7۔ 1 روئے زمین میں جو کچھ ہے، حیوانات، جمادات، نباتات، معدنیات اور دیگر مدفون خزانے، یہ سب دنیا کی زینت اور رونق ہیں
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَةً لَّهَا ۔۔ : یعنی ہم نے زمین پر جو کچھ بھی ہے، حیوان، انسان، پودے، ندی نالے، سمندر اور پہاڑ، غرض ہر چیز اس زمین کی زینت بنائی ہے۔ زینت کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے آل عمران (١٤) مقصد انسانوں کی آزمائش ہے کہ ان میں سے عمل میں کون زیادہ اچھا ہے، کون دنیا کی سج دھج کی طرف دوڑتا ہے اور کون اس کو چھوڑ کر آخرت کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَةً لَّهَا، یعنی زمین پر جو مخلوقات حیوانات، نباتات، جمادات اور زمین کے اندر مختلف چیزوں کی کانیں موجود ہیں وہ سب زمین کے لئے زینت اور رونق بنائی گئی ہیں، اس پر یہ شبہ نہ کیا جائے کہ مخلوقات ارضیہ میں تو سانپ، بچھو، درندے جانور، اور بہت سی مضر اور مہلک چیزیں بھی ہیں ان کو زمین کی زینت اور رونق کیسے کہا جاسکتا ہے، کیونکہ جتنی چیزیں دنیا میں مضر اور مہلک اور خراب سمجھی جاتی ہیں وہ ایک اعتبار سے بیشک خراب ہیں مگر مجموعہ عالم کے لحاظ سے کوئی چیز خراب نہیں، کیونکہ ہر بری سے بری چیز میں دوسری حیثیات سے بہت سے فوائد بھی اللہ تعالیٰ نے ودیعت فرمائے ہیں، کیا زہریلے جانوروں اور درندون سے ہزاروں انسانی ضروریات معالجات وغیرہ میں پوری نہیں کی جاتیں، اس لئے جو چیزیں کسی ایک حیثیت سے بری بھی ہیں، لیکن مجموعہ عالم کے کارخانے کے لحاظ سے وہ بھی بری نہیں، کسی نے خوب کہا ہے - نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں، کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَۃً لَّہَا لِنَبْلُوَہُمْ اَيُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ٧- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- زين - الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، - ( زی ن ) الزینہ - زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں - بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي :- أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] - ( ب ل ی )- بلی الوتب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہنچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
صعید (مٹی) کے بارے میں احکام - قول باری ہے (انا جعلنا ما علی الارض زینۃ لھا لنبلوھم ایھم احسن عملاً ، وانا لجاعلون ما علیھا صعیداً جرزاً ۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ آخر کار اس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں) اس میں یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نباتات و حیوانات وغیرہ سے زمین کی زینت کا جو سامان کیا ہے اسے ایک چٹیل میدان میں تبدیل کر دے گا۔ صعید، زمین کو کہتے ہیں اور مٹی کو بھی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر قائم کی ہوئی زینت کو چٹیل میدان بنا دینے کا جو ذکر کیا ہے زمین کی طبعی حالت کی بنا پر۔ یہ ایک واضح اور روزمرہ کے مشاہدہ میں آنے والی بات ہے۔ اس لئے کہ زمین میں پیدا ہونے والی ہر چیز خواہ وہ پودا ہو یا حیوان یا لوہا ہو یا سیسہ یا جواہرات ہوں، بالآخر مٹی بن جاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا ہے کہ زمین پر موجود تمام چیزیں چٹیل میدان کی صورت میں تبدیل ہوجائیں گی اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے صعید یعنی مٹی کے ذریعہ تمیم کو جائز قرار دیا ہے تو اس کے عموم کی بنا پر مٹی کے ساتھ تمیم کا جواز واجب ہوگیا خواہ یہ مٹی پہلے پودا ہو یا حیوان یا لوہا یا سیسہ یا کوئی اور چیز ہو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے صعید کے ساتھ تیمیم کرنے کے حکم کو مطلق رکھا ہے ۔ اس میں ہمارے اصحاب کے قول کی صحت کی دلیل موجود ہے کہ نجاست اگر مٹی میں تبدیل ہوجائے تو وہ پاک ہوجاتی ہے اس لئے کہ وہ اس صورت میں مٹی بن جاتی ہے نجاست نہیں رہتی۔ اسی طرح ہمارے اصحاب کا یہ بھی قول ہے کہ نجاست اگر جل کر راکھ ہو جائیتو وہ پاک ہوجاتی ہے اس لئے کہ راکھ فی نفسہ پاک ہوتی ہے نجس نہیں ہوتی۔ نجاست کی راکھ اور پاک لکڑی کی راکھ میں کوئی فرق نہیں ہوتا اس لئے کہ نجاست وہ ہوتی ہے جو ایک قسم کے استحالہ یعنی ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیلی کی بنا پر پیدا ہوتی ہے اور یہ استحالہ احراق یعنی آگ میں جلنے کی بنا پر زائل ہوجاتا ہے اور اس میں ایک اور استحالہ پیدا ہوتا ہے جو تنجیس کا موجب نہیں ہوتا۔ اسی طرح شراب اگر سرکہ بن جائے تو وہ پاک ہوجاتی ہے اس لئے کہ اب وہ شراب نہیں ہوتی کیونکہ سرکہ بن جانے کی بناپر وہ استحالہ زائل ہوجاتا ہے جو اس کے شراب بننے کا موجب تھا۔
