مشرکین کی گمراہی پر افسوس نہ کرو مشرکین جو آپ سے دور بھاگتے تھے ، ایمان نہ لاتے تھے اس پر جو رنج و افسوس آپ کو ہوتا تھا اس پر اللہ تعالیٰ آپ کی تسلی کر رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے کہ ان پر اتنا رنج نہ کرو ، اور جگہ ہے ان پر اتنے غمگین نہ ہو ، اور جگہ ہے ان کے ایمان نہ لانے سے اپنے آپ کو ہلاک نہ کر ، یہاں بھی یہی فرمایا ہے کہ یہ اس قرآن پر ایمان نہ لائیں تو تو اپنی جان کو روگ نہ لگا لے اس قدر غم و غصہ رنج و افسوس نہ کر نہ گھبرا نہ دل تنگ ہو اپنا کام کئے جا ۔ تبلیغ میں کوتاہی نہ کر ۔ راہ یافتہ اپنا بھلا کریں گے ۔ گمراہ اپنا برا کریں گے ۔ ہر ایک کا عمل اس کے ساتھ ہے ۔ پھر فرماتا ہے دنیا فانی ہے اس کی زینت زوال والی ہے آخرت باقی ہے اس کی نعمت دوامی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا میٹھی اور سبز رنگ ہے اللہ تعالیٰ اس میں تمہیں خلیفہ بنا کر دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو ؟ پس دنیا سے اور عورتوں سے بچو بنو اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں کا ہی تھا ۔ یہ دنیا ختم ہونے والی اور خراب ہونے والی ہے اجڑنے والی اور غارت ہونے والی ہے زمین ہموار صاف رہ جائے گی جس پر کسی قسم کی روئیدگی بھی نہ ہو گی ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ کیا لوگ دیکھتے نہیں کہ ہم غیر آباد بنجر زمین کی طرف پانی کو لے چلتے ہیں اور اس میں سے کھیتی پیدا کرتے ہیں جسے وہ خود کھاتے ہیں اور ان کے چوپائے بھی ۔ کیا پھر بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلتیں زمین اور زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے اور اپنے مالک حقیقی کے سامنے پیش ہونے والے ہیں پس تو کچھ بھی ان سے سنے انہیں کیسے ہی حال میں دیکھے مطلق افسوس اور رنج نہ کر ۔
6۔ 1 بِھٰذَا الْحَدِیْثِ (اس بات) سے مراد قرآن کریم ہے۔ کفار کے ایمان لانے کی جتنی شدید خواہش آپ رکھتے تھے اور ان کے اعراض و گریز سے آپ کو سخت تکلیف ہوتی تھی، اس میں آپ کی اسی کیفیت اور جذبے کا اظہار ہے۔
[٦] آپ کو کفار مکہ کے ایمان نہ لانے کا افسوس :۔ جن حالات میں یہ سورت نازل ہوئی اس آیت میں انہی حالات کا اجمالی منظر پیش کیا گیا ہے مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے اور کفار مکہ اپنی ساری قوتیں اسلام کے استیصال پر صرف کر رہے تھے ان حالات میں آپ کی انتہائی آرزو یہ تھی کہ ان سرداران قریش کو یا ان میں سے بعض کو اللہ تعالیٰ اسلام لانے کی توفیق عطا فرما دے جس سے آپ کے سامنے بالخصوص دو فوائد تھے ایک یہ کہ لوگ اللہ کی گرفت سے بچ جائیں جو پیہم نافرمانیوں کی صورت میں یقیناً واقع ہوجاتی ہے اور دوسرے یہ کہ اس طرح اسلام کو تقویت حاصل ہو اور مسلمانوں پر سختیوں میں کمی واقع ہوجائے۔ دن رات آپ کو یہی فکر لاحق رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ ان لوگوں کی ہدایت کی فکر میں آپ اپنے آپ کو ہلکان کرنا چھوڑ دیں اللہ خود اپنے دین کا محافظ ہے اس کی ان حالات پر کڑی نظر ہے اور وہی کچھ ہو کر رہے گا جو وہ چاہے گا آپ بس اپنا تبلیغ رسالت کا کام کرتے جائیے کسی کو ہدایت دینا اللہ کا کام ہے آپ کا نہیں۔
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ ۔۔ : ” بَاخِعٌ“ ” بَخَعَ یَبْخَعُ نَفْسَہُ “ اس نے اپنے آپ کو غم سے مار ڈالا۔ ” لَعَلَّ “ کا لفظ محبوب چیز کے لیے بولا جائے تو ترجی، یعنی امید کرنا مراد ہوتا ہے اور ایسی چیز کے لیے بولا جائے جس کا خطرہ ہو تو اسے اشفاق یعنی ڈرنا کہا جاتا ہے، یہاں یہی مراد ہے۔ اس آیت سے مقصود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا ہے کہ ان لوگوں کے ایمان نہ لانے پر آپ اپنے آپ کو رنج و غم سے کیوں گھلا رہے ہیں ؟ اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی قوم کے ایمان نہ لانے کا کس قدر صدمہ تھا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ” بَاخِعٌ نَّفْسَكَ “ (اپنے آپ کو ہلاک کرلینے والے) کے الفاظ استعمال فرمائے۔ مزید دیکھیے سورة شعراء (٣) ابوہریرہ (رض) راوی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّمَا مَثَلِيْ وَمَثَلُ النَّاسِ کَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَہُ جَعَلَ الْفَرَاشُ وَھٰذِھِ الدَّوَابُّ الَّتِيْ تَقَعُ فِي النَّارِ یَقَعْنَ فِیْھَا، فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَنْزِعُھُنَّ وَیَغْلِبْنَہُ ، فَیَقْتَحِمْنَ فِیْھَا، فَأَنَا آخُذُ بِحُجَزِکُمْ عَنِ النَّارِ وَاَنْتُمْ تَقْتَحِمُوْنَ فِیْھَا ) ” میری اور لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک آگ خوب بھڑکائی، جب اس نے اس کے اردگرد کو روشن کردیا تو پروانے اور اس قسم کے جانور اس آگ میں گرنے لگے۔ وہ اس میں گرتے تھے اور وہ شخص انھیں روکتا تھا اور وہ اس سے زبردستی آگ میں گھستے تھے۔ تو میں آگ سے بچانے کے لیے تمہاری کمروں کو پکڑنے والا ہوں اور تم زبردستی اس میں گھستے ہو۔ “ [ بخاری، الرقاق، باب الانتھاء عن المعاصي : ٦٤٨٣۔ مسلم : ١٦؍٢٢٨٤ ] مزید دیکھیے سورة فاطر (٨) ، نمل (٧٠) اور نحل (٢٧) ” عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ “ ان کے قدموں کے نشانات پر، یعنی ان کے پیچھے۔ ” اَسَفًا “ بہت زیادہ فکر و غم، یہ مفعول ہے، یعنی غم کی وجہ سے۔
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِہِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِہٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا ٦- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- بخع - البَخْعُ : قتل النفس غمّا، قال تعالی: فَلَعَلَّكَ باخِعٌ نَفْسَكَ [ الكهف 6] حثّ علی ترک التأسف، نحو : فَلا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَراتٍ [ فاطر 8] . قال الشاعر :- 40 ۔ ألا أيهذا الباخع الوجد نفسه«1» وبَخَعَ فلان بالطاعة وبما عليه من الحق : إذا أقرّ به وأذعن مع کراهة شدیدة تجري مجری بَخَعَ نفسه في شدته .- ( ب خ ع ) البخع - ( ف) کے معنی غم سے اپنے تیئں ہلاک ڈالنا کے ہیں ؟ اور آیت کریمہ : فَلَعَلَّكَ باخِعٌ نَفْسَكَ [ الكهف 6] شاید تم عم وغصہ سے خود کو ہلاک کر ڈالو ۔۔۔۔۔۔ میں رنج وغم کے ترک کی ترغیب دی گئی ہے جیسا کہ آیت : فَلا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَراتٍ [ فاطر 8] میں ہے کہ ان پر حسرتوں کے باعث تہماری جان نہ نکل جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) ( 40 ) الا ایھا الباخع الواجد نفسہ اے غم کی وجہ سے خود کو ہلاک کرنے والے بخع فلان بالطاعۃ فلان نے طاعت میں مبالغہ کیا ۔ بخع فلان بما علیہ من الحق فلاں نے سخت بیزاری کے ساتھ اپنے اوپر دوسرے کے حق کا اقرار کیا گویا یہاں سخت کرامت اور بیزاری کو خود کو ہلاک کرنے کے قائم مقام کردیا کیا ہے ۔- نفس - الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، - ( ن ف س ) النفس - کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے - أثر - والإيثار للتفضل ومنه :[ آثرته، وقوله تعالی: وَيُؤْثِرُونَ عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الحشر 9] وقال : تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 91] وبَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ الأعلی 16] .- وفي الحدیث : «سيكون بعدي أثرة» «5» أي : يستأثر بعضکم علی بعض .- ( ا ث ر )- اور الایثار ( افعال ) کے معنی ہیں ایک چیز کو اس کے افضل ہونے کی وجہ سے دوسری پر ترجیح دینا اور پسندکرنا اس سے آثرتہ ہے یعنی میں نے اسے پسند کیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ [ الحشر : 9] دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا [يوسف : 91] بخدا اللہ نے تمہیں ہم پر فضیلت بخشی ہے ۔ بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا [ الأعلی : 16] مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ۔ (5) حدیث میں ہے : سیکون بعدی اثرۃ ۔ ( میرے بعد تم میں خود پسندی آجائے گی ) یعنی تم میں سے ہر ایک اپنے کو دوسروں سے بہتر خیال کرے گا ۔ - حدیث - وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ- [يوسف 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه،- حدیث - ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں - أسِف - الأَسَفُ : الحزن والغضب معاً ، وقد يقال لکل واحدٍ منهما علی الانفراد، وحقیقته : ثوران دم القلب شهوة الانتقام، فمتی کان ذلک علی من دونه انتشر فصار غضبا، ومتی کان علی من فوقه انقبض فصار حزنا، ولذلک سئل ابن عباس عن الحزن والغضب فقال : مخرجهما واحد واللفظ مختلف فمن نازع من يقوی عليه أظهره غيظاً وغضباً ، ومن نازع من لا يقوی عليه أظهره حزناً وجزعاً ، وقوله تعالی: فَلَمَّا آسَفُونا انْتَقَمْنا مِنْهُمْ [ الزخرف 55] أي : أغضبونا .- ( ا س ف ) الاسف - ۔ حزن اور غضب کے ممواعہ کو کہتے ہیں کبھی آسف کا لفظ حزن اور غضب میں سے ہر ایک پر انفراد ابھی بولا جاتا ہے اصل میں اس کے معنی جذبہ انتقام سے دم قلب کے جوش مارنا کے ہیں ۔ اگر یہ انتقام سے دم قلب کے جوش مارنا کے ہیں ۔ اگر یہ کیفیت اپنے سے کمزور آدمی پر پیش آئے تو پھیل کر غضب کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور اگر اپنے سے قوی آدمی پر ہو تو منقبض ہوکر حزن بن جاتی ہے اس لئے جب حضرت ابن عباس سے حزن اور غضب کی حقیقت دریافت کی گئی تو انہوں نے فرمایا : لفظ دو ہیں مگر ان کی اصل ایک ہی ہے جب کوئی شخص اپنے سے کمزور کے ساتھ جھگڑتا ہے تو غیظ و غضب کا اظہار کرتا ہے اور جب اپنے سے قوی کے ساتھ جھگڑتا ہے تو واویلا اور غم کا اظہار کرتا ہے اور آیت کریمہ :۔ فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ ( سورة الزخرف 55) کے معنی یہ ہیں کہ جب انہوں نے ہمیں غضب ناک کیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا ۔
(٦) شاید آپ تو ان لوگوں کی وجہ سے اگر یہ لوگ اس قرآن کریم پر ایمان نہ لائے غم سے اپنی جان دے دیں گے۔
آیت ٦ (فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا)- تثلیث جیسے غلط عقائد کے جو بھیانک نتائج مستقبل میں نسل انسانی کے لیے متوقع تھے ان کے تصور اور ادراک سے رسول اللہ پر شدید دباؤ تھا۔ آپ خوب سمجھتے تھے کہ اگر یہ لوگ قرآن پر ایمان نہ لائے اور اپنے موجودہ مذہب پر ہی قائم رہے تو ان کے غلط عقائد کے سبب دنیا میں دجالیت کا فتنہ جنم لے گا جس کے اثرات نسل انسانی کے لیے تباہ کن ہوں گے۔ یہی غم تھا جو آپ کی جان کو گھلائے جا رہا تھا۔
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :4 یہ اشارہ ہے اس حالت کی طرف جس میں اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم مبتلا تھے ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو رنج ان تکلیفوں کا نہ تھا جو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دی جا رہی تھیں ، بلکہ جو چیز آپ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی وہ یہ تھی کہ آپ اپنی قوم کو گمراہی اور اخلاقی پستی سے نکالنا چاہتے تھے اور وہ کسی طرح نکلنے پر آمادہ نہیں ہوتی تھی ۔ آپکو یقین تھا کہ اس گمراہی کا لازمی نتیجہ تباہی اور عذاب الہٰی ہے ۔ آپ ان کو اس سے بچانے کے لیے اپنے دن اور راتیں ایک کیے دے رہے تھے ۔ مگر انہیں اصرار تھا کہ وہ خدا کے عذاب میں مبتلا ہو کر ہی رہیں گے ۔ اپنی اس کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود ایک حدیث میں اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ میری اور تم لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی روشنی کے لیے ، مگر پروانے ہیں کہ اس پر ٹوٹے پڑتے ہیں جل جانے کے لیے ۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ یہ کسی طرح آگ سے بچیں مگر پروانے اس کی ایک نہیں چلنے دیتے ۔ ایسا ہی حال میرا ہے کہ میں تمہیں دامن پکڑ پکڑ کر کھینچ رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑتے ہو ۔ ( بخاری و مسلم نیز تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الشعراء آیت ۳ ) ۔ اس آیت میں بظاہر تو بات اتنی ہی فرمائی گئی ہے کہ شاید تم اپنی جان ان کے پیچھے کھو دو گے ، مگر اسی میں ایک لطیف انداز سے آپ کو تسلی بھی دے دی گئی کہ ان کے ایمان نہ لانے کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے ، اس لیے تم کیوں اپنے آپ کو رنج و غم میں گھلائے دیتے ہو؟ تمہارا کام صرف بشارت اور انذار ہے ، لوگوں کو مومن بنا دینا تمہارا کام نہیں ہے ۔ لہٰذا تم بس اپنا فریضۂ تبلیغ ادا کیے جاؤ ۔ جو مان لے اسے بشارت دے دو ۔ جو نہ مانے اسے برے انجام سے متنبہ کر دو ۔