Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سب کے سب میدان حشر میں اللہ تعالیٰ قیامت کی ہولناکیوں کا ذکر فرما رہا ہے اور جب تعجب خیز بڑے بڑے کام اس دن ہوں گے ان کا ذکر کر رہا ہے کہ آسمان پھٹ جائے گا گو تمہیں جمے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس دن تو بادلوں کی طرح تیزی سے چل رہے ہوں گے ۔ آخر روئی کے گالوں کی طرح ہو جائیں گے زمین صاف چٹیل میدان ہو جائے گی جس میں کوئی اونچ نیچ تک باقی نہ رہے گی نہ اس میں کوئی مکان ہو گا نہ چھپر ۔ ساری مخلوق بغیر کسی آڑ کے اللہ کے بالکل سامنے ہو گی ۔ کوئی بھی مالک سے کسی جگہ چھپ نہ سکے گا کوئی جائے پناہ یا سر چھپانے کی جگہ نہ ہو گی ۔ کوئی درخت پتھر گھاس پھوس دکھائی نہ دے گا تمام اول و آخر کے لوگ جمع ہوں گے کوئی چھوٹا بڑا غیر حاضر نہ ہو گا تمام اگلے پچھلے اس مقرر دن جمع کئے جائیں گے ، اس دن سب لوگ حاضر شدہ ہوں گے اور سب موجود ہوں گے ۔ تمام لوگ اللہ کے سامنے صف بستہ پیش ہوں گے روح اور فرشتے صفیں باندھے ہوئے کھڑے ہوں گے کسی کو بات کرنے کی بھی تاب نہ ہو گی کہ دیکھو جس طرح ہم نے تمہیں اول بار پیدا کیا تھا اسی طرح دوسری بار پیدا کر کے اپنے سامنے کھڑا کر لیا اس سے پہلے تو تم اس کے قائل نہ تھے ۔ نامہ اعمال سامنے کر دیئے جائیں گے اور افسوس و رنج سے کہیں گے کہ ہائے ہم نے اپنی عمر کیسی غفلت میں بسر کی ، افسوس بد کرداریوں میں لگے رہے اور دیکھو تو اس کتاب نے ایک معاملہ بہی ایسا نہیں چھوڑا جسے لکھا نہ ہو چھوٹے بڑے تمام گناہ اس میں لکھے ہوئے ہیں ۔ طبرانی میں ہے کہ غزوہ حنین سے فارغ ہو کر ہم چلے ، ایک میدان میں منزل کی ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا جاؤ جسے کوئی لکڑی ، کوئی کوڑا ، کوئی گھاس پھوس مل جائے لے آؤ ہم سب ادھر ادھر ہو گئے چپٹیاں ، چھال ، لکڑی ، پتے ، کانٹے ، جرخت ، جھاڑ ، جھنکاڑ جو ملا لے آئے ۔ ڈھیر لگ گیا تو آپ نے فرمایا دیکھ رہے ہو ؟ اسی طرح گناہ جمع ہو کر ڈھیر لگ جاتا ہے اللہ سے ڈرتے رہو ، چھوٹے بڑے گناہوں سے بچو کیونکہ سب لکھے جا رہے ہیں اور شمار کئے جا رہے ہیں جو خیر و شر بھلائی برائی جس کسی نے کی ہو گی اسے موجود پائے گا جیسے آیت ( يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا 30؀ۧ ) 3-آل عمران:30 ) اور آیت ( يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَىِٕذٍۢ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ 13؀ۭ ) 75- القيامة:13 ) اور آیت ( يَوْمَ تُبْلَى السَّرَاۗىِٕرُ Ḍ۝ۙ ) 86- الطارق:9 ) میں ہے تمام چھپی ہوئی باتیں ظاہر ہو جائیں گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہی ہر بدعہد کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا اس کی بدعہدی کے مطابق جس سے اس کی پہچان ہو جائے ۔ اور حدیث میں ہے کہ یہ جھنڈا اس کی رانوں کے پاس ہو گا اور اعلان ہو گا کہ یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی ہے ۔ تیرا رب ایسا نہیں کہ مخلوق میں سے کسی پر بھی ظلم کرے ہاں البتہ درگزر کرنا ، معاف فرما دینا ، عفو کرنا ، یہ اس کی صفت ہے ۔ ہاں بدکاروں کو اپنی قدرت و حکمت عدل و انصاف سے وہ سزا بھی دیتا ہے جہنم گنہگاروں اور نافرمانوں سے بھر جائے پھر کافروں اور مشرکوں کے سوا اور مومن گنہگار چھوٹ جائیں گے اللہ تعالیٰ ایک ذرے کے برابر بھی ناانصافی نہیں کرتا نیکیوں کو بڑھاتا ہے گناہوں کو برابر ہی رکھتا ہے عدل کا ترازو اس دن سامنے ہو گا کسی کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہ ہو گی ، الخ ۔ مسند احمد میں ہے حضرت جابر عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے روایت پہنچی کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی ہے جو وہ بیان کرتے ہیں میں نے اس حدیث کو خاص ان سے سننے کے لئے ایک اونٹ خریدا سامان کس کر سفر کیا مہینہ بھر کے بعد شام میں ان کے پاس پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔ میں نے دربان سے کہا جاؤ خبر کرو کہ جابر دروازے پر ہے انہوں نے پوچھا کیا جابر بن عبداللہ ؟ ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) میں نے کہا جی ہاں ۔ یہ سنتے ہیں ، جلدی کے مارے چادر سنبھالتے ہوئے جھٹ سے باہر آ کئے اور مجھے لپٹ گئے معانقہ سے فارغ ہو کر میں نے کہا مجھے یہ روایت پہنچی کہ آپ نے قصاص کے بارے میں کوئی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے تو میں نے چاہا کہ خود آپ سے میں وہ حدیث سن لوں اس لئے یہاں آیا اور سنتے ہی سفر شروع کر دیا اس خوف سے کہ کہیں اس حدیث کے سننے سے پہلے مر نہ جاؤں یا آپ کو موت نہ آ جائے اب آپ سنائیے وہ حدیث کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ عز و جل قیامت کے دن اپنے تمام بندوں کا اپنے سامنے حشر کرے گا ، ننگے بدن ، بےختنہ ، بےسر و سامان پھر انہیں ندا کرے گا جسے دور نزدیک والے سب یکساں سنیں گے فرمائے گا کہ میں مالک ہوں میں بدلے دلوانے والا ہوں کوئی جہنمی اس وقت تک جہنم میں نہ جائے گا جب تک اس کا جو حق کسی جنتی کے ذمہ ہو میں نہ دلوا دوں اور نہ کوئی جنتی جنت میں داخل ہو سکتا ہے جب تک اس کا حق جو جہنمی پر ہے میں دلوا دوں گو ایک تھپڑ ہی ہو ۔ ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ حق کیسے دلوائے جائیں گے حالانکہ ہم سب تو وہاں ننگے پاؤں ، ننگے بدن ، ننگے بدن ، بےمال و اسباب ہوں گے ۔ آپ نے فرمایا ہاں اس دن حق نیکیوں اور برائیوں سے ادا کئے جائیں گے ۔ اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگوں دار بکری نے مارا ہے تو اس سے بھی اس کو بدلہ دلوایا جائے گا اس کے اور بھی بہت شاہد ہیں جنہیں ہم نے بالتفصیل آیت ( وَنَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَـيْــــــًٔا 47؀ ) 21- الأنبياء:47 ) کی تفسیر میں اور آیت ( اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۭمَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ 38؀ ) 6- الانعام:38 ) کی تفسیر میں بیان کئے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 یہ قیامت کی ہولناکیاں اور بڑے بڑے واقعات کا بیان ہے۔ پہاڑوں کو چلائیں گے کا مطلب، پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے اور دھنی ہوئی روئی کی طرح اڑ جائیں گے اور پہاڑ ایسے ہونگے جیسے دھنکی ہوئی رنگین اون، زمین سے جب پہاڑ جیسی مضبوط چیزیں ختم ہوجائیں گی، تو مکانات، درخت اور اسی طرح کی دیگر چیزیں کس طرح وجود برقرار رکھ سکیں گی ؟ اسی لئے آگے فرمایا و زمین کو صاف کھلی ہوئی دیکھے گا 47۔ 2 یعنی اولین و آخرین، چھوٹے بڑے، کافر و مومن سب کو جمع کریں گے، کوئی زمین کی تہ میں پڑا نہ رہ جائے گا اور نہ قبر سے نکل کر کسی جگہ چھپ سکے گا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٣] یعنی پہاڑوں جیسی سخت چیزوں پر اللہ کا قانون زوال جاری وساری ہوگا وہ بھی اپنی جگہ سے اکھڑ کر فضا میں یوں اڑتے پھریں گے جیسے بادل اڑتے پھرتے ہیں (٢٧: ٨٨) زمین کے سب نشیب و فراز ہموار ہوجائیں گے زمین بالکل چٹیل میدان کی طرح بن جائے گی یہی یوم حشر ہوگا جس میں تمام لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا اور کوئی متنفس اس حشر سے بچ نہ سکے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ ۔۔ : ” يَوْمَ “ ” أُذْکُرْ “ محذوف کی وجہ سے منصوب ہے۔ دنیا کی بےثباتی اور آخرت کے اجر کی پائیداری کی مناسبت سے اب قیامت کے دن کا ذکر فرمایا، یعنی اس دن کو یاد کیجیے جب پہاڑوں کو چلایا جائے گا اور وہ مختلف حالتوں سے گزرتے ہوئے آخر سراب کی طرح رہ جائیں گے، زمین کے سمندر، پہاڑ اور اونچی نیچی تمام جگہیں ہموار ہوجائیں گی اور پوری زمین پر نگاہ کے لیے کوئی رکاوٹ یا اوٹ باقی نہیں رہے گی۔ پہاڑوں پر گزرنے والی کیفیات کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نبا (٢٠) ، حاقہ (١٣ تا ١٥) ، طور (٩، ١٠) ، تکویر (٣) ، نمل (٨٨) ، معارج (٨، ٩) ، قارعہ (٤، ٥) ، مزمل (١٤) اور واقعہ (٥، ٦) زمین کے ہموار ہونے کے ذکر کے لیے دیکھیے سورة طٰہٰ (١٠٥ تا ١٠٧) ۔ - وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا : اللہ تعالیٰ پہلے اور پچھلے سب لوگوں کو اکٹھا کرے گا، کسی کو باقی نہیں چھوڑے گا۔ دیکھیے سورة واقعہ (٤٩، ٥٠) دوسرے مقام پر وضاحت فرمائی کہ اس حشر میں جن و انس کے علاوہ دوسری تمام مخلوقات بھی شامل ہوں گی، چناچہ فرمایا : وَمَا مِنْ دَاۗبَّةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُكُمْ ۭمَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ اِلٰى رَبِّهِمْ يُحْشَرُوْنَ ) [ الأنعام : ٣٨ ] ” اور زمین میں کوئی چلنے والا جان دار نہیں اور نہ کوئی پرندہ ہے جو اپنے دو پروں سے اڑتا ہے مگر تمہاری طرح امتیں ہیں، ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی، پھر وہ اپنے رب کی طرف اکٹھے کیے جائیں گے۔ “ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقُ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ ) [ مسلم، البر والصلۃ، باب تحریم الظلم : ٢٥٨٢ ] ” قیامت کے دن حق والوں کو ان کے حقوق ہر صورت ادا کیے جائیں گے، حتیٰ کہ بغیر سینگ والی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَۃً۝ ٠ۙ وَّحَشَرْنٰہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ اَحَدًا۝ ٤٧ۚ- سير - السَّيْرُ : المضيّ في الأرض، ورجل سَائِرٌ ، وسَيَّارٌ ، والسَّيَّارَةُ : الجماعة، قال تعالی: وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ، يقال : سِرْتُ ، وسِرْتُ بفلان، وسِرْتُهُ أيضا، وسَيَّرْتُهُ علی التّكثير - ( س ی ر ) السیر - ( ض) کے معنی زمین پر چلنے کے ہیں اور چلنے والے آدمی کو سائر وسیار کہا جاتا ہے ۔ اور ایک ساتھ چلنے والوں کی جماعت کو سیارۃ کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَجاءَتْ سَيَّارَةٌ [يوسف 19] ( اب خدا کی شان دیکھو کہ اس کنویں کے قریب ) ایک قافلہ دار ہوا ۔- جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - برز - البَرَاز : الفضاء، وبَرَزَ : حصل في براز، وذلک إمّا أن يظهر بذاته نحو : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً- [ الكهف 47] تنبيها أنه تبطل فيها الأبنية وسكّانها، ومنه : المبارزة للقتال، وهي الظهور من الصف، قال تعالی: لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] ، وقال عزّ وجلّ : وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة 250] ، وإمّا أن يظهر بفضله، وهو أن يسبق في فعل محمود، وإمّا أن ينكشف عنه ما کان مستورا منه، ومنه قوله تعالی: وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم 48] ، وقال تعالی: يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر 16] ، وقوله : عزّ وجلّ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] تنبيها أنهم يعرضون عليها، ويقال : تَبَرَّزَ فلان، كناية عن التغوّط «1» . وامرأة بَرْزَة «2» ، عفیفة، لأنّ رفعتها بالعفة، لا أنّ اللفظة اقتضت ذلك .- ( ب رز ) البراز - کے معنی فضا یعنی کھلی جگہ کے ہیں ۔ اور برزرن کے معنی ہیں کھلی جگہ میں چلے جانا اور برود ( ظہور ) کئی طرح پر ہوتا ہے - ( 1) خود کسی چیز کا ظاہر ہوجانا - جیسے فرمایا : وَتَرَى الْأَرْضَ بارِزَةً [ الكهف 47] اور تم زمین کو صاف یہاں دیکھو گے ۔ اس میں تنبیہ ہے کہ زمین پر سے عمارات اور ان کے ساکنین سب ختم ہوجائیں گے اسی سے مبارزۃ ہے جسکے معنی صفوف جنگ سے آگے نکل کر مقابلہ کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ [ آل عمران 154] تو جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے ۔ وَلَمَّا بَرَزُوا لِجالُوتَ وَجُنُودِهِ [ البقرة 250] اور جب وہ لوگ جالوت اور اس کے لشکر کے بالمقابل میں آئے - ۔ ( 2) دوم بروز کے معنی فضیلت ظاہر ہونے کے ہیں - جو کسی محمود کام میں سبقت لے جانے سے حاصل ہوتی ہے - ۔ ( 3 ) کسی مستور چیز کا منکشف ہو کر سامنے آجانا - جیسے فرمایا : وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْواحِدِ الْقَهَّارِ [إبراهيم 48] اور سب لوگ خدائے یگا نہ زبردست کے سامنے نکل کھڑے ہوں گے ۔ وَبَرَزُوا لِلَّهِ جَمِيعًا ( سورة إِبراهيم 21) اور قیامت کے دن سب لوگ خدا کے سامنے کھڑے ہونگے ۔ يَوْمَ هُمْ بارِزُونَ [ غافر 16] جس روز وہ نکل پڑیں گے ۔ اور آیت کریمہ : وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِلْغاوِينَ [ الشعراء 91] اور دوزخ گمراہوں کے سامنے لائی جائے گی میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے کہ انہیں دو زخ کے سامنے لایا جائیگا محاورہ ہے تبرز فلان کنایہ از قضائے حاجت اور پاکدامن عورت کو امراءۃ برزۃ کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی رفعت پاک دامنی اور عفت میں مضمر ہوتی ہے نہ یہ کہ برزۃ کا لفظ اس معنی کا مقتضی ہے ۔- حشر - ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔- غدر - الغَدْرُ : الإخلال بالشیء وترکه، والْغَدْرُ يقال لترک العهد، ومنه قيل : فلان غَادِرٌ ، وجمعه :- غَدَرَةٌ ، وغَدَّارٌ: كثير الْغَدْرِ ، والْأَغْدَرُ والْغَدِيرُ : الماء الذي يُغَادِرُهُ السّيل في مستنقع ينتهي إليه، وجمعه : غُدُرٌ وغُدْرَانٌ ، واسْتَغْدَرَ الْغَدِيرُ : صار فيه الماء، والْغَدِيرَةُ : الشّعر الذي ترک حتی طال، وجمعها غَدَائِرُ ، وغَادَرَهُ : تركه . قال تعالی: لا يُغادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصاها - [ الكهف 49] ، وقال : فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً- [ الكهف 47] ، وغَدِرَتِ الشاة :- تخلّفت فهي غَدِرَةٌ ، وقیل للجحرة واللّخافیق «1» التي يُغَادِرُهَا البعیر والفرس غائرا : غَدَرٌ «2» ، ومنه قيل : ما أثبت غَدَرَ هذا الفرس، ثم جعل مثلا لمن له ثبات، فقیل : ما أثبت غَدَرَهُ «3» .- ( غ د ر ) الغدر - ( ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز میں خلل واقع کرنے اور اسے چھوڑ دینے کے ہیں اور ترک العھد یعنی بےوفائی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اسی سے فلان غادر ( بےفعا ٰ ) کا محاورہ ہے غادر کی جمع غدرۃ ہے ۔ اور بہت بڑے بےوفا اور عہد شکن کو غدا کہا جاتا ہے الاغدروالغدیر اس پانی کو کہتے ہیں جو سیلاب کسی جوہڑ میں چھوڑ جازئے غدیر کی جمع غدران وغدر آتی ہے اور استغدارالغدر کے معنی ہیں تالاب میں پانی جمع ہوگیا ۔ غدیر ۃ لمبے بال گیسو بافتہ اس کی جمع الغدائر ہے اور غادرہ کے معنی ہیں اس نے اسے چھوڑ دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا يُغادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصاها[ الكهف 49] نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے نہ بڑی ( کوئی بات بھی نہیں مگر اسے لکھ رکھا ہے ۔ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف 47] تو ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے ۔ غدرت الشاہ ( عن الغنم ) کے معنی بکری کے دوسری بکریوں سے پیچھے رہ جانا کے ہیں اس سے صیغہ صفت فاعلی غدرۃ ہے اور غدرۃ ہے اور غدر اس سنگ زار زمین کو کہتے ہیں جس میں عرصہ دراز تک ویران پڑا رہنے کی وجہ سے سوراخ پڑگئے ہوں اور اس میں اونٹ یا گھوڑا چلے تو لنگڑا ہوجائے اسی سے محاورہ ہے مااثبت غدر حذا لفرس ( کہ یہ گھوڑا کسی قدر ثابت قدم ہے مااثبت غدرہ وہ کسی قدر ثابت قدم ہے یہ اس شخص کے حق میں بولتے ہیں جو لغزش کے موقعہ پر ثابت قدم رہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٧) اور جس دن ہم پہاڑوں کو زمین پر سے ہٹا دیں گے اور آپ زمین کو دیکھیں گے کہ پہاڑوں کے نیچے سے کھلا میدان ہے اور ہم سب کو قبروں سے اٹھا کر میدان حشر میں جمع کردیں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٧ (وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبَالَ وَتَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً )- اب قیامت کا نقشہ کھینچا جا رہا ہے کہ اس دن پہاڑ اپنی جگہ چھوڑدیں گے زمین کے تمام نشیب و فراز ختم ہوجائیں گے اور پورا کرۂ ارض ایک صاف چٹیل میدان کی شکل اختیار کرلے گا۔- (وَّحَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًا)- حضرت آدم سے لے کر آخری انسان تک پیدا ہونے والے نوع انسانی کے تمام افراد کو اس دن اکٹھا کرلیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :42 یعنی جبکہ زمین کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی اور پہاڑ اس طرح چلنے شروع ہونگے جیسے بادل چلتے ہیں ۔ اس کیفیت کو ایک دوسرے مقام پر قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُھَا جَامِدَۃً وَّھِیَ تَمُرُّ مَرَّالسَّحَابِ ( النحل ۔ آیت ۸۸ ) ۔ تم پہاڑوں کو دیکھتے ہو اور سمجھتے ہو کہ یہ سخت جمے ہوئے ہیں ۔ مگر وہ چلیں گے اس طرح جیسے بادل چلتے ہیں ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :43 یعنی اس پر کوئی روئیدگی اور کوئی عمارت باقی نہ رہے گی ، بالکل ایک چٹیل میدان بن جائے گی ۔ یہ وہی بات ہے جو اس سورے کے آغاز میں ارشاد ہوئی تھی کہ جو کچھ اس زمین پر ہے اسے ہم نے لوگوں کی آزمائش کے لیے ایک عارضی آرائش بنایا ہے ۔ ایک وقت آئے گا جب یہ بالکل ایک بے آب و گیاہ صحرا بن کر رہ جائے گی ۔ سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :44 یعنی ہر انسان جو آدم سے لے کر قیامت کی آخری ساعت تک پیدا ہوا ہے ، خواہ ماں کے پیٹ سے نکل کر اس نے ایک ہی سانس لیا ہو ، اس وقت دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور سب کو ایک وقت میں جمع کر دیا جائے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

27: قرآن کریم کی آیات کو سامنے رکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ قیامت کے کے موقع پر پہاڑوں کو پہلے اپنی جگہ سے ہٹا کر چلایا جائے گا پھر ان کو کوٹ پیس کر غبار کی طرح ہوا میں اڑا دیا جائے گا۔ چلانے کا ذکر اس جگہ کے علاوہ سورۃ نمل آیت 88 اور سورۃ تکویر آیت 3 میں بھی آیا ہے۔ اور انہیں کوٹ پیس کر غبار میں تبدیل کردینے کا ذکر سورۃ طٰہٰ آیت 105 سورۃ واقعہ آیت 5 6 اور سورۃ مرسلات آیت 10 میں موجود ہے 28: اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جو چیزیں زمین کے اندر پوشیدہ ہیں۔ وہ سامنے آجائیں گی جیسا کہ سورۃ انشقاق آیت 4 میں بیان فرمایا گیا ہے اور یہ مطلب بھی ہے کہ پہاڑوں، درختوں اور عمارتوں کے فنا ہوجانے کے بعد زمین حد نظر تک سپاٹ نظر آئے گی جس میں کوئی نشیب و فراز نہیں ہوگا جیسا کہ سورۃ طٰہٰ آیت 106، 107 میں بیان فرمایا گیا ہے۔