(٧) ہم نے مردوں اور عورتوں وغیرہ کو زمین کے لیے بارونق بنایا ہے تاکہ اس کے ذریعے سے لوگوں کی آزمایش کریں کہ ان میں زیادہ اچھا عمل کون کرتا ہے یا آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ زمین پر جو نباتات اور درخت اور جانور اور دیگر قسم قسم جو نعمتیں ہیں ہم نے ان کو زمین کے لیے باعث رونق بنایا ہے تاکہ ہم اس کے ذریعے سے آزمایش کریں کہ سب سے زیادہ زہد کون کرنے والا اور تارک الدنیا کون ہے۔
آیت ٧ (اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَي الْاَرْضِ زِيْنَةً لَّهَا)- یہاں یہ نکتہ ذہن نشین کرلیجئے کہ لفظ ” زینت “ اور دنیوی آرائش و زیبائش کا موضوع اس سورت کے مضامین کا عمود ہے۔ یعنی دنیا کی رونق چمک دمک اور زیب وزینت میں انسان اس قدر کھو جاتا ہے کہ آخرت کا اسے بالکل خیال ہی نہیں رہتا۔ دنیا کی یہ رنگینیاں امریکہ اور یورپ میں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ انہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے اور انسان اس سب کچھ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم امریکی اور یورپی اقوام کی علمی ترقی سے متاثر اور ان کے مادی اسباب و وسائل سے مرعوب ہیں۔ اپنی اسی مرعوبیت کے باعث ہم ان کی لادینی تہذیب و ثقافت کے بھی دلدادہ ہیں اور ان کے طرز معاشرت کو اپنانے کے بھی درپے ہیں۔- (لِنَبْلُوَهُمْ اَيُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا)- دُنیا کے یہ ظاہری ٹھاٹھ باٹھ دراصل انسان کی آزمائش کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ایک طرف دنیا کی یہ سب دلچسپیاں اور رنگینیاں ہیں اور دوسری طرف اللہ اور اس کے احکام ہیں۔ انسان کے سامنے یہ دونوں راستے کھلے چھوڑ کر دراصل یہ دیکھنا مقصود ہے کہ وہ ان میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے۔ دنیا کی رنگینیوں میں کھوجاتا ہے یا اپنے خالق ومالک کو پہچانتے ہوئے اس کے احکام کی تعمیل کو اپنی زندگی کا اصل مقصود سمجھتا ہے۔ اس سلسلے میں کسی شاعر کا یہ شعر اگرچہ شان باری تعالیٰ کے لائق تو نہیں مگر اس مضمون کی وضاحت کے لیے بہت خوب ہے : - رُخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں - اِدھر آتا ہے دیکھیں یا ادھر پروانہ جاتا ہے - اب جس پروانے (انسان) کو اس شمع کی ظاہری روشنی اور چمک اپنی طرف کھینچ لے گئی تو وہ (فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًا) (النساء) کے مصداق تباہ و برباد ہوگیا اور جو اس کی ظاہری اور وقتی چکا چوند کو نظر انداز کر کے حسن ازلی اور اللہ کے جلال و کمال کی طرف متوجہ ہوگیا وہ حقیقی کامیابی اور دائمی نعمتوں کا مستحق ٹھہرا۔
1: آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مشرکین کے کفر اور معاندانہ طرز عمل سے سخت صدمہ ہوتا تھا، ان آیات میں آپ کو تسلی دی گئی ہے کہ یہ دنیا تو لوگوں کے امتحان کے لیے بنائی گئی ہے، تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون ہے جو دنیا کی سجاوٹ میں محو ہو کر اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہے، اور کون ہے جو اس کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق استعمال کر کے اپنے لیے آخرت کا ذخیرہ بناتا ہے۔ اور جب یہ امتحان گاہ ہے تو اس میں وہ لوگ بھی ہوں گے جو امتحان میں کامیاب ہوں گے اور وہ بھی جو ناکام ہوں گے۔ لہذا اگر یہ لوگ کفر و شرک کا ارتکاب کر کے امتحان میں ناکام ہورہے ہیں تو اس میں نہ کوئی تعجب کی بات ہے اور نہ اس پر آپ کو اتنا افسوس کرنا چاہئے کہ آپ اپنی جان کو گھلا بیٹھیں۔