46۔ 1 اس میں اہل ایمان دنیا کا اور جو دنیا کے مال اسباب، قبیلہ اور خاندان اور آل اولاد پر فخر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یہ چیزیں تو دنیا فانی کی عارضی زینت ہیں۔ آخرت میں یہ چیزیں کچھ کام نہیں آئیں گی۔ اسی لئے اسے آگے فرمایا کہ آخرت میں کام آنے والے عمل وہ ہیں جو باقی رہنے والے ہیں۔ 46۔ 2 باقیات صالحات (باقی رہنے والی نییکیاں) کون سی یا کون کون سی ہیں ؟ کسی نے نماز کو، کسی نے تحمید و تسبیح اور تکبیر و تہلیل کو اور کسی نے اعمال خیر کو مصداق قرار دیا۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ عام ہے اور تمام نیکیوں کو شامل ہے۔ تمام فرائض و واجبات اور سنن و نوافل سب باقیات صالحات ہیں بلکہ برے کاموں سے اجتناب بھی ایک عمل صالح ہے، جس پر عند اللہ اجر وثواب کی امید ہے۔
[٤٢] باقیات صالحات :۔ یہ مال و دولت اور بیٹے وغیرہ انسان کے لیے دلچسپی کا سامان ضرور ہیں لیکن ان چیزوں پر ایسا فریفتہ نہ ہونا چاہیے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو اور اخروی زندگی کو بھول ہی جائے اور انہی چیزوں پر تکیہ کر بیٹھے بلکہ اسے ایسی چیزوں پر امید وابستہ رکھنی چاہیے جو فنا ہونے والی نہیں بلکہ باقی رہنے والی ہیں اور وہ اس کے نیک اعمال ہیں جن کا بدلہ بھی بہت اچھا ملے گا اور ان پر توقع بھی لگائی جاسکتی ہے اور آپ نے فرمایا کہ یہ کلمات : (سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا الّٰہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ) باقیات صالحات ہیں۔ بعض دفعہ انسان ایسے نیک اعمال کی داغ بیل ڈال جاتا ہے کہ بعد میں مدتوں لوگ اس سے مستفیض ہوتے رہتے ہیں ایسے اعمال کا اجر اسے اس کی موت کے بعد بھی ملتا رہتا ہے جیسے کوئی شخص نیک اولاد چھوڑ جائے جو اس کے حق میں دعا کرتی رہے یا کوئی دینی مدرسہ قائم کر جائے جب تک اس میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رہے گا اس کو حصہ رسدی ثواب پہنچتا رہے گا یا کوئی رفاہ عامہ کا کام کر جائے جیسے کنواں یا سرائے، ہسپتال یا باغ یا کوئی اور چیز عام لوگوں کے فائدہ کے لیے وقف کر جائے (مسلم کتاب الوصیۃ باب م اے لحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ) یہی چیزیں اس لائق ہیں جن میں انسان کو اپنی کوششیں صرف کرنا چاہییں۔ دنیا کی فانی چیزوں میں مستغرق نہ ہونا چاہیے۔
اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ ۔۔ : اس آیت سے مقصود لوگوں کو نیک اعمال کی طرف توجہ دلانا ہے، تاکہ وہ باقی رہنے والے نیک اعمال کو چھوڑ کر، جو آخرت میں کام آنے والے ہیں، محض دنیا کی زندگی کی زینت والی چیزوں میں مشغول نہ رہیں، کیونکہ دنیا کی زندگی بےثبات اور عارضی ہے، جیسا کہ پچھلی آیت میں مثال سے واضح فرمایا، تو اس کی چمک دمک اور زینت اس سے بھی زیادہ بےثبات اور عارضی ہے۔ سو باقی کو فانی پر ترجیح دینا ہی کامیابی ہے۔ اس آیت میں مال اور بیٹوں ہی کا ذکر فرمایا، کیونکہ مال میں انسان کی ملکیت کی ہر چیز آجاتی ہے، مکان، مویشی اور سونا چاندی وغیرہ۔ دوسری آیات میں ان کی تفصیل اور ان کا فتنہ و آزمائش ہونا تفصیل سے ذکر فرمایا، دیکھیے آل عمران (١٤، ١٥) ، منافقون (٩) اور تغابن (١٤، ١٥) ۔- وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ : ان الفاظ میں وہ تمام نیک اعمال آجاتے ہیں جو اللہ کو راضی کرنے والے ہیں اور ان کا اجر قیامت کے دن کے لیے باقی ہے۔ عثمان (رض) سے پوچھا گیا کہ ” الْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ “ کیا ہیں ؟ تو انھوں نے فرمایا : ( لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَ سُبْحَان اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا باللّٰہِ ) [ مسند أحمد : ١؍٧١، ح : ٥١٥ ] ” الْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ “ کا ایک خاص مفہوم بھی ہے، یعنی وہ اعمال جن کا ثواب آدمی کو فوت ہونے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا مَاتَ الإِْنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَۃٍ : إِلَّا مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ ، أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہِ ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہُ ) [ مسلم، الوصیۃ، باب ما یلحق الإنسان من الثواب بعد وفاتہ : ١٦٣١ ] ” جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کا عمل اس سے منقطع ہوجاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے، ایک وہ صدقہ جو جاری رہنے والا ہو (مثلاً مسجد، شفا خانہ، کنواں وغیرہ) ، ایک وہ علم جس سے نفع اٹھایا جائے (مثلاً تدریس، تصنیف، تبلیغ وغیرہ) اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے (یا شاگرد وغیرہ جو دعا کرتے رہیں) ۔ “ سلمان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( رِبَاطُ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ خَیْرٌ مِنْ صِیَامِ شَھْرٍ وَقِیَامِہِ ، وَإِنْ مَاتَ ، جَرَی عَلَیْہِ عَمَلُہُ الَّذِيْ کَانَ یَعْمَلُہُ ، وَأُجْرِيَ عَلَیْہِ رِزْقُہُ ، وَأَمِنَ الْفَتَّانَ ) [ مسلم، الإمارۃ، باب فضل الرباط في سبیل اللہ عز وجل : ١٩١٣۔ ترمذي : ١٦٦٥۔ نساءي : ٣١٦٩، ٣١٧٠ ] ” اللہ کے راستے میں ایک دن اور ایک رات کا رباط (سرحد پر دشمن کے مقابلے کے لیے رہنا) ایک ماہ کے روزے اور اس کے قیام سے بہتر ہے، پھر اگر وہ فوت ہوجائے تو اس کا وہ عمل اس کے لیے جاری رکھا جاتا ہے جو وہ کرتا تھا اور اس کے لیے اس کا رزق جاری رکھا جاتا ہے اور آزمائش کرنے والوں (منکر و نکیر) سے امن میں رہتا ہے۔ “ مسلم میں ایک دن اور ایک رات کے لفظ ہیں اور اس میں ” فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ “ کے الفاظ نہیں ہیں۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ جاریہ، تعلیم دین، دعا کرنے والی اولاد صالح اور جہاد فی سبیل اللہ خاص باقیات صالحات ہیں، جن کا ثواب مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے۔- خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ کے ہاں ان اعمال کا بدلہ تیرے رب کے ہاں تمام بدلوں سے بہتر ہے اور ان کے اجر کی امید بھی سب امیدوں سے بہتر ہے۔
معارف و مسائل :- وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ مسند احمد، ابن حبان اور حاکم نے بروایت حضرت ابوسعید خدری (رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ باقیات صالحات کو زیادہ سے زیادہ جمع کیا کرو، عرض کیا گیا کہ وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا سبحان اللہ لا الہ الا اللہ الحمد للہ اللہ اکبر ولاحول ولا قوۃ الا باللہ کہنا حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے، اور عقیلی نے حضرت نعمان بن بشیر (رض) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ سبحان اللہ والحمد للہ ولآالہ الا اللہ واللہ اکبر یہی باقیات صالحات ہیں، یہی مضمون طبرانی نے بروایت حضرت سعد بن عبادہ بھی روایت کیا ہے، اور صحیح مسلم و ترمذی نے حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ کلمہ یعنی سبحان اللہ والحمد للہ ولآالہ الا اللہ واللہ اکبر میرے نزدیک ان تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر آفتاب کی روشنی پڑتی ہے، یعنی سارے جہان سے۔