Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ہر بات صاف صاف کہہ دی گئی ۔ انسانوں کے لئے ہم نے اس اپنی کتاب میں ہر بات کا بیان خوب کھول کھول کر بیان کر دیا ہے تاکہ لوگ راہ حق سے نہ بہکیں ہدایت کی راہ سے نہ بھٹکیں لیکن باوجود اس بیان ، اس فرقان کے پھر بھی بجز راہ یافتہ لوگوں کے اور تمام کے تمام راہ نجات سے ہٹے ہوئے ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کے مکان میں آئے اور فرمایا تم سوئے ہوئے ہو نماز میں نہیں ہو ؟ اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ ہیں وہ جب ہمیں اٹھانا چاہتا ہے اٹھا بٹھاتا ہے ۔ آپ یہ سن کر بغیر کچھ فرمائے لوٹ گئے لیکن اپنی زانو پر ہاتھ مارتے ہوئے یہ فرماتے ہوئے جا رہے تھے کہ انسان تمام چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 یعنی ہم نے انسان کو حق کا راستہ سمجھانے کے لئے قرآن میں ہر طریقہ استعمال کیا، وعظ، نصیحت، امثال، واقعات اور دلائل، علاوہ ازیں انھیں بار بار اور مختلف انداز سے بیان کیا ہے۔ لیکن انسان چونکہ سخت جھگڑالو ہے، اس لئے وعظ نصیحت کا اس پر اثر ہوتا ہے اور نہ دلائل و نصیحت اس کے لئے کارگر۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٢] انسان فطرتا جھگڑالو واقع ہوا ہے۔ مشیئت الہی کو بہانہ بنانا :۔ انسان کی ہدایت کے لیے اس کی عقل اور اس کے دل کو اپیل کرنے والی بہت سے دلیلیں مختلف پیرا یوں میں اور دل نشین انداز میں بیان کردی ہیں مگر انسان کچھ اس طرح کا جھگڑالو اور ہٹ دھرم واقع ہوا ہے کہ جس بات کو نہ ماننے کا تہیہ کرلے اس پر کئی طرح کے اعتراض وارد کرسکتا ہے۔ جھوٹے دلائل اور حیلوں بہانوں سے جواب پیش کرسکتا ہے۔ بات کا موضوع ہی بدل کر گندم کا جواب چنے میں دے سکتا ہے مگر حقیقت کو قبول کرلینا گوارا نہیں کرتا اور انسان کی یہ سرشت صرف ضدی، ہٹ دھرم اور مجرم قسم کے لوگوں میں نہیں ہوتی بلکہ بعض دفعہ ایک نیکو کار مومن بھی اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے کوئی عذر تلاش کرلیتا ہے۔ چناچہ سیدنا علی فرماتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ ہمارے ہاں تشریف لائے اور ہم دونوں (میں اور فاطمہ) کو مخاطب کرکے کہا کہ تم لوگ تہجد کی نماز کیوں نہیں پڑھتے میں نے جواب دیا یارسول اللہ ہمارے نفس اللہ کے ہاتھ میں ہیں وہ چاہے گا کہ ہم اٹھیں تو اٹھ جائیں گے یہ سن کر آپ فوراً واپس ہوگئے اور اپنی ران پر ہاتھ رکھ کر فرمایا : ( وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا 54؀) 18 ۔ الكهف :54) (بخاری، کتاب التھجد۔ باب تحریض النبی علی قیام اللیل والنوافل)- گویا سیدنا علی نے اپنے قصور کا اعتراف کرنے کی بجائے مشیئت الٰہی کا عذر پیش کردیا اور اس اختیار کی طرف توجہ نہ کی جو انھیں اور ہر انسان کو عطا کیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ۧوَلَقَدْ صَرَّفْــنَا فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ ۔۔ : مثال سے بات بہت اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے کئی مثالیں بیان فرمائی ہیں، مثلاً دنیا کی زندگی کی مثال اور آخرت پر ایمان رکھنے والے مسکین اور ایمان نہ رکھنے والے دو باغوں کے مالک کی مثال وغیرہ۔ اس کے علاوہ دوسری سورتوں میں بھی مختلف دلیلوں، کئی طریقوں اور مثالوں سے بات سمجھائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کئی باتیں مچھر (بقرہ : ٢٦) ، مکھی (حج : ٧٣) کتے (اعراف : ١٧٧) اور گدھے (جمعہ : ٥) کی مثالیں دے کر سمجھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے مختار مطلق اور مخلوق کے بےاختیار ہونے کے لیے مالک اور غلام کی مثالیں کئی جگہ بیان ہوئی ہیں۔ دیکھیے نحل (٧٥، ٧٦) اور روم (٢٨) قرآن و حدیث کی تمام مثالوں کا مقصد یہ ہے کہ لوگ بات پر غور و فکر کریں اور اسے سمجھیں، مگر انھیں جاننے والے ہی سمجھتے ہیں۔ ( دیکھیے حشر : ٢١۔ عنکبوت : ٤٣) پھر ان مثالوں سے کچھ لوگ فائدہ اٹھا کر ہدایت پالیتے ہیں اور کچھ الٹی سمجھ سے گمراہ ہوجاتے ہیں۔ (دیکھیے بقرہ : ٢٦۔ رعد : ١٧، ١٨) آیت کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیے بنی اسرائیل (٨٩) اس آیت میں ” فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ “ پہلے ہے، کیونکہ اس سورت کی ابتدا ہی قرآن کے ذکر سے ہوئی ہے اور یہ سورت قرآن کے وصف میں سے ہے اور بنی اسرائیل میں ” لِلنَّاسِ “ پہلے ہے، کیونکہ اس سورت کا بنیادی مضمون ” اَلنَّاسُ “ (لوگوں) کے احوال کی طرف توجہ ہے، جو فی الحقیقت ” اَلنَّاسُ “ (لوگ) ہیں، جن میں تقویٰ اور احسان پایا جاتا ہے۔ (بقاعی)- وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا : یعنی جو چیزیں جھگڑا کرسکتی ہیں، انسان ان میں سب سے زیادہ جھگڑنے والا ہے، اس لیے خواہ مخواہ حیل و حجت کیے جاتا ہے اور حق بات کی طرف نہیں آتا۔ قرآن میں جا بجا ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے انبیاء کے ساتھ کفار کے جھگڑے مذکور ہیں۔ جھگڑے کی ایک مثال سورة زخرف (٥٧، ٥٨) میں دیکھیے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا ساری مخلوقات میں سب سے زیادہ جھگڑالو انسان واقع ہوا ہے اس کی شہادت میں ایک حدیث حضرت انس سے منقول ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز ایک شخص کفار میں سے پیش کیا جائے گا اس سے سوال ہوگا کہ ہم نے جو رسول بھیجا تھا ان کے متعلق تمہارا کیا عمل رہا ؟ وہ کہے گا کہ اے میرے پروردگار میں تو آپ پر بھی ایمان لایا آپ کے رسول پر بھی اور عمل میں ان کی اطاعت کی اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ یہ تیرا اعمال نامہ سامنے رکھا ہے اس میں تو کچھ بھی نہیں یہ شخص کہے گا کہ میں تو اس اعمال نامہ کو نہیں مانتا اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ یہ ہمارے فرشتے تو تمہاری نگرانی کرتے تھے وہ تیرے خلاف گواہی دیتے ہیں یہ کہے گا کہ میں ان کی شہادت کو بھی نہیں مانتا اور نہ ان کو پہچانتا ہوں نہ میں نے ان کو اپنے عمل کے وقت دیکھا ہے اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تو یہ لوح محفوظ سامنے ہے اس میں بھی تیرا حال لکھا ہے وہ کہے گا کہ میرے پروردگار آپ نے مجھے ظلم سے پناہ دی ہے یا نہیں اللہ تعالیٰ فرمائیں گے بیشک ظلم سے تو ہماری پناہ میں ہے تو اب وہ کہے گا کہ میرے پروردگار میں ایسی غیبی شہادتوں کو کیسے مانوں جو میری دیکھی بھالی نہیں میں ایسی شہادت کو مان سکتا ہوں جو میرے نفس کی طرف سے ہو اس وقت اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے ہاتھ پاؤں اس کے کفر و شرک پر گواہی دیں گے اس کے بعد اس کو آزاد کردیا جائے گا اور جہنم میں ڈال دیا جائے گا (اس روایت کا مضمون صحیح مسلم میں حضرت انس سے منقول ہے قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَلَقَدْ صَرَّفْــنَا فِيْ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ۝ ٠ۭ وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا۝ ٥٤- قرآن - والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] ، وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] ، فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] ، وَقُرْآنَ الْفَجْرِ؂[ الإسراء 78] أي :- قراء ته، لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77]- ( ق ر ء) قرآن - القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔ وَقُرْآناً فَرَقْناهُ لِتَقْرَأَهُ [ الإسراء 106] اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ ۔ فِي هذَا الْقُرْآنِ [ الروم 58] اس قرآن اور آیت کریمہ : وَقُرْآنَ الْفَجْرِ [ الإسراء 78] اور صبح کو قرآن پڑھا کرو میں قرآت کے معنی تلاوت قرآن کے ہیں ۔ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- جدل - الجِدَال : المفاوضة علی سبیل المنازعة والمغالبة، وأصله من : جَدَلْتُ الحبل، أي : أحكمت فتله ۔ قال اللہ تعالی: وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] - ( ج د ل ) الجدال - ( مفاعلۃ ) کے معنی ایسی گفتگو کرنا ہیں جسمیں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں اصل میں یہ جدلت الحبل سے مشتق ہے ۔ جس کے معنی ہیں رسی کو مضبوط بٹنا اسی سے بٹی ہوئی رسی کو الجدیل کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ [ النحل 125] اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٤) اور ہم نے مکہ والوں کے لیے اس قرآن کریم میں وعدے وعید کے عمدہ مضامین طرح طرح سے بیان کیے ہیں تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کرکے ایمان لائیں اور ابی بن خلف بھی باطل پر جھگڑے میں سب سے بڑھ کر ہے یا یہ آدمی جھگڑنے میں سب سے بڑھ کر ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ (وَلَقَدْ صَرَّفْــنَا فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ للنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ )- الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ یہ آیت سورة بنی اسرائیل میں بھی (آیت ٨٩) موجود ہے۔ - (وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا)- سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ٨٩ کے پہلے حصے کے الفاظ جوں کے توں وہی ہیں جو اس آیت کے پہلے حصے کے ہیں صرف لفظوں کی ترتیب میں معمولی سا فرق ہے۔ البتہ دونوں آیات کے آخری حصوں کے الفاظ مختلف ہیں۔ سورة بنی اسرائیل کی مذکورہ آیت کا آخری حصہ یوں ہے : (فَاَبآی اَکْثَرُ النَّاس الاَّ کُفُوْرًا) ” مگر اکثر لوگ کفران نعمت پر ہی اڑے رہتے ہیں۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani