءٍ اَنْزَلْنٰہُ مِنَ السَّمَاۗءِ فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ ہَشِيْمًا تَذْرُوْہُ الرِّيٰحُ ۝ ٠ۭ وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا۝ ٤٥- ضَرْبُ المَثلِ- هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ- [ الروم 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] ، - ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] ،- دنا - اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔- ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - خلط - الخَلْطُ : هو الجمع بين أجزاء الشيئين فصاعدا، سواء کانا مائعين، أو جامدین، أو أحدهما مائعا والآخر جامدا، وهو أعمّ من المزج، ويقال اختلط الشیء، قال تعالی:- فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ [يونس 24] ، ويقال للصّديق والمجاور والشّريك : خَلِيطٌ ، والخلیطان في الفقه من ذلك، قال تعالی: وَإِنَّ كَثِيراً مِنَ الْخُلَطاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ- [ ص 24] ، ويقال الخلیط للواحد والجمع، قال الشاعر :- 147-- بان الخلیط ولم يأووا لمن ترکوا«1» وقال : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً- [ التوبة 102] ، أي : يتعاطون هذا مرّة وذاک مرّة، ويقال : أخلط فلان في کلامه : إذا صار ذا تخلیط، وأخلط الفرس في جريه كذلك، وهو كناية عن تقصیره فيه .- ( خ ل ط ) الخلط - ( ن ) کے معنی دو یا دو سے زیادہ چیزوں کے اجزا کو جمع کرنے اور ملا دینے کے ہیں عام اس سے کہ وہ چیزیں سیال ہون یا جامد یا ایک مائع ہو اور دوسری جامد اور یہ مزج سے اعم ہے کہا جاتا ہے اختلط الشئی ( کسی چیز کا دوسری کے ساتھ مل جانا ) قرآن میں ہے :۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ [يونس 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ ۔۔ مل کر نکلا ۔ خلیط کے معنی دوست پڑوسی یا کاروبار میں شریک کے ہیں ۔ اسی سے کتب فقہ میں خلیطان کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کا مال اکٹھا ہو ۔ قرآن میں ہے :۔ نَّ كَثِيراً مِنَ الْخُلَطاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلى بَعْضٍ [ ص 24] اور اکثر شرکاء ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں ۔ اور خلیط کا لفظ واحد اور جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ع ( بسیط) (143) ابان الخلیط ولم یاو والمن ترکوا ساتھی جدا ہوگئے اور انہوں نے جن کو چھوڑا ان پر رحم نہ کھایا ۔ قرآن میں ہے :۔ خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کو جلا دیا تھا ۔ یعنی نیک اور بد دونوں قسم کے عمل کرتے رہے محاورہ ہے :۔ اخلط فلان فی جلامہ ( فلاں نے بکواس کی ) اخلط الفرس فی جریہ ۔ گھوڑے کا دوڑنے میں کو تا ہی کرنا ۔- نبت - النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31]- ( ن ب ت ) النبت والنبات - ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ - هشم - الْهَشْمُ : کسر الشیء الرّخو کالنّبات . قال تعالی: فَأَصْبَحَ هَشِيماً تَذْرُوهُ الرِّياحُ- [ الكهف 45] ، فَكانُوا كَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ [ القمر 31] يقال : هَشَمَ عظمه، ومنه :- هَشَمْتُ الخبز، قال الشاعر :- عمرو العلا هَشَمَ الثّريد لقومه ... ورجال مكّة مسنتون عجاف - «2» والْهَاشِمَةُ : الشّجّة تَهْشِمُ عظم الرأس، واهْتَشَمَ كلّ ما في ضرع الناقة : إذا احتلبه ويقال : تَهَشَّمَ فلان علی فلان : تعطّف .- ( ھ ش م ) الھشم ۔- اصل میں سوکھی یا نرم چیز کے توڑنے پر بولاجاتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَأَصْبَحَ هَشِيماً تَذْرُوهُ الرِّياحُ [ الكهف 45] پھر وہ چورا چورا ہوگئی کہ ہوائیں اسے اڑاتی پھرتی ہیں ۔ فَكانُوا كَهَشِيمِ الْمُحْتَظِرِ [ القمر 31] تو وہ ایسے ہوگئی جسیے باڑ والے کی سوکھی اور ٹوٹی ہوئی باڑ ۔ اور ہڈی وغیرہ ( سخت چیز ) کے توڑنے پر ھشم بولاجاتا ہے اور اسی سے ھشمت الخبز کا محاورہ ہے ۔ جس کے معنی سوکھی روٹی کو توڑ کر ثرید بنانے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے - عمرو العلا ھشم الثرید لقومہ ورجال مکۃ مسنتون عجاف عمر والعلا نے خشک سالی نے زمانہ میں اپنی قوم کو ثرید کھلایا جب کہ مکہ مکرمہ کے سردار قحط سالی کی وجہ سے دبلے ہو رہے تھے ۔ ھا شمۃ سر کا زخم جس سے کھو پڑی کی ہڈی ٹوٹ جائے ۔ اھتشم کل مافی صد ع الناقۃ اونٹنی کے پستانوں سے تمام دودھ نچوڑ لیا محاورہ ہے ۔ تھثم فلان علٰی فلان کسی پر مہر بان ہونا ۔- ذرو - ذِرْوَةُ السّنام وذُرَاه : أعلاه، ومنه قيل : أنا في ذُرَاكَ ، أي : في أعلی مکان من جنابک .- والمِذْرَوَان : طرفا الأليتين، وذَرَتْهُ الرّيح تَذْرُوهُ وتَذْرِيهِ. قال تعالی: وَالذَّارِياتِ ذَرْواً- [ الذاریات 1] ، وقال : تَذْرُوهُ الرِّياحُ [ الكهف 45] ، والذُّرِّيَّة أصلها : الصّغار من الأولاد، وإن کان قد يقع علی الصّغار والکبار معا في التّعارف، ويستعمل للواحد والجمع، وأصله الجمع، قال تعالی: ذُرِّيَّةً بَعْضُها مِنْ بَعْضٍ [ آل عمران 34] ، وقال : ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنا مَعَ نُوحٍ [ الإسراء 3] ، وقال : وَآيَةٌ لَهُمْ أَنَّا حَمَلْنا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [يس 41] ، وقال : إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] ، وفي الذُّرِّيَّة ثلاثة أقوال : قيل هو من : ذرأ اللہ الخلق «4» ، فترک همزه، نحو : رويّة وبريّة . وقیل : أصله ذرويّة .- وقیل : هو فعليّة من الذّرّ نحو قمريّة . وقال (أبو القاسم البلخيّ ) «5» : قوله تعالی: وَلَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ [ الأعراف 179] ، من قولهم : ذریت - الحنطة، ولم يعتبر أنّ الأوّل مهموز .- ( ذر و )- ذروۃ السنام وذراہ ۔ کوہان کا بلند حصہ ۔ اسی سے محاورہ ہے ان فی ذراک میں تیری جناب میں باعزت ہوں ( میں تیری پناہ میں ہوں ) المذراوان سرین کے دونوں کنارے ( ولا واحد لہ ) ذرتہ الریح تذروہ وتذریہ ۔ ہوا کا کسی چیز کو بکھیرد ینا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَالذَّارِياتِ ذَرْواً [ الذاریات 1] بکھیر نے والیوں کی قسم جو اڑا کر بکھیر دیتی ہیں ۔ تَذْرُوهُ الرِّياحُ [ الكهف 45] کہ ہوائیں اسے اڑاتی پھرتی ہیں ۔ الذریۃ کے اصل معنی چھوٹی اولاد کے ہیں مگر عرف میں مطلق اولاد پر یہ لفظ بولاجاتا ہے ۔ اصل میں یہ لفظ جمع ہے مگر واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ذُرِّيَّةً بَعْضُها مِنْ بَعْضٍ [ آل عمران 34] ان میں سے بعض بعض کی اولاد تھے ۔ ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنا مَعَ نُوحٍ [ الإسراء 3] اے ان لوگوں کی اولاد جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں ) سوار کیا تھا ۔ وَآيَةٌ لَهُمْ أَنَّا حَمَلْنا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [يس 41] اور ایک نشانی ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا ۔ إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] میں تم کو لوگوں کا پیشوا بناؤنگا ۔ انہوں نے کہا کہ پروردگار ) میری اولاد سے بھی ۔ ذریۃ کے اصل میں تین اقوال ہیں ۔ (1) بعض کے نزدیک یہ ذراء اللہ الخلق سے ہے یعنی اصل میں مہموز اللام ہے مگر کثرت استعمال کے سبب دویۃ وبریۃ کی طرح ہمزہ کو ترک کردیا گیا ہے ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں ذرویۃ بروزن فعلیہ تھا اور ذر سے مشتق ہے ۔ جیسے قریۃ قر سے (3) ابوالقاسم البلخی کہتے ہیں ۔ کہ آیت کریمہ ؛۔ وَلَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ [ الأعراف 179] اور ہم نے ۔۔ جہنم کے لئے پیدا کئے ۔ میں ذرانا ذریت الحنطۃ سے مشتق ہے جس کے معنی گندم کو اساون کرنے کے ہیں گویا وہ اسے بھی مہموز نہیں سمجھتے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٥) آپ اہل مکہ سے دنیوی زندگی کی بقاء اور فنا کی حالت بیان کیجیے جیسا کہ ہم نے آسمان سے پانی برسایا ہو، پھر اس پانی کے ذریعے سے زمین کے نباتات خوب گنجان ہوگئے ہوں پھر وہ خشک ہو کر ریزہ ریزہ ہوجائے کہ اسے ہوا میں اڑائے پھرے اور اس میں سے کچھ بھی باقی نہ رہے، یہی حالت اس دنیوی زندگی کی ہے کہ نیست ونابود ہوجائے گی اور اس میں سے کچھ بھی باقی نہیں رہے گا، اور اللہ تعالیٰ کو دنیا کے فنا اور آخرت کی بقاء پر پوری قدرت حاصل ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(وَكَان اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ مُّقْتَدِرًا)- سبزے کے اگنے اس کے نشو ونما پانے اور پھر خشک ہو کر خس و خاشاک کی شکل اختیار کرلینے کے عمل کو انسانی زندگی کی مشابہت کی بنا پر یہاں بیان کیا گیا ہے۔ بارش کے برستے ہی زمین سے طرح طرح کے نباتات نکل آتے ہیں۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے زمین سر سبز و شاداب ہوجاتی ہے۔ جب یہ سبزہ اپنے جوبن پر ہوتا ہے تو بڑا خوش کن منظر پیش کرتا ہے۔ مگر پھر جلد ہی اس پر زردی چھانے لگتی ہے اور چند ہی دنوں میں لہلہاتا ہوا سبزہ خس و خاشاک کا ڈھیر بن جاتا ہے اور زمین پھر سے چٹیل میدان کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ سبزے یا کسی فصل کے اگنے بڑھنے اور خشک ہونے کا یہ دورانیہ چند ہفتوں پر محیط ہو یا چند مہینوں پر اس کی اصل حقیقت اور کیفیت بس یہی ہے۔ - اس مثال کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو بالکل یہی کیفیت انسانی زندگی کی بھی ہے۔ جس طرح نباتاتی زندگی کا آغاز آسمان سے بارش کے برسنے سے ہوتا ہے اسی طرح روح کے نزول سے انسانی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ انسانی روح کا تعلق عالم امر سے ہے : (قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ ) ( بنی اسرائیل : ٨٥) شکم مادر میں جسد خاکی کے اندر روح پھونکی گئی بچہ پیدا ہوا خوشیاں منائی گئیں جوان اور طاقتور ہوا تمام صلاحیتوں کو عروج ملا پھر ادھیڑ عمر کو پہنچا جسم اور اس کی صلاحیتیں روز بروز زوال پذیر ہونے لگیں بالوں میں سفیدی آگئی چہرے پر جھریاں پڑگئیں موت وارد ہوئی قبر میں اتارا گیا اور مٹی میں مل کر مٹی ہوگیا۔ اس کا دورانیہ مختلف افراد کے ساتھ مختلف سہی مگر انسانی زندگی کے آغاز و انجام کی حقیقت بس یہی کچھ ہے۔ چناچہ انسان کو یہ بات کسی وقت نہیں بھولنی چاہیے کہ دنیا کا عرصۂ حیات ایک وقفۂ امتحان ہے جسے ہر انسان اپنے اپنے انداز میں گزار رہا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :41 یعنی وہ زندگی بھی بخشتا ہے اور موت بھی ۔ وہ عروج بھی عطا کرتا ہے اور زوال بھی ۔ اس کے حکم سے بہار آتی ہے تو خزاں بھی آجاتی ہے ۔ اگر آج تمہیں عیش اور خوشحالی میسر ہے تو اس غرے میں نہ رہو کہ یہ حالت لازوال ہے ۔ جس خدا کے حکم سے یہ کچھ تمہیں ملا ہے اسی کے حکم سے سب کچھ تم سے چھن بھی سکتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

25: جس طرح یہ سبزہ ناپائیدار ہے کہ شروع میں اس کی خوب بہار نظر آتی ہے لیکن آخر کار وہ چورا چورا ہو کر ہوا میں بکھر جاتا ہے، اسی طرح دنیوی زندگی بھی شروع میں بڑی خوبصورت اور بارونق معلوم ہوتی ہے، لیکن انجام کار وہ فنا ہوجانے والی ہے۔