- اور حضرت جابر (رض) نے فرمایا کہ لاحول ولا قوۃ الا باللہ بکثرت پڑھا کرو کیونکہ یہ ننانوے باب بیماری اور تکلیف کے دور کردیتا ہے، جن میں سب سے کم درجہ کی تکلیف ہم یعنی فکر و غم ہے۔- اسی لئے اس آیت میں لفظ باقیات صالحات کی تفسیر حضرت ابن عباس (رض) ، عکرمہ، مجاہد نے یہی کی ہے کی مراد اس سے یہی کلمات پڑھنا ہے، اور سعید بن جبیر، مسروق اور ابراہیم نے فرمایا کی باقیات صالحات سے پانچ نمازیں مراد ہیں۔- اور حضرت ابن عباس (رض) سے ایک دوسری روایت میں یہ ہے کہ آیت میں باقیات صالحات سے مراد مطلق اعمال صالحہ ہیں جن میں یہ کلمات مذکورہ بھی داخل ہیں، پانچوں نمازیں بھی اور دوسرے تمام نیک اعمال بھی، حضرت قتادہ (رض) سے بھی یہی تفسیر منقول ہے (مظہری)- الفاظ قرآن کے مطابق بھی یہی ہے کیونکہ ان الفاظ کا لفظی مفہوم وہ اعمال صالحہ ہیں جو باقی رہنے والے ہیں، اور یہ ظاہر ہے کہ اعمال صالحہ سب ہی اللہ کے نزدیک باقی اور قائم ہیں ابن جریر طبری اور قرطبی نے اسی تفسیر کو ترجیح دی ہے۔- حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ کھیتی دو قسم کی ہوتی ہے، دنیا کی کھیتی تو مال و اولاد ہے، اور آخرت کی کھیتی باقیات صالحات ہیں، حضرت حسن بصری نے فرمایا کہ باقیات صالحات انسان کی نیت اور ارادہ ہیں کی اعمال صالحہ کی قبولیت اس پر موقوف ہے۔- اور عبید ابن عمر نے فرمایا کہ باقیات صالحات نیک لڑکیاں ہیں کہ وہ اپنے والدین کے لئے سب سے بڑا ذخیرہ ثواب ہیں، اس پر حضرت صدیقہ عائشہ کی ایک روایت دلالت کرتی ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے، کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنی امت کے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کو جہنم میں لے جانے کا حکم دے دیا گیا، تو اس کی نیک لڑکیاں اس کو چمٹ گئیں اور رونے اور شور کرنے لگیں، اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کی کہ اے اللہ انہوں نے دنیا میں ہم پر بڑا احسان کیا، اور ہماری تربیت میں محنت اٹھائی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس پر رحم فرما کر بخش دیا (قرطبی)
اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَۃُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا ٠ۚ وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ اَمَلًا ٤٦- ميل - المَيْلُ : العدول عن الوسط إلى أَحَد الجانبین،- والمَالُ سُمِّي بذلک لکونه مائِلًا أبدا وزَائلا،- ( م ی ل ) المیل - اس کے معنی وسط سے ایک جانب مائل ہوجانے کے ہیں - اور المال کو مال اس لئے کہا جاتا ہے ۔ کہ وہ ہمیشہ مائل اور زائل ہوتا رہتا ہے ۔ - ( ابْنُ )- أصله : بنو، لقولهم في الجمع :- أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر - أولاک بنو خير وشرّ كليهما - وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] - وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ .- الابن ۔- یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔- زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - بقي - البَقَاء : ثبات الشیء علی حاله الأولی، وهو يضادّ الفناء،- وعلی هذا قوله : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود 86] - ( ب ق ی ) البقاء - کے معنی کسی چیز کے اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں یہ فناء کی ضد ہے ۔ یہ باب بقی ( س) یبقی بقاء ہے ۔ یہی معنی آیت کریمہ : بَقِيَّتُ اللَّهِ خَيْرٌ لَكُمْ [هود 86] ، میں بقیۃ اللہ کے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف مضاف ہے ۔ - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔
(٤٦) اس کے بعد دنیا کے ساز و سامان کا تذکرہ فرماتا ہے کہ اولاد یہ سب حیات دنیا کی ایک رونق ہے جیسا کہ گھاس پھوس میں سے کچھ باقی نہیں رہتا اسی طرح ان میں سے بھی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی،- اور پانچویں نمازیں اور باقیات سے مراد وہ نیکیاں ہیں جن کا ثواب ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے اور صالحات سے مراد ( آیت) ” سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر “۔ ہے، یہ چیزیں آپ کے پروردگار کے نزدیک ثواب کے اعتبار سے بھی ہزار درجہ بہتر ہیں اور امید کے اعتبار سے بھی یعنی اعمال صالحہ مثلا نماز پر جو بندوں کو امیدیں ہوتی ہیں وہ آخرت میں پوری ہوں گی۔
آیت ٤٦ (اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَةُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا)- اس سورت میں دنیوی زندگی کی زیب وزینت کا ذکر یہاں تیسری مرتبہ آیا ہے۔ اس سے پہلے ہم آیت ٧ میں پڑھ آئے ہیں کہ روئے زمین کی آرائش و زیبائش اور تمام رونقیں انسانوں کے امتحان کے لیے بنائی گئی ہیں : (اِنَّاجَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا) پھر آیت ٢٨ میں رسول اللہ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا : (تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا) کہ اے نبی کہیں ان لوگوں کو یہ گمان نہ ہو کہ آپ کا مطلوب و مقصود بھی دنیوی زندگی کی آرائش و زیبائش ہی ہے (معاذ اللہ ) ۔ گویا یہ موضوع اس سورت کے مضامین کا عمود ہے۔ لہٰذا یہ حقیقت ہر وقت ہمارے ذہن میں مستحضر رہنی چاہیے کہ یہ زندگی اور دنیوی مال و متاع سب عارضی ہیں۔ یہاں کے رشتے ناطے اور تمام تعلقات بھی اسی چار روزہ زندگی تک محدود ہیں۔ انسان کی آنکھ بند ہوتے ہی تمام رشتے اور تعلقات منقطع ہوجائیں گے اور اللہ کی عدالت میں ہر انسان کو تن تنہا پیش ہونا ہوگا : (وَکُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا) ( مریم) وہاں نہ باپ اولاد کی مدد کرے گا نہ بیٹا والدین کو سہارا دے گا اور نہ بیوی شوہر کا ساتھ دے گی۔ اس دن کے محاسبے کا سامنا ہر شخص کو اکیلے ہی کرنا ہوگا۔- (وَالْبٰقِيٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّخَيْرٌ اَمَلًا)- اس مختصر زندگی کی کمائی میں اگر کسی چیز کو بقا حاصل ہے تو وہ نیک اعمال ہیں۔ آخرت میں صرف وہی کام آئیں گے۔ چناچہ دنیوی مال و اسباب سے امیدیں نہ لگاؤ اولاد سے توقعات مت وابستہ کرو۔ یہ سب عارضی چیزیں ہیں جو تمہاری موت کے ساتھ ہی تمہارے لیے بےوقعت ہوجائیں گی۔ آخرت کا سہارا چاہیے تو نیک اعمال کا توشہ جمع کرو اور اسی پونجی سے اپنی امیدیں وابستہ کرو۔
26: دنیا کے مال و اسباب سے امیدیں لگا کر بیٹھو تو ایک وقت وہ دھوکا دے جاتے ہیں، لیکن نیک اعمال جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کیے جائیں، ان سے ثواب کی جو امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں۔ وہ پوری ہوتی ہیں۔