Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 اس کلمہ تہمت سے مراد یہی ہے کہ اللہ کی اولاد ہے جو نرا جھوٹ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥] کیونکہ اللہ کے لیے اولاد قرار دینا انتہائی گستاخی کی بات ہے اور یہ ایسی بات ہے جس کا الہامی کتابوں کی سچی تعلیم میں کہیں ڈھونڈے سے بھی سراغ نہیں مل سکتا اس کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ ان لوگوں کے بزرگوں اور آباؤ اجداد میں سے کسی نے ایسی بات کہہ دی اور بلا تحقیق کہہ دی۔ بعد میں آنے والی نسلوں میں یہی بلاتحقیق جھوٹی اور انہونی بات ان کے عقیدہ میں شامل ہوگئی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ ۔۔ : یعنی اللہ کی اولاد ہونے کی کوئی دلیل نہ ان کے پاس ہے اور نہ ان کے آباء کے پاس، کیونکہ علم وہ ہے جس کی کوئی دلیل ہو۔ ان کے باپ دادا نے کسی علم کے بغیر محض جہل سے یہ بات نکالی اور انھوں نے محض جہالت کی بنا پر ان کی تقلید کی۔ ابن قیم (رض) نے تقلید کے بارے میں کیا خوب کہا ؂- اَلْعِلْمُ قَال اللّٰہُ قَالَ رَسُوْلُہُ - مَا ذَاکَ وَالتَّقْلِیْدُ یَسْتَوِیَانِ- اِذْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ أَنَّ مُقَلِّدًا - لِلنَّاسِ وَالْأَعْمَی ھُمَا سَیَّانِ- ” علم وہ ہے جو اللہ نے فرمایا اور اس کے رسول نے فرمایا۔ یہ اور تقلید برابر نہیں ہیں، کیونکہ علماء کا اتفاق ہے کہ لوگوں کی تقلید کرنے والا اور اندھا دونوں برابر ہیں۔ “- كَبُرَتْ كَلِمَةً ۔۔ : ” كَبُرَتْ “ مذمت کے لیے فعل ماضی ہے، گویا افعال مدح و ذم کے قبیل سے ہے۔ ” كَبُرَتْ “ فعل ذم ہے، اس کا فاعل ” ھِیَ “ محذوف ہے، ” كَلِمَةً “ تمیز ہے، یعنی یہ جو کچھ انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے، یہ بطور کلمہ (یعنی منہ سے بولنے کے لحاظ سے) ہی بہت بڑی بات ہے، کجا یہ کہ اس کا عقیدہ رکھا جائے۔ اس میں کچھ تعجب کا اظہار بھی ہے کہ کتنی بڑی بات انھوں نے اپنے منہ سے نکال دی۔ دوسری جگہ فرمایا : (وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا 88؀ۭلَقَدْ جِئْتُمْ شَـيْــــــًٔـا اِدًّا 89؀ۙتَكَاد السَّمٰوٰتُ يَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا 90 ۝ ۙاَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا 91۝ۚوَمَا يَنْۢبَغِيْ للرَّحْمٰنِ اَنْ يَّـتَّخِذَ وَلَدًا 92۝ۭاِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا 93؀ۭلَقَدْ اَحْصٰىهُمْ وَعَدَّهُمْ عَدًّا 94؀ۭوَكُلُّهُمْ اٰتِيْهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَرْدًا) [ مریم : ٨٨ تا ٩٥ ] ” اور انھوں نے کہا رحمٰن نے کوئی اولاد بنا لی ہے۔ بلاشبہ یقیناً تم ایک بہت بھاری بات کو آئے ہو۔ آسمان قریب ہیں کہ اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ڈھے کر گرپڑیں کہ انھوں نے رحمٰن کے لیے کسی اولاد کا دعویٰ کیا، حالانکہ رحمٰن کے لائق نہیں کہ وہ کوئی اولاد بنائے۔ آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے وہ رحمٰن کے پاس غلام بن کر آنے والا ہے۔ بلاشبہ یقیناً اس نے ان کا احاطہ کر رکھا ہے اور انھیں خوب اچھی طرح گن کر شمار کر رکھا ہے اور ان میں سے ہر ایک قیامت کے دن اس کے پاس اکیلا آنے والا ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ وَّلَا لِاٰبَاۗىِٕہِمْ۝ ٠ۭ كَبُرَتْ كَلِمَۃً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ۝ ٠ۭ اِنْ يَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا۝ ٥- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا اور راک کرنا - أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- كبير - وأكْبَرْتُ الشیء : رأيته كَبِيراً. قال تعالی: فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ [يوسف 31] . - ( ک ب ر ) کبیر - اکبرت الشئی کے معنی کسی چیز کو بڑا خیال کرنے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے ؛ فَلَمَّا رَأَيْنَهُ أَكْبَرْنَهُ [يوسف 31] جب عورتوں نے ان کو دیکھا تو ان کا رعب ان پر چھا گیا - كلم - الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، والْكَلْمُ : بحاسّة البصر، وكَلَّمْتُهُ : جرحته جراحة بَانَ تأثيرُها،- ( ک ل م ) الکلم ۔- یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلمتہ ۔ میں نے اسے ایسا زخم لگایا ۔ جس کا نشان ظاہر ہوا اور چونکہ یہ دونوں ( یعنی کلام اور کلم ) معنی تاثیر میں مشترک ہیں ۔- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - فوه - أَفْوَاهُ جمع فَمٍ ، وأصل فَمٍ فَوَهٌ ، وكلّ موضع علّق اللہ تعالیٰ حکم القول بِالْفَمِ فإشارة إلى الکذب، وتنبيه أنّ الاعتقاد لا يطابقه . نحو : ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب 4] ، وقوله : كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5].- ( ف و ہ )- افواہ فم کی جمع ہے اور فم اصل میں فوہ ہے اور قرآن پاک میں جہاں کہیں بھی قول کی نسبت فم یعنی منہ کی طرف کی گئی ہے وہاں در وغ گوئی کی طرف اشارہ ہے اور اس پر تنبیہ ہے کہ وہ صرف زبان سے ایسا کہتے ہیں ان کے اندرون اس کے خلاف ہیں جیسے فرمایا ذلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْواهِكُمْ [ الأحزاب 4] یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں ۔ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف 5] بات جوان کے منہ سے نکلتی ہے ۔- صدق وکذب - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔ الکذب - یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥) نہ تو ان کے اس دعوی کی کوئی دلیل وحجت ان کے پاس ہے اور نہ انکے باپ دادا کے پاس تھی اور یہ شرک کی بڑی بھاری بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ (مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ وَّلَا لِاٰبَاۗىِٕهِمْ )- انہوں نے یہ جو عقیدہ ایجاد کیا ہے اس کی نہ تو ان کے پاس کوئی علمی سند ہے اور نہ ہی ان کے آباء و اَجداد کے پاس تھی۔- (كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ )- یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے اولاد منسوب کر کے اس کی شان میں بہت بڑی گستاخی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :3 یعنی ان کا یہ قول کہ فلاں خدا کا بیٹا ہے ، یا فلاں کو خدا نے بیٹا بنا لیا ہے ، کچھ اس بنیاد پر نہیں ہے کہ ان کو خدا کے ہاں اولاد ہونے یا خدا کے کسی کو متبنیٰ بنانے کا علم ہے ، بلکہ محض اپنی عقیدت مندی کے غلو میں وہ ایک من مانا حکم لگا بیٹھے ہیں اور ان کو کچھ احساس نہیں ہے کہ وہ کیسی سخت گمراہی کی بات کہہ رہے ہیں اور کتنی بڑی گستاخی اور افترا پردازی ہے جو اللہ رب العالمین کی جناب میں ان سے سرزد ہو رہی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani