64۔ 1 حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا، اللہ کے بندے جہاں مچھلی زندہ ہو کر غائب ہوئی تھی، وہی تو ہمارا مطلوبہ مقام تھا، جس کی تلاش میں ہم سفر کر رہے ہیں۔ چناچہ اپنے نشانات دیکھتے ہوئے پیچھے لوٹے اور اسی مجمع البحرین پر واپس آگئے۔ قَصَصَا کے معنی ہیں پیچھے لگنا، پیچھے پیچھے چلنا۔ یعنی نشانات قدم کو دیکھتے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہے۔
فَارْتَدَّا عَلٰٓي اٰثَارِهِمَا قَصَصًا : یہ واقعہ انبیاء و اولیاء، خصوصاً موسیٰ ، یوشع بن نون اور خضر کے غیب نہ جاننے کی کئی طرح سے دلیل ہے : 1 موسیٰ (علیہ السلام) کا کہنا کہ مجھ سے زیادہ کوئی عالم نہیں، حالانکہ ان سے زیادہ علم والے موجود تھے۔ 2 اللہ تعالیٰ کا ناراض ہونا۔ 3 موسیٰ (علیہ السلام) کا اللہ تعالیٰ سے خضر کا پتا پوچھنا۔ 4 مجمع البحرین اور مچھلی کی نشانی کی ضرورت عالم الغیب کو نہیں ہوتی۔ 5 مچھلی کے نکل جانے کا علم نہ ہونا۔ 6 اگلا سفر، تھکاوٹ کے احساس کی وجہ معلوم نہ ہونا۔ 7 قدموں کے نشانوں کو دیکھتے ہوئے واپسی کی اسے کیا ضرورت ہے جس کی نگاہ سے کچھ اوجھل نہ ہو۔ مزید اگلی آیات میں ملاحظہ فرمائیے۔
قَالَ ذٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ ٠ۤۖ فَارْتَدَّا عَلٰٓي اٰثَارِہِمَا قَصَصًا ٦٤ۙ- بغي - البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى،- والبَغْيُ علی ضربین :- أحدهما محمود، وهو تجاوز العدل إلى الإحسان، والفرض إلى التطوع .- والثاني مذموم، وهو تجاوز الحق إلى الباطل، أو تجاوزه إلى الشّبه، تعالی: إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ [ الشوری 42] - ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ - بغی دو قسم پر ہے ۔- ( ١) محمود - یعنی حد عدل و انصاف سے تجاوز کرکے مرتبہ احسان حاصل کرنا اور فرض سے تجاوز کرکے تطوع بجا لانا ۔- ( 2 ) مذموم - ۔ یعنی حق سے تجاوز کرکے باطل یا شہاے ت میں واقع ہونا چونکہ بغی محمود بھی ہوتی ہے اور مذموم بھی اس لئے آیت کریمہ : ۔ السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ( سورة الشوری 42) الزام تو ان لوگوں پر ہے ۔ جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور ملک میں ناحق فساد پھیلاتے ہیں ۔- ردت - والارْتِدَادُ والرِّدَّةُ : الرّجوع في الطّريق الذي جاء منه، لکن الرّدّة تختصّ بالکفر، والارتداد يستعمل فيه وفي غيره، قال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلى أَدْبارِهِمْ [ محمد 25] - وقوله عزّ وجلّ : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف 96] ، أي : عاد إليه البصر، - ( رد د ) الرد ( ن )- الارتدادؤالردۃ اس راستہ پر پلٹنے کو کہتے ہیں جس سے کوئی آیا ہو ۔ لیکن ردۃ کا لفظ کفر کی طرف لوٹنے کے ساتھ مختض ہوچکا ہے اور ارتداد عام ہے جو حالت کفر اور دونوں کی طرف لوٹنے پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ ارْتَدُّوا عَلى أَدْبارِهِمْ [ محمد 25] بیشک جو لوگ اپنی پشتوں پر لوٹ گئے ( اس کے ) بعد کہ ان کے سامنے ہدایت واضح ہوگئی ۔ - فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ أَلْقاهُ عَلى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيراً [يوسف 96] پھر جب ( یوسف (علیہ السلام) کے زندہ و سلامت ہونے ) خوشخبری دینے والا ( یعقوب (علیہ السلام) کے پاس ) آپہنچا تو اس نے آنے کے ساتھ ہی یوسف (علیہ السلام) کا کرتہ ) یعقوب (علیہ السلام) ) کے چہرہ پر ڈال دیا تو وہ فورا بینا ہوگئے ۔ یعنی ان کی بینائی ان کی طرف لوٹ آئی - أثر - والإيثار للتفضل ومنه :[ آثرته، وقوله تعالی: وَيُؤْثِرُونَ عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الحشر 9] وقال : تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 91] وبَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ الأعلی 16] .- وفي الحدیث : «سيكون بعدي أثرة» «5» أي : يستأثر بعضکم علی بعض .- ( ا ث ر )- اور الایثار ( افعال ) کے معنی ہیں ایک چیز کو اس کے افضل ہونے کی وجہ سے دوسری پر ترجیح دینا اور پسندکرنا اس سے آثرتہ ہے یعنی میں نے اسے پسند کیا ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ [ الحشر : 9] دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا [يوسف : 91] بخدا اللہ نے تمہیں ہم پر فضیلت بخشی ہے ۔ بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا [ الأعلی : 16] مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو ۔ (5) حدیث میں ہے : سیکون بعدی اثرۃ ۔ ( میرے بعد تم میں خود پسندی آجائے گی ) یعنی تم میں سے ہر ایک اپنے کو دوسروں سے بہتر خیال کرے گا ۔ - قصص - الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِقُصِّيهِ [ القصص 11] - ( ق ص ص ) القص - کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔
آیت ٦٤ (قَالَ ذٰلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ )- یہی تو ہمیں نشانی بتائی گئی تھی کہ جس جگہ مچھلی زندہ ہو کر دریا میں چلی جائے گی اس جگہ پر اللہ کے اس بندے سے ہماری ملاقات ہوگی۔ چناچہ چلو اب واپس اسی جگہ پر پہنچیں۔- (فَارْتَدَّا عَلٰٓي اٰثَارِهِمَا قَصَصًا)- واپس اپنے قدموں کے نشانات پر چلتے ہوئے وہ عین اسی جگہ پر آگئے جہاں چٹان کے پاس مچھلی زندہ ہو کر دریا میں کود گئی تھی۔
سورة الْكَهْف حاشیہ نمبر :58 یعنی منزل مقصود کا یہی نشان تو ہم کو بتایا گیا تھا ۔ اس سے خود بخود یہ اشارہ نکلتا ہے کہ حضرت موسیٰ کا یہ سفر اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا اور ان کو منزل مقصود کی علامت یہی بتائی گئی تھی کہ جہاں ان کے ناشتے کی مچھلی غائب ہو جائے وہی مقام اس بندے کی ملاقات کا ہے جس سے ملنے کے لیے وہ بھیجے گئے تھے ۔
35: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہی علامت بتائی گئی تھی کہ جس جگہ پر مچھلی گم ہوگی وہیں حضرت خضر (علیہ السلام) سے ملاقات ہوگی، اس لئے حضرت یوشع (علیہ السلام) نے تو ڈرتے ڈرتے یہ واقعہ ذکر کیا تھا، لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اسے سن کر خوش ہوئے کہ منزل مقصود کا پتہ لگ گیا۔