65۔ 1 اس بندے سے مراد حضرت خضر ہیں، جیسا کہ صحیح احادیث میں وضاحت ہے۔ خضر کے معنی سرسبز اور شاداب کے ہیں، یہ ایک مرتبہ سفید زمین پر بیٹھے تو وہ حصہ زمین ان کے نیچے سے سرسبز ہو کر لہلہانے لگا، اسی وجہ سے ان کا نام خضر پڑگیا (صحیح بخاری، تفسیر سورة کہف) 65۔ 2 رَحْمَۃ سے مراد مفسرین نے وہ خصوصی انعامات مراد لئے ہیں جو اللہ نے اپنے اس خاص بندے پر فرمائے اور اکثر مفسرین نے اس سے مراد نبوت لی ہے۔ 65۔ 3 اس سے علم نبوت کے علاوہ جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی بہرہ ور تھے، بعض خاص امور کا علم ہے جس اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت خضر کو نوازا تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس بھی وہ علم نہیں تھا۔ اس سے استدلال کرتے ہوئے بعض صوفیا دعویٰ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو، جو نبی نہیں ہوتے، علم الہام سے نوازتا ہے، جو بغیر استاد کے محض فیض کے سر چشمہ کا نتیجہ ہوتا ہے اور یہ باطنی علم، شریعت کے ظاہری علم سے، جو قرآن و حدیث کی صورت میں موجود ہے، مختلف بلکہ بعض دفعہ اس کے مخالف اور معارض ہوتا ہے لیکن استدلال اس لئے صحیح نہیں کہ حضرت خضر کی بابت تو اللہ تعالیٰ نے خود ان کے علم خاص دیئے جانے کی وضاحت کردی ہے، جب کہ کسی اور کے لئے ایسی وضاحت کہیں نہیں اگر اس کو عام کردیا جائے تو پھر ہر شعبدہ باز اس قسم کا دعویٰ کرسکتا ہے، چناچہ اس طبقے میں یہ دعوے عام ہی ہیں۔ اس لئے ایسے دعوؤں کی کوئی حیثیت نہیں۔
عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ : اس سے مراد خضر (علیہ السلام) ہیں (خاء کے فتحہ اور ضاد کے کسرہ کے ساتھ، یا خاء کے کسرہ اور ضاد کے سکون کے ساتھ) ۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّمَا سُمِّيَ الْخَضِرُ لِأَنَّہٗ جَلَسَ عَلٰی فَرْوَۃٍ بَیْضَاءَ فَإِذَا ھِيَ تَھْتَزُّ مِنْ خَلْفِہٖ خَضْرَاءَ ) [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب حدیث الخضر۔۔ : ٣٤٠٢ ]” ان کا نام خضر اس لیے پڑا کہ وہ سفید زمین کے ایک قطعے پر بیٹھے تو وہ ان کے پیچھے سرسبز ہو کر لہلہانے لگا۔ “ یہ اللہ کے نبی تھے، اس کی دلیل یہ ہے کہ انھوں نے آخر میں فرمایا کہ میں نے یہ اپنی مرضی سے نہیں کیا۔ (کہف : ٨٢) بلکہ یہ سب اللہ کے حکم سے تھا جو وحی کی صورت میں انبیاء کو صادر ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کا اوپر مفصل حدیث میں یہ کہنا کہ میرے پاس ایک علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سکھایا ہے، تم اسے نہیں جانتے۔۔ ولی کتنا بھی مقرب ہو اس کا الہام حجت نہیں، نہ وہ الہام سے کسی کو قتل کرسکتا ہے، ورنہ ہر مومن اللہ کا ولی ہے۔ (بقرہ : ٢٥٧) وہ اللہ کے امر کا بہانہ بنا کر جسے چاہے گا قتل کر دے گا، جب کہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔- محقق علماء جن میں امام بخاری، ابن تیمیہ اور حافظ ابن حجر جیسے عظیم ائمہ شامل ہیں، فرماتے ہیں کہ خضر (علیہ السلام) فوت ہوچکے ہیں، کیونکہ اگر وہ زندہ ہوتے تو سورة آل عمران کی آیت (٨١) کے مطابق ان پر لازم تھا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر آپ پر ایمان لاتے اور آپ کے ساتھ مل کر جہاد کرتے، جب کہ ان کے آنے کا کہیں ذکر نہیں، نہ کسی صحابی سے ان کے ملنے کا کوئی ذکر ہے۔ صحیح بخاری کی وہ حدیث بھی اس کی دلیل ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَرَأَیْتَکُمْ لَیْلَتَکُمْ ھٰذِہِ ، فَإِنَّ رَأْسَ ماءَۃِ سَنَۃٍ مِنْھَا لَا یَبْقَی مِمَّنْ ھُوَ عَلٰی ظَھْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ ) [ بخاری، العلم، باب السمر في العلم : ١١٦، عن ابن عمر ]” آج رات سے ایک سو سال پورے ہونے تک زمین کی پشت پر جو بھی ہے کوئی باقی نہیں رہے گا۔ “ جو لوگ کہتے ہیں کہ وہ زمین پر نہیں بلکہ دریاؤں اور سمندروں میں رہتے ہیں، ان کا رد جابر (رض) سے مروی حدیث سے ہوتا ہے، جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی وفات سے ایک ماہ قبل فرمایا : ( مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوْسَۃٍ الْیَوْمَ ، تَأْتِيْ عَلَیْھَا ماءَۃُ سَنَۃٍ ، وَ ھِيَ حَیَّۃٌ یَوْمَءِذٍ ) [ مسلم، فضائل الصحابۃ، باب بیان معنی قولہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : علی رأس ماءۃ۔۔ : ٢٥٣٨ ] ” کوئی بھی جان جو آج پیدا ہوچکی ہے اس پر سو سال نہیں آئیں گے کہ وہ اس وقت زندہ ہو۔ “ جو لوگ خضر (علیہ السلام) کے زندہ ہونے کے قائل ہیں ان کے پاس کوئی صحیح دلیل نہیں ہے، ابن قیم (رض) نے فرمایا کہ وہ تمام روایات جن میں خضر (علیہ السلام) کے اب تک زندہ ہونے کا ذکر ہے سب جھوٹی ہیں۔ سب سے بڑی دلیل جو وہ حضرات بیان کرتے ہیں، یہ ہے کہ بہت سے صالحین سے ان کی ملاقات ہوئی ہے، حالانکہ اسے دلیل کہنا دلیل کی توہین ہے، کیونکہ جنھوں نے انھیں دیکھا ہے انھیں کیسے معلوم ہوا کہ وہ خضر ہیں ؟ کیا انھوں نے پہلے خضر (علیہ السلام) کو دیکھا ہے کہ ملاقات پر وہ انھیں پہچان گئے ؟ رہا کسی ملنے والے کے کہنے سے کہ ” میں خضر ہوں “ اسے خضر مان لینا سادہ لوحی کی انتہا ہے، جس سے فائدہ اٹھا کر شیطان نے بیشمار لوگوں کو گمراہ کیا ہے، مگر وہ سب وہی ہیں جو صحابہ کے بعد آئے، کیونکہ صحابہ (رض) آسانی سے شیطان کے فریب میں آنے والے نہیں تھے۔ صحیح بخاری اور ترمذی میں جس عین الحیاۃ (آب حیات) کا ذکر ہے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں اور آپ کے سوا کسی دوسرے کے قول سے کوئی بات ثابت نہیں ہوتی۔ - اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا ۔۔ : قرآن مجید میں ” رَحْمَةً مِّنْ رَّبِّکَ “ سے مراد نبوت کئی جگہ لی گئی ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ 31 اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ) [ الزخرف : ٣١، ٣٢ ] ” اور انھوں نے کہا یہ قرآن ان دو بستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا ؟ کیا وہ تیرے رب کی رحمت (یعنی نبوت) تقسیم کرتے ہیں ؟ “ مزید دیکھیے سورة دخان (٥، ٦) اور قصص (٨٦) اور ” اللہ کی طرف سے علم “ بول کر وحی اور نبوت مراد لی گئی ہے۔ دیکھیے سورة نساء (١١٣) اگرچہ یہ الفاظ نبوت کے ساتھ خاص نہیں، مگر ان کے ساتھ ” وَمَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِيْ ۭ“ واضح دلیل ہے کہ یہاں ان الفاظ سے مراد نبوت اور وحی الٰہی ہی ہے اور بلاشک و شبہ خضر (علیہ السلام) اللہ کے نبی تھے۔ (شنقیطی) علم لدنی سے صرف اولیاء کا علم مراد لینا اور انھیں نبیوں سے بھی اونچا درجہ دینا صاف الحاد اور بےدینی ہے، جس کے ذریعے سے زندیق لوگ شریعت کا طوق گردن سے اتار پھینکنا چاہتے ہیں۔ اللہ کے احکام جو شیطان کے ہر قسم کے دخل سے محفوظ ہوں، صرف انبیاء کے ذریعے سے نازل ہوتے ہیں۔ دیکھیے سورة جن (٢٦ تا ٢٨) اور سورة حج (٥٢) جو شخص کسی اور کو یہ درجہ دے وہ کافر ہے، اسے توبہ کروائی جائے، اگر نہ کرے تو اسے قتل کردیا جائے۔ (قرطبی ملخص)- 3 خضر (علیہ السلام) کے عالم الغیب نہ ہونے کی دلیل ان کا موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ پوچھنا ہے کہ اس سرزمین میں سلام کیسا ؟ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے اپنا نام بتانے پر ان کا یہ پوچھنا کہ بنی اسرائیل والے موسیٰ ؟ پھر ان کا موسیٰ (علیہ السلام) سے صاف کہنا کہ آپ کے پاس جو علم ہے وہ میں نہیں جانتا۔۔ پھر اپنے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے علم کو اللہ کے علم سے چڑیا کی چونچ کے پانی کو دریا سے نسبت کی طرح قرار دینا ہے۔ کس قدر بدنصیب ہیں وہ لوگ جو خضر (علیہ السلام) کو نبی کے بجائے ولی قرار دیتے ہیں، پھر ان کے چند واقعات کو سامنے رکھ کر اولیاء کو علم لدنی کا ضمیمہ لگا کر عالم الغیب بنا دیتے ہیں۔
حضرت خضر (علیہ السلام) سے ملاقات اور ان کی نبوت کا مسئلہ :- قرآن کریم میں اگرچہ اس صاحب واقعہ کا نام مذکور نہیں بلکہ (آیت) عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ کہا گیا مگر صحیح بخاری کی حدیث میں ان کا نام خضر بتلایا گیا ہے خضر کے لفظی معنی ہرے بھرے کے ہیں ان کا نام خضر ہونے کی وجہ عام مفسرین نے یہ بتلائی ہے کہ یہ جس جگہ بیٹھ جاتے تو کیسی ہی زمین ہو وہاں گھاس اگ جاتی اور زمین سر سبز ہوجاتی تھی قرآن کریم نے یہ بھی واضح نہیں کیا کہ خضر (علیہ السلام) کوئی پیغمبر تھے یا اولیاء اللہ میں سے کوئی فرد تھے لیکن جمہور علماء کے نزدیک ان کا نبی ہونا خود قرآن کریم میں ذکر کئے ہوئے واقعات سے ثابت ہے کیونکہ خضر (علیہ السلام) سے اس سفر میں جتنے واقعات ثابت ہیں ان میں بعض تو قطعی طور پر خلاف شرع ہیں اور حکم شریعت سے کوئی استثناء بجز وحی الہی کے ہو نہیں سکتا جو نبی اور پیغمبر ہی کے ساتھ مخصوص ہے ولی کو بھی کشف یا الہام سے کچھ چیزیں معلوم ہو سکتی ہیں مگر وہ کوئی حجت نہیں ہوتی ان کی بناء پر ظاہر شریعت کے کسی حکم کو بدلا نہیں جاسکتا اس لئے یہ متعین ہوجاتا ہے کہ خضر (علیہ السلام) اللہ کے نبی اور پیغمبر تھے ان کو بذریعہ وحی الہی بعض خاص احکام وہ دئیے گئے تھے جو ظاہر شریعت کے خلاف تھے انہوں نے جو کچھ کیا اس استثنائی حکم کے ماتحت کیا خود ان کی طرف سے اس کا اظہار بھی قرآن کے اس جملے میں ہوگیا (آیت) وَمَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِيْ (یعنی میں نے جو کچھ کیا اپنی طرف سے نہیں کیا بلکہ امر الہی سے کیا ہے) - خلاصہ یہ ہے کہ جمہور امت کے نزدیک حضرت خضر (علیہ السلام) بھی ایک نبی اور پیغمبر ہیں مگر ان کے کچھ تکوینی خدمتیں من جانب اللہ سپرد کی گئی تھیں انہی کا علم دیا گیا تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کی اطلاع نہ تھی اسی لئے اس پر اعتراض کیا تفسیر قرطبی بحر محیط ابو حیان اور اکثر تفاسیر میں یہ مضمون بعنوانات مختلفہ مذکور ہے۔- کسی ولی کو ظاہر شریعت کے حکم کے خلاف ورزی حلال نہیں :- یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ بہت سے جاہل غلط کار تصوف کو بدنام کرنے والے صوفی جو کہنے لگے کہ شریعت اور چیز ہے اور طریقت اور ہے بہت سی چیزیں شریعت میں حرام ہوتی ہیں مگر طریقت میں جائز ہیں اس لئے کسی ولی کو صریح گناہ کبیرہ میں مبتلا دیکھ کر بھی اس پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا یہ کھلا ہوا زندقہ اور باطل ہے حضرت خضر (علیہ السلام) پر کسی دنیا کے ولی کو قیاس نہیں کیا جاسکتا اور نہ ظاہر شریعت کے خلاف اس کے کسی فعل کو جائز کہا جاسکتا ہے۔
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا ٦٥- وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- عبد - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- علم ( تعلیم)- اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ، فمن التَّعْلِيمُ قوله : الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] ، عَلَّمَ بِالْقَلَمِ [ العلق 4] ، وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] ، عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] ، ونحو ذلك . وقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31]- تعلیم - کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛ وَعُلِّمْتُمْ ما لَمْ تَعْلَمُوا[ الأنعام 91] اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے عُلِّمْنا مَنْطِقَ الطَّيْرِ [ النمل 16] ہمیں خدا کی طرف ست جانوروں کی بولی سکھائی گئی ہے ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ البقرة 129] اور خدا کی کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة 31] اور اس نے ادم کو سب چیزوں کے نام سکھائے ۔ میں آدم (علیہ السلام) کو اسماء کی تعلیم دینے کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کے اندر بولنے کی صلاحیت اور استعدادرکھ دی جس کے ذریعہ اس نے ہر چیز کے لئے ایک نام وضع کرلیا یعنی اس کے دل میں القا کردیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حیوانات کو ان کے کام سکھا دیئے ہیں جسے وہ سر انجام دیتے رہتے ہیں اور آواز دی ہے جسے وہ نکالتے رہتے ہیٰ - لدن - لَدُنْ أخصّ من «عند» ، لأنه يدلّ علی ابتداء نهاية . نحو : أقمت عنده من لدن طلوع الشمس إلى غروبها، فيوضع لدن موضع نهاية الفعل .- قال تعالی: فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف 76]- ( ل دن ) لدن - ۔ یہ عند سے اخص ہے کیونکہ یہ کسی فعل کی انتہاء کے آغاز پر دلالت کرتا ہے ۔ جیسے قمت عند ہ من لدن طلوع الشمس الیٰ غروبھا آغاز طلوع شمس سے غروب آفتاب اس کے پاس ٹھہرا رہا ۔ قرآن میں ہے : فَلا تُصاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْراً [ الكهف 76] تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئے گا کہ آپ کو مجھے ساتھ نہ رکھنے کے بارے میں میری طرف سے عذر حاصل ہوگا ۔
آیت ٦٥ (فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا )- یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس سے اپنے خاص خزانۂ فیض سے اسے خصوصی علم عطا کر رکھا تھا۔ ” علم لدنی “ کی اصطلاح یہیں سے اخذ کی گئی ہے۔ لَدُن کے معنی قریب یا نزدیک کے ہیں۔ چناچہ علم لدنی سے مراد وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ اپنی خاص رحمت سے کسی کو عطا کر دے۔ یعنی ایک علم تو وہ ہے جو انسان اپنے حواس خمسہ کے ذریعے سے باقاعدہ محنت و مشقت کے عمل سے گزر کر حاصل کرتا ہے جیسے مدارس عربیہ میں صرف و نحو تفسیر و حدیث اور فقہ وغیرہ علوم حاصل کیے جاتے ہیں یا سکول و کالج میں متداول عمرانی و سائنسی علوم سیکھے جاتے ہیں لیکن علم کی ایک قسم وہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ براہ راست کسی انسان کے دل میں ڈال دیتا ہے اور اس کو اس کی تحصیل کے لیے کوئی مشقت وغیرہ بھی نہیں اٹھانی پڑتی۔
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :59 اس بندے کا نام تمام معتبر احادیث میں خضر بتایا گیا ہے ۔ اس لیے ان لوگوں کے اقوال کسی التفات کے مستحق نہیں ہیں جو اسرائیلی روایات سے متاثر ہو کر حضرت الیاس کی طرف اس قصے کو منسوب کرتے ہیں ۔ ان کا یہ قول نہ صرف اس بنا پر غلط ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد سے متصادم ہوتا ہے ، بلکہ اس بنا پر بھی سراسر لغو ہے کہ حضرت الیاس حضرت موسیٰ کے کئی سو برس بعد پیدا ہوئے ہیں ۔ حضرت موسیٰ کے خادم کا نام بھی قرآن میں نہیں بتایا گیا ہے ۔ البتہ بعض روایات میں ذکر ہے کہ وہ حضرت یوشع بن نون تھے جو بعد میں حضرت موسیٰ کے خلیفہ ہوئے ۔
36: صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق یہ حضرت خضر (علیہ السلام) تھے، جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس چٹان کے پاس واپس پہنچے تو وہاں وہ چادر اوڑھے ہوئے لیٹے نظر آئے۔ اور ان کو جس خصوصی علم کے سکھانے کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس سے مراد تکوینیات کا علم ہے جس کی تشریح اس واقعے کے آخر میں آ رہی ہے۔