78۔ 1 حضرت خضرنے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام، یہ تیسرا موقعہ ہے کہ تو صبر نہیں کرسکا اور اب خود تیرے کہنے کے مطابق میں تجھے ساتھ رکھنے سے معذور ہوں۔ 78۔ 2 لیکن جدائی سے قبل حضرت خضر نے تینوں واقعات کی حقیقت سے انھیں آگاہ اور باخبر کرنا ضروری خیال کیا تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کسی مغالطے کا شکار نہ رہیں اور وہ یہ سمجھ لیں کہ علم نبوت اور ہے، جس سے انھیں نوازا گیا ہے اور بعض اہم امور کا علم اور ہے جو اللہ کی حکمت ومشیت کے تحت، حضرت خضر کو دیا گیا ہے اور اسی کے مطابق انہوں نے ایسے کام کیے جو علم شریعت کی رو سے جائز نہیں تھے اور اسی لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بجا طور پر ان پر خاموش نہیں رہ سکے تھے۔ انہی اہم امور کی انجام دہی کی وجہ سے بعض اہل علم کی رائے ہے کہ حضرت خضر انسانوں میں سے نہیں تھے اور اسی لئے وہ ان کی نبوت و رسالت یا دلائل کے بیچ میں نہیں پڑتے کیونکہ یہ سارے مناصب تو انسانوں کے ساتھ ہی خاص ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ فرشتہ تھے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ اپنے کسی نبی کو بعض اہم امور سے مطلع کر کے ان کے ذریعے سے کام کروا لے، تو اس میں بھی کوئی ناممکن بات نہیں ہے۔ جب وہ صاحب وحی خود اس امر کی وضاحت کر دے کہ میں نے یہ کام اللہ کے حکم سے ہی کئے ہیں تو گو بظاہر وہ خلاف شریعت ہی نظر آتے ہوں، لیکن جب ان کا تعلق ہی اہم امور سے ہے تو وہاں جواز اور عدم جواز کی حیثیت غیر ضروری ہے۔ جیسے تکوینی احکامات کے تھے کوئی بیمار ہوتا ہے، کوئی مرتا ہے، کسی کا کاروبار تباہ ہوجاتا ہے، قوموں پر عذاب آتا ہے، ان میں سے بعض کام بعض دفعہ بہ اذن الٰہی فرشتے ہی کرتے ہیں، تو جس طرح یہ امور آج تک کسی کو خلاف شریعت نظر نہیں آئے۔ اسی طرح حضرت خضر کے ذریعے سے و قوع پذیر ہونے والے واقعات کا تعلق بھی چوں کہ اہم امور سے ہے اس لئے انھیں شریعت کی ترازو میں تولنا ہی غیر صحیح ہے۔ البتہ اب وحی و نبوت کا سلسلہ ختم ہوجانے کے بعد کسی شخص کا اس قسم کا دعویٰ ہرگز صحیح اور قابل تسلیم نہیں ہوگا جیسا کہ حضرت خضر سے منقول ہے کیونکہ حضرت خضر کا معاملہ تو آیت قرآنی سے ثابت ہے، اس لئے مجال انکار نہیں۔ لیکن اب جو بھی اس قسم کا دعویٰ یا عمل کرے گا، اس کا انکار لازمی اور ضروری ہے کیونکہ اب وہ یقینی ذریعہ علم موجود نہیں ہے جس سے اس کے دعوے اور عمل کی حقیقت واضح ہو سکے۔
[٦٦] دنیا کے حادثات کی ظاہری شکل اور ہے اور حقیقت اور ہے :۔ سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کے سیدنا خضر کی ہمراہی کے دوران جو واقعات پیش آئے۔ ان میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ کو اپنے کارخانہ مشیئت کا پردہ اٹھا کر ذرا اس کی ایک جھلک دکھائی تھی تاکہ انھیں معلوم ہوجائے کہ اس دنیا میں جو کچھ شب و روز ہو رہا ہے وہ کیسے اور کن مصلحتوں کے تحت ہو رہا ہے اور کس طرح واقعات کی ظاہری شکل و صورت اصل حقیقت سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ ایک عام انسان جب یہ دیکھتا ہے کہ ظالموں اور نافرمانوں پر اللہ کے انعامات کی بارش ہو رہی ہے اور اللہ کے فرمانبرداروں پر سختیاں اور شدائد کا ہجوم ہے ظالم مسلسل ظلم کرتے جارہے ہیں اور ان کی سزا بےگناہوں کو ملتی ہے تو ایسے واقعات سے اکثر انسان یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے اگر اللہ موجود ہوتا اور وہ عادل و منصف ہے تو ایسے جگر خراش واقعات دنیا میں کیوں وقوع پذیر ہوتے ؟ ان واقعات میں ایسے ہی حالات سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ رہا اللہ کے عدل و انصاف کا معاملہ تو اگرچہ اس کا ظہور اس دنیا میں بھی وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے تاہم عدل و انصاف کا صحیح اور مقررہ وقت روز آخرت ہے اور روز آخرت کا قیام اسی لیے ضروری ہے۔
ھٰذَا فِرَاقُ : اس پر اصل میں تنوین تھی، پھر تخفیف کے لیے مضاف کردیا۔
قَالَ ھٰذَا فِرَاقُ بَيْنِيْ وَبَيْنِكَ ٠ۚ سَاُنَبِّئُكَ بِتَاْوِيْلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَّلَيْہِ صَبْرًا ٧٨- فرق - الفَرْقُ يقارب الفلق لکن الفلق يقال اعتبارا بالانشقاق، والفرق يقال اعتبارا بالانفصال . قال تعالی: وَإِذْ فَرَقْنا بِكُمُ الْبَحْرَ [ البقرة 50] ، والفِرْقُ : القطعة المنفصلة، ومنه : الفِرْقَةُ للجماعة المتفرّدة من النّاس، وقیل : فَرَقُ الصّبح، وفلق الصّبح . قال : فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء 63] ، - ( ف ر ق ) الفرق - والفلق کے قریب ایک ہی معنی ہیں لیکن معنی انشقاق یعنی پھٹ جانا کے لحاظ سے فلق کا لفظ بولا جاتا ہے اور مغی انفعال یعنی الگ الگ ہونے کے لحاظ سے فرق قرآن میں ہے : ۔ وَإِذْ فَرَقْنا بِكُمُ الْبَحْرَ [ البقرة 50] اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھاڑ دیا ۔ اور الفراق کے معنی الگ ہونے والا ٹکڑہ کے ہیں اسی سے فرقۃ ہے جس کے معنی لوگوں کا گروہ یا جماعت کے ہیں ۔ اور طلوع فجر پر فرق اور فلق دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء 63] تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑا یوں ہوگیا ( کہ ) گویا بڑا پہاڑ ہے - بين - بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها .- ( ب ی ن ) البین - کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے - نبأ - خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی - يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] ، - ( ن ب ء ) النبا ء - کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے